لاپروائی پر خود کو قصور وار سمجھئے
قرآن و حدیث کی روشنی میں شادی کی برکت سے تنگدستی ختم ہونا اور فراخ دَسْتی نصیب ہونا تو بالکل حق ہے ۔ البتہ یہاں یہ بات بھی انتہائی قابلِ ذکر ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنی ہی بے پروائی کی وجہ سے شادی کے باوُجُود مَعاشی پریشانی اور تنگدستی سے چھٹکارا نہ ملےتو اُسے چاہئے کہ وہ اپنے آپ ہی کو قُصُور وار ٹھہرائے۔ مثلاً جو لوگ شادی سے پہلے سُست اور کاہل ہوتے ہیں ، کوئی کام کاج اور محنت مزدوری نہیں کرتے یا کرتے بھی ہیں تو اس میں مستقل مِزاجی اختیار کرنے کے بجائے غیر ذِمّہ داری کا ثبوت دیتے ہیں اور آئے دن کسی خاص مجبوری کے بغیر کام کاج کا ناغہ کرتے ہیں یا اپنی محنت کی کمائی کو عیش کوشی اور فضول خرچی کی نذر کردیتے ہیں اور اپنی اِنہی بے پروائیوں کی وجہ سے اپنے مَعاشی حالات مُتأثّر کردیتے ہیں ایسے غیر ذِمّہ دار لوگ اگر شادی کرلیں اور شادی کے بعد بھی کام کاج کے معاملے میں اپنے اندر سجیدگی پیدا نہ کریں اور اپنے رویّے میں مثبت تبدیلی لانے کے بجائے وہی سابقہ کوتاہیاں برقرار رکھیں اور پھر یہ سوچیں کہ ہم شادی تو کرچکے ، آخر ہماری غربت و ناداری ختم کیوں نہیں ہورہی ، ہمارے مَعاشی حالات بہتر کیوں نہیں ہورہے اور ہم پر نوٹوں کی بارش کیوں نہیں ہورہی ؟ تو یہ اُن کی سوچ کا قُصُور ہے کہ وہ اس حقیقت سے نظریں چُرا رہے ہیں کہ “ خود کردہ را علاجے نیست “ (یعنی اپنے کئے کا کوئی علاج نہیں ) ایسے لوگوں کو چاہئے کہ حُصُولِ زرق کے معاملے میں اپنے ساتھ مخلص ہوجائیں اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ مددِ الٰہی ضرور اُن کی دستگیری کرے گی اور شادی کی برکتیں بھی ضرور نصیب ہونگی ، ورنہ یاد رکھیں !جو لوگ اپنے اندر احساسِ ذِمّہ داری پیدا نہیں کرتے وہ شادی شُدہ ہوں یا غیر شادی شُدہ اُنہیں نہ تو مَعاشی پریشانیوں سے خود کو باہر نکالنے میں کامیابی ملتی ہے اور نہ ہی گھریلو ماحول خُوشگوار بنانے میں سُرخروئی نصیب ہوتی ہے۔
جو کچھ ہیں وہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت
شِکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلہ ہے
دیکھیں ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
سچ ہے کہ بُرے کام کا اَنجام بُرا ہے
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
0 Comments: