سبق نمبر : (6)
(۔۔۔۔۔۔باب کَرُمَ یَکْرُمُ کی خصوصیات۔۔۔۔۔۔)
''شرح شافیہ ابن حاجب ''میں ہے:
وفَعُلَ لِاَفْعَالِ الطبَائِعِ ونحوِہا کَحَسُنَ وقَبُحَ وکَبُرَ وصَغُرَ فَمِن ثَمَّۃ کانَ لازماً،." أَقُوْلُ: اعْلَمْ أنّ فَعُلَ فی الاغْلَب لِلْغَرَائِزِ، أی:الاَوْصَافِ الْمَخْلُوْقۃِ کَالحُسْنِ والقُبْحِ والوَسَامَۃِ والقَسَامَۃِ والکِبَر والصِغَر والطُّوْل والقِصَر والغِلَظ والسُّہُولَۃ والصُّعُوْبَۃ والسُّرْعَۃ والبُطْء والثِّقَل والحِلْمِ والرِّفْقِ، ونحوُ ذلکَ وقد یَجْرِی غیرُ الغریزۃِ مَجْرَاہا، إذا کَانَ لہ لُبْثٌ ومُکْثٌ نحوُ حَلُمَ وبَرُعَ وکَرُمَ وفَحُشَ قولہ " ومِنْ ثمۃ کانَ لازماً "لانَّ الغَرِیْزَۃَ لازمۃٌ لصاحبِہا، ولا تَتَعَدّٰی إلی غَیْرِہٖ یعنی باب کَرُمَ یَکْرُمُ اوصافِ طبعی ا ور اس کی مثل دیگر چیزوں کیلئے آتاہے۔ جیسے:حَسُنَ وقَبُح وکَبُراورصَغُر اور اسی وجہ سے یہ باب لازم ہوتا ہے اس پرشارح رضی نے کہا :اکثر اس باب سے غریزی یعنی فطری و خَلْقِی اوصاف آتے ہیں۔ جیسے: حُسْن، قُبْح، وَسامۃ، قَسَامَۃ، کِبَر، صِغَر، طُوْل، قِصَر، غِلَظ،سُہُولۃ،صُعُوبۃ، سُرعَۃ ،بطئ،ثِقَل ،حِلْم، رِفْق وغیرہ۔
اور کبھی اس باب سے غیرِ فطری وغیرِ خَلْقِی اوصاف بھی آجاتے ہیں جبکہ ان میں تمکن اورٹھہراؤ آگیا ہو۔جیسے: حلُم وبرُع وکرُم وفحُش اور ابن
حاجب کا یہ کہنا "ومن ثمۃ کان لازما " کہ اسی وجہ سے یہ باب لازم ہوتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ وصفِ فطری و خلقی اپنے مُتَعَلَّق کے ساتھ دائمی و لازمی ہوتا ہے اور اس کے غیر کی طرف تجاوز نہیں کرتا۔
تنبیہ:
کئی افعال ایسے ہیں جو باب سَمِعَ یَسْمَعُ اور باب کَرُمَ یَکْرُمُ دونوں سے آتے ہیں،اگر باب سَمِعَ سے آئیں تووہ عارضی صفت کوظاہر کریں گے،اور اگر باب کَرُمَ یَکْرُم سے آئیں تو مستقل صفت کو ظاہر کریں گے۔جیسے:بَخُلَ یَبْخُلُ کا معنی ہے کنجوس ہونا اور بَخِلَ یَبْخَلُ کا معنی ہے کنجوسی سے کام لینا ۔اول الذکر مستقل عادت کو جبکہ ثانی الذکر عارضی حالت کو ظاہر کرتا ہے
اس باب کی درج ذیل خاصیات ہیں:
(۱)تعمل(۲)موافقت(۳)کثرت مأخذ (۴)بلوغ (۵)صیرورت (۶) تألم مأخذ (۷) تحول (۸) تعجب (۹) لزوم ۔
(1)۔۔۔۔۔۔ تَعَمُّلْ :
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
عَرُفَ زَیْدٌ زید نے خوشبو استعمال کی عَرْفٌ خوشبو
اس مثال میں فاعل(زید)نے مأخذ(خوشبو ) کو استعمال کیاہے ۔
(2)۔۔۔۔۔۔ موافقت :
باب کَرُمَ یَکْرُ مُ درج ذیل ابواب کی موافقت کرتاہے:
۱۔موافقتِ سَمِعَ یَسْمَعُ :
باب کَرُمَ یَکْرُمُ کا باب سَمِعَ یَسْمَعُ کے ہم معنی ہونا۔جیسے: حَنِفَ زَیْدٌ وَحَنُفَ زَیْدٌ( زید ٹیڑھے پاؤں والا ہوگیا) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۲۔موافقتِ باب ضَرَبَ یَضْرِبُ:
باب کَرُمَ کا باب ضَرَبَ یَضْرِب کے ہم معنی ہونا۔جیسے: عَثَرَ بَکْرٌ وَ عَثُرَبَکْرٌ( بکر گرگیا) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۳۔موافقتِ إِفْعَال:
باب کَرُمَ کا باب إِفْعَال کے ہم معنی ہونا۔جیسے: رَحُبَ الْمَکَانُ َوأَرْحَبَ الْمَکَانُ( جگہ کشادہ ہوگئی) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۴۔موافقتِ تَفَعُّل:
بابک َرُمَ کا باب تَفَعُّل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: جَعُدَ وَ تَجَعَّدَ الشَّعْرُ (بال گھنگریالے ہوگئے) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۵۔موافقت اِسْتِفْعَال:
باب کَرُمَ کا باب اَسْتِفْعَال کے ہم معنی ہونا۔جیسے:ذَأُبَ وَاسْتَذْأَبَ تَوْقِیْرٌ(توقیر درندگی میں بھیڑئیے کی طرح ہوگیا)۔
۶۔موافقت باب فَتَحَ یَفْتَحُ:
باب کَرُمَ کاباب فَتَحَ یَفْتَحُ کے ہم معنی ہونا ، مثال: مَعَنَ الْمَآءُ وَمَعُنَ الْمَآءُ( پانی آہستہ بہا) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
(3)۔۔۔۔۔۔کثرتِ مأخذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
ضَبُبَ الْبَجْلُ بجل کے علاقے میں گوہ بکثرت ہوگئی ضَبٌّ گوہ جو کہ ایک جانور ہے
اس مثال میں مقامِ بجل کثرتِ مأخذ (گوہ)والا ہو گیا۔
(4)۔۔۔۔۔۔ بلوغ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
صَلُبَ زَیْدٌ زید سختی کرنے تک آپہنچا صُلْبٌ سختی
اس مثال میں فاعل (زید )مأخذ( سختی) کے وقت تک پہنچ گیا ،اسی کو بلوغ کہاجاتاہے۔
(5)۔۔۔۔۔۔صَیْرُوْرَتْ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
مَحُضَ نَسُبَ الرَّجُلُ وہ مرد خالص النسب ہوا مَحْضٌ خالص چیز
اس مثال میں فاعل( نَسُبَ الرَّجُلُ)، مأخذ(مَحْض) والا ہو گیا ہے، یعنی نسب میں صفتِ خلوص آگئی اور نسب خالص ہوگیا۔
(6)۔۔۔۔۔۔تَاَئلُّمِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
رَحُمَتِ الشَّاۃُ بکری رحم میں تکلیف والی ہوئی رَحْمٌ بچہ دانی
اس مثال میں مأخذ( بکری) کا رحم تکلیف کامحل ہے ۔
(7)۔۔۔۔۔۔تَحَوُّلْ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
جَنُبَتِ الرِّیْحُ(عین مأخذ)ہوا عین جنوبی ہوگئی جَنُوْبٌ سمت جنوب
ذَوُئبَ تَوْقِیْرٌ(مثل مأخذ) توقیر بھیڑیے کی طرح ہوگیا ذِئْبٌ بھیڑیا
پہلی مثال میں فاعل (اَلرِّیْحُ) عین مأخذ( جنوبی سمت) کی ہوگئی اور دوسری مثال میں فاعل (توقیر) مثل مأخذیعنی بھیڑیئے کی مثل ہوگیا ۔
(8)۔۔۔۔۔۔ تَعَجُّبْ:
مجہول السبب چیز کے جاننے سے فاعل کے دل میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اسے تعجب کہتے ہیں۔اور یہ خاصیت باب کَرُمَ یَکْرُمُ میں پائی جاتی ہے۔جیسے:طَمُعَ الرَّجُلُ( مرد کتنا طمع اور لالچ کرنے والا ہوا)۔
(9)۔۔۔۔۔۔ لُزُوْم :
یہ باب ہمیشہ فعلِ لازم ہی سے آتاہے۔
اہم نوٹ:
ماقبل خاصیات کے علاوہ باب کَرُمَ کا ایک مشہور خاصہ یہ بھی ہے کہ اس باب کا مأخذ ایسے اوصاف سے متصف ہوتا ہے جن اوصاف کو جبلی اور فطری طور پر پیدا کیا گیا۔
ان اوصاف کی تین قسمیں ہیں : ۱۔خلقی ۲۔حکمی ۳۔مشابہ بخلقی
(۱)۔۔۔۔۔۔اوصاف ِخلقی:
اس سے مراد وہ اوصاف ہیں جو موصوف کے اندر پیدائشی وخلقی طور پر موجود ہوں۔ جیسے: حَسُنَ وَارِثٌ( وارث خوبصورت ہوا).
وضاحت:
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حسن کا معنی رنگ کی چمک دمک ، جسم کی لچک اور نرمی وملائمت نہیں کیونکہ یہ سب عارضی اوصاف ہیں بلکہ حسن کا مطلب ہے مناسب اعضاء جس میں کچھ استحکام ہوتا ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ اوصاف ِحکمی:
یہ اوصاف ابتداءً اوصاف حقیقی کی طرح پائیدار تو نہیں ہوتے مگر بعد میں موصوف کی ذات میں کسب کے ذریعے حقیقی کی طرح پائیدار ہوجاتے ہیں۔ جیسے: فَقُہَ مَدَنِیٌّ: (مدنی فقیہ ہوا)۔ یہ جملہ اس وقت بولا جاتا ہے جب صفتِ فقاہت مَدَنِیٌّ (موصوف کی ذات) کا خاصہ لازمہ اور ملکہ راسخہ بن جائے اور موصوف (مَدَنِیٌّ) کی ذات سے صفت لازم کی طرح جدا نہ ہو سکے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔مشابہ بخلقی:
یا وہ صفت پائیدار تو نہ ہو مگر اوصاف لازمہ کے مشابہ ہو ۔ جیسے: جَنُبَ: (وہ جنابت والا ہوا) جنابت اگرچہ صفت عارضی ہے لیکن یہ نجاست ذاتی وخلقی کے مشابہ ہے۔
0 Comments: