سبق نمبر : (12)
(۔۔۔۔۔۔باب اِفْتِعَال کی خاصیات۔۔۔۔۔۔)
اس با ب میں درج ذیل خاصیات پائی جاتی ہیں:
(۱)موافقت(۲)مطاوعت(۳) اتخاذ(۴)ابتداء (۵) تدریج(۶) تعدیہ (۷) تخییر (۸) تحویل (۹) تطلیہ (۱۰) تصرف(۱۱)حسبان(۱۲)سلبِ مأخذ (۱۳)طلبِ مأخذ(۱۴)اخراجِ مأخذ(۱۵)لبسِ مأخذ۔
(۱)۔۔۔۔۔۔موافقت:با ب افتعال درج ذیل ابواب کی موافقت کرتاہے :
۱۔ موافقت نَصَرَ:با ب افتعال کا نصر کے ہم معنی ہونا۔جیسے: خَزَنَ عَمْروٌ وَاِخْتَزَنَ عَمْرٌو: عمرو نے مال جمع کیا۔ دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۲۔موافقت تَفَعُّل: با ب افتعال کابا ب تفعل کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: تَخَشَّبَ زَیْدٌ السَّیْفَ وَ اخْتَشَبَ زَیْدٌ السَّیْفَ : زید نے تلوار کو لکڑی جیسا بنا دیا دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۳۔ موافقت اِسْتِفْعَال:با ب افتعال کا با ب استفعال کے ہم معنی ہونا۔جیسے: اِغْتَشَّ وَلِیْدٌ ب کراً اور اِسْتَغَشَّ وَلِیْدٌ عَمْرواً: ولید نے عمرو کو خائن گمان کیا دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مطاوعت تَفْعِیْل:با ب افتعال کابا ب تفعیل کے بعد اس غرض سے آنا تاکہ معلوم ہو کہ پہلے فعل کے فاعل نے اپنے مفعول پر جو اثر کیاتھا ،مفعول نے اس اثر کو قبول کرلیاہے۔جیسے: غَمَّمْتُ عَمْروًا فَاغْتَمَّ: میں
نے عمرو کو غمگین کیا تو وہ غمگین ہوگیا۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ اتخاذ: اس کی چار صورتیں بنتی ہیں:
۱۔فاعل کا مأخذ کو بنانا۔
۲۔فاعل کا مفعول کو مأخذ بنانا۔
۳۔فاعل کا مفعول کو مأخذ میں لینا یا پکڑنا۔
۴۔فاعل کا مأخذ کو اختیار کرنا یا پکڑنا۔
صورت مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اول اِحْتَجَرَ زُہَیْرٌ زہیر نے حجرہ بنایا حجر کمرہ
ثانی اِغْتَذٰی الْاَسَدُ الْغَزَالَ شیر نے ہرن کو غذا بنالیا غذو غذا
ثالث اِعْتَضَدَ الْاَبُ الْوَلَدَ باپ نے بچے کو بازو میں پکڑا/لیا عضد بازو
رابع اِجْتَنَبَ عَمْرٌو عمرونے کنارہ پکڑا جنب کنارہ
٭۔۔۔۔۔۔پہلی مثال میں فاعل( زہیر) نے مأخذ(کمرہ) کو بنایا۔
٭۔۔۔۔۔۔دوسری مثال میں فاعل (الاسد)نے مفعول( الغزال)کو مأخذ (غذا) بنالیا۔
٭۔۔۔۔۔۔تیسری مثال میں فاعل (الاب) نے مفعول( الولد) کو مأخذ (بازو) میں پکڑ لیا۔
٭۔۔۔۔۔۔چوتھی مثال میں فاعل (عمرو) نے مأخذ (کنارہ) کو اختیار کیا۔ اور یہ چاروں چیزیں اتخاذ میں شامل ہیں۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ ابتداء: جیسے: اِسْتَلَمَ زَیْدٌ : زید نے پتھر کو بوسہ دیا۔ اس مثال میں اِسْتَلَمَ فعل بوسہ کے معنی میں آیاہے اور مجر د میں یہ مادہ سلامتی کے معنی میں استعمال ہوتاہے نہ کہ بوسہ دینے کے معنی میں۔اوراسی کوابتداء کانام دیاجاتا ہے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔تدریج:جیسے: اِفْتَضَّ عَمْرٌو: عمرو نے پانی آہستہ آہستہ گرایا۔اس مثال میں فاعل( عمرو) نے افتضاض کاعمل آہستہ آہستہ کیاہے ،اسی کو تدریج کہتے ہیں۔
(۶)۔۔۔۔۔۔ تعدیہ:جیسے: خَذَمَ الشَّیْئُ: شے کٹ گئی سے اِخْتَذَمَ زَیْدٌ الْجِلْدَ،زید نے چمڑے کو کاٹ دیا۔اس مثال میں فعل( خذم) مجرد میں لازم تھا کہ باب افتعال میں آنے کے بعد متعدی ہوگیا۔
(۷)۔۔۔۔۔۔تخییر: جیسے: اِطَّبَخَ تِلْمِیْذٌ: شاگرد نے اپنے لیے پکایا۔اس مثال میں فاعل( تلمیذ) نے پکانے کاکام اپنے لئے اختیارکیاہے ۔
(۸)۔۔۔۔۔۔تحویل:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِخْتَشَبَ زَیْدٌ السَّیْفَ زید نے تلوار کو لکڑی جیسا بنادیا خَشَبٌ لکڑی
اس مثال میں فاعل( زید)نے مفعول (السیف)کو مأخذ( لکڑی) جیسا بنا دیا ۔
(۹)۔۔۔۔۔۔تطلیہ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِغْتَمَرَ زَیْدٌ زید نے اپنے جسم پر زعفران ملا غُمْرٌ زعفران
اس مثال میں فاعل (زید)نے مأخذ( زعفران) کو اپنے جسم پر ملا ۔
(۱۰)۔۔۔۔۔۔ تصرف: جیسے: اِکْتَسَبَ یُوْسُفُ: یوسف نے کمائی میں محنت وکوشش کی۔
اس مثال میں فاعل(زید)نے کسب یعنی کمانے کے کام میں کوشش اور جد وجہد کی،اسے تصرف کہتے ہیں۔
(۱۱)۔۔۔۔۔۔حسبان:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِغْتَشَّ الْمَلِکُ وَزِیْراً بادشاہ نے وزیر کو خائن گمان کیا غَشٌّ خیانت/دھوکہ
اس مثال میں فاعل( الملک)نے مفعول (وزیر) کو مأخذ (خیانت) سے موصوف گمان کیا۔
نوٹ:یاد رہے کہ یہ حسبان (گمان کرنا) اِغْتَشَّ کے لغوی معنی کے علاوہ اور معنی ہے۔
(۱۲)۔۔۔۔۔۔ سلب مأخذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِمْتَخَطَ بَکْرٌ بکر نے رینٹھ دور کردی مُخَاطٌ رینٹھ
اس مثال میں فاعل (بکر) نے مأخذ (مخاط) کو دور کردیا۔
(۱۳)۔۔۔۔۔۔ طلب مأخذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِرْتَزَقَ الرَّجُلُ مرد نے رزق طلب کیا رِزْقٌ رزق
اس مثال میں فاعل( الرجل) نے مأخذ جو کہ رزق ہے اس کو طلب کیا ہے ۔
(۱۴)۔۔۔۔۔۔ اخراج مأخذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِمْتَخَّ وَسِیْمٌ الْعَظْمَ وسیم نے ہڈی سے گودا نکالا مُخٌّ گودا
اس مثال میں فاعل (وسیم)نے مفعول (العظم) سے مأخذ (گودا) نکال دیا ۔
(۱۵)۔۔۔۔۔۔ لبس مأخذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
اِرْتَعَثَتِ الْجَارِیَۃُ لڑکی نے بالی پہنی رَعْثَۃٌ بالی
اس مثال میں فاعل (الجاریۃ) نے مأخذ( بالی) پہنی ۔
0 Comments: