سبق نمبر :(14)
(۔۔۔۔۔۔باب اِنْفِعَال کی خاصیات۔۔۔۔۔۔)
اس باب کی خاصیات درج ذیل ہیں:
(۱) موافقت (۲) مطاوعت (۳) ابتداء (۴) لزوم (۵) بلوغ مکانی (۶) یطاوع افعل۔
(۱)۔۔۔۔۔۔موافقت:باب اِنْفِعَالدرج ذیل ابواب کی موافقت کرتاہے:
۱۔موافقت نَصَرَ یَنْصُرُ:باب اِنْفِعَال کا باب نَصَرَ یَنْصُرُ کے ہم معنی ہونا۔ مثال: زَقَبَ واِنْزَقَبَ الْجَرْدُ فِی الْجُحْرِ: چوہا سوراخ میں داخل ہوگیا ۔دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۲۔موافقت سَمِعَ یَسْمَعُ:باب اِنْفِعَال کاباب سَمِعَ یَسْمَعُ کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: قَدِعَ زَیْدٌ وَاِنْقَدَعَ زَیْدٌ: زید رُک گیا۔ دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۳۔موافقت إِفْعَال: باب اِنْفِعَال کا باب إِفْعَال کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: أَمْعَلَتِ النَّاقَۃُ وَاِنْمَعَلَتِ النَّاقَۃُ: اونٹنی تیز دوڑی۔ یہ دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۴۔موافقت تَفَعُّل:باب اِنْفِعَال کاباب تَفَعُّل کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: تَمَزَّقَ الثَّوْبُ وَاِنْمَزَقَ الثَّوْبُ: کپڑا پھٹ گیا۔ دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۵۔موافقت اِفْتِعَال:باب اِنْفِعَال کا باب اِفْتِعَال کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: اِمْتَعَطَ شَعْرُ زَیْدٍ وَاِنْمَعَطَ شَعْرُ زَیْدٍ: بیماری کی وجہ سے زید کے بال گر گئے۔دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۶۔موافقت اِفْعِیْعَال:باب اِنْفِعَال کاباب اِفْعِیْعَال کے ہم معنی ہونا۔ مثال: اِنْخَرَقَ الثَّوْبُ وَاِخْرَوْرَقَ الثَّوْبُ ، کپڑا پھٹ گیا۔ دونوں باب ہم معنی ہیں۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مطاوعت:باب اِنْفِعَال درج ذیل ابواب کی مطاوعت کرتاہے:
۱۔ مطاوعت ضَرَبَ یَضْرِبُ: باب اِنْفِعَال کا باب ضَرَبَ یَضْرِبُ کے بعد اس غرض سے آنا تا کہ یہ ظاہر ہو کہ پہلے فعل کے فاعل نے اپنے مفعول پرجو اثر کیا تھامفعول نے اس اثرکو قبول کرلیاہے۔ جیسے: عَصَمَ بَکْرٌ وَلِیْداً فَاِنْعَصَمَ: بکر نے ولید کی حفاظت کی تو وہ محفوظ ہوگیا۔
۲۔مطاوعت فَتَحَ یَفْتَحُ: باب اِنْفِعَال کا باب فَتَحَ یَفْتَحُ کے بعد اس غرض سے آنا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ پہلے فعل کے فاعل نے اپنے مفعول پر جو اثر کیاتھامفعول نے اس اثر کو قبول کرلیاہے۔ جیسے: زَعَجَ شُعَیْبٌ حَسَنًا فَاِنْزَعَجَ: شعیب نے حسن کو بیقرار کیا تو وہ بے قرار ہوگیا۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ابتداء: کسی فعل کا ابتداءً باب اِنْفِعَال سے ایسے معنی کے لئے آنا جس معنی میں اس کا مجرد استعمال نہ ہوا ہو۔ جیسے: اِنْطَلَقَ زَیْدٌ: زید چلا گیا۔
اس مثال میں اِنْطَلَقَ کامعنی چلنا ہے اور اس کامجرد طلق چلنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ وہ دور ہونے کے معنی دیتاہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ لزوم:باب اِنْفِعَال کا مفعول بہ کی ضرورت سے مستغنی ہونا۔
جیسے: اِنْصَرَفَ زَیْدٌ: زید پھرا۔اس مثال میں فعل اِنْصَرَفَ مفعول بہ کی ضرورت سے مستغنی ہے اسی کو لزوم کہتے ہیں۔
(۵)۔۔۔۔۔۔ بلوغ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِنْضَاجَ خَالِدٌ خالد وادی کے موڑ میں داخل ہوا ضَوْجٌ وادی کاموڑ
اس مثال میں فاعل (خالد) مأخذ( وادی کے موڑ) میں داخل ہوا ہے۔
(۶)۔۔۔۔۔۔یُطَاوِعُ أَفْعَلَ: باب إِفْعَال کے بعد باب اِنْفِعَال کا اس غرض سے آناتاکہ معلوم ہوجائے کہ پہلے فعل کے فاعل نے اپنے مفعول پر جو اثر کیاتھا مفعول نے اس اثر کو قبول کرلیاہے۔ جیسے: أَغْلَقْتُ الْبَابَ فَاِنْغَلَقَ: میں نے دروازہ بند کیا تو وہ بند ہوگیا۔
نوٹ: یطاوع اور مطاوعت میں بظاہرکوئی فرق نہیں ہے مگر یہاں لفظ یطاوع استعمال کرنے کی ایک خاص علت صاحب فصول اکبری نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ خاصہ قلیل الاستعمال ہے اس طرف اشارہ کرنے کے لئے مطاوعت کے بجائے یطاوع کااستعمال کیاگیاہے۔
نوٹ: باب اِنْفِعَال کا ایک لفظی خاصہ یہ بھی ہے کہ اس کافاء کلمہ، لام، نون ، میم، را، اور حروف لین نہیں ہوتا،کیونکہ ان حروف سے ثقل پیدا ہوتاہے اور ایسے حروف والے افعال کے لئے باب اِنْفِعَال کی بجائے باب اِفْتِعَال استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: نَقَلَ اور رَفَعَ کو اِنْرَفَعَ اور اِنْنَقَلَ کی بجائے اِنْتَقَلَ اور اِرْتَفَعَ پڑھیں گے۔
0 Comments: