حب رسولﷺ اور اتباع سنت
تہذیب نفس اور اخلاق جمیدہ سے مزین ہونے کے لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے دل میںمبدء خلق عظیم یعنی رسول اکرمﷺکی خالص محبت اور اتباع سنت کا صحیح جزبہ پیدا کرے ، جو دل رسول اکرم ﷺ کی محبت سے خالی اور جو قدم اسوہءحسنہ کے جادہء مستقیم سے منحرف ہے ، وہ کبھی سعادت کونین کی نعمت سے متمتع نہیں ہو سکتا، ایک دفعہ حضرت عمر نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ اپنی جان کے سوا حضور ﷺ تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہیں، ارشاد ہوا،عمر! میری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہونا چا ہئے ۔حضرت عمر نے کہا ، اب حضور اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں ۔ آپ جمال نبوت کے سچے شیدائی تھے ان کو اس راہ میں جان ،مال، اولاد، عزیز و اقارب کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا ۔ معرکہء بدر میں خود ان کے ہاتھ سے مارا گیا۔
اسی طرح آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہراتسے ناراض ہو کر علٰحدگی اختیار کرلی، تو حضرت عمر نے یہ خبر سن کر حاضرخدمت ہونا چا ہا۔جب بار بار اذن طلب کرنے پر بھی اجازت نہ ملی تو پکار کر کہا۔ خدا کی قسم میںحفصہ کی سفارش کے لئے نہیں آیا ہوں، اگر رسول اللہﷺحکم دیں تو اس کی گردن ماردوں۔ حضورﷺ کے ساتھ حضرت عمر ککی محبت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ
حضورﷺ نے وفات پائی تو، ان کو کسی طرح یقین نہیں آتا تھا۔مسجد نبو ی میں حالت وارفتگی میں قسمیں کھا کھا کر اعلان کرتے تھے، کہ جس کی زبان سے نکلےگا کہ میرا محبوب آقاﷺدنیا سے اٹھ گیا ۔ اس کا سر اڑا دونگا۔ آپ کے وسال کے بعد جب کبھی عہد مبارک یاد آجاتاتو رقت طاری ہو جاتی،اور روتے روتے بیتاب ہوجاتے۔ ایک دفعہ سفر شام کے موقع پر حضرت بلال نے مسجد اقصیٰ میں اذان دی توحضرت رسول اللہ ﷺ ککی یاد تازہ ہوگئی، اور اس قدر روئے کہ ہچکی بند ہوگئی۔٭٭٭
یہ فطری امر ہے۔ محبوب کا عزیز بھی عزیز ہوتا ہے، اس بنا پر جن لوگوں کو آنحضرت ﷺ اپنی زندگی میں عزیز رکھتے تھے ، حضرت عمر نے اپنے ایام خلافت میںان کا خاص خیال رکھا
تہذیب نفس اور اخلاق جمیدہ سے مزین ہونے کے لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے دل میںمبدء خلق عظیم یعنی رسول اکرمﷺکی خالص محبت اور اتباع سنت کا صحیح جزبہ پیدا کرے ، جو دل رسول اکرم ﷺ کی محبت سے خالی اور جو قدم اسوہءحسنہ کے جادہء مستقیم سے منحرف ہے ، وہ کبھی سعادت کونین کی نعمت سے متمتع نہیں ہو سکتا، ایک دفعہ حضرت عمر نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ اپنی جان کے سوا حضور ﷺ تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہیں، ارشاد ہوا،عمر! میری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہونا چا ہئے ۔حضرت عمر نے کہا ، اب حضور اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں ۔ آپ جمال نبوت کے سچے شیدائی تھے ان کو اس راہ میں جان ،مال، اولاد، عزیز و اقارب کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا ۔ معرکہء بدر میں خود ان کے ہاتھ سے مارا گیا۔
اسی طرح آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہراتسے ناراض ہو کر علٰحدگی اختیار کرلی، تو حضرت عمر نے یہ خبر سن کر حاضرخدمت ہونا چا ہا۔جب بار بار اذن طلب کرنے پر بھی اجازت نہ ملی تو پکار کر کہا۔ خدا کی قسم میںحفصہ کی سفارش کے لئے نہیں آیا ہوں، اگر رسول اللہﷺحکم دیں تو اس کی گردن ماردوں۔ حضورﷺ کے ساتھ حضرت عمر ککی محبت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ
حضورﷺ نے وفات پائی تو، ان کو کسی طرح یقین نہیں آتا تھا۔مسجد نبو ی میں حالت وارفتگی میں قسمیں کھا کھا کر اعلان کرتے تھے، کہ جس کی زبان سے نکلےگا کہ میرا محبوب آقاﷺدنیا سے اٹھ گیا ۔ اس کا سر اڑا دونگا۔ آپ کے وسال کے بعد جب کبھی عہد مبارک یاد آجاتاتو رقت طاری ہو جاتی،اور روتے روتے بیتاب ہوجاتے۔ ایک دفعہ سفر شام کے موقع پر حضرت بلال نے مسجد اقصیٰ میں اذان دی توحضرت رسول اللہ ﷺ ککی یاد تازہ ہوگئی، اور اس قدر روئے کہ ہچکی بند ہوگئی۔٭٭٭
یہ فطری امر ہے۔ محبوب کا عزیز بھی عزیز ہوتا ہے، اس بنا پر جن لوگوں کو آنحضرت ﷺ اپنی زندگی میں عزیز رکھتے تھے ، حضرت عمر نے اپنے ایام خلافت میںان کا خاص خیال رکھا
0 Comments: