دونوں ہاتھ سونے کی اشرفیوں سے بھر گئے:
حضرتِ سیِّدُنا عثمان جرجانی قُدِّسَ سِرُّہ، النُّوْرَانِی فرماتے ہیں :''میں ایک دن بصرہ جانے کے لئے کوفہ سے نکلا توراستے میں ایک خاتون پرمیری نظر پڑی،اس نے اون کا جبہ پہنا اوربالوں کادوپٹہ اوڑھا ہواتھااور وہ چلتے ہوئے کہہ رہی تھی :''ا ے میرے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ! اس کی منزل کتنی دور ہے جس کا راہنمانہیں۔ اوراس کا راستہ کتنا وحشت ناک ہے جس کا ہم سفر نہیں۔ '' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''میں نے قریب جا کراسے سلام کیا ۔اس نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے، آپ کون ہیں؟''میں نے اپنا نام بتایاتو کہنے لگی :''اے عثمان!اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی عمر دراز فرمائے ، کہاں کا ارادہ ہے؟'' میں نے کہا: ''بصرہ کا۔'' پوچھنے لگی:''کس کام کی غرض سے ؟ ''میں نے جواب دیا:''اپنی کسی حاجت کے لئے۔''
یہ سن کر وہ کہنے لگی :'' آپ تمام حاجات پوری کرنے والے کو حاجت کیوں نہیں بتاتے کہ وہ آپ کی طرف توجہ فرمائے اور آپ کو اتنی مشقت نہ جھیلنی پڑے؟'' میں نے کہا:''مجھے ابھی اس کی معرفت حاصل نہیں ہوئی۔''اس نے کہا:'' حصولِ معرفت میں کون سی چیزرکاوٹ ہے؟''میں نے جواب دیا:'' گناہوں کی کثرت ۔'' اس نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!یہ بہت بری بات ہے، گناہ نہ کیاکرو۔ اگر آپ اپنی رسی کو اس کی رسی سے مضبوط باندھ دیں تو وہ آپ کی حاجت پوری فرما دے گا اور آپ کو کوئی مشقت بھی نہ اٹھانی پڑے گی ۔''اس عورت کی یہ بات سن کر مجھے رونا آ گیا۔پھر میں نے اس سے دعا کی درخواست کی تو اس نے دعا دی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی اطاعت کرنے اور نافرمانی سے بچنے پر آپ کی مدد فرمائے ۔ جب میں لوٹنے لگاتو اپنی جیب سے درہم نکال کر آدھے اس کو دیئے اور کہا:'' یہ رکھ لیں، آپ کے کام آئیں گے۔''اس نے پوچھا: ''یہ آپ نے کہاں سے حاصل کئے ہیں؟'' میں نے بتایا:''میں پہاڑ پر چڑھ کر وہاں سے لکڑیوں کا گٹھااکٹھا کرتا ہوں پھر اس کو اپنی گردن پر اٹھا کر مسلمانوں کے بازار میں فروخت کرتااور اس کے بدلے رقم لے لیتا ہوں ۔''اس عورت نے کہا: ''ہاں!یہ حلال کی کمائی ہے اور انسان جو اپنے ہاتھ سے کماتا ہے اسے کھانا حلال ہے، لیکن اے عثمان !اگر آپ صحیح معنوں میں اپنے پالنے والے ربّ ِذوالجلال عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کریں اور اسی پر کامل بھروسہ کریں تو پہاڑوں کی بلندی سے لکڑیوں کا گٹھا اُٹھانے کی زحمت نہ کرنا پڑے گی۔''میں نے کہا: ''پھر تو میرے لئے رزق کاکوئی ظاہری سبب باقی نہ رہے گا،میں کہاں سے کھاؤں گااور کہاں سے پیؤں گا؟''اس نے کہا:''اے عثمان !کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو یہ دکھاؤں کہ میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے کیسا معاملہ اوراس پرکیسا بھروسہ کیا ہے ؟ ' '
میں نے کہا:''کیوں نہیں، ضرور دکھائیں۔'' چنانچہ، اس عورت نے اپنے ہاتھ بڑھا کر ہونٹوں کو ابھی جنبش دینا ہی چاہی تھی کہ اس کے دونوں ہاتھ سونے کی اشرفیوں سے بھر گئے ۔پھر اس نے کہا:''اے عثمان !یہ لیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! یہ سونے کی اشرفیاں ایسی ہیں کہ ان پر کسی بادشاہ و سلطان کا نام منقّش(یعنی لکھا ہوا) نہیں اور یاد رکھیں کہ اگر آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے محبت کریں گے تو وہ آپ کو تمام مخلوق سے بے نیاز کردے گااور صرف وہی آپ کے لئے کافی ہو گا۔''
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ!ان لوگوں کی کیا شان ہے جو راتوں کو جاگ کر سخت تاریکی میں اپنے محبوب سے مناجات کرتے ، کثرت سے عبادت کرتے ہیں،یقینا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے کلا م میں انہی لوگوں کی مدح کی ہے:
(6) اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ
ترجمۂ کنزالایمان:بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں۔(۱)(پ22،الاحزاب :35)
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کا شان نزول بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ''اسماء بنتِ عمیس جب اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ سے واپس آئیں تو ازواجِ نبئ کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے مِل کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا عورتوں کے باب میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: '' نہیں۔'' تو اسماء نے حضور سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے عرض کیا کہ '' حضور! عورتیں بڑے ٹوٹے میں ہیں۔''فرمایا: '' کیوں؟'' عرض کیا کہ '' ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہوتا ہی نہیں، جیسا کہ مردوں کا ہوتا ہے۔'' اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ان کے دس مراتب مردوں کے ساتھ ذکر کئے گئے اور اُن کے ساتھ اِن کی مدح فرمائی گئی اور مراتِب میں سے پہلا مرتبہ اسلام ہے جو خدا اور رسول کی فرمانبرداری ہے۔ دُوسرا ایمان کہ وہ اعتقادِ صحیح اور ظاہر و باطن کا موافق ہونا ہے۔ تیسرا مرتبہ قنوت یعنی طاعت ہے۔''
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کا شان نزول بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ''اسماء بنتِ عمیس جب اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ سے واپس آئیں تو ازواجِ نبئ کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے مِل کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا عورتوں کے باب میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: '' نہیں۔'' تو اسماء نے حضور سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے عرض کیا کہ '' حضور! عورتیں بڑے ٹوٹے میں ہیں۔''فرمایا: '' کیوں؟'' عرض کیا کہ '' ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہوتا ہی نہیں، جیسا کہ مردوں کا ہوتا ہے۔'' اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ان کے دس مراتب مردوں کے ساتھ ذکر کئے گئے اور اُن کے ساتھ اِن کی مدح فرمائی گئی اور مراتِب میں سے پہلا مرتبہ اسلام ہے جو خدا اور رسول کی فرمانبرداری ہے۔ دُوسرا ایمان کہ وہ اعتقادِ صحیح اور ظاہر و باطن کا موافق ہونا ہے۔ تیسرا مرتبہ قنوت یعنی طاعت ہے۔''
0 Comments: