ہجرت کی رات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دولت خانہ سے نکل کر مقام ''حزورہ''کے پاس کھڑے ہو گئے اور بڑی حسرت کے ساتھ ''کعبہ مکرمہ''کو دیکھااور فرمایا کہ اے شہر مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا اور کسی جگہ سکونت پذیر نہ ہوتا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے ہی قرار داد ہوچکی تھی، وہ بھی اسی جگہ آگئے اور اس خیال سے کہ کفار ہمارے قدموں کے نشان سے ہمارا راستہ پہچان کر ہمارا پیچھا نہ کریں پھر یہ بھی دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے نازک زخمی ہو گئے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو اپنے کندھوں پر سوار کرلیا اور اس طرح خار دار جھاڑیوں اور نوک دار پتھروں والی پہاڑیوں کو روندتے ہوئے اسی رات غارِ ثور پہنچے۔
(مدارج النبوۃ، بحث ''غارِ ثور'' ج۲، ص ۵۸)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے خود غار میں داخل ہوئے اور اچھی طرح غار کی صفائی کی اور اپنے کپڑوں کو پھاڑ پھاڑ کر غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غار کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سوراخ کو اپنی ایڑی سے بند کررکھا تھا سوراخ کے اندر سے ایک سانپ نے بار بار یارِ غار کے پاؤں میں کاٹا۔ مگر جاں نثار نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب ِ راحت میں خلل نہ پڑجائے۔ مگر درد کی شدت سے یارِ غار کے آنسوؤں کی دھار کے چند قطرات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر نثار ہو گئے۔ جس سے رحمتِ عالم بیدار ہو گئے اور اپنے یارِ غار کو روتا دیکھ کر بے قرار ہو گئے۔ پوچھا ابوبکر کیا ہوا؟ عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم پر اپنا لعاب ِ دہن لگا دیا، جس سے فوراً ہی سارا درد جاتا رہا اور زخم بھی اچھا ہو گیا۔ تین رات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اس غار میں رونق افروز رہے۔ کفار مکہ نے آپ کی تلاش میں مکّہ کا چپہ چپہ چھان مارا۔ یہاں تک کہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار ثور تک پہنچ گئے مگر غار کے منہ پر حفاظتِ خداوندی کا پہرہ لگا ہوا تھا۔ یعنی غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور کنارے پر کبوتری نے انڈے دے
رکھے تھے یہ منظر دیکھ کر کفار آپس میں کہنے لگے کہ اگر اس غار میں کوئی انسان موجود ہوتا تو نہ مکڑی جالا تنتی، نہ کبوتری یہاں انڈے دیتی۔ کفار کی آہٹ پا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ گھبرا گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اب ہمارے دشمن اس قدر قریب آگئے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں پر نظر ڈالیں گے تو ہم کو دیکھ لیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا
مت گھبراؤ، خدا ہمارے ساتھ ہے۔( پ10،التوبہ:40 )
پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر سکینہ اتر پڑا کہ وہ بالکل ہی مطمئن اور بے خوف ہو گئے اور چوتھے دن یکم ربیع الاول دو شنبہ کے روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غار سے باہر تشریف لائے اور مدینہ منورہ کو روانہ ہو گئے۔ اس غار ِ ثور کے واقعہ کو قرآن مجید نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے:۔
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثْنَیۡنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ؕ وَکَلِمَۃُ اللہِ ہِیَ الْعُلْیَا ؕ وَاللہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿40﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھیں اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ10،التوبہ:40)
درسِ ہدایت:۔ یہ آیت اور غارِ ثور کا واقعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت اور ان کی محبت و جاں نثاریئ رسول کا وہ نشانِ اعظم ہے جو قیامت تک آفتاب ِ عالمتاب کی طرح درخشاں اور روشن رہے گا۔ کیوں نہ ہو کہ پروردگار نے انہیں اپنے رسول کے ''یارِ غار'' ہونے کی سند مستند قرآن میں دے دی ہے جو کبھی ہرگز ہرگز نہیں مٹ سکتی ہے۔
سبحان اللہ! حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ وہ فضل و شرف ہے جو نہ کسی کو ملا ہے نہ کسی کو ملے گا۔
مرتبہ حضرت صدیق کا ہو کس سے بیاں
ہر فضیلت کے وہ جامع ہیں نبوت کے سوا
0 Comments: