Showing posts with label Maqbooliyat. Show all posts
Showing posts with label Maqbooliyat. Show all posts

ضروری تنبیہ
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام حضرات انبیاء علیہم السلام کے مقدس اجسام انکی مبارک قبروں میں سلامت رہتے ہیں اور زمین پر حضرت حق جل جلالہ نے حرام فرما دیا ہے کہ ان کے مقدس جسموں پر کسی قسم کا تغیر و تبدل پیدا کرے۔ جب تمام انبیاء علیہم السلام کی یہ شان ہے تو پھر بھلا حضور سید الانبیاء و سید المرسلین اور امام الانبیاء و خاتم النبییّن صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس جسم انور کو زمین کیونکر کھا سکتی ہے؟ اس لئے تمام علماء امت و اولیاء امت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں زندہ ہیں اور خداعزوجل کے حکم سے بڑے بڑے تصرفات فرماتے رہتے ہیں اور اپنی خداداد پیغمبرانہ قوتوں اور معجزانہ طاقتوں سے اپنی امت کی مشکل کشائی اور ان کی فریاد رسی فرماتے رہتے ہیں۔
خوب یاد رکھئے کہ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے وہ یقینا بارگاہِ اقدس کا گستاخ بد عقیدہ، گمراہ اور اہل سنت کے مذہب سے خارج ہے۔

انصار کی ایمانی شجاعت
محاصرہ کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانی دیکھ کر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
نے یہ خیال کیا کہ کہیں مہاجرین و انصار ہمت نہ ہار جائیں اس لئے آپ نے ارادہ فرمایا کہ قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصن سے اس شرط پر معاہدہ کر لیں کہ وہ مدینہ کی ایک تہائی پیداوار لے لیا کرے اور کفار مکہ کا ساتھ چھوڑ دے مگر جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایاتو ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر اس بارے میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی اتر چکی ہے جب تو ہمیں اس سے انکار کی مجال ہی نہیں ہو سکتی اور اگر یہ ایک رائے ہے تو یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جب ہم کفر کی حالت میں تھے اس وقت تو قبیلہ غطفان کے سرکش کبھی ہماری ایک کھجور نہ لے سکے اور اب جب کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو اسلام اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی غلامی کی عزت سے سرفراز فرما دیا ہے تو بھلا کیونکر ممکن ہے کہ ہم اپنا مال ان کافروں کو دے دیں گے؟ ہم ان کفار کو کھجوروں کا انبار نہیں بلکہ نیزوں اور تلواروں کی مار کا تحفہ دیتے رہیں گے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا،یہ سن کر حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خوش ہوگئے اورآپ کوپوراپورااطمینان ہو گیا۔(1)
(زرقانی ج۲ص۱۱۳)
خندق کی و جہ سے دست بدست لڑائی نہیں ہو سکتی تھی اور کفار حیران تھے کہ اس خندق کو کیونکر پار کریں مگر دونوں طرف سے روزانہ برابر تیر اور پتھر چلا کرتے تھے آخر ایک روز عمرو بن عبدودو عکرمہ بن ابو جہل وہبیرہ بن ابی وہب وضرار بن الخطاب وغیرہ کفار کے چند بہادروں نے بنو کنانہ سے کہا کہ اٹھوآج مسلمانوں سے جنگ
کرکے بتا دو کہ شہسوار کون ہے؟ چنانچہ یہ سب خندق کے پاس آ گئے اور ایک ایسی جگہ سے جہاں خندق کی چوڑائی کچھ کم تھی گھوڑا کودا کر خندق کو پار کر لیا۔(1)
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الخندق...الخ، ج۳،ص۴۲ملخصاً

۴ ھ کے متفرق واقعات
(۱)اسی سال غزوۂ بنو نضیر کے بعد جب انصار نے کہا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بنو نضیر کے جو اموال غنیمت میں ملے ہیں وہ سب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے مہاجر بھائیوں کو دے دیجیے ہم اس میں سے کسی چیز کے طلب گار نہیں ہیں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر یہ دعا فرمائی کہ
اَللّٰھُمَّ ارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَاَبْنَآءَ الْاَنْصَارِ وَاَبْنَآءَ اَبْنَآءِ الْاَنْصَارِ۔ اے اﷲ! عزوجل انصارپر،اورانصارکے بیٹوں پراورانصارکے بیٹوں کے بیٹوں پررحم فرما۔(2)
(مدارج جلد۲ ص۱۴۸)
(۲)اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نواسے حضرت عبداﷲ بن عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی آنکھ میں ایک مرغ نے چونچ مار دی جس کے صدمے سے وہ دورات تڑپ کر وفات پا گئے۔(3)(مدارج جلد ۲ ص۱۵۰)
(۳)اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ حضرت بی بی زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوئی۔(4)(مدارج جلد ۲ ص۱۵۰)
(۴)اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ام المؤمنین بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ (1)(مدارج جلد۲ ص۱۵۰)
(۵)اسی سال حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی،حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا مقدس پیراہن ان کے کفن کیلئے عطا فرمایااور ان کی قبر میں اتر کر ان کی میت کو اپنے دست مبارک سے قبر میں اتارا اور فرمایا کہ فاطمہ بنت اسد کے سوا کوئی شخص بھی قبر کے دبوچنے سے نہیں بچا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صرف پانچ ہی میت ایسی خوش نصیب ہوئی ہیں جن کی قبر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود اترے:اوّل: حضرت بی بی خدیجہ، دوم:حضرت بی بی خدیجہ کا ایک لڑکا،سوم: عبداﷲ مزنی جن کا لقب ذوالبجادین ہے، چہارم:حضرت بی بی عائشہ کی ماں حضرت اُمِ رومان،پنجم: حضرت فاطمہ بنت اسد حضرت علی کی والدہ۔(رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین)(2)(مدارج جلد۲ ص۱۵۰)
(۶)اسی سال ۴ شعبان ۴ ھ کو حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پیدائش ہوئی۔ (3)
(مدارج جلد ۲ ص۱۵۱)
(۷)اسی سال ایک یہودی نے ایک یہودی کی عورت کے ساتھ زناکیااوریہودیوں نے یہ مقدمہ بارگاہ نبوت میں پیش کیاتوآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تورات وقرآن دونوں کتابوں کے فرمان سے اس کوسنگسارکرنے کافیصلہ فرمایا۔(4)(مدارج جلد۲ ص۱۵۲)
(۸)اسی سال طعمہ بن ابیرق نے جو مسلمان تھا چوری کی تو حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم سے اس کاہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا،اس پروہ بھاگ نکلا اور مکہ چلا گیا۔ وہاں بھی اس نے چوری کی اہل مکہ نے اس کوقتل کرڈالایااس پر دیوار گر پڑی اور مر گیا یا دریامیں پھینک دیاگیا۔ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ مرتدہوگیاتھا۔(1)(مدارج جلد۲ ص۱۵۳)
(۹)بعض مؤرخین کے نزدیک شراب کی حرمت کا حکم بھی اسی سال نازل ہوااور بعض کے نزدیک ۶ھ میں اور بعض نے کہا کہ ۸ ھ میں شراب حرام کی گئی۔(2) (مدارج جلد ۲ ص۱۵۳)
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۹
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۹،۱۵۰
4۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۹،۱۵۰
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۹،۱۵۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۵۰،۱۵۱
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۵۱
4۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۵۲

سیرت پاک کے اجلاس
ان جلسوں میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے فضائل اور آپ کی مقدس سیرت اور اتباع سنت و شریعت اور محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا بیان ہوا کرتا ہے میلاد شریف کی طرح یہ جلسے بھی بہت مبارک اور خیر و برکت والے ہیں اور اہل جلسہ حاضرین سب ثواب پاتے ہیں۔

کنوئیں کے مسائل
کنوئیں میں کسی آدمی یا جانور کا پاخانہ' پیشاب' یا مرغی یا بطخ کی بیٹ یا خون یا تاڑی شراب وغیرہ کسی نجاست کا ایک قطرہ بھی گر پڑے یا کوئی بھی ناپاک چیز کنوئیں میں پڑ جائے تو کنواں ناپاک ہو جائے گا اس کا کل پانی نکالا جائے گا۔ (الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۰۷۔۴۰۹)
مسئلہ:۔اگر کنوئیں میں آدمی' گائے' بھینس' بکری یا اتنا ہی بڑا کوئی جانور گر کر مر جائے یا چھوٹے سے چھوٹا بہنے والے خون والا جانور کنوئیں میں مر کر پھول پھٹ جائے یا ایسا جانور جس کا جھوٹا ناپاک ہے کنوئیں میں گر پڑے اگرچہ زندہ نکل آئے جیسے سور' کتا تو ان سب صورتوں میں کنواں ناپاک ہو جائے گا اور کل پانی نکالا جائے گا۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۰۷۔۴۱۰/
الفتاوی القاضی خان ، کتاب الطہارۃ ، فصل فی مایقع فی البئر،ج۱،ص۵)
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الثالث،الفصل الاول،النوع الثالث ماء لآبار،ج۱،ص۱۹)
مسئلہ:۔اگر چوہا' چھپکلی' گرگٹ یا ان کے برابریا ان سے چھوٹا جانور کنوئیں میں گر کر مرجائے۔ا ور پھولنے پھٹنے سے پہلے نکال لیا جائے تو بیس ڈول پانی نکالنا واجب اور تیس ڈول پانی نکال دینا مستحب ہے اس کے بعد کنواں پاک ہو جائے گا۔ (الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۱۱)
مسئلہ:۔جن جانوروں کا جھوٹا پاک ہے جیسے بکری' گائے' بھینس وغیرہ ان میں سے اگر کوئی کنوئیں میں گر پڑے اور زندہ نکل آئے اور ان کے جسم پر کسی نجاست کا لگا ہونا معلوم نہ ہو تو کنواں پاک ہے لیکن احتیاطاً بیس ڈول پانی نکال ڈالیں۔ (الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۱۰)
مسئلہ:۔حلال پرندے جیسے کبوتر اور گوریا' مینا' مرغابی وغیرہ اونچے اڑنے والے پرندوں کی بیٹ کنویں میں گر جائے تو کنواں ناپاک نہیں ہوگا یوں ہی چمگادڑ کے پیشاب سے بھی کنواں ناپاک نہ ہوگا۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،مطلب مھمٌّ: فی تعریف الاستحسان، ج۱، ص۴۲۱/ الفتاوی القاضی خان، کتاب الطہارۃ، فصل فی ما یقع فی البئر،ج۱،ص۶)
مسئلہ:۔یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ فلاں فلاں صورت میں اتنا اتنا پانی نکالا جائے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جو چیز کنوئیں میں گری ہے پہلے اس کو کنوئیں میں سے نکال لیں پھر اتنا پانی نکا لیں۔ اگر وہ چیز کنوئیں ہی میں پڑی رہی تو کتنا ہی پانی نکالیں بے کار ہے۔ (الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۰۹)
مسئلہ:۔جہاں اتنے اتنے ڈول پانی نکالنے کا ذکر آیا ہے وہاں ڈول کی گنتی اس ڈول سے کی جائے گی جو ڈول اس کنوئیں پر استعمال ہوتا رہا ہے اور اگر اس کنوئیں کا کوئی خاص ڈول نہ ہو تو اتنا بڑا ڈول ہونا چاہے کہ جس میں سوا پانچ کیلو پانی آجائے۔ (الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۱۶)
مسئلہ:۔سالن یا پانی شربت میں اگر مکھی گر پڑے تو اس کو غوطہ دے کر باہر پھینک دیں اور سالن' پانی' شربت' کو کھا پی لیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر کھانے میں مکھی گر پڑے تو اس کو کھانے میں غوطہ دے کر مکھی کو پھینک دیں پھر اس کھانے کو کھائیں کیونکہ مکھی
کے دو پروں میں سے ایک میں بیماری اور دوسرے میں اس کی شفا ہے اور مکھی اس پر کو کھانے میں پہلے ڈالتی ہے جس میں بیماری ہوتی ہے اس لئے غوطہ دے کر دوسرا شفاء والا پر بھی کھانے میں پہنچادیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصید والذبائح، باب مایحل اکلہ وما یحرم، الفصل الثانی، رقم ۴۱۴۳۔۴۱۴۴،ج۲،ص۴۳۸)
مسئلہ:۔ناپاک کنوئیں میں جس صورت میں جتنے پانی نکالنے کا حکم ہے جب اتنا پانی نکال لیا گیا تو اب وہ ڈول اور رسی اور کنوئیں کی دیواریں سب خود بخود پاک ہو گئیں۔ کسی کو دھو کر پاک کرنے کی ضرورت نہیں۔ (الدرالمختاروردالمحتار، کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۰۹)

ایمان مفصل
اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ
مِنَ اللہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ ؕ
میں ایمان لایا اﷲ(عزوجل) پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ ہر بھلائی اور برائی اﷲتعالیٰ نے مقدر فرما دی ہے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے۔
تنبیہ:۔ان چھ کلموں اور ایمان مجمل و ایمان مفصل کو زبانی یاد کر لو۔ اور معنوں کو خوب سمجھ کر سچے دل سے یقین کے ساتھ ان پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ یہی وہ کلمے ہیں جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ جب تک ان کلموں پر ایمان نہ لائے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔
یہ مسلمانوں کی بہت بڑی کم نصیبی ہے کہ ہزاروں لاکھوں مسلمان ان کلموں سے
ناواقف یا غافل ہیں۔ حالانکہ ہر مسلمان ماں باپ پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو یہ اسلامی کلمے زبانی یاد کرادیں۔ اور ان کلموں کے معنی بچوں کو بتا کر ذہن نشین کرادیں۔ تاکہ یہ اسلامی عقیدے بچپن ہی سے دلوں میں جم جائیں اور زندگی کی آخری سانس تک ہر مسلمان مرد و عورت ان عقیدوں پر پہاڑ کی طرح مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو اسلام سے برگشتہ نہ کر سکے اور جن بالغ مردوں اور عورتوں کو یہ کلمے نہ یاد ہوں ان پر بھی لازم ہے کہ وہ جلد سے جلد ان کلموں کو یاد کرلیں اور ان کے معنوں کو سمجھ کر سچے دل سے ان کو جان پہچان کر اور مان کر ان پر ایمان رکھیں اور ہر وقت ان عقیدوں کا دھیان رکھیں۔ کیونکہ یہی عقیدے اسلام کی پوری عمارت کی بنیاد ہیں۔ جس طرح کسی عمارت کی بنیاد ہل جائے یا کمزور ہو جائے تو وہ عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ ٹھیک اسی طرح اگر اسلام کے ان عقیدوں میں کوئی شک و شبہ پیدا ہو جائے تو اسلام کی عمارت بالکل ہی تہس نہس اور برباد ہوجائے گی۔

شب برات کا حلوا
شب برات کا حلوا پکانا نہ تو فرض و سنت ہے نہ حرام و ناجائز بلکہ حق بات یہ ہے کہ شب برات میں دوسرے تمام کھانوں کی طرح حلوا پکانا بھی ایک مباح اور جائز کام ہے اور اگر اس نیک نیتی کے ساتھ ہو کہ ایک عمدہ اور لذیذ کھانا فقراء ومساکین اور اپنے اہل و عیال کو کھلا کر ثواب حاصل کرے تو یہ ثواب کا کام بھی ہے۔
درحقیقت اس رات میں حلوے کا دستوریوں نکل پڑا کہ یہ مبارک رات صدقہ وخیرات اور ایصال ثواب و صلہ رحمی کی خاص رات ہے۔ لہٰذا انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس رات میں کوئی مرغوب اور لذیذ کھانا پکایا جائے۔ بعض عالموں کی نظر بخاری شریف کی اس حدیث پر پڑی کہ۔
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب الحلواء والعسل۔
(صحیح البخاری، کتاب الاطعمۃ، باب الحلواء والعسل، رقم ۵۴۳۱،ج۳،ص۵۳۶)
یعنی'' رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم حلوا (شیرینی) اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔'
ہٰذا ان علمائے کرام نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس رات میں حلوا پکایا۔ پھر رفتہ رفتہ عوام میں بھی اس کا چرچا اور رواج ہوگیا۔ چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قبلہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے ملفوظات میں ہے کہ ہندوستان میں شب برات کو روٹی اور حلوا پر فاتحہ دلانے کا دستور ہے۔ اور سمر قند و بخارا میں ''قتلما'' پر جو ایک میٹھا کھانا ہے۔
الغرض شب برات کا حلوا ہو یا عید کی سویاں' محرم کا کھچڑا ہو یا ملیدہ' محض ایک رسم و رواج کے طریقہ پر لوگ پکاتے کھاتے اورکھلاتے ہیں۔ کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ یہ فرض یا سنت ہیں۔ اس لئے اس کو ناجائز کہنا درست نہیں۔ یاد رکھو کسی حلال کو حرام ٹھہرانااﷲ پر جھوٹی تہمت لگانا ہے جو ایک بدترین گناہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔
قُلْ اَرَءَیۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللہُ لَكُمۡ مِّنۡ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمۡ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا ؕ قُلْ آٰللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَی اللہِ تَفْتَرُوۡنَ ﴿59﴾
یعنی کہہ دو بھلا بتاؤ تو وہ جو اﷲ نے تمہارے لئے رزق اتارا۔ اس میں تم نے اپنی طرف سے کچھ حرام کچھ حلال ٹھہرالیا۔ (اے پیغمبر) فرمادو کیا اﷲ نے اس کا تمہیں حکم دیا ہے' یا اﷲ پر تم لوگ تہمت لگاتے ہو؟(پ 11 ،یونس:59)

تواضع و انکساری
اپنے کو دوسروں سے چھوٹا اور کمتر سمجھ کر دوسروں کی تعظیم و تکریم کے ساتھ خاطر ومدارت کرنا اس عادت کو تواضع اور انکساری کہتے ہیں۔ یہ نیک عادت درحقیقت جو ہر نایاب ہے کہ اﷲتعالیٰ جس کو اس عادت کی توفیق عطا فرما دیتا ہے گویا اس کو خیر کثیر کا خزانہ عطا فرما دیتا ہے جو شخص ہر ایک کو اپنے سے بہتر اور اپنے کو سب سے کمتر سمجھے گا وہ ہمیشہ گھمنڈ اور تکبر کی شیطانی خصلت سے بچا رہے گا اور اﷲتعالیٰ اس کو دونوں جہان میں سر بلندی اور عظمت کا بادشاہ بلکہ شہنشاہ بنادے گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ یعنی جو شخص اﷲ کی رضاجوئی کے لیے تواضع اور انکساری کی خصلت اختیار کریگا اﷲتعالیٰ اس کو سر بلندی عطا فرمائے گا۔
(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب وغیرہ، الترغیب فی التواضع والترہیب من الکبر
العجب والافتخار،رقم ۶،ج۳،ص۳۵۱)
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ
مرا پیر دانائی روشن شہاب
دواندوز فرمود بر روئی آب
یکی آنکہ برخویش خود بین مباش
دگر آنکہ بر غیر بدبین مباش
یعنی مجھ کو میرے پیر عارف خدا اور روشن دل شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دریائی سفر میں کشتی پر یہ دو نصیحت فرمائی ہیں ایک یہ کہ اپنے کو اچھا اور بڑا نہ سمجھو۔ اور دوسری یہ کہ دوسروں کو برا اور کمتر نہ سمجھو بلکہ سب کو اپنے سے بہتر اور اپنے کو سب سے کمتر سمجھ کر دوسروں کے سامنے تواضع اور انکساری کا مظاہرہ کرتے رہو اور خبردار ہرگز ہرگز کبھی بھی تکبر اور گھمنڈ کی شیطانی ڈگر پر چل کر دوسروں کو اپنے سے حقیر نہ سمجھو۔
یاد رکھو کہ تواضع اور عاجزی و انکساری کی عادت رکھنے والا آدمی ہر شخص کی نظروں میں عزیز ہو جاتا ہے۔ اور متکبر آدمی سے ہر شخص نفرت کرنے لگتا ہے۔ اس لئے ہر مرد وعورت کو لازم ہے کہ تواضع کی عادت اختیار کرے اور کبھی بھی تکبر اور گھمنڈ نہ کرے۔

بد گمانی
بہت سے مردوں اور عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جہاں انہوں نے دو آدمیوں کو الگ ہو کر چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو فوراََ ان کو یہ بدگمانی ہو جاتی ہے کہ یہ میرے ہی متعلق کچھ باتیں ہو رہی ہیں اور میرے ہی خلاف کوئی سازش ہورہی ہے اسی طرح عورتیں اگر اپنے شوہروں کو اچھا لباس پہن کر کہیں جاتے ہوئے دیکھتی ہیں یا شوہروں کو کسی عورت کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے سن لیتی ہیں تو ان کو فوراََ اپنے شوہروں کے بارے میں یہ بدگمانی ہو جاتی ہے کہ ضرور میرے شوہر کی فلانی عورت سے کچھ ساز باز ہے اسی طرح شوہروں کا حال ہے کہ اگر ان کی بیویاں میکے میں زیادہ ٹھہر گئیں یا میکا کے رشتہ داروں سے بات یا ان کی خاطر ومدارات کرنے لگیں تو شوہروں کو یہ بدگمانی ہو جاتی ہے کہ میری بیوی فلاں فلاں مردوں سے محبت کرتی ہے کہیں کوئی بات تو نہیں ہے۔ بس اس بد گمانی میں طرح طرح کی جستجو اور ٹوہ لگانے کی فکر میں مبتلا ہو کر دن رات دماغ میں الم غلم قسم کے خیالات کی کھچڑی پکانے لگتے ہیں اور کبھی کبھی رائی کا پہاڑ اور پھانس کا بانس بنا ڈالتے ہیں۔
پیاری بہنو اور بھائیو! یاد رکھو کہ بدگمانیوں کی یہ عادت بہت بری بلا اور بہت بڑا گناہ ہے
قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ
یعنی بعض گمان گناہ ہیں۔(پ26،الحجرات:12)
لہٰذا جب تک کھلی ہوئی دلیل سے تم کو کسی بات کا یقین نہ ہو جائے ہر گز ہر گز محض بے بنیاد گمانوں سے کوئی رائے قائم نہ کر لیا کرو۔

بچوں کے حقوق
(۱)ہر ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچوں سے پیار و محبت کرے اور ہر معاملہ میں ان کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی و دل بستگی میں لگی رہے اور ان کی پرورش اور تربیت میں پوری پوری کوشش کرے۔
(۲)اگر ماں کے دودھ میں کوئی خرابی نہ ہو تو ماں اپنا دودھ اپنے بچوں کو پلائے کہ دودھ کا بچوں پر بڑا اثر پڑتا ہے۔
(۳)بچوں کی صفائی ستھرائی۔ ان کی تندرستی و سلامتی کا خاص طور پر دھیان رکھے۔
(۴)بچوں کو ہر قسم کے رنج و غم اور تکلیفوں سے بچاتی رہے۔
(۵)بے زبان بچے اپنی ضروریات بتا نہیں سکتے۔ اس لئے ماں کا فرض ہے کہ بچوں کے اشارات کو سمجھ کر ان کی ضروریات کو پوری کرتی رہے۔
(۶)بعض مائیں چلا کر یا بلی کی بولی بول کر یا سپاہی کا نام لے کر' یا کوئی دھماکہ کرکے چھوٹے بچوں کو ڈرایا کرتی ہیں۔ یہ بہت ہی بری باتیں ہیں۔ بار بار ایسا کرنے سے بچوں کا دل کمزور ہو جاتا ہے اور وہ بڑے ہونے کے بعد ڈرپوک ہو جایا کرتے ہیں۔
(۷)بچے جب کچھ بولنے لگیں تو ماں کو چاہے کہ انہیں بار بار اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نام سنائے ان کے سامنے بار بار کلمہ پڑھے۔ یہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھنا سیکھ جائیں۔
(۸)جب بچے بچیاں تعلیم کے قابل ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دلائیں۔
(۹)بچوں کو اسلامی آداب و اخلاق اور دین و مذہب کی باتیں سکھائیں۔
(۱۰)اچھی باتوں کی رغبت دلائیں اور بری باتوں سے نفرت دلائیں۔
(۱۱)تعلیم و تربیت پر خاص طور پر توجہ کریں اور تربیت کا دھیان رکھیں۔ کیونکہ بچے سادہ ورق کے مانند ہوتے ہیں۔ سادہ کاغذ پر جو نقش و نگار بنائے جائیں وہ بن جاتے ہیں اور بچوں بچیوں کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے۔ اس لئے ماں کی تعلیم و تربیت کا
بچوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا ہر ماں کا فرض منصبی ہے کہ بچوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھال کر ان کی بہترین تربیت کرے اگر ماں اپنے اس حق کو نہ ادا کرے گی تو گناہ گار ہوگی!
(۱۲)جب بچہ یا بچی سات برس کے ہو جائیں تو ان کو طہارت اور وضو و غسل کا طریقہ سکھائیں اور نماز کی تعلیم دے کر ان کو نمازی بنائیں اور پاکی و ناپاکی اور حلال و حرام اور فرض و سنت وغیرہ کے مسائل ان کو بتائیں۔
(۱۳)خراب لڑکوں اور لڑکیوں کی صحبت' ان کے ساتھ کھیلنے سے بچوں کو روکیں اور کھیل تماشوں کے دیکھنے سے'ناچ گانے' سینما تھیٹر' وغیرہ لغویات سے بچوں اور بچیوں کو خاص طور پر بچائیں۔
(۱۴)ہر ماں باپ کا فرض ہے کہ بچوں اور بچیوں کو ہر برے کاموں سے بچائیں اور ان کو اچھے کاموں کی رغبت دلائیں تاکہ بچے اور بچیاں اسلامی آداب و اخلاق کے پابند اور ایمانداری و دینداری کے جوہر سے آراستہ ہو جائیں اور صحیح معنوں میں مسلمان بن کر اسلامی زندگی بسر کریں۔
(۱۵)یہ بھی بچوں کا حق ہے کہ ان کی پیدائش کے ساتویں دن ماں باپ ان کا سر منڈا کر بالوں کے وزن کے بر ابرچاندی خیرات کریں اور بچے کا کوئی اچھا نام رکھیں۔ خبردار خبردار ہر گز ہر گز بچوں بچیوں کا کوئی برا نام نہ رکھیں۔
(۱۶)جب بچہ پیدا ہو تو فوراً ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں تاکہ بچہ شیطان کے خلل سے محفوظ رہے اور چھوہارہ وغیرہ کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں تاکہ بچہ شیریں زبان اور بااخلاق ہو۔
(۱۷)نیا میوہ' نیا پھل' پہلے بچوں کو کھلائیں پھر خود کھائیں کہ بچے بھی تازہ پھل ہیں۔ نئے پھل کو نیا پھل دینا اچھا ہے۔
(۱۸)چند بچے بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں اور برابردیں۔ ہر گز کمی بیشی نہ کریں۔ ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔ بچیوں کو ہر چیز بچوں کے برابر ہی دیں۔ بلکہ بچیوں کی دلجوئی و دلداری کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ کیونکہ بچیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔
(۱۹)لڑکیوں کو لباس اور زیور سے آراستہ اور بناؤ سنگھار کے ساتھ رکھیں تاکہ لوگ رغبت کے ساتھ نکاح کا پیغام دیں۔ ہاں اس کا خیال رکھیں کہ وہ زیورات پہن کر باہر نہ نکلیں کہ چوروں ڈاکوؤں سے جان کا خطرہ ہے۔ بچیوں کو بالا خانوں پر نہ رہنے دیں کہ اس میں بے حیائی کا خطرہ ہے۔
(۲۰)حتی الامکان بارہ برس کی عمر میں بچیوں کی شادی کردیں مگر خبردار ہر گز ہر گز کسی بددین یا بد مذہب مثلاً رافضی' خارجی' وہابی' غیر مقلد وغیرہ کے یہاں لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی نہ کریں ورنہ اولاد کی بہت بڑی حق تلفی ہوگی اور ماں باپ کے سروں پر بہت بڑے گناہ کا بوجھ ہوگا اور وہ عذاب جہنم کے حقدار ہوں گے۔ اسی طرح فاسقوں' فاجروں' شرابیوں' بدکاروں' حرام کی کمائی کھانے والوں' سود خوروں اور ناجائز کام دھندا کرنے والوں کے یہاں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں نہ کریں اور رشتہ تلاش کرنے میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مذہب اہل سنت اور دین دار ہونے کا خاص طور پر دھیان رکھیں۔
پردہ کی ابتدا
پردہ کی ابتدا
مولاناسیدمحموداحمدرضوی نائب ناظم انجمن مرکزی حزب الاحناف لاہور
۱) پردہ کا سب سے پہلا حکم ۰۵ میں نازل ہوا جبکہ حضور اکرم ﷺ نے ام المومنین زینب سے نکاح فرمایا۔ اور جس کی تعمیل میں جناب رسول اللہﷺ نے تمام ازواج مطہرات کے مکانوں پرپردے ڈالوا دیے جو اس سے قبل نہ تھےاور غیر محرموں کو اندرجانے سے منع فرمایا۔ چنانچہ روایت ہے کہ طلحہ جو حضرت صدیقہ کے چچازاد بھائی تھے، ان کو حضور ﷺ نے صدیقہ طاہرہ سے ملنے کوروک دیا جس پروہ ناراض ہو گیے۔
۲) آیات حجاب کے نزول سے قبل عورتیں بے پردہ نکلتی تھیں مگر جب حجاب کی آیتیں نازل ہوئیں تو صحابیات اور مسلم عورتوں نے عہدنبوت ہی میں پردہ کرنا شروع کردیا اور صحابہ کرام پردہ کے احکام کی تفصیل دریافت فرمانے لگے۔
۳) مجلس اقدس میں مستورات کی فلاح وبہبودی کے متعلق تذکرہ ہوا کرتاتھا ایک مرتبہ حضورﷺ نے فرمایا کہ عورتوں میں آمدورفت نہ رکھاکرو۔ایک صحابی نے عرض کی یارسول اللہ ارایت الحموا قال الحموالموت یارسول اللہ دیور کے متعلق کیا حکم ہے۔ فرمایا دیور تو موت ہے یعنی دیورجیٹھ اور خاوند کے رشتہ داروں سے پردہ کرنا تونہایت ضروری ہے۔
۴) مجالس ابرار میں لکھا ہے۔سدون ال۔۔۔وللوی لئلا تطلع الینا علی الرجال ۔ کہ صحابہ کرام دیواروں کے سوراخ اور جھڑکوں کو اس لیے بند کردیتے تھے کہ عورتیں مردوں کو نہ دیکھ سکیں۔
۵) عورتیں عہد نبوت میں مسجدوں میں پردہ کا اہتمام کے ساتھ آتیں تھیں اور آخرصف میں نماز پڑھتیں مگر حضرت صدیقہ اس سے بھی روک دیا اورفرمایا۔ لویہ النبی ﷺ کمااحدث النسا من عھد المساجد۔(مسلم شریف) اگر نبی کریم ﷺ یہ صورت ملاحظہ فرماتے جو عورتوں نے اب پیداکردی ہے تو ان کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے۔چنانچہ جوان کوعورتوں کو روک دیا گیا۔اس حدیث سے ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ نے اس زمانے میں جوخیروبرکت ،رشد وہدایت کا زمانہ تھا۔مستورات کومساجد میں آنے سے روک دیا اور مستورات کو پردہ کی پوری شرطوں کے ساتھ مسجدوں میں آنا بھی پسند نہ فرمایاْچہ جائے کہ آج مستورات کو سربازار بے حجاب وبے نقاب چہرے کھولے پھرنے کی اجازت دی جائے۔
۶) نیز خدمتِ نبویﷺ میں جو مستورات حاضرہوئی یقیناً وہ بھی حجاب ونقاب کے ساتھ آتی تھیں۔ابو داؤد شریف کی حدیث میں ہے کہ ایک عورت حضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوئی کہا دیکھو اس کا بیٹا مارا گیاہےاوراس کو نقاب کی پڑی ہے،صحابہ نے کہا اگرمجھ پرمصیبت آئی ہےلیکن میری شرم وحیا پرتو مصیبت نہیں آئی۔
حضرت صدیقہ فرماتی ہیں ایک عورت خدمت نبوی ﷺ میں اومت من ورا حجاب کتاب ابی رسول اللہ ﷺاور انہوں نے پردہ کے پیچھے سے ایک خط خدمتِ اقدس میں پیش کیا۔
ناظرینِ کرام ! یہ چند عبارتیں ہم نے اس لیے نقل کی تاکہ معلوم ہوجائے کہ عہدنبوت ہی میں مستورات نے پردہ کرنا شروع کردیا تھااور خدمت رسالت میں مستورات باپردہ آتی تھیںاور حضور نبی کریمﷺ بھی اجنبیات سے پردہ فرماتے تھے اور جولوگ یہ کہتے ہیں کہ عہدنبوت میں پردہ نہ تھا یا ایسا پردہ نہ تھا جس کا حکم آج علماے کرام دے رہے ہیں۔وہ سخت غلطی پرہیں نیز جب آیات پردہ کی مویدہیں توپھر ان کا ایسا کہنا کیا حقیقت رکھتا ہےبلکہ ایسا کہنا صحابہ کرام پراحکام قرآنی کی پابندی نہ کرنے کا الزام شدید ہے

اظہارحق بجواب’’تحقیق حق‘‘
اظہارحق بجواب’’تحقیق حق‘‘
محمدعبدالہادی مجددی
معززقارئین کرام! ایک رسالہ بعنوان تحققیق حق محترم محمد یحیٰ صاحب شمسی (بن حضرت الحاج مولوی محمدعمرصاحب رحمہ اللہ علیہ ) نےلکھ کرشائع فرمایا ہے۔ جسے ہم نے خلوص کے ساتھ دیکھا اور مطالعہ نے جن تاثرات سے ہمیں محفوظ کیا ہے ۔ وہ آپ کی خدمت میں پیش ہیں
محترم مضمون نگار نے رسالہ کے صفحہ ایک اورآٹھ پر مندرجہ ذیل عبارتیں لکھی ہیں ۔
۱) برادران اسلام! ایک اشتہار بعنوان جواب سوال بصورت سوال وجواب کے ذریعے عوام کو پھرفروع مسائل میں الجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔آج مسلمان فرائض وواجبات سے غافل ،کبائر میں مبتلا ہیں لیکن بعض خودغرضوںکو اسکے تدارک کی فکر نہیں مگر فاتحہ کی فکر ہے (صفحہ ۱)(۲) (۸)۔
نوٹ: چونکہ ہم سے بعض حضرات نےاشتہار مذکورکے جواب یاتسلیم کاسخت مطالبہ کیا تھا۔ اس لیے یہ مضمون تحریر کرناپڑا ورنہ ہم ایسے کاموں میں مشغول ہونا پسند نہیں کرتے۔
سبحان اللہ رسالہ لکھنے والے بزرگ سے جب بعض حضرات مسئلہ فاتحہ پرفتویٰ مانگتے ہیں۔ توفاتحہ کوناجائز بتا کر نہ مصنف رسالہ خودغرض بنتے اور نہ یہ فاتحہ کا مسئلہ فروعی ہی رہتاہے بلکہ مصنف رسالہ کے قلم کو حرکت میں لانے والے بعض حضرات جوکچھ کرتے ہیں۔ وہ سب فرائض وواجبات میں داخل ہوکر کبائر کےخلاف جہادِ اکبر ہوجاتا ہےاور جب اس کے سوا دوسرے مسلمان مسئلہ فاتحہ پر قلم اٹھاتے ہیں خود غرض بددیانت اورفریبی بن جاتے ہیں۔
بروز حشر گر۔۔۔۔۔ امت راچراکشتی
چہ خواہی گفت قربانت شوم من نیز متشاقم۔
للہ غور فرمایاجائے کہ آخر اس طرح کی دورنگی عبارتیں شائع فرمانے کے لیے روپیہ وقت اور محنت ضائع کرنے سے دین ودنیا کی کونسی دولت حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد صفحہ ۲ پر رسالہ نویس نے اسی فروعی مسئلہ میں فتاوی اورجندی پر لے دے کر کرتے ہوےمذکور کتاب کو تسلیم نہ کرنے کے لیے جودلیل ذیل دی ہے۔ اس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔آپ کومعلوم ہونا چاہئے کہ ۸۵۷ء کے بعد جبکہ انگریز نے وہابی اور سنی کا جھگڑا پیدا کرکے مسلمانوں کی مجموعی قوت کوتوڑنے کی کوشش شروع کی تھی۔ اور فروعی مسائل کو ابھارا گیا تھا، یہ روایت اس وقت گھڑی گی تھی۔
محترم رسالہ نگارنے جودلیل فتاویٰ اوزجندی کے ناقابل استدلال ہونے کی فرمائی ہےوہ نہ قرآن مجید میں ہے نہ حدیث رسولﷺ میں۔
یہ دلیل بےدلیل توایسی ہی مضحکہ خیز ہے۔ جیسے کوئی کوسنے والاعلامہ چیخ چیخ کرکہہ رہاہے کہ یہ مدرسہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اورمسلمانوں کی مجموعی قوت کوتوڑنے کے لیے انگریز نے خفیہ طورپر فنڈ کراکے تیار کرایا تھا۔
مکرم ناظرین!غور فرمایئے کہ ایسی بے سروپا کہانیوں کو دلیل سمجھنا کیسی غلطی اور زبردست مغالطہ ہے۔
مگر ہمارے مصنف رسالہ اسے فاتحہ کو ناجائز کردینے والی عظیم الشان ترجمان قرآن وحدیث دلیل سمجھ رہے ہیں۔
اے چشم اشکبار ذرا دیکھ تو سہی
یہ گھر جوجل رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو
اس کے بعد محترم رسالہ نویس نے صفحہ ۵ سے صفحہ ۶ تک بحث کرکے یہ فتویٰ دیا ہے کہ قرآن شریف میں حرکات زیروزبر لگانا علم تجوید ایجاد کرنا، علم نحووصرف کوایجاد کرنا، مدرسہ قائم کرناوغیرہ کے لیے اصل صحیح یعی وجہ جواز یہ ہے کہ حفاظت قرآن نماز میں تلاوت قرآن فہم قرآن وغیرہ فرض ہے۔
محترم صاحب رسالہ کے اس مبارک فتویٰ سے چشم ما رشن دل ماشاد جب قیام مدارس اور علم صرف و نحو وتجوید وغیرہ مروجہ علوم وفنون کو آپ فہم قرآن حفاظت قرآن کا مدار علیہ فرماتے ہیں۔ اور اسے بدعت حسنہ اور سنت حسنہ نام رکھتے ہیں۔ حالانکہ ان مختلف فیہ علوم پر ان کے ماہرین کاتمام مسائل میں اتفاق بھی نہیں ہےاور نہ یہ مروجہ علوم وفنون براہ راست قرآن کا مقصود ہی ہیں۔ تو پھر بیچارہ ایصال ثواب کی اصل صحیح نے کسی کاکیا بگاڑا ہے کہ اس اصل صحیح کومانتے ہوئے بھی اس کی مختلف شکلوں کے لیے کسی’’خاص مستقل‘‘ حدیث کے انتظار وتلاش میں کسی کا حواس باختہ ہونا منظور رکھا جائے۔
محترم رسالہ نویس نے صفحہ ۷ پرقیاس صحیح کو شرعی حجت فرمایاہے اس کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیاایصال ثواب کی مختلف شکلوں والے تعامل کے لیے اس کی صحیح ایصال ثواب کی بنا پر قیاس صحیح عرفاً فاتحہ وغیرہ کہہ لینے کو برداشت نہیں کرسکتا۔؟
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔
محترم مصنف نے قیاس صحیح کو شرعی حجت قرار دیتے ہوئے صف ۷ پر بھنگ تاڑی افیون کو ایصال ثواب کا مدارعلیہ قیاس فرمایاہے سوکون صاحب بصیرت مصنف کے اس خیال کو قیاس صحیح کا درجہ دینے کی ہمت کرے گا۔صفحہ ۷ پر مصنف رسالہ کا یہ گہربار فتویٰ موجود ہے۔
ظاہر ہے کہ اس طرح آج تک کوئی ثبوت اس فاتحہ مروجہ کانہیں مل سکا،لہٰذا یقیناً یہ طریقہ فاتحہ مروجہ کابدعت شرعیہ میں داخل ہے اورقطعاً ناجائز ہے۔
اب صفحہ ۸پرفاضل مصنف کایہ مہربان فتویٰ ملاحظہ فرمایئے ایسے فروعی اختلافات اوران سے متعلق اشتہارات من گھڑت بیانات سے دلچسپی لینا چھوڑ دیں۔
ہماری رائے یہ ہے کہ اختلافی مسائل کامعاملہ ان کے اور خدا کے حوالے کردینا چاہئے نہ کسی کو کرنے پرمجبور کیاجائے نہ چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔
ناظرین کرام !مقام عبرت ہے کہ کل بدعۃ ضلالۃ کے مطابق جن مصنف صاحب نے فاتحہ مروجہ کو قطعاً ناجائز فرمایاتھا ۔اب آپنے آخری فتویٰ میں وہی بزرگ کل بدعۃ ضلالۃ کے مطابق فاتحہ مروجہ کو اختلافی مسئلہ کہنے پر مجبور ہوگیے ہیں۔
ہمیں حیرت ہے کہ جب کل بدعۃ ضلالۃ کومٹانے اور اس سے یکلخت نفرت فرمانے کی بجائے مصنف اسے فروعی اختلاف اور اختلافی مسئلہ فرمارہے ہیں۔ آخربدعت شرعیہ سے اتنی ہمدردی کیوں؟۔
ناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ مصنف فاضل سارے چکر کاٹ کر آخر اسی نقطہ پر کس طرح آ پہنچے کہ فاتحہ کامعمول بہا طریقہ بدعت حسنہ ، سنت حسنہ میں امت کا اختلاف ثابت ہے جیسا کہ خود مصنف نے اپنے رسالے کے ص ۶ پر تراویح باجماعت میں امرحضرت عمر بیان کیا ہے۔
آخر میں ہم جمیع مسلمانوں کے لیےجناب باری تعالیٰ میں التجا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور حسنات میں ترقی کرنے کی ہمیں توفیق عطافرمائے۔ آمین۔

مولاناشاہ عبدالعزیز دہلوی کو گنگوہی نے تقیہ بازبتادیا
مولاناشاہ عبدالعزیز دہلوی کو گنگوہی نے تقیہ بازبتادیا
اور شاہ اسحاق دہلوی وہابی تھے اور گنگوہی صاحب کی گواہی
مفتی محبوب علی خان ممبئی کا فتوی
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ شاہ اسحاق صاحب دہلوی کس عقیدہ اور مذہب کے تھے۔ یعنی سنی تھے یاوہابی اور ان کے سلسلہ میں بیعت ہونااور بیعت کرنا جائز ہے یا نہیں۔؟
صوفی محمد علی قادری رضوی ڈھکنہ پوروہ کانپور)
الجواب:اللھم ھدایۃ الحق والصواب:
شاہ اسحاق دہلوی اور اسماعیل دہلوی مصنف تقویۃ الایمان وغیرہ دونوں ایک ہی خاندان اور ایک ہی عقیدے اور مذہب کے وہابی تھے۔ شاہ اسحاق کی وہابیت ان کی اربعین اور مائۃمسائل سے خوب ظاہر و روشن ہے۔ ان کی اربعین کاردبلیغ حضرت مولانا شاہ ابو سعید احمدنقشبندی دہلوی نے فرمایا۔ اس کتاب کا نام حق الیقین ہے اور مائۃ مسائل کاواضح اور صاف رد تصحیح مائۃ مسائل حضرت بابرکت مولاناشاہ فضل رسول صاحب قادری عثمانی بدایونی رحمت اللہ علیہ نے لکھا اور بمبئی سے شائع ہوا۔ توحضرات علمائے اہل سنت کثرہم اللہ تعالیٰ ویداہم نے اب سے بہت پہلے شاہ اسحاق دہلوی کی وہابیت کو ظاہر وآشکار فرمادیا اور ان کی تصانیف مبارکہ آج بھی مسلمانانِ اہل سنت کی رہبری فرمارہی ہیں۔ آج وہابیہ دیوبندیہ کی طاغوت اکبر جناب رشیداحمد گنگوہی کی زبان سے شاہ اسحٰق دہلوی کی وہابیت سنئے۔ یہ لیجئے دیوبندیوں کی کتاب تذکرۃ الرشیدحصہ دوم ص ۲۴۷ میں لکھا ہے کہ ایک دن مولانا ولایت حسین صاحب نے دریافت کیا، حضرت اس کی کیا وجہ ہے کہ شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو سب لوگ اچھاکہتے ہیں اور مانتے ہیں مگر اسی خاندان کے دوسرے حضرات کو برا کہتے ہیں، حضرت امام ربانی (رشید احمد گنگوہی) نے ارشاد فرمایا، میاںکہوں گا تمہیں بھی بری لگے گی اورمجھے بھی ۔
بات یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ پر بعض لوگوں کے اعتراضات تھے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب ان کو رفع کرنا چاہتے تھے اس وجہ سے بات لگا کر کہتے تھے ۔ایک مرتبہ شاہ صاحب سے واعظ کے بعد کسی شخص نے پوچھا ۔ حضرت بڑے پیر صاحب کا دوگانہ پڑھنا کیسا ہے۔؟
شاہ صاحب نے فرمایا بھای حدیث میں تو کہیں نہیں آیا ہے ۔ہاں فعل مشائخ ہے۔ میر محبوب علی صاحب وہاں موجود تھے کہنے لگے کہ حضرت! مسائل حدیث اور فعل مشائخ کونہیں پوچھتا وہ تو جواز اور عدم جواز دریافت کرتا ہے شاہ صاحب نے پھر وہی فرمایا ، اس پر میر محبوب علی صاحب وہاں موجود تھے ، کہنے لگے کہ حضرت! مسائل حدیث اور فعل مشائخ کو نہیں پوچھتاوہ توجواز اورعدم جواز دریافت کرتا ہے ، شاہ صاحب نے پھروہی فرمایا۔ اس پر میرمحبوب علی صاحب نے کہا صاف فرمادیجئے کہ جائز ہے یا ناجائز۔ تب تو سائل بھی کہنے لگا جی ہاں میری بھی یہی غرض ہے عبدالعزیز نے میر محبوب کو ڈانٹ کر کہا۔ تومجھے لوگوں سے گالیاں سنوانی چاہتا ہے ۔ ایک مرتبہ مااھل کا مسئلہ لکھا تھا تو اب تک گالیاں سن رہا ہوں۔ اس وقت میر محبوب علی صاحب نے سائل سے کہا ۔ سن لو حضرت اس نماز کو ناجائز فرمارہے ہیں۔ مگرگالیوں
کے ڈر سے صاف جواب نہیں دے سکتے۔ اس قصہ کے بعد حضرت امام ربانی (رشیداحمدگنگوہی)نے ارشاد فرمایا کہ بات لگاکرکہنے میں کوئی نفع نہیں ہوتا۔ بری چھوٹتی نہیں۔ شاہ اسحاق اور مولانا اسماعیل صاحب ان سب حضرات کا ایک ہی مشرب تھا مگر شاہ اسحاق صاحب نے شقوق نکال کر کہا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ مولوی اسماعیل نے صاف صاف منع کیا، بہیترے مان گیے۔
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
گنگوہی کی یہ گواہی ہے اور گنگوہی کے خلفا خلیل احمد اینبھٹوی ومحمود حسن دیوبندی و عاشق الٰہی میرٹھی وغیرہم کی تصدیق وتصحیح سے شائع ہوئی ہے۔
توثابت ہوا کہ دیوبندی اکابرواصاغر کے نزدیک بھی شاہ اسحاق دہلوی اور اسماعیل دہلوی دونوں ہم عقیدہ و ہم مذہب تھے۔ اور دونوں ہی وہابی تھے۔ لہٰذا جناب شاہ اسحاق کا سلسلہ ہی منقطع ہوا۔ مسلمانوں کو ان کے سلسلے میں بیعت ہونا اور بیعت کرنا ہرگزہرگز جائز نہیں بلکہ حرام ہے اور جو سنی مسلمان ناواقفیت سے ہوچکے انہیں جلد ازجلد اس سے علاحدہ ہونافرض ہے۔
قرآن عظیم فرماتا ہے ۔وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ۔ اور ارشاد فرماتا ہےوَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-اور حدیث شریف میں ہے ۔ ایاکم وایاھم ۔ تم ان سے دور رہو انہیں اپنے سے دور رکھو اور حدیث شریف میں ہے۔
ولاتصلو معھم۔ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو جب بدمذہبوں کے ساتھ پڑھنے سے منع فرمایاتوبدمذہب وبد دین وہابی کے سلسلے میں مرید ہونا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ اور یہ ثبوت توسارے کے سارے دیوبندیوں کو مسلم ومعتبر ہے توشاہ اسحاق دہلوی کی وہابیت اب برادرانِ اہل سنت کے علما اور وہابیوں دیوبندیوں کی وہابیت اب برادران اہل سنت کے علمااور وہابیوں دیوبندیوں کے زعما نے خوب واضح وآشکار کردی ۔
خدائے تعالیٰ مسلمانان اہل سنت کو ان بدمذہبوں بددینیوں سے دور رکھے ۔آمین۔
اب ہم سنی بھائیوں کویہ غور کرناہے کہ گنگوہی جی نے شاہ اسحاق کی وہابیت کی نقاب کشائی توکی حضرت شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی کو تقیہ باز ، عیار، مکار سب کچھ کہہ ڈالا اور محض بے ثبوت واقعہ گڑھ کراس سے یہ بھی ثابت ہواکہ دیوبندیوں کے بڑے بوڑھے شروع سے ہی جھوٹے واقعات بے بنیاد گڑھنے کی عادی ہیں۔ اسی طرح فسادی ملا بہرائچی نے ابلیس کی پیروی کرکے گڑھی مگرالحمدللہ کہ فقیرنے اس فسادی ملا کاوہ ردتبلیغ کردیا ہے کہ سارے دیوبندی دم بخود پڑے ہیں۔ جواب ندارد ہے۔ دیوبندیو! مسلمانوں کے جذبات ایمان واسلام سے مت کھیلو ورنہ تمہارے بڑوں پرکھوں پرانوں کے جو حالات وکیفیات وخرق عادات وخلاف فطرت وانسانیت تمہارے کتابوں میں جو بدمذہب دیوبندیوں سے جلد ازجلد دور والگ ہوجاؤ جودن رات برابر تمہارے بزرگوں اورپیشواؤں کی توہین وتنقیص کرتے رہتے ہیں۔
بہرحال شاہ اسحاق دہلوی اور اسماعیل دہلوی دونوں ایک ہی درجہ ایک ہی نمبر کے وہابی تھے ۔لہٰذا مسلمانوں کو ان دونوں اور دیوبندیوں سے دورونفور رہنا چاہئے۔
خدائے تعالیٰ توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین۔
اللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم۔
فقیر ابولظفر محب الرضا محمدمحبوب علی خان سنی قادری
برکاتی خطیب جامع مسجد مدنپورہ بمئے۔

مکروہاتِ وضو
مکروہاتِ وضو
وَمَكْرُوهُهُ: لَطْمُ الْوَجْهِ ،أَوْ غَيْرِهِ (بِالْمَاءِ) تَنْزِيهًا (درمختار)
اور مکروہ تنزیہی ہے، چہرہ وغیرہ پر پانی کوزور سے مارنا والتکیۃ والاسراف اور مکروہ ہے پانی میں کمی کرنا اورزیادتی کرنا ۔کمی کی صورت یہ ہے کہ اعضا کو دھونے میں تیل کی طرح پانی چپڑے بلکہ اچھی طرح اعضا پر تین بار پانی کو جاری کرے۔ ومنہ الزیادۃ علی الثلاثہ اور اسراف سے ہے ۔ تین بار سےزیادہ دھونا لیکن تسکین دل یا وضو پروضو کے قصد سے زیادتی درست ہے۔چنانچہ مذکور ہوچکا۔ اصل میں مذکور ہے۔
ادب یہ ہے کہ پانی میں اسراف نہ کرے اور کمی بھی نہ کرے۔ خلاصہ اس صورت میں یہ ہے کہ جب پانی کانہر ہو یا اپنی ملک کا ہو اگرایسے پانی سے وضو کرے جو طہارت کرنے والوں پر وقف ہوتو پانی صرف کرنے میں زیادتی اوراسراف کرنا حرام ہے۔ کسی کا اس میں اختلاف نہیں (بحرالرائق)
بخاری شریف اورمسلم شریف کی حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺایک مُد سے وضو فرماتے تھے اور ایک صاع سے غسل فرماتے تھے اور بعض روایات میں کم وبیش بھی آیا ہے۔ صاع چار مدکا ہوتا ہے اور مد دورتل کااور رتل بیس امتار کا اور ہرامتار ساڑھے چار مثقال کا ۔ اور مدااورمن شرعی ایک ہی چیز ہے۔
رسول اللہﷺ خود پانی وضوکاکم خرچ کرتے تھے اور بہت پانی خرچ کرنے سے منع فرماتے تھے۔اور فرماتے تھے میری امت میں وہ لوگ پیدا ہوں گے جو وضو کے پانی میں تعدی اور تجاوزحدسے کریں گے۔ یعنی زیادہ پانی وضو میں خرچ کریں گے ۔اور فرماتے تھے کہ وضو کاایک شیطان ہے ،اس کا نام ولہان ہے پانی کا وسوسہ اس سے ہوتا ہے۔متوضی کے دل میں زیادہ پانی خرچ کرنے کا وسوسہ ڈالتا ہے اس سے پرہیز کرو (شرح سفر السعادت) ۔
اور ہر مثقال ساڑھے چار ماشے کاہوتا ہے،تو مد اور من شہر لکھنو کے سیر کے حساب سے تخمیناً تین پاؤ پختہ ہوا۔اس واسطےکہ لکھنو کا پختہ سیرچھیانوے روپیہ ہے اور ہرروپیہ گیارہ ماشے کا ہے۔ صاع جس سے غسل سنت ہے تین سیر پختہ قدرے زائد ہوا ہم لوگوں کو عادت ہوگئی پانی زیادہ خرچ کرنے کی لہذا اکثر لوگ اس قدر پانی خرچ کرنے میں حیران ہوتے ہیں۔ اگر تنگ ٹوٹی
کے لوٹے سے باحتیاط وضو کریں اس طرح کہ بدن پرپانی گرے چند قطروں کے سوا زمین پر بے فائدہ نہ گرے تو تین پاؤ پانی سے بخوبی وضو ہو سکتا ہے ، اس کا ضرور اہتمام کرنا چاہئے کہ سنت پر عمل کرنے کا ثواب حاصل ہواوراسراف مکروہ سے پرہیز کریںاور ایک مدپانی کے مقدار سے کم نہ کریں(تبیین)
تَحْرِيمًا وَلَوْ بِمَاءِ النَّهْرِ، وَالْمَمْلُوكِ لَهُ (درمختار)
پانی میں اسراف مکروہ تحریمی ہے۔ اگر نہر کے پاس یا اپنے مملوک پانی سے وضو ہو۔
. أَمَّا الْمَوْقُوفُ عَلَى مَنْ يَتَطَهَّرُ بِهِ، وَمِنْهُ مَاءُ الْمَدَارِسِ، فَحَرَامٌ
(درالمختار)
اور وہ پانی جو طہارت کرنے والوں پروقف کیا گیا اوروقف کئے قسم سے ہے ، مدرسوں کا پانی تو اس میں اسراف کرنا حرام ہے( بالاتفاق)
وَتَثْلِيثُ الْمَسْحِ بِمَاءٍ جَدِيدٍ (درالمختار)ا ور مکروہ ہے تین بارمسح کرنا۔نئے تین پانیوں سے ۔وَمِنْ مَنْهِيَّاتِهِ: التَّوَضُّؤُ بِفَضْلِ مَاءِ الْمَرْأَةِ
اور وضو کرنا ، ممنوعات سے ہے اور مکروہ ہے ، عورت کے وضو یاغسل کے باقی بچے ہوئے پانی سے۔ اس واسطے کہ شاید اس سے مرد کو کچھ تلذذ حاصل ہو یا یہ وجہ ہے کہ اکثر عورتوں کو نجاست سے محافظت کم ہوتی ہے اورکراہیت تنزیہی پردلالت کرتا ہے (طحطاوی)۔
وَفِي مَوْضِعٍ نَجِسٍ؛ لِأَنَّ لِمَاءِ الْوُضُوءِ حُرْمَةً،(درالمختار)اور مکروہ ہے وضوکرناناپاک جگہ میں۔ اس لیے کہ وضو کے پانی کی کچھ عزت ہے اور یہ بھی وجہ ہے کہ وہاں نجاست کے چھینٹوں کے پڑنے کا خوف ہے (طحطاوی)
أَوْ فِي الْمَسْجِدِ، إلَّا فِي إنَاءٍ (درالمختار)
مکروہ ہے وضو کرنا مسجد کے اندر۔ مگر مسجد میں برتن کے اندر وضو کرنا جائز ہے، بشرطیکہ مستعمل پانی مسجد میں نہ گرے۔
أَوْ فِي مَوْضِعٍ أُعِدَّ لِذَلِكَ، (درالمختار)
وضو جائز ہے مسجد کے اس مکان میں جو وضو کرنے کو بنایا گیا ہے۔چنانچہ اس ملک میں مسجد کے لب فراش وضو کے واسطے بناتے ہیں۔
وَإِلْقَاءُ النُّخَامَةِ، وَالِامْتِخَاطُ فِي الْمَاءِ.(درالمختار)
مکروہ ہے تھوکنا ، جھاڑنا ۔ اگر چہ پانی جاری ہو یہ کراہت تنزیہی ہے۔ اس واسطے کہ ان کے ترک کرنے کو مستحبات میں شمار کیا ہے۔مسئلہ: مکروہ ہے بائیں ہاتھ سے کلی کرنااور ناک میں پانی ڈالنا۔ مسئلہ : مکروہ ہے داہنے ہاتھ سے ناک جھاڑنا بغیر عذر ( خزانۃ الفقہ) مسئلہ:اور مکروہ ہے کہ کسی ایک برتن کو وضو کے لیے خاص کرلے اس برتن سے سوا اس کے اور کوئی وضو نہ کرے جیسے یہ مکروہ ہے کہ مسجد میں کوئی جگہ اپنی نمازکے واسطے خاص کرے(وجیز)
مسئلہ: اورمکروہ ہے اعضا وضو سے لوٹے وغیرہ میں قطرہ ٹپکانا۔ مسئلہ اور مکروہ ہے قبلہ کی طرف تھوک یا کھنکار یا کلی کا پانی ڈالنا۔ مسئلہ:اور مکروہ ہے بے ضرورت دنیا کی باتیں کرنا۔ مسئلہ: اور مکروہ ہے اتنا پانی کم خرچ کرنا کہ سنت ادا نہ ہو۔ مسئلہ: اور مکروہ ہے ایک ہاتھ سے منہ دھونا کہ رفاض اور ہنود کا شعار ہے، مسئلہ:اورمکروہ ہے منہ پر ڈالتے وقت پھونکنا۔

وضوکے متفرق مسائل
وضوکے متفرق مسائل
اعلیٰ حضرت سیدمقبول احمدشاہ قادری فاضل کشمیری
مسئلہ اگروضونہ ہوتو نمازاورسجدہ تلاوت اورنماز جنازہ اور قرآن مجید کے چھونے کے لیے وضوکرنا فرض ہے ۔مسئلہ: طوف کے لیےوضوواجب ہے۔مسئلہ: غسل جنابت سے پہلے جنبی کو کھانے پینے اورسونے اور اذان واقامت وخطبہ جمعہ اور عیدین اور روضۂ مبارک حضرت رسول اللہ ﷺ کی زیارت اور وقوف عرفہ اور صفا مروہ کے درمیان سعی کے لیے وضو کرناسنت ہے۔ مسئلہ: سونے کے لیے اورسونے کے بعد میت کو نہلانے یا اٹھانے کے بعد عورت کے صحبت کرنے سے پہلے اورجب غصہ آجائے اس وقت اور قرآن عظیم پڑھنے کے لیے حدیث اورعلم دین پڑھنے پڑھانے کے لیےاورباقی خطبوں کے لیے اور کتب دینیہ چھونے کے لیے اوربعد سترغلیظ چھونے ، جھوٹ بولنے، گالی دینے اور فحش لفظ، غیبت کرنے کے بعد وضو کرنا مستحب ہے۔ صلیب یا بت اورکوئی سفید داغ والے کو چھونے کے بعد اور بغل کھجلانے سے جبکہ اس میں بدبو ہو غیبت کرنے کے بعد قہقہہ لگانے کے بعد لغو اشعار پڑھنے کے بعد، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد ،کسی عورت کے بدن سے اپنا بدن بے حائل چھونے کے بعد،
باوضو شخص کو ہرنماز کے لیے اورکافرکے بدن چھونے کے بعد،اگرچہ زبان سے کلمہ طیب پڑھتا ہواپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو جیسے قادیانی غلام احمدکے پیرو، (غلام احمد نے دعوی کیا کہ میں نبی اور رسول ہوں۔اپنی کتاب کو کتاب الٰہی کہلوایااورحضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی، ان کی تین دادیاں اور تین نانیاں زانیہ بتائی معاذاللہ۔اپنے آپ کو حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے بہتربتایا۔چنانچہ کہا کہ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمدہے۔ بہت سے انبیا کی پیشگوئیوں کو جھوٹی بتلایا۔ خاتم النبین میں استثنا کی وغیرہ ۔کفریات ملعونہ یا چکڑالوی یہ ایک نیا طائفہ ملعونہ حادث ہوا۔ نبی کریمﷺ کی پیروی سے منکرہے
تمام احادیث نبویہ کو باطل ناقابل اعتباربتاتا ہے۔ صرف قرآنِ عظیم کی اتباع کا دعویٰ کرتا ہے۔ ان خبیثوں نے اپنی نماز بھی علاحدہ گھڑ دی ہے جس میں ہروقت کی صرف دو ہی رکعتیں ہیں۔یانیچری یہ باطل طائفہ ضروریات دین کا منکر ہے قرآن عظیم کے معنی قطعیہ ضروریہ میں درپردہ تاویل وتحریف تبدیل کرتا۔ وجودملائکہ ، جن وشیاطین، آسمان وحشر،ابدان ونار و جنان ومعجزاتِ انبیاء علیہم السلام کے ان ہی ملعون تاویلوں کی آڑ میںانکار رکھتا ہے۔
یا آجکل کے تبرائی ورافضی یہ ملا عند صراحتاً قرآنِ عظیم کو ناقص بتاتے اورمولیٰ علی وجہہ الکریم کو اورائمہ اطہار کو انبیا و سابقین سے بہترٹھہراتے ہیں یاکذابی، یہ ملعون طائفہ اللہ تعالیٰ کو بالفعل جھوٹا بتاتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ وقع کذب کے معنی درست ہوگئے۔بہائی یہ گروہ لعین ہرپاگل اور چوپائے کے لیے علم غیب مان کرکہتا ہے کہ جیسا علم حضرت رسول اللہﷺ کوہے ایسا تو ہرپاگل اورجانور کو ہوتاہے ۔ اس شیطانی گروہ کے نزدیک ابلیس لعین کا علم رسول اللہ ﷺ کے وسعت علم کو باطل اور بے ثبوت مانتا ہےاور ان کے لیے وسعت علمی ماننے کو شرک بتاتا ہے۔ مگر ابلیس کی وسعت علم میں خدا کا شریک جانتا ہے ۔خواتمی یہ شقی گروہ رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم ہونے پرصاف منکر ہےاور خاتم النبین کے معنی میں تحریف کرتا ہے۔ بمعنیٰ آخرنبی لینے کو خیال جہال بتلاتا ہے یارسول اللہ ﷺکے چھ یا سات مثل موجود
مانتاہے۔غیرمقلد بدبخت طائفہ تقلید ائمہ اربعہ کو کفر وشرک بتاتاہے حالانکہ تقلید کرنے کا حکم اللہ اوررسول اللہ ﷺکا ہے۔اس طائفہ ملعونہ نے خدا اوررسولﷺ کو بھی کافرمشرک کہا ہے۔کیوںکہ کفروشرک کے لیے حکم دینا، کفروشرک پر راضی رہنا بھی کفرہے ۔ جھوٹے متصوف کے حلول واتحاد کے قائل شریعت مطہرہ کے صراحتاً منکر ومبطل ہیں۔ان دس طائفوں اور ان کے امثال سے مصافحہ کرنا تو خود ہی حرام قطعی گناہ کبیرہ ہے۔)اگر بلا قصد بھی ان کے بدن کو چھو جائے تووضو کا دوبارہ کرنا مستحب ہے۔مذکور بالا فریق منقول ہوئے۔ (از فتاوی رضویہ ) ان دس فریق میں سے یہ چار یعنی کذابی، بہائی، شیطانی خواتمی، دیوبندی، وہابیوں کے ہیں۔اگر کسی کو اس کی تفصیل دیکھنا منظور ہوتو حسام الحرمین دیکھ لیں جس کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے۔
مسئلہ جب وضو جاتارہے پھروضوکرنامستحب ہے۔ مسئلہ: نابالغ پروضوکرنا فرض نہیں۔ مگر ان سے وضوکرانا تاکہ عادت ہو اور وضو کرنا آجائے اور مسائل وضو سے آگاہ ہوجائے، مسئلہ:کوئی ٹوٹی (نل کی) نئے سے تنگ ہوکہ پانی بدقت گرے نہ اتنا فراخ کہ حاجت سے زیادہ پانی گرے بلکہ متوسط ہو۔ مسئلہ: چلو میں پانی لیتے وقت خیال رکھیں کہ پانی زیادہ نہ گرےکہ اسراف ہوگا مثلاً ناک میں پانی ڈالنے کے لیے آدھا چلوکافی ہے تو پورا چلو نہ لے کہ اسراف ہوگا، مثلاً ہاتھ، پاؤں، سینہ اور پشت پر بال ہوں تو ہرتال وغیرہ سےصاف کرڈالیں یاتراش ڈالیں نہیں توپانی زیادہ خرچ ہوگا۔

ایک جماعت محلہ کی مسجد میں جماعت اولیٰ ہوگئی بطریق مسنون دوبارہ اس میں جماعت ثانی کرنا
سوال
کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں علمائے دین کہ ایک جماعت محلہ کی مسجد میں جماعت اولیٰ ہوگئی بطریق مسنون دوبارہ اس میں جماعت ثانی کرناجائز ہے یانہیں۔؟
سیدآغامحمدولدسیدحاجی گل محمد ۔ بھنڈی واڑی بیس محلہ، ہبلی
الجواب:
روایت ہے ایک صاحب مسجد میں حاضرہوئے اس وقت کہ رسول اللہ ﷺنماز پڑھ چکے تھے ۔فرمایا ہے کوئی کہ اس پرصدقہ کرے یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے کہ اسے جماعت کاثواب مل جایے ایک صاحب یعنی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے ساتھ نمازپڑھی۔(ابوداؤدوترمذی)
مسئلہ ہئیت مسجدمحلہ میں جس کے لیے امام مقرر ہوامام محلہ نے اذان واقامت کے ساتھ اولیٰ پردوبارہ جماعت قائم کرنا مکروہ ہے اور اگر بے اذان جماعت ثانیہ ہوئی تو حرج نہیں جبکہ محراب سے ہٹ کردائیں بائین ہو، ہئیت بدلنے کے لیے امام کا محراب سے دائیں یا بائیں ہٹ کر کھڑا ہونا ۔ کافی ہے شارع عام کی مسجد جس میں لوگ جوق درجوق آتے اورپڑھ کر چلے جاتے ہیں یعنی اس کے نماز ی مقرر نہ ہوں اس میں اگرچہ اذاں واقامت کے ساتھ نماز قائم کی جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ یہی افضل ہے کہ جو گروہ آئے نئی اذان واقامت سے جماعت کرے یونہی اسٹیشن وسرائے کے مسجدمیں۔ (درالمختار، ردالمختار وغیرہما)
(اعلیٰ حضرت پیرسیدمقبول احمدشاہ قادری علیہ الرحمہ)

سب کفار جنت کو جائیں گے؟
سوال:انوٹی کےایک ماسٹر کا یہ اعتقاد ہے اور کہتا بھی یہی ہے کہ سب کفار جنت کو جائیں گے۔اس کے بارےمیں ازروئے شرع کیا حکم ہے۔؟
جواب: اس ماسٹر نے قرآن کو حدیث کو اور اجماع امت کا انکار کیا اللہ پاک نےارشاد فرمایاکہ کفار کے واسطے ہمیشہ جہنم ہے۔ اللہ پاک نے کافروں کو جنت کی بو بھی نہ ملے گی یہاں تک اونٹ سوئی کےسراخ میں سے نکل جائے۔سوئی کے سراخ میں سے اونٹ کانکلنا محال ہے۔کافروںکو جنت کی بوملنا بھی محال ہےاس کو تعلیق بالمحال کہتے ہیں۔
لہٰذا یہ ماسٹر (انوٹی کا)اسلام سے خارج ، کافر ہوا۔اس کے سارے عبادات اور اعمال صالحہ اکارت(ضائع) ہوگیے۔ اگر اس کو عورت ہے تو اس کا نکاح باطل ہوگیا۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کو توبہ واستغفار کرائیں اور دوبارہ نکاح پڑھائیں۔ اگر انکار کیا تو بہ کرنے سے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کے ساتھ کوئی تعلقِ خیر وشر نہ رکھیں۔سلام کلام ترک کردیں۔

مہر کتنا باندھنا چاہیے۔
سوال(الف) مہر کتنا باندھنا چاہیے۔ تفصیل سے لکھیں۔
(ب) دلہا دلہن کو بٹھا کر اجنبی مردوعورت مل کر ہنسی مسخرا کارسم ادا کرتے ہیں۔یہ کیاجائز ہے؟ عورت کوکونسے دھات کی زیور پہننا جائز ہے یا نہیں؟۔
جواب: (الف)مہر کی مقدار زیادہ مقرر نہیں۔ زیادتی کا حد مقرر نہیں۔اتنا باندھا جائے کہ شوہر اس کو ادا کر سکے ،کم مقدار دس درہم یعنی پونے تین روپیے ۔اگر اس سے کم باندھا جائے تو اس وقت مہر مثل دینا پڑتا ہے یعنی اس کی ماں یا بہنوں کی جو مہر مقرر ہے وہ دینا پڑتا ہے۔مہر جتنا بھی باندھا جائے خواہ دینے کی یا نہ دینے کی نیت کرے پردینا ہی پڑتا ہے۔
(ب) اجنبی مردوں کے سامنے عورتوں کا آنا اوردلہا اور دلہن کوبٹھاناان کے ساتھ ہنسی مسخرا کرناوغیرہ وغیرہ یہ سب ناجائز اور حرام ہے۔ یہ رسم ورواج ہندوستان میں ہندوؤں سے سیکھا ہے۔
(ج)دھاتوں میں سے کوئی دھات کا زیور پہننا جائز نہیں ،سوائے سونا چاندی کے۔
(د) پھولوں کا سہرا باندھنا جائز ہے جس میں تار وغیرہ کی قسم کے نہ ہوں مرد کو مہندی لگاناجائز نہیں۔ عورتوں کے واسطے جائز ہے۔

نماز عشا کے بعد فجرتک سامان کی حفاظت کے لیے مسجد کوتالا لگانا جائز ہے یانہیں
سوال: (۱) مسجد میں گھڑی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ زید اس کا رکھنا ناجائز سمجھتا ہے۔
(۲) نمازوں کے دوران میں اگر روشنی یکایک گل ہو جائےتو نماز کو جاری رکھنا کیسا ہے؟
(۳)نماز عشا کے بعد فجرتک سامان کی حفاظت کے لیے مسجد کوتالا لگانا جائز ہے یانہیں؟۔
(۴)مسجد میں بیٹھ کر دنیاوی باتیں کرنا جائز ہے یا نہیں؟
(۵)دو بے داڑھی اشخاص ایک مسجد میں امامت کرتے ہیں، ایک قانون قرات سے واقف ہے اوردوسرا ناواقف۔ان میں سے کس کو ترجیح دی جائے؟
(۶)اذان میں اشھدان محمدالرسول اللہ کے محمد ﷺکے دال اور رسول کے لام کو کیسا پڑھا جائے؟۔
جواب: (۱)
مسجد میں گھڑی رکھناجائز ہے تاکہ نمازوں اور افطار کا وقت معلوم ہوجائے۔ جماعت کے لیے لوگ وقت مقرر ہ پر حاضر ہوسکیں ۔حضور ﷺ کے زمانے میں مسجد کی چھت کھجور کی پتوں کی تھی یہاں تک کہ جب بارش آئی پانی اندگزرتا ہے اب زید کے نزدیک پختہ عمارت ناجائز ہے ۔ زید کو کہیں جھونپڑی میں بھیج دیں۔پختہ عمارتیں صحابہ و تابعین کے اتفاق سےبنائی گئ ۔مسجد کو منور کرنا زینت دینا وغیرہ بہت ہی بہتر ہے اس سے اسلام کی عظمت اور شان بڑھ جاتی ہے ۔جیسا کہ قرآن شریف کا موٹے موٹے حرفوں میں لکھنا اور سونے کے پانی سےزینت دینا بہت ہی بہتر ہے کیوں کہ اللہ کے کلام کی تعظیم ہے۔(یہ کتب فتاؤں میں موجود ہے)
(۲) بلاکراہت جائز ہے۔
(۳) جائز ہے۔
(۴) حدیث شریف میں آیا ہے کہ چالیس سال کی عبادت برباد ہوہوجاتی ہے اس سے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف باتیں کرنے کے لیے آتے ہیں نہ کہ عبادت کرنے کے لیے۔اسی لیے بہتر یہ ہے کہ جب کوئی مسجد کو نماز پڑھنے کے لیے آجائے تو مسجد میں داخل ہوتے ہی اعتکاف کی نیت کرے جب تک مسجد میں رہے اعتکاف کا ثواب پاتا رہے۔اگر کوئی مسجدمیں کوئی چیز کھائے یا دنیاوی باتیں کرنا سوناہرگزجائز نہیں۔
(۵) دونوں فاسق معلن ہیں ، اگر اس مقام پر سب کے سب فاسق ہیںتو ان فاسقوں میں سے اس کو امام بنائے جو علم رکھتا ہے۔باقی صالحین کو جو بے علم ہیں ان کی بھی نمازاس فاسق کے پیچھے جائز ہے۔ اگر جاننے والا صالح ہے تو اس کی نماز اس فاسق معلن کے پیچھے جائز نہیں مکروہ تحریمی ہے اگر پڑھ بھی لیا تو اس نماز کو دوبارہ پڑھ لینا واجب ہے۔
(۶) لفظ محمدﷺ کے دال کوزبراور رسول کے لام کو پیش سے پڑھیں۔
عجائب القرآن مع غرائب القرآن
Popular Tags
Islam
Khawab Ki Tabeer
خواب کی تعبیر
Masail-Fazail
waqiyat
جہنم میں لے جانے والے اعمال
AboutShaikhul
Naatiya Shayeri
Manqabati Shayeri
عجائب القرآن مع غرائب القرآن
آداب حج و عمرہ
islami Shadi
gharelu Ilaj
Quranic Wonders
Nisabunnahaw نصاب النحو
al rashaad
Aala Hazrat Imama Ahmed Raza ki Naatiya Shayeri
نِصَابُ الصرف
fikremaqbool
مُرقعِ انوار
Maqbooliyat
حدائق بخشش
بہشت کی کنجیاں (Bihisht ki Kunjiyan)
Taqdeesi Mazameen
Hamdiya Adbi Mazameen
Media
Zakat Zakawat
اِسلامی زندگی تالیف : حكیم الامت
اِسلامی زندگی تالیف : حكیم الامت
مفسرِ شہیر مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی
Mazameen
mazameenealahazrat
گھریلو علاج
شیخ الاسلام حیات و خدمات (سیریز۲)
نثرپارے(فداکے بکھرے اوراق)۔
Libarary
BooksOfShaikhulislam
Khasiyat e abwab us sarf
fatawa
مقبولیات
کتابُ الخیر خیروبرکت (منتخب سُورتیں، معمَسنون اَذکارواَدعیہ)
کتابُ الخیر خیروبرکت (منتخب سُورتیں، معمَسنون اَذکارواَدعیہ) محمد افروز قادری چریاکوٹی
News
مذہب اورفدؔا
صَحابیات اور عِشْقِ رَسول
about
نصاب التجوید مؤلف : مولانا محمد ہاشم خان العطاری المدنی
manaqib
Du’aas& Adhkaar
Kitab-ul-Khair
Some Key Surahs
naatiya adab
نعتیہ ادبی
Shayeri
آیاتِ قرآنی کے انوار
نصاب اصول حدیث مع افادات رضویّۃ (Nisab e Usool e Hadees Ma Ifadaat e Razawiya)
نعتیہ ادبی مضامین
غلام ربانی فدا شخص وشاعر
مضامین
Tabsare
تقدیسی شاعری
مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روشن فیصلے
مسائل و فضائل
app
books
تبصرہ
تحقیقی مضامین
شیخ الاسلام حیات وخدمات (سیریز1)
علامہ محمد افروز قادری چریاکوٹی
Hamd-Naat-Manaqib
tahreereAlaHazrat
hayatwokhidmat
اپنے لختِ جگر کے لیے
نقدونظر
ویڈیو
hamdiya Shayeri
photos
FamilyOfShaikhulislam
WrittenStuff
نثر
یادرفتگاں
Tafseer Ashrafi
Introduction
Family
Ghazal
Organization
ابدی زندگی اور اخروی حیات
عقائد
مرتضی مطہری
Gallery
صحرالہولہو
Beauty_and_Health_Tips
Naatiya Books
Sadqah-Fitr_Ke_Masail
نظم
Naat
Shaikh-Ul-Islam Trust
library
شاعری
Madani-Foundation-Hubli
audio
contact
mohaddise-azam-mission
video
افسانہ
حمدونعت
غزل
فوٹو
مناقب
میری کتابیں
کتابیں
Jamiya Nizamiya Hyderabad
Naatiya Adabi Mazameen
Qasaid
dars nizami
interview
انوَار سَاطعَہ-در بیان مولود و فاتحہ
غیرمسلم شعرا
نعت
Abu Sufyan ibn Harb - Warrior
Hazrat Syed Hamza Ashraf
Hegira
Jung-e-Badar Men Fateh Ka Elan
Khutbat-Bartaniae
Naatiya Magizine
Nazam
Shura
Victory
khutbat e bartania
نصاب المنطق
اِسلامی زندگی
عجائب القرآن مع غرائب القرآن
Khawab ki Tabeer
Most Popular
-
خلق افعال علامہ شیخ الاسلام امام انواراللہ فاروقی Download
-
سبق نمبر: (10) (۔۔۔۔۔۔باب تَفَعُّل کی خاصیات۔۔۔۔۔۔) اس باب کی خاصیات درج ذیل ہیں: (۱)تعمل(۲)موافقت(۳)ابتداء(۴)اتخا ذ(۵)سلب مأخذ (۶) تدریج ...
-
(۱)۔۔۔۔۔۔ اِفْتِعَالٌ: باب اِفْتِعَالٌ میں فاء کلمہ کے بعد تاء زائدہ ہوتی ہے۔جیسےاِجْتَنَبَ۔ بنانے کا طریقہ: ثلاثی مجرد کے ف...
-
نقشہ برائے ثلاثی مزید فیہ باہمزہ وصل ابواب ابواب خاصیات اِفْتِعَالٌ موافقت،مطاوعت،ابتداء،اتخاذ،تدریج،تعدیہ،تخییر،تحویل،تطلیہ، ...
-
سبق نمبر : (8) (۔۔۔۔۔۔باب تَفْعِیْل کی خاصیات۔۔۔۔۔۔) ...
-
مولاناشاہ عبدالعزیز دہلوی کو گنگوہی نے تقیہ بازبتادیا اور شاہ اسحاق دہلوی وہابی تھے اور گنگوہی صاحب کی گواہی مفتی محبوب علی خان ممبئی کا ...
-
حروف اصلیہ اور حروف زائدہ کے ا عتبار سے کلمہ کی چھ اقسا م ہیں: (۱)ثلاثی مجرد (۲)ثلاثی مزیدفیہ (۳) ربا عی مجرد (۴)رباعی مزیدفیہ ...
-
نکاح سے مال میں برکت کے متعلِّق احادیث ٭تم نکاح کے ذریعے رزق تلاش کرو۔ (2)٭عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس (اللّٰہ تعالیٰ کی طرف...
-
ثلاثی مزیدفیہ سے ناقص واوی وناقص یائی کے آٹھ ابواب استعمال ہوتے ہیں : (۱)اِفْعَالٌ (۲)تَفْعِیْلٌ (۳)مُفَاعَلَۃٌ (۴)تَفَعُّلٌ (...
-
Tehqeeqat Ishq By Makhdoom Ashraf Ashrafi Download Tehqeeqat ishq by on Scribd