فتح مکہ کے بعد مشرکینِ عرب کی شوکت کا قریب قریب خاتمہ ہو گیا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر ''ہوازن''اور ''ثقیف''کے دونوں قبائل کے سرداروں کا اجتماع ہوا، اور انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اپنی قوم ''قریش''کو مغلوب کر کے مطمئن ہو گئے ہیں۔ لہٰذا اب ہماری باری ہے تو کیوں نہ ہم پیش قدمی کر کے حملہ آور ہو کر ان مسلمانوں کا قلع قمع کرکے رکھ دیں۔ چنانچہ ہوازن اور ثقیف کے دونوں قبائل نے مالک بن عوف نضری کو اپنا بادشاہ بنا کر مسلمانوں سے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ یہ خبر پا کر ۱۰ شوال ۸ ھ مطابق فروری ۶۳۰ کو دس ہزار مہاجرین و انصار اور دو ہزار مکہ کے نو مسلم اور اسی وہ مشرکین جو اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود اپنی خواہش سے مسلمانوں کے رفیق بن گئے۔ کل تقریباً بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ''مقام حنین''پہنچ گئے۔ جب دشمن کے مقابلہ میں صف آرائی کا وقت آیا تو آپ نے مہاجرین کا پرچم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا اور انصار میں بنی خزرج کا علمبردار حضرت حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اور اَوس کا جھنڈا حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمایا اور خو دنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس بدن پر ہتھیار سجا کر ڈبل زرہ پہن کر اور سر انور پر آہنی ٹوپی رکھ کر اپنے خچر پر سوار ہوئے اور اسلامی فوج کی کمان سنبھال لی۔
مسلمانوں کے دلوں میں اپنے لشکر کی اکثریت دیکھ کر کچھ گھمنڈ پیدا ہو گیا یہاں تک کہ بعض لوگوں کی زبان سے بغیر ''ان شاء اللہ''کہے یہ لفظ نکل گیا کہ آج ہماری قوت کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ مسلمانوں کا اپنی فوج کی عددی اکثریت اور عسکری طاقت پر بھروسہ کر کے فخر کرنا خداوند تعالیٰ کو پسند نہیں آیا لہٰذا مسلمانوں پر خدا کی طرف سے یہ تازیانہ عبرت لگا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو اچانک دشمن کی ان ٹولیوں نے جو گوریلا جنگ کے لئے پہاڑوں کی مختلف گھاٹیوں میں گھات لگائے بیٹھی تھی اس زور و شور کے ساتھ تیر اندازی شروع کردی کہ مسلمان تیروں کی بارش سے بدحواس ہو گئے اور اس ناگہانی تیر بارانی کی بوچھاڑ سے ان کی صفیں درہم برہم ہو گئیں اور تھوڑی ہی دیر میں مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور چند مہاجرین و انصار کے سوا تمام لشکر میدانِ جنگ سے فرار ہو گیا۔
اس خطرناک صورتِ حال اور نازک گھڑی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار برابر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے اور رجز کا یہ شعر بلند آواز سے پڑھ رہے تھے۔
انا النبی لا کذب
انا ابن عبدالمطلب
یعنی میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹی بات نہیں، میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں۔
بالآخر حضور کے حکم پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بآواز بلند بھاگے ہوئے مسلمانوں کو پکارا اور یا معشر الانصار یا اصحاب بیعۃ الرضوان کہہ کر للکارا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ للکار اور پکار سن کر تمام جاں نثار مسلمان پلٹ پڑے اور پرچم نبوت کے نیچے جمع ہو کر ایسی جاں نثاری کے ساتھ داد شجاعت دینے لگے کہ دم زدن میں میدانِ جنگ کا نقشہ ہی پلٹ گیا اور یہ نتیجہ نکلا کہ شکست کے بعد مسلمان فتح مند ہو گئے اور پرچم اسلام سربلند ہوگیا، ہزاروں کفار گرفتار ہو گئے اور بہت سے تلوار کا لقمہ بن گئے اور بے شمار مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور کفارِ عرب کی طاقت و شوکت کا جنازہ نکل گیا۔
جنگ حنین میں مسلمانوں کے اپنی کثرت تعداد پر غرور کے انجام میں شکست اور پھر فتح و نصرت کا حال خداوند ذوالجلال نے قرآن کریم میں ان الفاظ سے ذکر فرمایا ہے کہ:
لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّیَوْمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنۡکُمْ شَیْـًٔا وَّضَاقَتْ عَلَیۡکُمُ الۡاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدْبِرِیۡنَ ﴿ۚ25﴾ثُمَّ اَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ۚ وَعَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿26﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔بے شک اللہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اِترا گئے تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اتنی وسیع ہو کر تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ دے کر پھر گئے پھر اللہ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے اور کافروں کو عذاب دیا اور منکروں کی یہی سزا ہے۔ (پ10،التوبہ:26.25)
جنگ حنین کا یہ واقعہ دلیل ہے کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں فتح و کامرانی فوجوں کی کثرت اور سامانِ جنگ کی فراوانی سے نہیں ملتی۔ بلکہ فتح و نصرت کا دارومدار درحقیقت پروردگار کے فضل عظیم پر ہے۔ اگر وہ رب کریم اپنا فضل عظیم فرما دے تو چھوٹے سے چھوٹا لشکر بڑی سے بڑی فوج پر غالب ہو کر مظفر و منصور ہو سکتا ہے اور اگر اس کا فضل و کرم شامل حال نہ ہو تو بڑے سے بڑا لشکر چھوٹی سے چھوٹی فوج سے مغلوب ہو کر شکست کھا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو لازم ہے کہ کبھی بھی اپنے لشکر کی کثرت پر اعتماد نہ رکھیں بلکہ ہمیشہ خداوند قدوس کے فضل و کرم پر بھروسہ رکھیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: