پردہ دار خواتین کی عظمت و شان
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مُقَدَّس خواتین کے بیان کردہ واقعات میں ان مسلمان خواتین کیلئے بھی درس ہے جو پردہ نہیں کرتیں اور ان لوگوں کیلئے بھی درس ہے جو اپنی عورتوں کو پردے کی تاکید نہیں کرتے حالانکہ شَرْعی پردہ کرنے والیوں کی بڑی شانیں ہوتی ہیں ۔ چُنانچِہ اَخْبَارُ الْاَخْیَار میں ہے : سخت قَحط سالی ہوئی ، لوگوں کی بہت دُعاؤں کے باوُجُود بارش نہ ہوئی۔ حضرت سیِّدُنا بابا نِظام ُالدّین ابُو المؤیّد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی امّی جان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا کے کپڑے کا ایک دھاگہ ہاتھ میں لیکر عرض کی : یااللہ عَزَّ وَجَلَّ!یہ اُس خاتون کے دامن کا دھاگہ ہے جس(خاتون)پر کبھی کسی نامَحْرَم کی نظر نہ پڑی ، میرے مولیٰ!اِسی کے صدقے رحمت کی برکھا (بارش)برسا دے! ابھی دُعا ختم کی ہی تھی کہ رَحمت کے بادل گھِر گئے اور رِم جِھم رِم جِھم بارش شروع ہو گئی۔ (1)
یہی مائیں ہیں جن کی گود میں اسلام پلتا تھا
حَیا سے ان کی انساں نور کے سانچے میں ڈھلتا تھا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے!ہماری صحابیات اور صالحات کس قَدَر پردے کا اِہْتِمام کرتی تھیں ، جی ہاں !یہی وہ پردہ نشین مائیں تھیں جنھوں نے بڑے بڑے بہادر جرنیل ، سِپہ سالار ، عظیم حکمران ، علمائے رَبَّانِیّین اور اولیائے کاملین کو جَنم دیا جن کی بدولت اسلام چار دانگِ عالَم میں پھیل گیا ، تمام اُمَّہاتُ المومنین ، جملہ صحابیات ِ سیِّدُالمرسلین سب باپردہ تھیں ، حسنین کریمین کی والدہ ماجدہ خاتونِ جنّت سیِّدہ فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا باپردہ تھیں ، سرکارِ بغداد حضور ِ غوث پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدہ محترمہ سَیِّدَتُنا اُمُّ الخیر فاطمہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا باپردہ تھیں ، الغرض جب تک پردہ قائم تھا اور عِفّت مآب خواتین چادر اور چار دیواری کے اندر تھیں مسلمان خُوب ترقّی کی منازل طے کرتا جارہا تھا ، غیر مسلموں پر غالب آرہا تھا ، جب سے غیر مسلموں کے زیرِ اثر آکر مسلمانوں نے بے پردگی کا سلسلہ شروع کیا مسلمان مُسلسل تنزُّلی (زوال) کے گہرے گڑھے میں گرتا جارہا ہے ، کل تک جوغیر مُسْلِم مسلمانوں کے نام سے لرزہ بَراَندام تھے آج مسلمانوں کی بے پردگیوں ، بداعمالیوں کے باعِث غالب آچکے ہیں ۔ مگر مسلمان ہوش کے ناخُن نہیں لے رہا ، سوچتا نہیں ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج اگر ہمیں اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رَفتہ کو حاصِل کرنا ہے تو اس دورِ جدید کی بدتہذیبی سے جان چھُڑا کر اپنے روشن ماضی کی جانب واپس جانا ہوگا ، ابتدا اپنے گھر سے کرتے ہوئے اپنے گھر کی خواتین کو شَرْعی پردے کے اِہْتِمام کا ذِہْن دینے کی کوشش کرنی ہوگی ، ان کا ذہن بنائیں کہ صرف جہاں شریعت اجازت دیتی ہے اسی صورت میں گھر سے باہر قدم رکھیں اور وہ بھی مدنی احتیاطوں کے ساتھ جس کا ذہن شیخِ طریقت ، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے دیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں : شَرْعی اجازت کی صُورت میں گھر سے نکلتے وقت اسلامی بہن غیر جاذِبِ نظر کپڑے کا ڈِھیلا ڈھالا مدنی بُرقع اوڑھے ، ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جرابیں پہنے۔ مگر دستانوں اور جُرّابوں کا کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ کھال کی رنگت جھلکے۔ جہاں کہیں غیر مَردوں کی نظر پڑنے کا اِمکان ہو وہاں چہرے سے نقاب نہ اٹھائے مَثَلاً اپنے یاکسی کے گھر کی سیڑھی اور گلی محلّہ وغیرہ۔ نیچے کی طرف سے بھی اس طرح بُرقع نہ اٹھائے کہ بدن کے رنگ برنگے کپڑوں پر غیر مَردوں کی نظر پڑے۔ واضح رہے کہ عورت کے سر سے لیکر پاؤں کے گِٹّوں کے نیچے تک جسم کا کوئی حصّہ بھی مثلاً سر کے بال يا بازو يا کلائی یا گلا یا پیٹ یا پنڈلی وغیرہ اجنبی مرد(یعنی جسں سے شادی ہمیشہ کیلئے حرام نہ ہو )پر بلااجازتِ شَرْعی ظاہر نہ ہو بلکہ اگر لباس ایسا مَہِیْن یعنی پتلا ہے جس سے بدن کی رنگت جھلکے ياایسا چُست ہے کہ کسی عُضو کی
ہیئت (یعنی شکل و صُورت یا اُبھار وغیرہ)ظاہر ہو یادوپٹّہ اتنا باریک ہے کہ بالوں کی سیاہی چمکے يہ بھی بے پردگی ہے۔ (1)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
________________________________
1 - پردے کے بارے میں سوال جواب ، ص۴۱ ، اخبار الاخیار ، ص۲۹۴
0 Comments: