سبق نمبر : (8)
(۔۔۔۔۔۔باب تَفْعِیْل کی خاصیات۔۔۔۔۔۔)
اس باب کی درج ذیل خاصیات ہیں:
(۱)تعمل (۲)موافقت(۳)ابتداء(۴)اتخاذ(۵)بلو غ(۶)سلب مأخذ (۷)قطع مأخذ(۸)اعطائے مأخذ (۹)تدریج(۱۰) صیر و ر ت(۱۱) تحول (۱۲) مبالغہ(۱۳)تعدیہ(۱۴)تصییر(۱۵)تحویل(۱۶)قصر(۱۷) تخلیط (۱۸) وقوع (۱۹) اطعام مأخذ(۲۰)الباس مأخذ (۲۱)اخراج مأخذ(۲۲)نسبت بمأخذ
(۱)۔۔۔۔۔۔تَعَمُّلْ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
سَفَّدَ زَیْدٌ اللَّحْمَ زید نے گوشت بھوننے کے لئے سیخ میں پرویا سَفُّوْدٌ سیخ جس پر گوشت بھوناجاتاہے۔
اس مثال میں فاعل (زید )مأخذ( سیخ )کو گوشت بھوننے کے کام میں لایاہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مُوَافَقَتْ:باب تفعیل درج ذیل ابواب کی موافقت کرتاہے:
۱۔موافقت سَمِعَ یَسْمَعُ: باب تفعیل کا باب سمع یسمع کے ہم معنی ہونا۔جیسے: خَشِیَ وَ خَشّٰی زَیْدٌ: ( زید ڈرا، یہ دونوں فعل ہم معنی ہیں)۔
۲۔موافقت ضَرَبَ وَنَصَرَ: باب تفعیل کا باب ضرب ونصرکے ہم
معنی ہونا۔جیسے: عَجَزَتْ (ض) وَعَجَزَتْ (ن)وَ عَجَّزَتِ الْمَرْءَ ۃُ (عورت بوڑھی ہو گئی) تینوں ابواب ہم معنی ہیں۔
۳۔موافقت إِفْعَال: باب إفعال کا باب تفعیل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: اَبْکَرَ زَیْدٌ وَ بَکَّرَ زَیْدٌ: ( زید صبح سویرے پہنچا) دونوں ابواب ہم معنی ہیں۔
۴۔موافقت مُفَاعَلَۃ: باب مفاعلہ کا باب تفعیل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: بَاکَرَہ، زَیْدٌ وَ بَکَّرَہ، زَیْدٌ: ( زید اس کے پاس صبح سویرے آیا)دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۵۔موافقت تَفَعُّل: باب تفعل کاباب تفعیل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: زَنَّخَ حَسَنٌ وَ تَزَنَّخَ حَسَنٌ: (حسن نے بار بار پانی پیا)دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۶۔موافقت فَعْلَلَ: باب تفعیل کا باب فعلل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: قَرَّصَ زَیْدٌوَقَرْصَبَ زَیْدٌ: ( زید نے کاٹا) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۷۔موافقت فَیْعَلَۃ: باب تفعیل کا باب فیعلۃ کے ہم معنی ہونا۔جیسے: ھَلَّلَ ہَاشِمٌ وَ ھَیْلَلَ ہَاشِمٌ: ( ہاشم نے لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ پڑھا) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
(۳)۔۔۔۔۔۔اِبْتِدَاء:ابتداء کی دوصورتیں ہیں:
۱۔کسی فعل کا ابتدا ءً باب تفعیل سے اس معنی کے لئے آنا جو مجرد میں نہ پائے جاتے ہوں۔جیسے:کَلَّمَ عَمْروٌ(عمرو نے کلام کیا)کَلَّمَ کامادہ مجرد میں پایاتو جاتاہے مگر معنی زخمی کرنے کے ہیں اور مزید فیہ میں آکر یہ کلام کرنے کے معنی میں ہوگیا، اسے ابتداء کہتے ہیں۔
۲۔مجرد میں وہ فعل استعمال ہی نہ ہوا ہو ۔جیسے : ھَلَّلَ زَیْدٌ:(زید نے لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ پڑھا)اورمجرد میں ھَلَلَ یاھَلَّ کامادہ استعمال نہیں ہوتاہے ۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ اِتِّخَاذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
حَیَّسَ نُعْمَانُ بْنُ سَعِیْدٍ نعمان بن سعید نے حلوہ بنایا حَیْسٌ حلوہ
اس مثال میں (فاعل نعمان بن سعید) نے مأخذ( حلوہ) بنایا۔
(۵)۔۔۔۔۔۔بُلُوْغ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
خَیَّمَ زَیْدٌ زید خیمے میں پہنچا خَیْمَۃٌ خیمہ
اس مثال میں فاعل(زید) مأخذ( خیمہ) میں پہنچ گیا۔
(۶)۔۔۔۔۔۔ سَلْبِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
مَخَّطَ زَیْدٌ زید نے رینٹھ کو دور کردیا مُخَاطٌ رینٹھ
اس مثال میں فاعل (زید)نے مأخذ( رینٹھ )کو دور کردیا۔
(۷)۔۔۔۔۔۔قَطْعِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
عَذَّقَ الْغُلاَمُ لڑکے نے شاخ کو کاٹا عَذْقٌ شاخ /ٹہنی
اس مثال میں فاعل( غلام)نے مأخذ( شاخ) کو کاٹ دیا ۔
(۸)۔۔۔۔۔۔اعطائے مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلو لِ مأخذ
فَطَّرَ بَکْرٌ خَالِداً بکر نے خالد کو ناشتہ دیا فُطُوْرٌ ناشتہ
اس مثال میں فاعل(بکر)نے مفعول(خالد)کو مأخذ(ناشتہ)دیا۔
(۹)۔۔۔۔۔۔تَدْرِیْج:جیسے: رَسَّلَ خَالِدٌ( خالد نے آہستہ آہستہ پڑھا)اس مثال میں فاعل (خالد) نے پڑھنے کاکام آہستہ آہستہ کیاہے ۔
(۱۰)۔۔۔۔۔۔صَیْرُوْرَتْ:
مثال معنی مأخذ مدلو لِ مأخذ
عَجَّزَتِ الْمَرْأۃُ عورت بوڑھی ہو گئی عَجُوْزٌ بوڑھی
اس مثال میں فاعل ( اَلْمَرْاَئۃُ)صاحب مأخذ (بوڑھی) ہوگئی ۔
(۱۱)۔۔۔۔۔۔تَحَوُّلْ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
لَیَّثَ نَعِیْمٌ نعیم شجاعت میں شیر کی مانند ہوگیا لَیْثٌ شیر
اس مثال میں فاعل( نعیم )مأخذ( شیر) کی مثل ہوگیاہے ۔
(۱۲)۔۔۔۔۔۔مُبَالَغَہ: اس کی تین قسمیں ہیں:
۱۔فعل میں مبالغہ ۲۔مفعول میں مبالغہ ۳۔فاعل میں مبالغہ
۱۔فعل میں مبالغہ جیسے: صَرَّحَ الْحَقُّ:(حق خوب ظاہر ہوگیا)۔اس مثال میں نفس فعل یعنی ظہور میں مبالغہ پایاجارہاہے۔
۲۔مفعول میں مبالغہ جیسے: قَطَّعَ زَیْدٌ الثِّیَابَ:( زید نے بہت سے کپڑے کاٹے) اس صورت میں مبالغہ فعل میں نہیں بلکہ مفعول یعنی کپڑوں میں ہورہاہے ۔
۳۔فاعل میں مبالغہ جیسے: مَوَّتَ الْاِبِلُ: (اونٹوں میں موت عام ہوگئی)اس صورت میں مبالغہ فاعل یعنی اونٹوں میں ہورہا ہے ،نہ کہ فعل میں اور نہ ہی مفعول میں ۔
نوٹ: یہ خاصہ باب تفعیل میں زیادہ استعمال ہوتاہے۔
(۱۳/۱۴)۔۔۔۔۔۔ تَعْدِیَہ وتَصْیِیْر: یاد رہے کہ باب إفعال میں یہ بات گزری ہے کہ تعدیہ وتصییر کے مابین عموم وخصوص من وجہ کی نسبت
ہے اس میں دو مادے افتراقی اور ایک مادہ اجتماعی ہوتا ہے ۔تعدیہ کا معنی ہے لازم کو متعدی کرنا اور تصییر کا معنی ہے فاعل کا مفعو ل کوصاحب مأخذ بنانا یہاں ان تینوں کی امثلہ ذکرکی جارہی ہیں:
۱۔مادہ اجتماعی کی مثال: جس میں تعدیہ وتصییر دونوں معانی پائے جائیں، جیسے:نَزَّلْتُ زَیْداً۔اس مثال میں تعدیہ کا معنی یوں بنتا ہے کہ مجرد میں یہ فعل نَزَلَ (وہ اترا) لازم ہے،اورتفعیل میں آکر متعدی ہوگیا(یعنی میں نے زید کو اتارا) اور تصییر کا معنی یوں ہوگا: نَزَّلْتُ زَیْداً: اَیْ جَعَلْتُ زَیْد اً ذَا نُزُوْلٍ۔ یعنی میں نے زیدکو صاحب نزول (صاحب مأخذ ) کیا۔
۲۔ افتراقی مادہ کی مثال: جس میں فقط تعدیہ ہو۔ جیسے: مجرد میں فَرِحَ زَیْدٌ لازم ہے اور باب تفعیل میں آکر یہی مادہ فَرَّحْتُ زَیْداً ہوگیا جو کہ متعدی ہے معنی ہے( میں نے زید کو خوش کیا )اس کو تصییر کے معنی میں نہیں لا سکتے ۔
۳۔افتراقی مادہ کی مثال: جس میں فقط تصییر ہو تعدیہ نہ ہو سکے۔ جیسے: وَتَّرْتُ الْقَوْسَ: میں نے قوس (کمان )کو صاحب مأخذ یعنی وتر والا بنادیا، اَیْ جَعَلْتُ الْقَوْسَ ذَا وِتْرٍ۔
(۱۵)۔۔۔۔۔۔تَحْوِیْل:
صورت مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
عین مأخذ نَصَّرَزَیْدٌ بَکْرًا زیدنے بکر کو نصرانی بنادیا نصرانی نصرانی ہونا
مثل مأخذ خَیَّمَ زَیْدٌالرِّدَآءَ زیدنے چادر کو خیمہ بنالیا خَیْمَۃٌ خیمہ
ان مثالوں میں بالترتیب زید نے بکر کو عین مأخذ یعنی نصرانی کردیا، اوردوسری مثال میں زیدنے چادر کو خیمہ کی طرح بنادیا۔ پہلی مثال کامحلِ استشہاد وہ حدیث پاک بھی ہے جس میں سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ وَیُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ۔ کیونکہ یہاں پر باب تفعیل کے ہی صیغے استعمال فرمائے گئے ہیں۔
(۱۶)۔۔۔۔۔۔ قَصَر: جیسے: ھَلَّلَ زَیْدٌ:( زید نے لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ پڑھا)۔
اس مثال میں جو شخص لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ کہے اس کے کلام کو بیان کرنے کے لئے کسی طویل کلام کی بجائے صرف ھَلَّلَ کہہ کر بات کی جاسکتی ہے ،اور اسی اختصارکانام قصر ہے ۔
(۱۷)۔۔۔۔۔۔تَخْلِیْط:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
سَیَّعَ زَیْدٌ الْحَائِطَ زید نے دیوار کو گارے سے لیپا سِیَاعٌ گارا
اس مثال میں فاعل(زید)نے مفعول دیوار کو مأخذ (گارے) سے لیپا ہے ۔
(۱۸)۔۔۔۔۔۔وُقُوْع:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
طَرَّفَ التِّبْنُ تنکا آنکھ میں گرا طَرْفٌ آنکھ
اس مثال میں فاعل (التبن) مأخذ( آنکھ )میں گر پڑا ۔
(۱۹)۔۔۔۔۔۔إِطْعَامِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
عَسَّلَ وَلِیْدٌ اِبْنَہ، ولید نے اپنے بیٹے کو شہد کھلایا عَسَلٌ شہد
اس مثال میں فاعل (ولید)نے مفعول (ابنہ )کو مأخذ (شہد) کھلایا۔
(۲۰)۔۔۔۔۔۔إِلْبَاسِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
سَوَّرَتِ الْاُمُّ بِنْتَھَا ماں نے اپنی بیٹی کو کنگن پہنایا سِوَارٌ کنگن
اس مثال میں فاعل(ماں)نے مفعول(بیٹی) کو مأخذ(کنگن) پہنایا۔
(۲۱)۔۔۔۔۔۔ إِخْرَاجِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
مَخَّخَ خَالِدٌ الْعَظْمَ خالد نے ہڈی سے گودا نکالا مُخٌّ مغز /گودا
اس مثال میں فاعل(خالد)نے مفعول (عظم)سے مأخذ(گودا)نکالاوراسی کو اخراج مأخذ سے تعبیر کیا جاتاہے۔
(۲۲)۔۔۔۔۔۔نِسْبَتْ بِمَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
خَوَّنَ خَالِدٌ عَادِلاً خالد نے عادل کی طرف خیانت منسوب کی خِیَانَۃٌ خیانت کرنا
اس مثال میں فاعل(خالد)نے مفعول(عادل)کی طرف مأخذ (خیانت)کی نسبت کی ہے۔
0 Comments: