عشقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں دیوانی:
حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ''ایک رات مجھ پر رقّت طاری ہو ئی تو میں غمگین ہو گیا،آنکھ بھی نہیں لگ رہی تھی، میں نے اپنے دل میں سوچا کیوں نہ میں قبرستان جاؤں، ممکن ہے زیارتِ قبور،یومِ آخرت اور دوبارہ زندہ اٹھائے جانے کے متعلق غور وفکر سے میرا غم زائل ہو جائے۔ چنانچہ، میں قبرستان چلاگیا،لیکن وہاں بھی میں نے اپنے دل کو کشادہ نہیں پایا تو پھر میں نے سوچا کہ بازار چلتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ لوگوں سے مل جل کر میں اپنی بے قراری دور کر سکوں۔چنانچہ، میں نے ایسا ہی کیا،پھر بھی میرے دل کی تنگی دور نہ ہوئی ۔پھر مجھے پاگل خانے کا خیال آیاکہ مجنون اور پاگل لوگوں اور ان کے افعال کو دیکھ کر
شاید میرے دل کی گھٹن ختم ہو جائے۔ وہا ں داخل ہوتے ہی میں نے اپنے دل سے غم کو دور ہوتا ہوا محسوس کیا۔ میں بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَ جَلَّ میں عرض گزار ہوا:'' یااللہ عَزَّوَجَلَّ!یہاں آنے کے لئے تونے مجھے چلایااور بیدار کیا۔''تو مجھے ایک آواز آئی: ''یہاں ہم تمہیں اپنی حکمت کے تحت لائے ہیں ۔' ' حضرتِ سیِّدُنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں پاگلوں کی طرف بڑھا تو ایک زرد رُو باندی پر میری نظر پڑی، اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور و ہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر میں مشغول تھی پھر میں نے سنا کہ وہ اس مفہوم کے چند اشعار پڑھ رہی تھی:
''میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ طلب کرتی ہوں کہ بغیر کسی جرم کے میرے ہاتھ گردن کے ساتھ باندھ دیئے گئے ہيں حالانکہ نہ تو میں نے خیانت کی اور نہ ہی چوری ۔میرے سینے میں بھی ایک دل ہے جسے میں جلتا ہوا محسوس کرتی ہوں۔ اے میرے دل کی آرزو! تو یقینا حق پر ہے۔ اگر میں نے تجھے پورا نہ کیا تو محض اپنی گفتگو سے تجھے دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے۔''
حضرت سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں نے پاگلوں کے قریب کھڑے ہوئے لوگوں سے پوچھا :'' اسے کیا ہوا؟'' تو انہوں نے جواب دیا:''اس کی عقل زائل ہو چکی ہے، اس لئے اس کے آقا نے اسے قید کر دیا ہے ۔''جب باندی نے ان کی یہ بات سنی تو گہری سانس لیتے ہوئے کچھ اشعار پڑھنے لگی، جن کا مفہوم یہ ہے:
''اے لوگو!میں نے کوئی جرم نہیں کیا ،بلکہ میں تو دیوانی ہوں اور میرا دل ہی میرا محبوب دوست ہے اور تم نے میرے ہاتھ باندھ رکھے ہیں، حالانکہ میں نے سوائے محبت کے کوئی جرم نہیں کیا،میں تو اپنے محبوب کی محبت میں فنا ہوں اوراس کے درسے ہٹنے والی نہیں ، تم جو کچھ میرے لئے بہتر سمجھتے ہو وہ میرے لئے بر اہے اور جو میرے لئے برا سمجھتے ہووہ میرے لئے بہتر ہے ۔''
حضرتِ سیِّدُنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' اس کا یہ کلام سن کرمیں رونے لگا،میرادل بے قرار ہوگیا،جب اس نے میرے چہرے پر آنسو بہتے ہوئے دیکھے تو کہنے لگی:''اے سری! اوصافِ الٰہیہ عَزَّوَجَلَّ سن کر آپ کا یہ حال ہوگیا تو اگر آپ کو اس کا کماحقُّہ عرفان حاصل ہو جائے تو پھر آپ کا کیا حال ہوگا؟'' میں نے کہا:''تعجب ہے مجھے یہ باندی کیسے پہچانتی ہے ؟ جبکہ میری اس سے پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔'' تو اس نے کہا: ''اے سری! جب سے مجھے معرفت حاصل ہوئی ہے، میں جاہل نہیں رہی۔جب سے عبادت میں مشغول ہوئی ہوں تو کبھی غافل نہیں ہوئی،جب سے وصال ہواکبھی جدائی نہیں ہوئی ،جب سے اس کا دیدار کیا تب سے حجاب حائل نہ ہوا،اور اہلِ درجات تو ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں۔''پھر اس نے اس مفہوم کے اشعار پڑھے:
''معرفت الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی حقیقت میرے باطن کے نور میں متحقق ہو چکی ہے،اب میرا دل خالصۃً اپنے محبوب ہی کے لئے ہے، اب میں ہمیشہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے اوصاف بیان کرتی رہوں گی ۔کیا کوئی عاجز غلام اپنے آقا کے اوصاف بیان کر سکتاہے؟''
حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں نے کہا:میں تمہیں محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور یہ کہ تم پر وجد کا ظہور ہوتا ہے، تم کس سے محبت کرتی ہو؟''اس نے جواب دیا:''اس ذات سے جس نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں اپنی معرفت عطا فرمائی، جس نے اپنے انعامات سے ہمیں اپنا محبوب بنا لیا ،جس کی عطا کے بادل ہم پر برستے ہیں ،جو دلوں کے بہت قریب ہے، غموں کو دور کرتا اور نافرمانوں سے درگزر فرماتا ہے۔'' پھر میں نے پوچھا:''تمہیں یہاں کس نے قید کیا ہے؟'' اس نے کہا: ''حاسدین اور بغض رکھنے والوں نے ، انہوں نے مجھ پر زیادتی کی اور مجھے مجنونہ کا نام دے کر یہاں ڈال دیا حالانکہ وہ خود اس نام کے زیادہ حق دار ہیں ۔''پھر اس نے اس مفہوم کے چند اشعار پڑھے:
''اے وہ بزرگ و برترہستی جس نے میری تنہائی کو دیکھ کر مجھے اپنے وصل کے قرب سے مانوس اور کیف وسرور کی لذتوں سے آگاہ کیا! میں غافل تھی اس نے مجھے بیدار کیا، میں اونگھ رہی تھی اس نے مجھے جگا دیا۔''
حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں نے اس کا نام پوچھاتو بولی:''نام کو چھوڑیں جو آپ نے میری باتیں سنیں پہچان کے لئے وہی کافی ہیں۔''ابھی گفتگو جاری تھی کہ اس کا آقا بھی آگیا،اس نے اپنی باندی کے نگران سے پوچھا:''تحفہ کہاں ہے؟''نگران نے جواب دیا:''اس کے پاس حضرتِ سیِّدُناشیخ سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی موجود ہیں، انہوں نے اس سے ایسی گفتگو کی کہ وہ ان کی باتیں بڑے غو ر سے سننے لگی۔'' اس کا مالک بھی ان کے پاس چلاآیااور آپ کو دیکھ کر تعظیماً ًدست بوسی کی اور عرض کی :''یا سیدی ! آپ کی برکت سے یہ باندی نرم دل ہو گئی ہے۔''آپ نے دریافت فرمایا: ''تمہیں اس کی کون سی عادت بری لگی ؟''تواس نے جواب دیا:''یا سیدی !یہ باندی سارنگی بجاتی تھی ،مجھے اچھی لگی میں نے بیس ہزار درہم میں اسے خرید لیاکیونکہ یہ بہت خوبصورت تھی اور مجھے اس کا سارنگی بجانا بھی بہت پسند تھا۔مجھے اُمید تھی کہ میں اس سے دوگنا نفع حاصل کروں گا۔ایک دن میں اس کے پاس آیا، سارنگی اس کی گود میں تھی اور یہ اس مفہوم کے چند اشعار گنگنا رہی تھی:
''تیرے حق کی قسم! میں نے نہ تو اپنے عہد کو توڑا اور نہ ہی اپنی محبت کے صاف ستھرے چشمے کو گدلا کیا بلکہ میرا سینہ اور دل تو محبت سے بھرا ہوا ہے پس مجھے کس طرح قرار اور سکون مل سکتاہے۔اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ!تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں پس تو بھی مجھے اپنی بندی دیکھ کر مجھ سے راضی ہو جا۔''
جب یہ نغمے سے فارغ ہوئی تو بہت دیر تک روتی رہی،اور سارنگی کو زمین پر مار کر توڑ دیا اور چیخنے چلانے لگی،اس کی عقل زائل ہو گئی ،میں سمجھا کہ یہ کسی کی محبت میں گرفتار ہے لیکن جب میں نے اس کی حالت کے متعلق غور کیا تو محبت کا کوئی نشان دیکھنے میں نہ آیا۔''حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں نے اس باندی سے پوچھا:''کیا اسی طرح ہوا جیسا کہ انہوں نے بتایاہے؟'' تو اس نے جواب میں کچھ اشعار پڑے، جن کا مفہوم یہ ہے:
''حق تعالیٰ نے میرے دل کو مخاطب فرمایاتو وعظ ونصیحت میری زبان پر جاری ہو گئی۔پس اس نے جدائی کے بعد مجھے اپنا قرب عطا فرمایا،اور مجھے اپنی خاص بندی بنا لیا۔جب اس نے مجھے ندادی تو میں نے بھی برضا و رغبت اس کی نداپرلبیک کہا۔''
حضرتِ سیِّدُنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اس کے آقا سے فرمایا:''تم اس کو آزاد کر دو میں اس کی قیمت ادا کرتا ہوں۔'' اس کا آقا زور سے چلا یا اور کہنے لگا: ''آپ تو فقیر ہیں، اس کی قیمت کہاں سے چکائیں گے؟''میں نے کہا:''جلدی نہ کروتم یہیں رہو، میں اس کی قیمت کااہتمام کرتاہوں۔''حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں اپنے گھر گیا،میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور میرا دل اس باندی کے سبب غمگین تھا،میں نے وہ رات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرتے، اس کی طرف توجہ کرتے اور اپنی حاجت برآنے کے لئے اسی پر توکل کرتے ہوئے گزاری۔سحری کے وقت دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی تومیں نے پوچھا:''دروازے پر کون ہے؟''جواب ملا:''آپ کادوست ہوں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کسی کام کے لئے حاضر ہوا ہوں۔'' میں نے دروازہ کھولا تو خوبصورت اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک نوجوان کھڑا تھا،اس کے ساتھ ایک خادم، شمع اور پانچ بدر (یعنی مال کی وہ تھیلی جس میں دس ہزار درہم ہوں) اونٹوں پر تھیں۔ میں نے پوچھا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرمائے ،تم کون ہو؟'' اس نے جواب دیا:میں احمد بن مثنی ہوں،مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی عطا وبخشش سے نوازا ہے اوراس نے بخل نہیں کیا اور مجھے اتنا مال عطا فرمایا کہ انسان اس کو اٹھانے سے عاجز ہیں،میں سو رہا تھا کہ ایک آواز آئی: ''اے احمد! کیا تم ہم سے ایک معاملہ کرو گے ؟''میری نیند اڑ گئی ،میں نے کہا:''مجھ سے زیادہ اور کون اس بات کا حق دار ہوگا کہ اس سے معاملہ کیا جائے ؟''آواز آئی:''پانچ بدر مال سری سقطی کو دے دو کہ وہ تحفہ نامی کنیز کے مالک کو دے کر اس کو غلامی کی قید سے چھڑا ئے گااور تم ہماری جانب سے جہنم سے آزادی کا پروانہ پاؤگے کہ ہم ہی اس پر نظرِ عنایت فرمانے والے اور لطف و کرم کرنے والے ہیں۔'' چنانچہ، میں مال لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیااور ساری صورت حال بھی بیان کر دی ہے۔'' حضرت سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سجدۂ شکر ادا کیا۔ جب نمازِ فجر پڑھ لی اور دن کی روشنی پھیل گئی تو میں احمد بن مثنی کا ہاتھ پکڑ کر اسے پاگل خانے لے گیا، تحفہ کا نگران دائیں بائیں دیکھ رہا تھا لیکن جب اس نے مجھے دیکھا تو کہنے لگا: ''خوش آمدید !تحفہ کے پاس چلیں ،وہ بہت غمزدہ ہے اور اس کا تواللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بہت بڑا مقام و مرتبہ ہے اس لئے کہ کل شام مجھے غیب سے یہ آواز سنائی دی تھی:''تحفہ کا تعلق تو مجھ سے ہے، وہ میری نوازشات سے کسی لمحہ بھی خالی نہیں ہوتی ،اس نے قرب کی گھڑیاں پائیں تو بلند مرتبہ حاصل کر لیا ۔''میں جلدی سے بیدار ہوا اور ہاتفِ غیبی کے کلام کو دہراتارہا یہاں تک کہ میں نے آپ کو دیکھ لیا۔''حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''ہم تحفہ کے پاس گئے تو اس کو اس مفہوم کے اشعار پڑھتے ہوئے سنا:
''میں نے صبر کا دامن تھامے رکھا یہاں تک کہ میرا صبر تیری محبت پر فخر کرنے لگا،میں نے اپنی دیوانگی کو چھپائے رکھا لیکن تجھ سے اپنے معاملے کو مخفی نہ رکھ سکی،تیری محبت میں میرا بیڑیاں پہننا اور قید کی تنگی سہنا ہی میرا صبر ہے ،اگر تو مجھ پر اس حالت میں راضی و خوش ہے تو زمانے کی طوالت کی مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ تو ہی میراسب سے بڑا غم گُسار ہے،اور اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ! بے شک تو ہی میرا پالنے والا اور میری مصیبت ٹالنے والاہے۔''
حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''اشعار پڑھنے کے دوران ہی اس کامالک بھی روتا ہوا آ گیا، میں نے کہا:''آپ نے زحمت کیوں کی ؟ہم خودآپ کے پاس تحفہ کی قیمت لے کر آئے ہیں،اور مزید پانچ ہزار درہم بطورِ نفع بھی لائے ہیں۔''اس نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں نہیں لوں گا۔''میں نے کہا:''دس ہزار درہم چاہتے ہو؟ ''اس نے قسم کھاتے ہوئے کہا: ''میں نہیں لوں گا۔'' میں نے کہا:''اتنا مزید نفع چاہتے ہو؟'' اس نے تیسری بار کہا:'' خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں نہیں لوں گا اور اگر آپ مجھے دنیا اور اس کا تمام مال واسباب بھی دے دیں تب بھی قبول نہیں کروں گا،میں اس کو رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے آزاد کرتا ہوں۔'' میں نے پوچھا: ''مجھے بتاؤ، ماجرا کیاہے؟''اس نے کہا:''یا سیدی !رات کو خواب میں کسی نے مجھے سخت کلمات کے ساتھ ملامت کرتے ہوئے کہا:''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن! تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ولیہ کی توہین کرتا ہے۔'' میں کانپتے ہوئے بیدار ہوگیا، اب مجھے دنیا ذلیل لگنے لگی ہے اوراپنی تمام اشیاء کو چھوڑ کر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف بھا گنا چاہتا ہوں ۔''یہ کہہ کر وہ روتا ہوا جدھر منہ آیا چل دیا۔حضرتِ سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں احمد بن مثنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کی طرف متوجہ ہوا توان کو بھی روتے ہوئے پایا۔ان پر قبولیت کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے پوچھا:''تم کیوں روتے ہو؟''کہنے لگے:''میں ابھی تک اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی نہ کر سکااور نہ ہی اپنا مال قبولیت کے مقام پر پاتا ہوں،اب میں یہ سب اس کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں ۔ ' ' میں نے کہا:''یہ سب تحفہ کی برکتیں ہیں۔''پھر تحفہ کھڑی ہوئی، اپنا لباس تبدیل کرکے اون کا جبہ پہن لیا اور بالوں کا دوپٹہ اوڑھے منہ آسمان کی طرف بلند کرکے چل پڑی، ہم بھی اس کے ساتھ ہی چلنے لگے۔ وہ یہ کہتی ہوئی جا رہی تھی:
''میں اس کی بارگاہ کی طرف بھاگی اور اسی کی محبت میں روئی اور حق تو یہ ہے کہ وہی میرا مالک ِ حقیقی ہے، میں ہمیشہ اسی کی بارگاہ میں حاضر رہوں گی یہاں تک کہ اپنی آرزوؤں کے مطابق اپنا حصہ وصول کر لوں۔''
ہم اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے یہاں تک کہ وہ یہ کہتی ہوئی شہر سے باہر نکل گئی:
''اے لوگوں کو خوشی اور مسرت دینے والے! میرا سرور تو تُو ہی ہے۔ اے لوگوں کو زندگی عطا کرنے والے! میری راحت تو تجھی سے ہے، میرے لئے جنت ودوزخ ، میری نعمتیں اورمیرا غمگسار سب کچھ تُو ہی تُو ہے۔''
حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''پھر چلتے چلتے وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ،اس کے مالک
اور احمد بن مثنی نے کچھ عرصہ میری صحبت اختیار کی۔جب اس کے مالک کا انتقال ہو گیا توہم حج کے ارادے سے بیت اللہ شریف پہنچے ۔ طوافِ کعبہ کے دوران ہمیں یہ درد بھری آواز سنائی دی:''میں نے تیری محبت میں رسوائیاں جھیلیں،اب تیرے قرب کی امید وار کیونکر نہ ہوں کہ تو ہی اپنے عشق میں گرفتار اُن دلوں کی شکایت دور کرنے والا ہے جو ہجر وفراق کاشکار ہیں۔ اے نفس! اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے گناہوں کی وجہ سے تیرامحاسبہ کر لیا تو تُو برباد ہو جائے گا لہٰذا اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے عفو و درگزر اور رضا مانگ لے ۔''
حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں نے اس آواز والے کو تلاش کیاتو مجھے ایک عورت دکھائی دی جس کی عقل اور حالت کچھ ٹھیک دکھائی نہیں دے رہی تھی،اس نے مجھے دیکھ کر کہا:''اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم اے سری!''میں نے جواب میں وَعَلَیْکِ السلام کہنے کے بعد پوچھا:''تم کون ہو؟'' وہ کہنے لگی:خدائے وحدَہٗ لاشریک کی معرفت کے بعد بھی اظہارِ ناواقفیت ہو رہا ہے، آپ ابھی تک حجاب میں ہیں ، آپ کے دل پر عشق نے قبضہ نہیں جمایا۔'' یہ کہنے کے بعد اس نے بتایا:'' میرا نام تحفہ ہے ۔''میں نے پوچھا: ''خود کو لوگوں سے الگ تھلگ کرنے کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے کیا نفع دیا؟''اس نے کہا: ''میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے میری تمام امیدیں اورآرزوئیں پوری کردیں اورمیرے دل کو اپنے غیر سے خالی کر دیا۔''اس کے بعد وہ روتی رہی اور اس پر بے چینی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ پھر اُس نے اپنا سر اُٹھا کر یوں عرض کی:''یااللہ عَزَّوَجَلَّ!اہلِ تقویٰ کامیاب ہو گئے ،متّقین نے نجات پائی ، اور وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا جس کے حصے میں بد بختی آئی، اے مالکِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ! میں تیری بارگاہ میں التجا کرتی ہوں کہ اپنے وصال اور ملاقات سے قرب عطا فرمااور مجھے اپنے پاس بلالے کہ مجھے دنیامیں رہنے کی حاجت نہیں۔''پھر اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور زمین پر تشریف لے آئی۔ ہم نے اسے حرکت دی تو دیکھا کہ اس کی روح قَفَسِ عُنْصُرِی سے پرواز کر چکی تھی۔ جب احمد بن مثنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کی اس پر نظر پڑی تو اُن کے دل پر رِقّت طاری ہو گئی اور وہ بھی زور زور سے رونے لگے ،پھر انہوں نے بھی بلند آواز سے چیخ ماری اور زمین پر گر پڑے اور ہمیشہ کے لئے دُنیاسے کوچ کر گئے۔حضرتِ سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں دونوں کی تجہیزوتکفین کے بعد واپس آ گیا۔مجھے اس واقعہ سے بہت تعجب ہوا۔''
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! ان لوگوں کی خوب شان ہے جنہوں نے احکامِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کی بجاآوری میں کوئی کوتاہی نہ کی، کائنات کو نگاہِ عبرت سے دیکھا اور غور وفکر کیا اور لغزشوں کو یاد کر کے فکر ِ آخرت کی اور عبرت حاصل کی ،ان کو یہ بات سمجھ آگئی کہ مقبول بندے اپنے محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ سے جا ملے اور اپنے مقاصد پانے میں کامیاب ہوگئے۔
وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن
0 Comments: