حضرت لقمان کی مدح و ثناء اور ان کی بعض نصیحتوں کا تذکرہ قرآن میں بڑی عظمت و شان کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور انہی کے نام پر قرآن مجید کی ایک سورہ کا نام ''سورہ لقمان''رکھا گیا۔
محمد بن اسحٰق صاحب مغازی نے ان کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے۔ لقمان بن باعور بن باحور بن تارخ۔ یہ تارخ وہی ہیں جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلا م کے والد ہیں اور مؤرخین نے فرمایا کہ آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے تھے اور بعض کا قول ہے کہ آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی تھے۔
حضرت لقمان نے ایک ہزار برس کی عمر پائی۔ یہاں تک کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی صحبت میں رہ کر ان سے علم سیکھا اور حضرت داؤد علیہ السلام کی بعثت سے پہلے آپ بنی اسرائیل کے مفتی تھے۔ مگر جب حضرت داؤد علیہ السلام منصب ِ نبوت پر فائز ہوگئے تو آپ نے فتویٰ دینا ترک کردیا اور بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت لقمان نے فرمایا ہے کہ میں نے چار ہزار نبیوں کی خدمت میں حاضری دی ہے۔ اور ان پیغمبروں کے مقدس کلاموں میں سے آٹھ باتوں کو میں نے چن کر یاد کرلیا ہے، جو یہ ہیں:
(۱)جب تم نماز پڑھو تو اپنے دل کی حفاظت کرو۔
(۲)جب تم کھانا کھاؤ تو اپنے حلق کی حفاظت کرو۔
(۳)جب تم کسی غیر کے مکان میں رہو تو اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو۔
(۴)جب تم لوگوں کی مجلس میں رہو تو اپنی زبان کی حفاظت رکھو۔
(۵)اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ یاد رکھو۔
(۶)اپنی موت کو ہمیشہ یاد کرتے رہا کرو۔
(۷)اپنے احسانوں کو بھلادو۔
(۸)دوسروں کے ظلم کو فراموش کردو۔
حضرت عکرمہ اور امام شعبی کے سوا جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ آپ نبی نہیں تھے بلکہ آپ حکیم تھے اور بنی اسرائیل کے نہایت ہی بلند مرتبہ صاحب ایمان اور بہت ہی نامور مرد صالح تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینہ کو حکمتوں کا خزینہ بنا دیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے:
وَلَقَدْ اٰتَیۡنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلہِ ؕ وَمَنۡ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ۚ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿12﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر کر اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بیشک اللہ بے پرواہ ہے سب خوبیوں سراہا۔ (پ21،لقمان:12)
حضرت لقمان عمر بھر لوگوں کو نصیحتیں فرماتے رہے۔ تفسیر فتح الرحمن میں ہے کہ آپ کی قبر مقام ''صرفند'' میں ہے جو ''رملہ'' کے قریب ہے اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آپ کی قبر ''رملہ'' میں مسجد اور بازار کے درمیان میں ہے اور اس جگہ ستر انبیاء علیہم السلام بھی مدفون ہیں۔ جن کو آپ کے بعد یہودیوں نے بیت المقدس سے نکال دیا تھا اور یہ لوگ بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر وفات پا گئے تھے۔ آپ کی قبر پر ایک بلند نشان ہے اور لوگ اس قبر کی زیارت کے لئے دور دور سے جایا کرتے ہیں۔ (تفسیر روح البیان،ج۷، ص ۷۷، پ۲۱، لقمان:۱۲)
حکمت کیا ہے؟:۔''حکمت'' عقل و فہم کو کہتے ہیں اور بعض نے کہا کہ ''حکمت'' معرفت اور اصابت فی الامور کا نام ہے۔ اور بعض کے نزدیک حکمت ایک ایسی شے ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے دل میں یہ رکھ دیتا ہے اس کا دل روشن ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ مختلف اقوال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کو نیند کی حالت میں اچانک حکمت عطا فرما دی تھی۔ بہرحال نبوت کی طرح حکمت بھی ایک وہبی چیز ہے ، کوئی شخص اپنی جدوجہد اور کسب سے حکمت حاصل نہیں کرسکتا۔ جس طرح کہ بغیر خدا کے عطا کئے کوئی شخص اپنی کوششوں سے نبوت نہیں پا سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ نبوت کا درجہ حکمت کے مرتبے سے بہت اعلیٰ اور بلند تر ہے۔
(تفسیر روح البیان، ج۷، ص ۷۴۔۷۵، (ملخصاً)پ۲۱، لقمان:۱۱)
حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو جن کا نام ''انعم'' تھا۔ چند نصیحتیں فرمائی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید کی سورہ لقمان میں ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری نصیحتیں آپ نے فرمائی ہیں جو تفاسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
مشہور ہے کہ آپ درزی کا پیشہ کرتے تھے اور بعض نے کہا کہ آپ بکریاں چراتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ حکمت کی باتیں بیان کررہے تھے تو کسی نے کہا کہ کیا تم فلاں چرواہے نہیں ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، میں یقینا وہی چرواہا ہوں تو اس نے کہا کہ آپ حکمت کے اس مرتبہ پر کس طرح فائز ہو گئے؟ تو آپ نے فرمایا کہ باتوں میں سچائی اور امانتوں کی ادائیگی اور بیکار باتوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے۔
(تفسیر صاوی، ج۵، ص۱۵۹۸، پ۲۱، لقمان:۱۲)
0 Comments: