حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک خاص معجزہ ا ور اُن کی سلطنت کا ایک خصوصی امتیاز یہ ہے کہ ان کے زیرِ نگین صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ جن اور حیوانات بھی تابع فرمان تھے اور سب آپ کے حاکمانہ اقتدار کے زیرِ حکم تھے اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ دربار ِ خداوندی (عزوجل)میں یہ دعا کی تھی کہ: قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیۡ وَہَبْ لِیۡ مُلْکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الْوَہَّابُ ﴿35﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو بیشک تو ہی ہے بڑی دین والا۔(پ23،صۤ:35)
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا مقبول فرمالی اور آپ کو ایسی عجیب و غریب حکومت اور بادشاہی عطا فرمائی کہ نہ آپ سے پہلے کسی کو ملی، نہ آپ کے بعد کسی کو میسر ہوئی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ گزشتہ رات ایک سرکش جن نے یہ کوشش کی کہ میری نماز میں خلل ڈالے تو خداوند تعالیٰ نے مجھ کو اس پر قابو دے دیا اور میں نے اس کو پکڑ لیا اس کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اس کو مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ تم سب دن میں اس کو دیکھ سکو۔ مگر اس وقت مجھ کو اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام)کی یہ دعا یاد آگئی کہ وَہَبْ لِیۡ مُلْکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیۡ... الخ یہ یاد آتے ہی میں نے اس کو چھوڑ دیا۔
(بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل ووھبنا لداؤد سلیمن الخ، ج۱،ص ۴۸۷،۴۸۶۔ فتح الباری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل ووھبنا الخ، رقم الحدیث ۳۴۲۳، ج۶، ص ۵۶۶)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ خداوند تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل کے خصائص و معجزات و خصوصی امتیازات و کمالات مجھ میں جمع فرما دیئے ہیں اس لئے قوم جن کی تسخیر پر بھی مجھ کو قدرت حاصل ہے لیکن چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس اختصاص کو اپنا خصوصی طغراء امتیاز قرار دیا ہے اس لئے میں نے اس سلسلہ کا مظاہرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ قرآن کریم کی حسب ِ ذیل آیتوں میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس معجزانہ اقتدار ِ حکومت کا تذکرہ ہے۔
(1) وَ مِنَ الشَّیٰطِیۡنِ مَنۡ یَّغُوۡصُوۡنَ لَہٗ وَ یَعْمَلُوۡنَ عَمَلًا دُوۡنَ ذٰلِکَ ۚ وَکُنَّا لَہُمْ حٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ82﴾
ترجمہ کنز الایمان:۔ اور شیطان میں سے وہ جو اس کے لئےغوطہ لگاتے اور اس کے سوا اور کام کرتے اور ہم انہیں روکے ہوئے تھے۔(پ17،الانبیاء:82)
اسی طرح سورہ "سبا"میں ارشاد فرمایا:
وَ مِنَ الْجِنِّ مَنۡ یَّعْمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿12﴾یَعْمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ
ترجمہ کنزالایمان:۔اور جنوں میں سے وہ جو اس کے آگے کام کرتے اس کے رب کے حکم سے اور جوان میں ہمارے حکم سے پھرے ہم اسے بھڑکتی آگ کا عذاب چکھائیں گے اس کے لئے بناتے جو وہ چاہتا اونچے اونچے محل اور تصویریں اور بڑے حوضوں کے برابر لگن اور لنگر دار دیگیں۔ (پ 22، سبا:12۔ 13)
اور سورہ نمل میں یہ فرمایا کہ:
(3) وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنۡسِ وَالطَّیۡرِ فَہُمْ یُوۡزَعُوۡنَ ﴿17﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور جمع کئے گئے سلیمان کے لئے اس کے لشکر جنوں اور آدمیوں اور پرندوں سے تو وہ روکے جاتے تھے۔ (پ19،النمل: 17)
اور سورہ ص ۤ میں اس طرح ارشاد فرمایا کہ
(4) وَالشَّیٰطِیۡنَ کُلَّ بَنَّآءٍ وَّ غَوَّاصٍ ﴿ۙ37﴾وَّاٰخَرِیۡنَ مُقَرَّنِیۡنَ فِی الْاَصْفَادِ ﴿38﴾ہٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿39﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور دیو بس میں کردیئے ہر معمار اور غوطہ خور اور دوسرے اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے یہ ہماری عطا ہے اب تو چاہے تو احسان کر یا روک رکھ تجھ پر کچھ حساب نہیں۔ (پ23،صۤ:37۔39)
درسِ ہدایت:۔بعض ملحدین جن کو معجزات کے انکار اور انکارِ جن کا مرض ہو گیا ہے وہ لوگ ان آیتوں کے بارے میں عجیب عجیب مضحکہ خیز باتیں بکتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''جن''سے مراد انسانوں کی ایک ایسی قوم ہے جو اس زمانے میں بہت قوی ہیکل اور دیو پیکر تھی اور وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے علاوہ کسی کے قابو میں نہیں آتی تھی اور حیوانات کی تسخیر کے بارے میں یہ بکتے ہیں کہ قرآن میں اس سلسلے کا ذکر صرف '' ہُدہُد '' سے متعلق ہے اور یہاں '' ہُدہُد'' سے پرند مراد نہیں ہے بلکہ ہُدہُد ایک آدمی کا نام تھا جو پانی کی تفتیش پر مقرر تھا۔اس قسم کی لغویات اور رکیک باتیں کرنے والے یا تو جذبہ الحاد میں قصداً قرآن مجید کی تحریف کرتے ہیں یا قرآن کی تعلیمات سے جاہل ہونے کے باوجود اپنے دعویٰ بلادلیل پر اصرار کرتے رہتے ہیں۔
خوب سمجھ لو کہ قرآن مجید نے ''جن''کے متعلق جابجا بصراحت یہ اعلان کیا کہ وہ انسانوں سے جدا خدا کی ایک مخلوق ہے صرف ایک آیت پڑھ لو جو اس بارے میں قول فیصل ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنۡسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوۡنِ ﴿56﴾
یعنی ہم نے جن اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا کے عبادت گزار بنیں۔(پ27،الذاریات:56)
دیکھ لو اس آیت میں جن کو ایک انسان سے جدا ایک مخلوق ظاہر کر کے دونوں کی تخلیق کی حکمت بیان کی گئی ہے لہٰذا اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا کہ جن انسانوں ہی میں سے ایک قوی ہیکل قوم کا نام ہے، غور کیجئے کہ یہ کتنی بڑی جہالت کی بات ہے۔
اسی طرح جب '' ہُدہُد'' کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف صاف پرند فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ وَ تَفَقَّدَ الطَّیۡرَ (پ19، النمل:20) یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا تو اس تصریح کے بعد کسی کو کیا حق ہے کہ اس کے خلاف کوئی رکیک اور لچر تاویل کرے۔ اور یہ کہے کہ ہُدہُد پرند نہیں تھا بلکہ ایک آدمی کا نام تھا۔ سوچئے کہ یہ مغرب زدہ ملحدوں کا علم ہے یا ان کی جہالت کا قطب مینار ہے۔
وَلاَحَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم O
0 Comments: