اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں امانت کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ72﴾لِّیُعَذِّبَ اللہُ الْمُنٰفِقِیۡنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِکِیۡنَ وَ الْمُشْرِکٰتِ وَ یَتُوۡبَ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ وَکَانَ اللہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿٪73﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھالی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے۔ تاکہ اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو اور اللہ توبہ قبول فرمائے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ22،الاحزاب:72۔73)
وہ امانت جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر پیش فرمایا تو ان سبھوں نے خوف ِ الٰہی سے ڈر کر اس امانت کو قبول کرنے سے انکار کردیا لیکن انسان نے امانت کے اس بوجھ کو اٹھا لیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ امانت درحقیقت کیا چیز تھی؟ تو اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں مگر حضرت علامہ احمد صاوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اس امانت کی سب سے بہترین تفسیر یہ ہے کہ وہ امانت شرعی پابندیوں کی ذمہ داری ہے۔
روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شریعت کی پابندیوں کو آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں کے روبرو پیش فرمایا تو ان تینوں نے عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ! ہمیں اس بارگراں کے اٹھانے میں کیا حاصل ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم ان (احکام شریعت)کی پابندی کرو گے تو تمہیں بہترین صلہ و انعام دیا جائے گا تو تینوں نے جواب میں عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ! ہم تو بہرحال تیرے حکم کے فرمانبردار ہیں، باقی ثواب و عذاب سے ہمیں کوئی مطلب نہیں ہے لیکن خوف ِ الٰہی سے ڈر کر کانپتے ہوئے ان تینوں نے اس امانت کو قبول کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کرتے ہوئے انکار کردیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے پیش فرمایا تو آپ نے بھی دریافت کیا کہ امانت کی ذمہ داری قبول کرلینے سے ہمیں کیا ملے گا؟ تو باری تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اچھی طرح اس کی پابندی کرو گے تو تمہیں بڑے بڑے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا اور اگر تم نے نافرمانی کی تو طرح طرح کے عذابوں میں تمہیں گرفتار کیا جائے گا تو حضرت آدم علیہ السلام نے اس بار امانت کو اُٹھا لیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم! میں اس سلسلے میں تیری مدد کروں گا۔
(تفسیر صاوی، ج۵، ص۶۰۔۱۶۵۹،پ۲۲،الاحزاب: ۷۲)
درسِ ہدایت:۔ابلیس نے سجدہ آدم علیہ السلام کے بارے میں خدا کا حکم ماننے سے انکار کیا تو وہ راندہ درگاہِ الٰہی ہو کر دونوں جہاں میں مردود ہو گیا۔ مگر آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں نے امانت کو اٹھانے کے بارے میں حکم ِ الٰہی ماننے سے انکار کیا تو وہ بالکل معتوب نہیں ہوئے اس کی کیا وجہ ہے؟ اور اس کا راز کیا ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ابلیس کا انکار بطور ِ استکبار (تکبر)تھا اور آسمانوں وغیرہ کا انکار بطور ِ استصغار (تواضع)تھا۔ یعنی ابلیس نے اپنے کو بڑا سمجھ کر سجدہ آدم علیہ السلام سے انکار کیا تھا اور ظاہر ہے کہ تکبر وہ گناہ ِ عظیم ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے اور تواضع وہ پیاری ادا ہے جو خداوند قدوس کو بے حد محبوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابلیس انکار کر کے عذابِ دارین کا حق دار بن گیا اور آسمان و زمین وغیرہ انکار کر کے موردِ عتاب بھی نہیں ہوئے بلکہ خدا کے رحم و کرم کے مستحق ہو گئے۔
اللہ اکبر! کہاں استکبار؟ اور کہاں استصغار؟ کہاں تکبر؟ اور کہاں تواضع؟ کہاں اپنے کو بڑا سمجھنا؟ اور کہاں اپنے کو چھوٹا سمجھنا۔ دونوں میں بہت عظیم فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تکبر سے بچائے اور تواضع کا خوگر بنائے۔ آمین۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: