ظالم آقا کے ہاتھ شل ہو گئے :
منقول ہے،''بصرہ میں اسماء نامی ایک عبادت گزار کنیز رہتی تھی۔ بہت حسن وجمال، شیریں زبان اور خوبصورت آنکھوں والی تھی۔ اس کا آقا بھی خوشحال اور صاحب ِ اقتدار تھا۔ایک دن اس کاحضرتِ سیِّدُنا صالح مری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے اجتماع سے گزر ہوا۔ اس وقت آپ لوگوں کو وعظ و نصیحت کر رہے تھے، وہ وعظ سننے والی عورتوں کی جانب جا کر کھڑی ہو کر وعظ سننے لگی۔آپ
قیامت اور جہنم کی ہولناکیوں اور جہنمیوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تیار کی ہوئی خوف ناک سزاؤں، زنجیروں اورطوق وغیرہ کا ذکر کر رہے تھے۔اس کنیز نے مردوں ، عورتوں کو آپ کے بیان کے سبب گریہ وزاری کرتے ہوئے دیکھا تواس کے دل میں رقّت پیدا ہو گئی، اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے،آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اس کی بے قراری و اضطراب میں اضافہ ہو تاچلا گیا۔
جب حضرتِ سیِّدُناصالح مری علیہ رحمۃ اللہ القوی اس کی طرف متوجہ ہوئے اوراس کوآنسو بہاتے دیکھا تولوگوں سے پوچھا: ''یہ کون ہے؟ '' بتایا گیا: '' یہ اسماء ہے۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا چہرۂ انور اس کی طرف کیا اور اپنے وعظ کے تیراس کے دل
میں پیوست کرنے کے ارادے سے کہا:''اے اپنی نرم آواز سے چیخنے والی! میں دیکھتا ہوں کہ تو قیامت سے خوف زدہ ہے گویاتو اپنے کسی عظیم جرم کا اعتراف کر رہی ہے اوراس کے سبب خوف میں مبتلا ہے۔ تو نے کراماً کاتبین اورمحافظ فرشتوں کوکئی سال زحمت دی۔کبھی کبھی گناہوں میں راتیں گزار دیں۔کتنے نوجوانوں کو تونے اپنی لچک دار آواز سے ذلیل و خوار کیا۔اپنے حسن وجمال سے کتنوں کو فتنے میں ڈالا۔ اور کتنوں کوبرے کام میں رات بھر بیدار اور انہیں رب عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت او ر نماز سے غافل رکھا۔ محافظ فرشتے تیرے برے اعمال پرگواہ ہوں گے۔تیرے گناہوں سے وہ بھی پناہ مانگتے ہوں گے۔قیامت کی رسوائی سے پہلے ہی جلدی سے توبہ کرلے اور پل صراط سے پاؤں پھسلنے سے قبل ہی اپنے اندر خوفِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ پیداکرلے۔مصائب ِ آخرت یاد کر کے اپنے آپ پر کچھ آنسو بہالے، تجھے تسبیح اورودعا بہت ضروری ہے۔''اس باندی نے جواب میں کہا:''اے صالح! ماضی میں مَیں جہالت وغفلت کی شکاراور اپنی اصلاح سے بے خبرتھی۔مجھے کہاں خبر تھی کہ میرے ساتھ یہ ہوگا۔ بلکہ میراآقا تو چاہتاہے کہ میں عرصۂ دراز تک گاتی رہوں لیکن اب میں اپنے پچھلے گناہوں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرتی ہوں اور عہد کرتی ہوں کہ اب کبھی بھی گانا نہ گاؤں گی۔''
حضرتِ سیِّدُناصالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:''اے اسماء! یاد رکھ جوگانوں کی آواز بلند کرتا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی پرڈٹا رہتاہے ،اس کا ٹھکانہ وہ سیاہ آگ ہے جو طاقتور وتوانا جسموں کوبھی پگھلاکررکھ دے گی۔ اور ذِلت ورسوئی اس کا مقدر بن جائے گی ۔''پھر اس باندی نے پکار کر کہا:''اے صالح !پوشیدگی چھٹ گئی۔باطل کاخاتمہ ہوگیااور حق ظاہر ہو گیا اور وفا نے قربت سے نوازا ہے۔'' یہ کہہ کر وہ اپنے گھر چلی گئی،اپنے آقا کے ایک غلام سے کہا:''اے غلام! تم جانتے ہو کہ میں تم پر کتنی شفیق ہوں ،تو تم میرے معاملے کو چھپائے رکھنا۔یہ میرے کپڑے تم لے لو اور اپناجبہ مجھ دے دواور سنو! میرا یہ راز کسی سے مت کہنا۔''پھر اس باندی نے اپنا لباس اُتارکرغلام کاجبہ پہن لیااوراپنے بال کاٹ کر آقا کے گھر میں ہی کسی خفیہ مقام پر جا چھپی۔ ساری ساری رات عبادت کرتی، ساراسارادن روزے سے رہتی، سحری کے وقت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ واستغفار کرتی، گریہ وزاری کرتی اور خوب گڑگڑاتی۔اس کا آقا اس کی جدائی پر غمگین ہونے کی وجہ سے اس کی تلاش میں کئی جگہوں کی خاک چھانتا رہا۔پھر جب وہ زرد رُو اور دبلی پتلی ہو گئی تو اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوئی ،روزوں اور راتوں کے قیام کی کثرت نے اسے کمزور کردیاتھا، وجد و عشقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے اس کا حسن مانند پڑگیاتھا۔اس نے آقا کو سلام کیا، سلام کا جواب دینے کے بعد آقا نے پوچھا:''تم کون ہو؟''اس نے جواب دیا:''میں آپ کے دل کا چین و سکون آپ کی باندی اسماء ہوں۔'' آقا نے دریافت کیا: ''تمہاری یہ حالت کیسے ہو گئی؟'' اس نے بتایا:''نافرمانیوں کی نحوست، جہنم اور اس کی ہولناکیوں کے خوف نے میرایہ حال کردیا ہے۔''آقا نے کہا:''اگر تواس سے باز نہ آئی اور اپنے کپڑے پہن کر خود کو نہ سنوارااور اپنے نفس پر سختیاں کرنا ترک نہ کیں
تومیں تجھے باندھ کر سخت سزا دوں گا۔''باندی نے جواب دیا: ''آپ کی سزا تو ختم ہو جائے گی لیکن میرے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب کبھی ختم ہونے والا نہیں، تواب جو آ پ کے دل میں آئے کریں۔''
یہ بات سن کر آقا نے اپنے غلاموں کوحکم دیا کہ اس باندی کو باندھ کر کوڑوں سے مارو،باندی نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر پکارا: ''اے عظمت والے آقا عَزَّوَجَلَّ !اے وہ ذات جس کے لئے اسماء حسنیٰ ہیں!اے میرے اس آقا کے بھی مالک ومولیٰ عَزَّ وَ جَلَّ! میری مدد فرمااوراے ہلاک ہونے والوں کو پناہ دینے والے! اے غم زدوں کی پوشیدہ اور اعلانیہ مدد فرمانے والے! مجھے اپنی پناہ عطا فرما۔''جب اس کے آقا نے مارنے کے لئے کوڑا اٹھایا تواس کے ہاتھ شل ہو گئے اور اس نے محسوس کیا کہ کسی نے پیچھے سے اس کو کھینچا ہے لیکن جب پیچھے دیکھاتو کوئی دکھائی نہ دیا۔ پھر اچانک ایک آواز آئی:''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ولیہ کو چھوڑ دے ۔''یہ سن کر وہ دھڑام سے زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا،اوراس کے ہاتھوں سے خو ن بہنے لگا، اس کی باندی اسماء کھڑی ہوئی اور اس کے ہاتھ سے خون صاف کرتے ہوئے کہنے لگی:''اے مسکین شخص! اپنے گناہوں اور خطاؤں سے توبہ کرکے اپنے مالکِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت اختیار کر لے۔'' جب افاقہ ہوا تو اس نے باندی سے کہا:''اے نفس کو مارنے والی ! مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اس مقام پرپہنچ گئی ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اب میں تمہارے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کروں گا بلکہ تمہارا رفیق بن کر ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔''پھر وہ دونوں اکٹھے اطاعت و عبادت میں مشغول ہو گئے اور اپنا مال و دولت ترک کرکے بخوشی قناعت اختیار کر لی۔''
اے میرے اسلامی بھائیو! جب عورتوں نے مردوں کی طرح اعمالِ صالحہ اختیار کئے اور انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے درِ رحمت کا قصد کیا ، ان سے اعمالِ صالحہ ظاہر ہوئے تو ان کے احوال اچھے ہوگئے، و ہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو گئیں، اے اپنے اعمالِ قبیحہ پر اصرار کرنے والے اور کثرتِ غفلت کے سبب توبہ میں ٹال مٹول کرنے والے! تو کس طرف جارہاہے؟
0 Comments: