سبق نمبر : (13)
(۔۔۔۔۔۔باب اِسْتِفْعَال کی خاصیات۔۔۔۔۔۔)
اس باب کی درج ذیل خاصیات ہیں:
(۱) موافقت (۲) مطاوعت (۳) اتخاذ(۴) ابتداء (۵) طلب مأخذ (۶) تعمل (۷) تحول(۸)قصر (۹) حسبان (۱۰) وجدان(۱۱) لیاقت(۱۲) صیرورت ۔
(۱)۔۔۔۔۔۔موافقت :باب اِسْتِفْعَال درج ذیل ابواب کی موافقت کرتاہے :
۱۔ موافقت سَمِعَ وَکَرُمَ:باب اِسْتِفْعَال کا باب سَمِعَ وَکَرُمَ کے ہم معنی ہونا۔جیسے: ذَئِبَ زَیْدٌ وَذَوُبَ زَیْدٌ وَاِسْتَذْأَبَ زَیْدٌ: زید خباثت میں بھیڑیئے کی طرح ہوگیا۔ یہ تینوں ابواب ہم معنی ہیں۔
۲۔موافقت إِفْعَال: باب اِسْتِفْعَال کا باب إِفْعَال کے ہم معنی ہونا۔جیسے: أَعْصَمَ زَیْدٌ وَاسْتَعْصَمَ زَیْدٌ: زید باز رہا۔دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۳۔موافقت اِفْتِعَال:باب اِسْتِفْعَال کا باب اِفْتِعَال کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: اِسْتَخْدَمَ عَمْرٌو وَاخْتَدَمَ عَمْرٌو: عمرو نے خدمت مانگی۔ دونوں باب ہم معنی ہیں۔
۴۔موافقت تَفَعُّل: باب اِسْتِفْعَال کا باب تَفَعُّل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: تَرَبَّحَ بَکْرٌ وَاسْتَرْبَحَ بَکْرٌ: بکر نے نفع طلب کیا۔ دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ مطاوعت إِفْعَال:جیسے: أَقَامَ الْاَبُ اِبْنَہ، فَاسْتَقَامَ: باپ نے
اپنے بیٹے کو کھڑا کیا تو وہ کھڑا ہو گیا۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ اتخاذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِسْتَوْطَنَ عَتِیْقٌ کَرَاتَشِیاً عتیق نے کراچی کو وطن بنا لیا وَطَنٌ وطن
اس مثال میں فاعل(عتیق) نے مفعول( کراچی) کو مأخذ( وطن) بنا لیا ۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ابتداء:ابتداء کی درج ذیل دو صورتیں ہیں :
اول :باب اِسْتِفْعَال کاایسے فعل میں استعمال ہونا جس سے مجرد استعمال نہ ہوا ہوجیسے :اِسْتَأجَزَ عَلَی الْوِسَادَۃِ:وہ تکیہ پر ٹیڑھا ہوکر بیٹھا۔کہ اس کامجرداستعمال نہیں ہوتا۔
ثانی :باب اِسْتِفْعَال کاایسے فعل میں استعمال ہونا جس کامجرداستعمال تو ہومگر معنی تبدیل ہوجائے ۔جیسے:اِسْتَعَانَ رَجُلٌ: آدمی نے موئے زیر ناف مونڈے۔ کہ استعان کامجرد عان بمعنی مدد کرنا استعمال ہواہے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔طلب مأخذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِسْتَخَرْتُ میں نے خیر طلب کی خَیْرٌ بھلائی
اس مثال میں فاعل (ذات متکلم) نے مأخذ (بھلائی )کو طلب کیا۔
(۶)۔۔۔۔۔۔ تعمل:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِسْتَسَافَ زَیْدٌ زید تلوار سے لڑا سَیْفٌ تلوار
ا س مثال میں فاعل (زید) مأخذ( تلوار) کو اپنے لڑنے کے کام میں لایاہے۔
(۷)۔۔۔۔۔۔ تحول:اس کی دو صورتیں بنتی ہیں:
۱۔تحول صوری ۲۔تحول معنوی
صورت مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
تحول صوری اِسْتَحْجَرَالطِّیْنُ گارا پتھر کی مانند ہوگیا حَجَرٌ پتھر
تحول معنوی اِسْتَنَاقَ الْجَمَلُ اونٹ اونٹنی بن گیا نَاقَۃٌ اونٹنی
پتھر اور گارے کی الگ الگ صورتیں ہوتی ہیں ،پہلی صورت میں فاعل (الطین) کی ماہیت تبدیل ہوکر مأخذ( پتھر) کی مثل ہوگئی ،اس کو تحول صوری کہا جاتا ہے۔ کیونکہ تبدیلی صرف صورت میں ہوئی ہے اور اصل دونوں کی وہی ہے۔
دوسری مثال میں فاعل(الجمل) کی ماہیت تبدیل ہوکر مأخذ( اونٹنی) بن گئی ہے اس کو تحول معنوی کہتے ہیں۔کیونکہ دونوں یعنی اونٹ اور اونٹنی کے معنی مقاصد میں فرق ہے۔
(۸)۔۔۔۔۔۔ قصر: جیسے: اِسْتَرْجَعَ عَبْدُ اللہِ، عبد اللہ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا۔اس مثال میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ کو مختصر کر کے اس کی جگہ باب اِسْتِفْعَال کاایک کلمہ یعنی اِسْتَرْجَعَاستعمال ہواہے۔جب کوئی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھتاہے تواِسْتَرْجَعَ کہاجاتاہے ۔اسی کو قصر کہتے ہیں۔
(۹)۔۔۔۔۔۔ حسبان:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِسْتَغَشَّ زَیْدٌ عَمْرواً زید نے عمرو کو خیانت سے موصوف گمان کیا غَشٌّ خیانت/دھوکہ
اس مثال میں فاعل (زید)نے مفعول (عمرو) کو مأخذ( خیانت )سے موصوف گمان کیاہے ۔
(۱۰)۔۔۔۔۔۔ وجدان:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِسْتَکْرَمْتُ بَکْراً میں نے بکر کو کرم والا پایا کَرَمٌ بزرگی
اس مثال میں فاعل( ذات متکلم )نے مفعول (بکر)کے اندر مأخذ (بزرگی )کی صفت کو پایا۔
(۱۱)۔۔۔۔۔۔لیاقت:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِسْتَرْقَعَ الثَّوْبُ کپڑا پیوند کے قابل ہوگیا رُقْعَۃٌ پیوند
اس مثال میں فاعل (الثوب) مأخذ (پیوند) کے لائق ہوگیایعنی پھٹ گیا۔
(۱۲)۔۔۔۔۔۔ صیرورت:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِسْتَرَاحَ زَیْدٌ زید آرام پانے والاہوا رَوْحٌ راحت
اس مثال میں فاعل(زید) مأخذ( آرام )والاہوگیا۔
0 Comments: