مکہ مکرمہ میں ایک بڑھیاریطہ بنت سعد بن تمیم قرشیہ تھی۔ جس کے مزاج میں وہم اور عقل میں فتور تھا وہ روزانہ دوپہر تک محنت کر کے سوت کاتا کرتی تھی اور دوپہر کے بعد وہ کاتے ہوئے سوت کو توڑ کر ریزہ ریزہ کرڈالتی تھی اور اپنی باندیوں سے بھی تڑواتی تھی، یہی روزانہ کا اس کا معمول تھا۔ (تفسیر صاوی، ج۳، ص ۱۰۸۹،پ۱۴،النحل:۹۲)
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسمیں کھا کر یا اس کے نام پر لوگوں سے کوئی عہد کر کے اپنی قسموں اور عہدوں کو توڑ دیا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس عورت سے تشبیہ دیتے ہوئے قسموں اور عہدوں کے توڑنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ:
وَ اَوْفُوۡا بِعَہۡدِ اللہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمْ وَلَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ بَعْدَ تَوْکِیۡدِہَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَیۡکُمْ کَفِیۡلًا ؕ اِنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوۡنَ ﴿91﴾وَلَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنۡۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا ؕ
ترجمہ کنزالایمان:۔اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھواور قسمیں مضبوط کر کے نہ توڑو اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو بیشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے اور اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کر کے توڑ دیا۔(پ14،النحل:91۔92)
درسِ ہدایت:۔ہر قسم کی بدعہدی اور عہد شکنی ممنوع اور شریعت میں گناہ ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر بلا ضرورت اس کو توڑنا بھی جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اَوْفُوا بِالْعُفُوْ یعنی اپنے عہدوں اور معاہدوں کو پورا کرو اور فرمایا کہ وَاحْفَظُوْا اَیْمَانَکُمْ یعنی اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ ہاں البتہ اگر کسی خلاف شرع بات کی قسم کھالی ہو تو ہرگز ہرگز اس قسم پر اڑے نہیں رہنا چاہے بلکہ لازم ہے کہ اس قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: