(۱)عدل کی تعریف:
کسی اسم کابغیر کسی قاعدہ صرفی کے اپنے صیغے سے دوسرے صیغے کی طرف پھیراہوا ہونا۔جیسے:ثُلٰثُ(تین تین)ثَلٰثَۃٌ ثَلٰثَۃ سے اور عُمَرُ(نام)عَامِرٌسے بغیر کسی قاعدہ صرفی کے پھیراگیا ہے .
فائدہ:
جو اسم دوسرے صیغے سے پھیرا گیا ہواسے ''معدول'' اور جس صیغے سے پھیرا گیا ہویا بنایا گیا ہو اسے ''معدول عنہ''کہتے ہیں۔جیسے مذکورہ مثالوں میں ثُلٰثُ اور عُمَرُ معدول اور ثَلٰثَۃٌ ثَلٰثَۃٌ اور عَامِرٌ معدول عنہ ہیں۔
عدل کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ عدل تحقیقی ۲۔ عدل تقدیری.
۱۔عدل تحقیقی کی تعریف:
وہ اسم معدول جس میں(غیر منصرف ہونے کے علاوہ)اصلی صیغے سے معدول ہونے کی دلیل موجود ہو۔جیسے:ثُلٰثُ۔
توضیح:
ثُلٰثُ کا معنی ہے:''تین تین''اس سے معلوم ہو اکہ اس کی اصل ثَلٰثَۃٌ ثَلٰثَۃٌہے؛ کیونکہثُلٰثُ میں معنی کی تکرار ہے اور معنی کی تکرار لفظ کی تکرار پر دلالت کر تی ہے اس دلیل سے معلوم ہواکہ ثُلٰثُ، ثَلٰثَۃٌ ثَلٰثَۃٌ سے معدول ہے ۔
فائدہ:
ایک سے لیکر دس تک کے اعداد جب فُعَالُ یامَفْعَلُ کے وزن پر ہوں تو ان میں
عدل تحقیقی ہوگا۔ جیسے: أُحَادُ، مَوْحَدُ، رُبَاعُ، مَرْبَعُ، عُشَارُ، مَعْشَرُ وغیرہ۔
۲۔عدل تقدیری کی تعریف:
وہ اسم معدول جس میں(غیر منصرف ہونے کے علاوہ)اصلی صیغے سے معدول ہونے کی دلیل موجودنہ ہو۔جیسے:عُمَرُ، زُفَرُ۔
توضیح:
یہ دونوں عَامِرٌ اور زَافِرٌ سے معدول ہیں مگر ان میں غیرمنصرف ہونے کے علاوہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ یہ عامر اور زافر سے معدول ہیں ۔مگرچونکہ اہل عرب ان کوغیر منصرف استعمال کرتے ہیں اور ان میں سوائے علمیت کے اور کوئی دوسرا سبب بھی نہیں پایا جارہاہے اور ایک سبب سے کوئی اسم غیر منصرف نہیں ہوتالہذا اس میں دوسراسبب عدل فرض کر لیا گیاہے اورعُمَرُ کوعَامِرٌسے اور زُفَرُکو زَافِرٌ سے معدول مان لیاگیا۔
تنبیہ:
عدل کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے کوئی شرط نہیں۔
(۲) وصف کی تعریف:
اسم کاایسی ذات پر دلالت کرنے والاہوناجس کے ساتھ اس کی کوئی صفت بھی ماخوذ ہو۔ جیسے:أَحْمَرُ(سرخ)۔
توضیح:
لفظ أَحْمَرُ ایک ایسی ذات پر دلالت کررہاہے جس کے ساتھ اس کی ایک صفت یعنی ''سرخ ہونا''بھی ماخوذہے۔اسی طرح أَخْضَرُ،اَسْوَدُ وغیرہ ہیں۔
وصف کی شرط:
وصف کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ اصل وضع میں وصف ہو۔یعنی اس کی وضع ہی وصفی معنی کے لیے ہوئی ہو ۔ جیسے:اَبْیَضُاور أَسْوَدُ وغیرہ۔
فائدہ:
جواسماء اصل وضع میں وصف ہوتے ہیں وہ یہ ہیں : (۱)صفت مشبہ ۔جیسے: أَحْمَرُ، حَسَنٌ۔(۲)اسم تفضیل۔جیسے:اَجْدَرُ، اَلْیَقُ۔ (۳)اسم فاعل۔ جیسے:ذَاہِبٌ، قَائِمٌ۔ (۴)اسم مفعول۔جیسے: مَضْرُوْبٌ، مَغْسُوْلٌ۔(۵)ایک سے لیکر دس تک وہ اسماء اعداد جو فُعَالُ یا مَفْعَلُ کے وزن پر معدول ہوں۔جیسے: أُحَادُ، مَوْحَدُ، ثُنَاءُ، مَثْنٰی، ثُلٰثُ، مَثْلَثُ وغیرہ.
تنبیہ:
مذکورہ تمام اسماء میں ایک سبب وصف پایاجارہاہے اور جن اسماء میں دوسراسبب بھی پایاجارہاہے وہ غیر منصرف ہوں گے۔جیسے نمبر2 ، نمبر5 کی تمام مثالوں اور نمبر1کی پہلی مثال میں۔اور جن میں دوسرا سبب نہیں پایاجارہا وہ منصرف ہوں گے۔ جیسے باقی مثالوں میں؛ کیونکہ ایک سبب سے اسم ''غیر منصرف'' نہیں ہوتا۔
(۳) تانیث کی تعریف:
کسی اسم کا مؤنث ہونا ۔جیسے: طَلْحَۃُ، ھِنْدٌ۔
وضاحت:
علامت تانیث کبھی لفظاًہوتی ہے اورکبھی معنی، لفظاًعلامت تانیث تین طرح کی ہوتی ہیں جیسا کہ تانیث کے سبق میں گزرا۔
اورمعنیً علامت تانیث صرف ایک ہوتی ہے اور وہ ''ۃ''ہے ۔جیسے: قَدَمٌ، دَارٌ وغیرہ.
فائدہ:
(۱) وہ تانیث جس میں علامت تانیث الف مقصورہ یاالف ممدودہ ہو اسے ''تانیث بالالف''کہتے ہیں۔اور جس میں علامت تانیث ''ۃ''لفظاًہواسے''تانیث لفظی''کہتے ہیں۔ اور جس میں تقدیراً ہواسے ''تانیث معنوی'' کہتے ہیں۔
شرائط:
(۱)تانیث بالالف (چاہے الف ممدودہ کے ساتھ ہویاالف مقصورہ کے ساتھ)دوسببوں کے قائم مقام ہوتی ہے اور اس کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے کوئی شرط بھی نہیں ہے۔
(۲)تانیث لفظی کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے اسم ِمؤنث کا علم ہوناشرط ہے۔ جیسے: طَلْحَۃُ، فَاطِمَۃُ۔
(۳)تانیث معنوی میں جواز ِمنعِ صرف کے لیے مؤنث کا علم ہوناشرط ہے ،اور اگر اس کے ساتھ درج ذیل تین چیزوں میں سے کوئی چیز پائی جائے تواسے غیر منصرف پڑھنا واجب ہوجائے گا:
۱۔وہ اسم تین حروف سے زائد حروف پر مشتمل ہو۔جیسے:زَیْنَبُ۔ ۲۔ اگر وہ اسم تین حرفی ہوتو متحرک الاوسط ہو۔جیسے:سَقَرُ۔ ۳۔ وہ اسم عجمہ ہو۔جیسے:مَاہُ، جُوْرُ (شہروں کے نام)۔
(۴) تعریف کی تعریف:
کسی اسم کا معرفہ ہونا۔ جیسے: أَحْمَدُ، زَیْنَبُ وغیرہ۔
تعریف کی شرط:
تعریف کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے اسم کا علم ہوناشرط ہے۔
(۵)عجمہ کی تعریف:
کسی اسم کا غیر عربی ہونا۔جیسے:اِبْرَاھِیْمُ، اِسْمٰعِیْلُ وغیرہ۔
عجمہ کی شرط:
عجمہ کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے دوشرطیں ہیں:۱۔ اسم ،لغتِ عجم میں علم ہو۔ جیسے:اِبْرَاھِیْمُ۔۲ ۔وہ اسم یاتوزائد علی الثلثۃ ہو۔جیسے مثال مذکورمیں، یا ثلاثی ہو تو متحرک الاوسط ہو۔جیسے:شَتَرُ(قلعہ کانام) ۔
(۶) ترکیب کی تعریف:
دویا اس سے زائد اسماء کا ملکر ایک ہوجانا۔جیسے: بَعْلَبَکُّ، مَعْدِیْکَرِبُ۔
توضیح:
اس میں بَعْلٌ اور بَکٌّ اسی طرح مَعْدِیْ اورکَرِبُ کو ملاکر ایک کلمہ بنادیاگیاہے ۔ اول ایک شہر کا نام ہے اور ثانی ایک شخص کا نام ہے ۔
شرائط:
ترکیب کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے چند شرائط ہیں: ۱۔ اسم مرکب کسی کا علم ہو۔ ۲۔ترکیب بغیر اضافت اور بغیر اسناد کے ہو۔ ۳۔دوسراجزء حرف نہ ہو۔ ۴۔دوسرا جزء حرف عطف کومتضمن(شامل)نہ ہو۔ مذکورہ بالامثالوں میں یہ تمام شرائط موجود ہیں۔
(۷) وزن فعل کی تعریف:
اسم کا اوزا ن فعل میں سے کسی وزن پر ہونا۔جیسے:شَمَّرَ(گھوڑے کا نام)
توضیح:
شَمَّرَ،فَعَّلَ کے وزن پر ہے اورفَعَّلَ فعل کے اوزان میں سے ایک وزن ہے۔
شرائط:
وزن فعل کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ وزن فعل ہی کے ساتھ خاص ہو۔اور اگر وہ وزن فعل کے ساتھ خاص نہ ہو تو یہ شرط ہے کہ اسم کے شروع میں حروفِ اَتَین(ا، ت، ی، ن)میں سے کوئی حرف ہو۔جیسے: أَحْمَدُ، یَشْکُرُوغیرہ۔
فائدہ:
چھ اوزان ایسے ہیں جنھیں فعل کے ساتھ خاص مانا جاتاہے: (۱)فَعَّلَ (۲)فُعِّلَ (۳)فُعِلَ (۴)فُعْلِلَ (۵) تَفَعْلَلَ (۶)تُفُعْلِلَ۔ (اَلْمُقَدِّمَۃُ الْبَاسُوْلِیَّہ)
(۸) الف نون زائدتان کی تعریف:
وہ الف نون جو کسی اسم کے آخر میں زائد ہوں۔جیسے:عثمان، ندمان(ہم نشین)
شرائط:
الف نون زائدتان اگر اسم محض (جوصفت نہ ہو)کے آخرمیں ہوں تو اس کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ علم ہو۔جیسے: عُثْمَانُ، عِمْرَانُ، سَلْمَانُ وغیرہ۔ اور اگر اسم صفت کے آخر میں ہوں تو شرط یہ ہے کہ اس پر تاء ِتانیث نہ آتی ہو۔ جیسے: سَکْرَانُ کہ اس کے آخر میں تاء تانیث نہیں آتی؛ کیونکہ اس کی تانیث سَکْرٰی ہے ۔
(۹) جمع کی تعریف:
وہ اسم جو مفرد میں کچھ زیادتی کے ساتھ دوسے زائد افراد پر دلالت کرے۔ جیسے:
مَسَاجِدُ، مَصَابِیْحُ وغیرہ۔
شرائط:
جمع کے منع صرف کا سبب بننے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ جمع منتہی الجموع کے صیغے پر ہو۔جیسے مذکورہ مثالیں۔
0 Comments: