سبق نمبر : (7)
ثلاثی مزید فیہ بے ہمزہ وصل کی خاصیات
(۔۔۔۔۔۔باب اِفْعَال کی خاصیات ۔۔۔۔۔۔)
اس باب میں درج ذیل خاصیات پائی جاتی ہیں:
(۱)تعمل (۲)موافقت(۳)ابتداء(۴)اتخاذ(۵)بلوغ(۶)سلب مأخذ (۷)قطع مأخذ(۸)اعطائے مأخذ (۹)تدریج(۱۰) صیر و ر ت(۱۱) تحول (۱۲)مبالغہ(۱۳)تعدیہ(۱۴)تصییر(۱۵)مطاوعت(۱۶)کثرت مأخذ (۱۷) الزام(۱۸) وجدا ن(۱۹) تعریض (۲۰)لیاقت (۲۱)حینونت (۲۲)تألم مأخذ (۲۳) ضرب مأخذ ۔
(1)۔۔۔۔۔۔ تَعَمُّلْ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
اَعْصَمَ زَیْدٌالْقِرْبَۃَ زید نے مشک کو رسی سے باندھا عِصَامٌ رسی جس سے کسی چیز کو باندھاجائے
اس مثال میں فاعل (زید) مأخذ( رسی )کو عمل میں لایا ۔
(2)۔۔۔۔۔۔موافقت:بابإِفْعَال درج ذیل ابوا ب کی موافقت کرتاہے:
۱۔موافقت سَمِعَ وَنَصَرَ: بابإفعال کا سمع ونصرکے ہم معنی ہونا، مثال: خَلَقَ وخَلِقَ الثَّوْبُ وَ أَخْلَقَ الثَّوْبُ : ( کپڑے بوسیدہ ہوگئے)۔ یہ تینوں ابواب ہم معنی ہیں۔
۲۔موافقت تَفْعِیْل: باب إفعال کا باب تفعیل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: أَبْکَرَ وَبَکَّرَ زَیْدٌ: ( زید صبح سویرے پہنچا)۔ دونوں ہم معنی ہیں۔
۳۔موافقت مُفَاعَلَۃ: باب إفعال کا باب مفاعلہ کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: أَخْزٰی زَیْدٌ وَ خَازٰی زَیْدٌ: (زید نے رسوا کیا)۔ دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۴۔موافقت تَفَعُّل: باب إفعال کا باب تفعل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: تَعَرّٰی بَکْرٌ وَ أَعْرٰی بَکْرٌ: ( بکر نے کپڑے اتارلیے)۔دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۵۔موافقت اِفْعِلاَ ل: باب إفعال کا باب افعلال کے ہم معنی ہونا۔جیسے: اِزْرَقَّتْ عَیْنُہ، وَ أَزْرَقَتْ عَیْنُہ، : ( اس کی آنکھ نیلگوں ہوئی) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۶۔موافقت اِنْفِعَال:باب إفعال کا باب انفعال کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: أَمْلَعَتِ النَّاقَۃُ وَ اِنْمَلَعَتِ النَّاقَۃُ: (اونٹنی تیز دوڑی) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۷۔موافقت اِسْتِفْعَال: باب إفعال کا باب استفعال کے ہم معنی ہونا۔جیسے: أَعْصَمَ زَیْدٌ وَ اِسْتَعْصَمَ زَیْدٌ: ( زید باز رہا) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۸۔موافقت تَفَاعُل:باب إفعال کا باب تفاعل کے ہم معنی ہونا۔جیسے: تَیَامَنَ زَیْدٌ وَ أَیْمَنَ زَیْدٌ: (زید ملک یمن گیا) دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۹۔موافقت اِفْعِیْعَال:باب إفعال کا باب افعیعال کے ہم معنی ہونا۔جیسے: أَخْلَقَ الثَّوْبُ وَ اِخْلَوْلَقَ الثَّوْبُ: ( کپڑے بوسید ہ ہوگئے) دونوں فعل ہم معنی
ہیں۔
(3)۔۔۔۔۔۔ ابتداء:ابتداء کی دو قسمیں ہیں:
۱۔کسی ایسے فعل کا باب إفعالسے استعمال ہونا جس کامجرد اصلا مستعمل نہ ہو۔ جیسے: أَرْقَلَ زَیْدٌ (زید نے جلدی کی)یہ أرقل ایسافعل ہے جس کا سرے سے مجرد ہی نہیں ہے۔
۲۔کسی ایسے فعل کا باب إفعال سے استعمال ہوناجس کا مجرد تو ہو مگر مجرد میں جو معنی ہے مزید فیہ میں آکروہ معنی باقی نہ رہے ۔ جیسے: أَشْفَقَ زَیْدٌ (زید ڈرا) مجرد میں یہ مادہ مہربانی وشفقت کے معنی میں آتا ہے ڈرنے کے معنی میں نہیں آتا، حالانکہ باب إفعال میں یہی مادہ ڈرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
نوٹ:
أَفْعَلَ دعا کے معنی میں بھی آیا ہے۔جیسے: أَسْقَیْتُہ:اَیْ دَعَوْتُ لہ بِا لسُّقْیَا یعنی (میں نے اسے سَقَاکَ اللہُ یا سُقْیا لک کی دعا دی)۔ دعا کے باب میں اکثر فَعَّلَ مستعمل ہے۔جیسے: جَدَّعَہ وعَقَّرَہ:اَیْ:قَالَ جَدَّعَہ اللہُ وعَقَّرَہ یعنی (اللہ اسے تباہ وبرباد کرے )اور اسی معنی میں باب إفعال داخل ہے لیکن واضح رہے کہ تمام معانی میں نقل کو دخل ہے عقل کو نہیں۔مذکورہ معانی کے علاوہ أَفْعَلَ دیگر معانی میں بھی مستعمل ہے لیکن مذکورہ معانی کے ضوابط کی طرح انکا کوئی ضابطہ نہیں ۔جیسے:أَبْصَرَہ:أَیْ رآہ (اس نے اسے دیکھا) أَوْ عَزْتُ إلیہ :أَیْ تَقَدَّمْت(ُ میں اسکی طرف بڑھا )۔ (شرح شافیہ ابن حاجب)
(4)۔۔۔۔۔۔ اِتِّخَاذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
اَقْبَرَ عَمْرٌو عمرو نے قبر بنائی قَبْرٌ قبر جس میں مردہ کو دفن کیاجاتاہے۔
اس مثال میں فاعل (عمرو) نے مأخذ (قبر) کو بنایا ہے۔
(5)۔۔۔۔۔۔ بُلُوْغ: اس کی درج ذیل تین صورتیں ہیں:
۱۔بلوغِ مکانی: فاعل کا مأخذ کی جگہ میں داخل ہونا۔
۲۔بلوغِ زمانی: فاعل کا مأخذ کے وقت پہنچنا۔
۳۔بلوغِ عددی: فاعل کا مأخذ کے مرتبے تک پہنچنا۔
صورت مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
بلوغِ مکانی أَعْرَقَ زَیْدٌ زید عراق میں داخل ہوا عراق شہر عراق
بلوغِ زمانی أَصْبَحَ زَیْدٌ ز ید صبح کے وقت پہنچا صُبْحٌ صبح کاوقت
بلوغِ عددی أَعْشَرَتِ الدَّنَانِیْرُ دینار دس تک پہنچ گئے عَشَرَۃٌ دس
(6)۔۔۔۔۔۔ سَلبِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
أَعْرَبَ زَیْدُنِ الْکَلاَمَ زیدنے کلام کے فسادکودور کرکے اسے واضح کیا عَرَبٌ فساد
اس مثال میں فاعل (زید)نے مأخذ( فساد)کودور کردیا۔ ''جامی'' میں لکھا ہے کہ مُعْرَبْ یا تو عَرِبَتْ مِعْدَتُہ سے ماخوذ ہے تو اس صورت میں باب إفعال کا ہمزہ سلب کیلئے ہوگااور اسکا معنی ہوگا اِزَالَۃُ الْفَسَادِ، فساد دور کرنا
(یعنی ثلاثی مجرد میں اسکا معنی تھا معدے کا فاسد یا خراب ہونا ہونا کَمَا یُقَالُ عَرِبَتْ مِعْدَتُہ اور مزید فیہ میں معنی ہوگا معدے سے فساد کو دورکرنا)،ایسے ہی لفظِ مُعْجَم جو کہ أَعْجَمَ سے بنا ہے اسمیں بھی ہمزہ سلب کا ہے کہ ثلاثی مجرد میں اسکا معنی ہے پوشیدہ ہونا اور مزید فیہ میں اسکا معنی ہے پوشیدگی دور کرنااورمُعْجَم کو مُعْجَم اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس میں الفاظ سے پوشیدگی دورکرکے انکی وضاحت کی جاتی ہے ۔(سِرُّالصناعۃ،المعاجم اللغویۃ)
(7)۔۔۔۔۔۔ قَطْعِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
أَزْرَعَ عَمْروٌ عمرو نے کھیتی کاٹی زَرْعٌ کھیتی
اس مثال میں فاعل (عمرو) نے مأخذ( کھیتی) کو کاٹا ۔
(8)۔۔۔۔۔۔اعطائے مأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
أَفْطَرَ زَیْدٌ عَمْرواً زید نے عمرو کو ناشتہ دیا فُطُوْرٌ ناشتہ /صبح کاکھانا
اس مثال میں (زید)فاعل نے (عمرو) مفعول کو مأخذ( ناشتہ) دیا
(9)۔۔۔۔۔۔تدریج: جیسے:أَدْیَفَہ، بَکْرٌ( بکر آہستہ آہستہ چلایا)۔
اس مثال میں فاعل(بکر) نے چلانے /چیخنے کاکام آہستہ کیا۔
(10)۔۔۔۔۔۔صَیْرُوْرَتْ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
أَخْشَفَتِ الظَّبْیَۃُ ہرنی بچے والی ہوگئی خَشْفٌ ہرن کابچہ
اس مثال میں فاعل( ہرن ) مأخذ (بچہ والی) ہوگئی ۔
شرح شافیہ ابن حاجب میں ہے:
یَجِئُی أَفعلَ بِمعنی حَانَ وقتٌ یَسْتَحِقُّ فِیہ فاعلُ أفعلَ أن یُوْقَعَ علیہ أصلُ الفعلِ، کَاَئحْصَدَ: أی حَانَ أن یُحْصَدَ، فَقَالَ المصنفُ: ہو فی الحقیقۃِ بمعنی صَارَ ذَا کذا، أی: صَارَ الزَّرْعُ ذَا حصادٍ، وذلک بِحَیْنُوْنَۃِ حَصَادِہ، ونحوہ أجَدَّ النَّخْلُ وأقْطَعَ۔ ویَجوزُ أن یکونَ أَلامَ مثلہ: أی حَانَ أن یُلامَ ومن ہذ النوعِ۔ أی:صیرورتہ ذا کذا۔ دخولُ الفاعل فی الوقتِ المُشْتَقِّ منہ أفعلَ، نحو أصبحَ وأمسی وأفجرَ وأشہرَ: أی دَخَلَ فی الصباحِ والمساءِ والفجرِ والشہرِ، وکذا منہ دخولُ الفاعلِ فی وقتٍ ما اشْتَقَّ منہ أَفْعلَ، نحو أَشْمَلنَا وأَجْنَبْنا وأَصْبَیْنَا وأَدْبَرْنا: أی دَخَلْنَا فی أوقاتِ ہذہِ الرِّیَاحِ ۔
یعنی باب إفعال کا ایک خاصہ صیرورت ہے یعنی افعل کے فاعل میں ایسے وقت کا استحقاق (یعنی ثبوت)ہو کہ ا س پر اصل فعل کا وقوع ہو۔ جیسے: اَئ حْصَد(َکھیتی کاٹنے کا وقت آگیا )۔علامہ ابن حاجب نے کہا کہ اس معنی میں (کہ وہ چیز ایسی ہو گئی)استعمال حقیقت ہے یعنی کھیت کاٹنے والا ہو گیا اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب کٹائی کا وقت ہو اور ایسے ہی اَجَدَّ النَّخْلُ وَ اَقْطَعَ (کھجوریں کاٹنے کا وقت آگیا) ہیں،اسی کی مثل أَلامَ کہنا بھی جائز ہے یعنی (ملامت کرنے کا وقت آگیا )۔
صیرورت کی ایک قسم یہ ہے کہ فاعل کا خاص ایسے وقت میں داخل ہونا جس سے اَفْعَلُ کا صیغہ مشتق ہے۔جیسے:أَصْبَحَ وأَمْسٰی وأَفْجَرَ وأَشْہَرَ (یعنی وہ صبح ،شام،وقتِ فجراور ماہ میں داخل ہوا )۔
اسکے علاوہ ایک صورت یہ ہے کہ فاعل کا کسی بھی ایسے وقت میں داخل ہونا جس سے اَفْعَلُ کاصیغہ مشتق ہے۔جیسے:اَئشْمَلْنَا(شمال کی ہوا کے وقت میں ہم داخل ہوئے)واَئجْنَبْنَا (جنوب کی ہوا کے وقت میں ہم داخل ہوئے)واَئصْبَیْنَا (صبا کی ہوا کے وقت میں ہم داخل ہوئے)واَئدْبَرْنَا(دبور کی ہوا کے وقت میں ہم داخل ہوئے)۔
(11)۔۔۔۔۔۔ تَحَوُّلْ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
اَشْمَلَتِ الرِّیْحُ ہو ا عین شمالی ہوگئی شِمَالٌ جہت شمال
اس مثال میں فاعل (الریح) عین مأخذ( شمال والی) ہوگئی ۔
(12)۔۔۔۔۔۔ مبالغہ: اس کی بھی دو صورتیں بنتی ہیں:
۱۔مقدار میں کثرت کو بیان کرنا۔ ۲۔کیفیت میں زیادتی بیان کرنا۔
صورت مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
اول أَثْمَرَ النَّخْلُ کھجور کے درخت میں بہت پھل لگا ثَمَرٌ پھل
ثانی أَسْفَرَا لصُّبْحُ صبح خوب روشن ہوگئی اُسْفُوْرٌ روشنی
ان مثالو ں میں سے پہلی میں کھجوروں کی مقدار کی کثرت بیان کی گئی ہے ،جبکہ دوسری مثال میں صبح کے اجالے کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔
(13)۔۔۔۔۔۔تَعْدِیَہ: تعدیہ کا معنی ہے لازم کو متعدی کرنا۔
نوٹ: لازم کو متعدی کرنے کا معنی یہ ہے کہ وہ فعل جو مجرد میں مفعول کا تقاضا نہیں کرتاتھا مزید فیہ میںآکر وہ مفعول کاتقاضاکرنے لگے اور مزید فیہ میں تعدیہ کی تین صورتیں بنتی ہیں: ۔
۱۔جو فعل مجرد میں لازم ہو وہ مزید فیہ میں متعدی بیک مفعول ہو جائے گا۔ مثال خَرَجَ زَیْدٌمجرد ہے اور فعل لازم ہے۔جب مزید فیہ میں تبدیل ہوگا تو باب إفعال میں جاکر متعدی بن جائے گاتو أَخْرَجَ زَیْدٌ عَمْرًوا ،زید نے عمرو کونکالاہو جائے گا۔
۲۔اگر کوئی فعل مجرد میں متعدی بیک مفعول ہو تو مزید فیہ میں متعدی بدو مفعول ہو جائے گا۔ مثال: حَفَرَ زَیْدٌ نَہْراً سے أَحْفَرْ تُ زَیْداً نَہْراً ہو جائے گا۔یعنی میں نے زید سے نہر کھودوائی ۔
۳۔اگر کوئی فعل مجرد میں متعدی بدو مفعول ہو تو مزید فیہ میں متعدی بسہ مفعول ہو جائے گا۔ مثال: مجرد میں عَلِمَ متعدی بدو مفعول ہے ۔جیسے: عَلِمْتُ زَیْدًا فَاضِلاً،مزید فیہ میں متعدی بسہ مفعول ہوجائے گا۔ جیسے: أَعْلَمْتُہ، زَیْدًا فَاضِلاً۔
(14)۔۔۔۔۔۔ تَصْیِیر:
مثال معنی مأخذ مدلو لِ مأخذ
ـ اَخْرَجَ زَیْدٌعَمْروًا زید نے عمرو کو نکالا خُرُوْجٌ نکلنا
اس مثال میں فاعل (زید) نے مفعول عمرو کو مأخذ (خُرُوج) والا بنادیا اور اس کو نکال دیا ۔اس طرح تصییری معنی یہ ہوں گے کہ جَعَلَ
زَیْدٌ عَمْروًا ذَاخُرُوْجٍ، (زید نے عمرو کو صاحبِ خروج بنا دیا)۔
نوٹ: تعدیہ وتصییر کے درمیان عام خاص من وجہ کی نسبت ہے ان میں ایک مادہ اجتماعی اور دو مادے افتراقی ہوتے ہیں۔
۱۔اجتماعی مادہ کی مثال:
(جس میں تعدیہ وتصییردونوں پائے جائیں) جیسے: أَخْرَجَ زَیْدٌ عَمْروًا۔ اس میں تعدیہ والا معنی یوں ہے کہ یہ مجرد میں لازم (خَرَجَ) تھا مزید فیہ میں آکر متعدی بن گیا، خَرَجَ سے أَخْرَجَ ہوگیا۔اَخْرَجَ زَیْدٌ عَمْروًا۔ تصییر والا معنی یوں ہے :جَعَلَ زَیْدٌ عَمْروًا ذَاخُرُوْجٍ( زید نے عمرو کو نکلنے والا بنادیا)۔
افتراقی مادہ کی پہلی مثال :
جس میں فقط تعدیہ ہو ،جیسے: أَبْصَرْتُہ، : (میں نے اسے دیکھا)۔ اس میں تصییر والا معنی نہیں بناسکتے، یعنی جَعَلْتُہ، ذَا بَصِیْرَۃٍ نہیں کہہ سکتے اور جَعَلْتُہ، بَاصِرًا بھی نہیں کہہ سکتے۔
افتراقی مادہ کی دوسری مثال:
جس میں فقط تصییرہو۔ جیسے: اَنَزْتَ الثَّوْبَ:( تونے کپڑے کو نقش والا بنادیا)۔اس مثال میں تعدیہ نہیں پایاجارہا بلکہ اس کامعنی ہوگاجَعَلْتَ الثَّوْبَ ذَانِیْزٍ(تو نے کپڑے کونقش ونگار والا کردیا)۔اور یہ تصییر ی معنی ہے ۔
(15)۔۔۔۔۔۔ضَرْبِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
اَمْتَنَ زَیْدٌ خَالِداً زید نے خالد کو پیٹھ پر مارا مَتَنٌ پیٹھ
اس مثال میں فاعل (زید) نے مفعول(خالد) کو مأخذ (پیٹھ )پر مارا (16)۔۔۔۔۔۔تَألمِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اَرْئٰ زَیْدٌ زید پھیپھڑے میں درد رکھنے والاہوا رِئَۃٌ پھیپھڑا
اس مثال میں مأخذ (پھیپھڑا) زید کی تکلیف کامحل بن رہاہے
(17)۔۔۔۔۔۔إِلْزَام:کسی فعل کو متعدی سے لازم کرنا۔ جیسے: أَحْمَدَ زَیْدٌ( زید قابل حمد ہوا)۔حالانکہ مجرد میں یہی فعل حَمِدَازباب سَمِعَ متعدی ہے،جیسے: حَمِدْتُ اللٰہَ (میں نے اللہ کی حمد کی) لیکن باب إفعال پرچڑھانے سے لازم ہوگیااور یہ اس کاخاصہ ہے۔
(18)۔۔۔۔۔۔ وِجْدَان:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
أَبْخَلَ بَکْرٌ خَالِداً بکر نے خالد کو بخل سے متصف پایا بُخْلٌ کنجوسی
اس مثال میں فاعل( بکر) نے مفعول (خالد)کو مأخذ( بخل) سے موصوف پایاہے ۔
(19)۔۔۔۔۔۔ تَعْرِیْض:اس کالغوی معنی ہے پیش کرنااوراصطلاحی طور پر فاعل کا مفعول کو مأخذ کے مدلول کی جگہ لے جاناتعریض کہلاتاہے۔
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
أَبَاعَ بَکْرٌ بَقَرَۃً بکر گائے کو منڈی لے گیا بَیْعٌ بیچنا
اس مثال میں فاعل (بکر) مفعول (بقرۃ) کو مأخذ( بیچنے کی جگہ جو کہ منڈی ہے) وہاں لے گیا اور اسی کو تعریض کہتے ہیں۔
(20)۔۔۔۔۔۔لِیَاقَت:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
أَمْرَطَ الشَّعْرُ بال نوچنے کے قابل ہوگئے مَرَطٌ نوچنا
اس مثال میں فاعل(الشعر) مأخذ ( نوچنے )کے قابل ہوگئے ۔
(21)۔۔۔۔۔۔ حَیْنُوْنَتْ:
مثال معنی مأخذ مدلولِ مأخذ
أَحْصَدَ الزَّرْعُ کھیتی کاٹنے کے وقت کو پہنچ گئی حَصَادٌ کھیتی کاٹنا
اس مثال میں فاعل( اَلزَّرْع) مأخذ (کٹائی) کے وقت کو پہنچ گئی ۔
(22)۔۔۔۔۔۔مطاوعت تَفْعِیْل: باب تفعیل کے بعد باب افعال کا اس غرض سے آنا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ پہلے فعل کے فاعل نے اپنے مفعول پر جو اثر کیا تھامفعول نے اس اثر کو قبول کرلیاہے۔جیسے: بَشَّرْتُہ، فَأَبْشَرَ،( میں نے اسے خوش کیا تو وہ خوش ہوگیا)۔ متکلم نے مفعول کو خوشخبری سنائی تو اسے خوشی ہوئی یعنی اس نے خوشی والا اثر قبول کرلیا۔
(23)۔۔۔۔۔۔کَثْرَتِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
أَبْعَضَ الْبَیْتُ گھر زیادہ مچھروں والا ہوگیا بَعُوْضَۃٌ مچھر
مذکورہ مثال میں گھر میں مأخذ (مچھر)کی کثرت ہوگئی۔
نوٹ:
ثلاثی مزید فیہ کے افعال ان ابواب سے آتے ہیں جن کا ثلاثی مجرد بھی ہومگر کبھی اسکا برعکس بھی ہوتا ہے۔جیسے:أَلْجَمَ،أَسْحَمَ،جَلَّدَ، قَرَّدَ، اِسْتَحْجَرَالمَکانُ،اِسْتَنْوَقَ الْجَمَلُ ثانی الذکر صورت اول کے مقابلہ میں بہت کم ہے ۔ (شرح شافیہ ابن حاجب)
0 Comments: