منافقین کو یہ تو جراء ت ہوتی نہ تھی کہ علانیہ اسلام کی مخالفت کرتے۔ مگر وہ لوگ درپردہ اسلام کی بیخ کنی میں ہمیشہ مصروف رہتے اور اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ مسلمانوں میں اختلاف اور پھوٹ ڈال کر اسلام کو نقصان پہنچائیں۔ چنانچہ اس مقصد کی تکمیل کے لئے جہاں ان بے ایمانوں نے دوسری بہت سی فتنہ سامانیاں برپا کررکھی تھیں، ان میں سے ایک واقعہ رجب ۹ھ میں بھی رونما ہوا جو درحقیقت نہایت ہی خطرناک سازش تھی۔ مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے منافقین کی اس خوفناک مہم سے بذریعہ وحی آگاہ فرمادیا اور دشمنانِ اسلام کی ساری اسکیموں پر پانی پھر گیا۔
اس کا واقعہ یہ ہے کہ رجب ۹ ھ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ ''تبوک''کے میدان میں جو مدینہ منورہ سے چودہ منزل پر دمشق کے راستہ پر واقع ہے۔ ''ہرقل''شاہِ روم مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے لشکر جمع کررہا ہے آپ نے عرب میں سخت گرمی اور قحط کے باوجود جہاد کے لئے اعلان فرما دیا اور مسلمان جوق در جوق شوقِ جہاد میں مدینہ کے اندر جمع ہونے لگے۔
ابھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تیاریوں ہی میں مصروف تھے کہ منافقین نے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ مسجد ''قبا''کے مقابلہ میں اس حیلہ سے ایک مسجد تیار کریں کہ جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے مسجد نبوی میں نہ جا سکیں وہ لوگ یہاں نماز پڑھ لیا کریں اور منافقوں کا خاص مقصد یہ تھا کہ اس مسجد کو اسلام کی تخریب کاری کے لئے اڈہ بنا کر اور اس میں جمع ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے اور اسکیمیں بناتے رہیں اور شاہ ِ روم کی خفیہ امدادوں اور اسلحہ وغیرہ کے ذخیروں کا اس مسجد کو مرکز بنائیں اور یہیں سے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا جال پورے عالم اسلام میں بچھاتے رہیں ۔یہ سوچ کر منافقین خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے ضعیفوں اور کمزوروں کے لئے قریب میں ہی ایک مسجد بنائی ہے اب ہماری تمنا ہے کہ حضور وہاں چل کر اس میں نماز پڑھ دیں تو وہ مسجد عنداللہ مقبول ہوجائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت تو میں ایک بہت ہی اہم جہاد کے لئے مدینہ سے باہر جا رہا ہوں، واپسی پر دیکھا جائے گا۔
مگر جب آپ بخیریت اور فتح و کامرانی کے ساتھ مدینہ واپس تشریف لائے تو وحی الٰہی کے ذریعہ اس مسجد کی تعمیر کا حقیقی سبب آپ کو معلوم ہوچکا تھا اور منافقین کی خفیہ اور خطرناک سازش بے نقاب ہوچکی تھی۔ چنانچہ آپ نے مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے یہ کام کیاکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت کو یہ حکم دے کر وہاں بھیجا کہ وہ وہاں جائیں اور اس مسجد کو آگ لگا کر خاک سیاہ کردیں۔
چونکہ اس مسجد کی بنیاد حقیقتاً تقویٰ اور للہیت کی جگہ تفریق بین المسلمین اور تخریب اسلام پر رکھی گئی تھی اس لئے بلاشبہ وہ اس کی مستحق تھی کہ اس کو جلا کر برباد کردیا جائے اور درحقیقت اس تخریب کاری کے اڈہ کو مسجد کہنا حقیقت کے خلاف تھا اس لئے قرآن مجید نے اس حقیقتِ حال کو ظاہر کرتے ہوئے اعلان فرما دیا کہ یہ مسجدِ تقویٰ نہیں بلکہ ''مسجد ضرار''کہلانے کی مستحق ہے
ملاحظہ فرمایئے اس مسجد کے بارے میں قرآن مجید کے غضب ناک تیور اور پرُجلال الفاظ:
وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیۡقًۢا بَیۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبْلُ ؕ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰی ؕ وَاللہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿107﴾لَاتَقُمْ فِیۡہِ اَبَدًا ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِیۡہِ ؕ فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا ؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیۡنَ ﴿108﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کو اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے ہم نے تو بھلائی چاہی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا بیشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔(پ11،التوبۃ:107)
درسِ ہدایت:۔ایک ہی عمل،عمل کرنے والے کی نیت کے فرق سے اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی، طیب بھی بن سکتا ہے اور خبیث بھی۔
مسجد کی تعمیر ایک عمل خیر ہے مگر جب ''لوجہ اللہ'' کی نیت ہو تو ثواب ہی ثواب ہے اور اگر ''شرو فساد'' کی نیت ہو تو عذاب ہی عذاب ہے۔ مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر مقبول بارگاہِ الٰہی اور باعث ِ ثواب ہوئی۔ کیونکہ ان دونوں مسجدوں کے بنانے والوں کی نیت خدا کی رضا اور ان د؛ونوں مسجدوں کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی اور منافقوں کی بنائی ہوئی مسجد مردود بارگاہ ِ الٰہی ہو گئی اور سراسر باعث ِ عذاب بن گئی کیونکہ اس مسجد کو تعمیر کرنے والوں کی نیت رضائے الٰہی نہیں تھی اور اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ ان لوگوں کی غرض فاسد تخریب ِ اسلام اور تفریق بین المسلمین تھی، تو یہ مسجد قطعاً غیر مقبول ہو گئی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسجد میں قدم رکھنے کی بھی ممانعت فرما دی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مسجد کو نہ صرف ویران فرما دیا بلکہ اس کو جلا کر نیست و نابود کرڈالا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی اگر کسی مسجد کو گمراہ فرقوں والے اہل حق کے خلاف کمین گاہ اور جاسوسی کا مرکز بنا کر اہل حق کے خلاف فتنہ پردازیاں کرنے لگیں تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس مسجد میں نماز کے لئے نہ جائیں بلکہ اس کا بائیکاٹ کر کے اس کو ویران کردیں ۔اور ہرگز ہرگز نہ اس مسجد میں نماز پڑھیں، نہ اس کی تعمیر و آبادکاری میں کوئی امداد و تعاون کریں۔
یا پھر تمام مسلمان مل کر گمراہ فرقوں کو اس مسجد سے بے دخل کردیں اور اس مسجد کو اپنے قبضے میں لے کر گمراہ کا تسلط ختم کر دیں تاکہ ان لوگوں کے شر و فساد اور فتنہ انگیزیوں سے مسجد ہمیشہ کے لئے پاک ہوجائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: