سبق نمبر : (9)
(۔۔۔۔۔۔باب مُفَاعَلَۃ کی خاصیات۔۔۔۔۔۔)
اس باب کی درج ذیل خاصیات ہیں:
(۱)تعمل (۲)موافقت(۳)ابتداء(۴)اتخاذ (۵)بلوغ (۶)تصییر (۷)مشارکت
(۱)۔۔۔۔۔۔تَعُّمُلْ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
سَایَفَ زَیْدٌ وَّبَکْرٌ زید اور بکر باہم تلوار سے لڑے سَیْفٌ تلوار
اس مثال میں فاعل (زید اور بکر) مأخذ( سیف) کو اپنے لڑائی کے کام میں لائے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مُوَافَقَت:باب مفاعلہ درج ذیل ابواب کی موافقت کرتاہے:
۱۔موافقت نَصَرَ: باب مفاعلہ کا نصر کے ہم معنی ہونا۔جیسے: خَذَلَ بَکْرٌ وَ خَاذَلَ بَکْرٌ: (بکر نے مدد چھوڑدی) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۲۔موافقت إِفْعَال:باب مفاعلہ کا باب افعال کے ہم معنی ہونا۔جیسے: أَبْعَدَ خَالِدٌ وَبَاعَدَ خَالِدٌ: دونوں فعل ہم معنی ہیں کہ( خالد نے دور کردیا)۔
۳۔موافقت تَفْعِیْل:باب مفاعلہ کا باب تفعیل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: بَاکَرَ وَلِیْدٌ وَ بَکَّرَ وَلِیْدٌ: ( ولید صبح کے وقت پہنچا)۔ دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
(۳)۔۔۔۔۔۔اِبْتِدَاء: باب مفاعلہ کا ابتداءً ایسے معنی میں استعمال ہونا کہ اس کا مجرد اس معنی میں استعمال نہ ہوا ہو۔جیسے : قَاسٰی بَکْرٌہٰذِہٖ الْمُصِیْبَۃَ: (بکر نے اس مصیبت کو برداشت کیا)۔اس مثال میں قَاسٰی فعل باب مفاعلہ سے ہے کہ اس کا مجرد قَسْوَۃٌ، قَاسٰی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔
(۴)۔۔۔۔۔۔اِتِّخَاذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
ظَائَرَ زَیْدٌ الْمَرْاَئۃَ زید نے عورت کو دایہ بنایا ظِئْرٌ دایہ
اس مثال میں فاعل (زید)نے مفعول (المرء ۃ) کو مأخذ( دایہ) بنایا۔
(۵)۔۔۔۔۔۔ بُلُوْغِ زَمَانی:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
بَاکَرَ زَیْدٌ زید صبح کے وقت پہنچا بُکْرَۃٌ وقت صبح
اس مثال میں فاعل( زید )مأخذ (صبح )کے وقت پہنچا،یہی بلوغ زمانی ہے۔
(۶)۔۔۔۔۔۔ تَصْیِیْر:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
عَافَاکَ اللہُ اللہ تجھے عافیت دے عَافِیَۃٌ عافیت /آرام
اس مثال میں فاعل( لفظِ اللہ)نے مفعول( ضمیر مخاطب )کو صاحب مأخذ یعنی عافیت والا بنایاہے اور چونکہ جملہ انشائیہ ہے اس لئے ترجمہ دعائیہ
ہے اور اس کامطلب ہوگا: جَعَلَکَ اللہ ذَاعَافِیَۃٍ: یعنی الّٰلہ تعالی تجھے عافیت والا بنادے ۔
(۷)۔۔۔۔۔۔مُشَارَکَت: کسی کام میں دو چیزوں کا اس طرح شریک ہونا کہ ان میں سے ہر ایک فاعل بھی ہو اور مفعول بھی۔جیسے: قَاتَلَ خَالِدٌ نَعِیْماً: (خالد اور نعیم نے آپس میں لڑائی کی)۔
لفظاً فاعل ومفعول کے متعدد ہونے کے اعتبار سے چار صورتیں بنتی ہیں:
۱۔فاعل ومفعول ایک ایک ہوں۔ جیسے: قَاتَلَ زَیْدٌ عَمْرواً: زید نے عمرو سے قتال کیا۔
۲۔فاعل ومفعول دونوں متعدد ہوں۔ جیسے: قَاتَلْنَاھُمْ: ہم نے ان سے قتال کیا۔
۳۔فاعل متعدد ہوں اور مفعول واحد ہو۔ جیسے: قَاتَلْنَاہ،: ہم نے اس سے قتال کیا۔
۴۔فاعل واحد ہو اور مفعول متعدد ہوں جیسے: قَاتَلْتُہُمْ: میں نے ان سے قتال کیا۔
(۸)۔۔۔۔۔۔بلوغ مکانی:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
شَآءَ مَ زَیْدٌ زید ملک شام میں پہنچا اَلشَامُ ملک شام
اس مثال میں فاعل (زید) مأخذ( ملک شام )میں پہنچ گیا۔
0 Comments: