جنگ بدر کا مفصل حال تو ہم اپنی کتاب ''سیرۃ المصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم'' میں مکمل لکھ چکے ہیں یہاں جنگ ِ بدر میں نصرتِ الٰہی نے بارش کی صورت میں جو تجلی فرمائی جس سے میدانِ جنگ کا نقشہ بھی بدل گیا، اس کا ہم ایک جلوہ دکھا رہے ہیں۔
واقعہ یہ ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین سو تیرہ صحابہ کرام کی جماعت کو ہمراہ لے کر مقام بدر میں تشریف لے گئے اور بدر کے قریب پہنچ کر مدینہ کی جانب والے رُخ ''عدوۃ الدنیا'' پر خیمہ زن ہو گئے اور مشرکین آگے بڑھے تو بدر پہنچ کر مدینہ سے دور مکہ کی جانب والے ''عدوۃ القصویٰ'' پر اُترے اور محاذ جنگ کا نقشہ اس طرح بنا کہ مشرکین اور مسلمان بالکل آمنے سامنے تھے مگر مسلمانوں کا محاذ جنگ اس قدر ریتیلا تھا کہ انسانوں اور گھوڑوں دونوں کے قدم ریت میں دھنسے جا رہے تھے اور وہاں چلنا پھرنا دشوار تھا اور مشرکین کا محاذ جنگ بالکل ہموار اور پختہ فرش کی طرح تھا۔ غرض دشمن تعداد میں تین گنے سے زیادہ، سامان جنگ سے پوری طرح مکمل ،رسل و رسائل میں ہر طرح مطمئن تھے۔ پھر مزید برآں ان کا محاذ جنگ بھی اپنے محل وقوع کے لحاظ سے نہایت عمدہ تھا۔ ان سہولتوں کے علاوہ پانی کے سب کنوئیں بھی دشمنوں ہی کے قبضے میں تھے۔ اس لئے مسلمانوں کو پانی کی بے حد تکلیف تھی، خود پینے کے لئے کہاں سے پانی لائیں؟ جانوروں کو کیسے سیراب کریں؟ وضو اور غسل کی کیا صورت ہو؟ غرض صحابہ کرام انتہائی فکر مند اور پریشان تھے۔ اس موقع پر شیطان نے مسلمانوں کے دلوں میں وسوسہ ڈال دیا کہ اے مسلمانو!تم گمان کرتے ہو کہ تم حق پر ہو اور تم میں اللہ عزوجل کا رسول بھی موجود ہے اور تم اللہ والے ہو اور حال یہ ہے کہ مشرکین پانی پر قابض ہیں اور تم بغیر وضوو غسل کے نمازیں پڑھتے ہو اور تم اور تمہارے جانور پیاس سے بے تاب ہو رہے ہیں۔
اس موقع پر ناگہاں نصرتِ آسمانی نے اس طرح جلوہ سامانی فرمائی کہ زور دار بارش ہوگئی جس نے مسلمانوں کے لئے ریتیلی زمین کو جما کر پختہ فرش کی طرح ہموار بنا دیا اور نشیب کی وجہ سے حوض نما گڑھوں میں پانی کا ذخیرہ مہیا کردیا اور دشمنوں کی زمین کو کیچڑ والی دلدل بنا دیا جس پر کافروں کا چلنا پھرنا دشوار ہو گیا اور مسلمان ان پانی کے ذخیروں کی وجہ سے کنوؤں سے بے نیاز ہو گئے اور مسلمانوں کے دلوں سے شیطانی وسوسہ دور ہو گیا اور لوگ مطمئن ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس عجیب و غریب بارش کی منظر کشی ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ: وَیُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ وَیُذْہِبَ عَنۡکُمْ رِجْزَ الشَّیۡطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الۡاَقْدَامَ ﴿ؕ11﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور آسمان سے تم پر پانی اتارا کہ تمہیں اس سے ستھرا کردے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرما دے اور تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے اور اس سے تمہارے قدم جمادے۔ (پ9،الانفال:11)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بدر میں اس ناگہانی بارش کے چار فائدے بیان فرمائے ہیں:
(۱)تاکہ جو بے وضو اور بے غسل ہوں وہ وضو اور غسل کر کے پاک و صاف اور ستھرے ہو جائیں۔
(۲)مسلمانوں کے دلوں سے شیطانی وسوسہ دور ہوجائے۔
(۳)مسلمانوں کے دلوں کو ڈھارس مل جائے کہ ہم حق پر ہیں اور اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد فرمائے گا۔
(۴)محاذ جنگ کی ریتیلی زمین اس قابل ہوجائے کہ اس پر قدم جم سکیں الغرض جنگ بدر کی یہ بارش مسلمانوں کے لئے بارانِ رحمت اور کفار کے لئے سامانِ زحمت بن گئی۔
درسِ ہدایت:۔جنگ بدر میں مسلمانوں کو جن مشکل حالات کا سامنا تھا ظاہر ہے کہ عقل انسانی عالم اسباب پر نظر کرتے ہوئے اس کے سوا اور کیا فیصلہ کرسکتی تھی کہ وہ اس جنگ کو ٹال دیں۔ مگر صادق الایمان مسلمانوں نے اپنے رسول کی مرضی پا کر ہر قسم کی بے سروسامانی کے باوجود حق و باطل کی معرکہ آرائی کے لئے والہانہ اور فداکارانہ جذبات کے ساتھ خود کو پیش کردیا اور نہایت ثابت قدمی اور اُولو العزمی کے ساتھ میدانِ جنگ میں کود پڑے تو اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کی کس کس طرح امداد و نصرت فرمائی ،اس پر ایک نظر ڈال کر خداوند ِ قدوس کے فضل عظیم کی جلوہ سامانیوں کا نظارہ کیجئے اور یہ دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں کس کس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی۔
(۱)مسلمانوں کی نگاہ میں دشمنوں کی تعداد اصل تعداد سے کم نظر آئی تاکہ مسلمان مرعوب نہ ہوں اور مشرکین کی نظروں میں مسلمان مٹھی بھر نظر آئیں تاکہ وہ جنگ سے جی نہ چرائیں اور حق و باطل کی جنگ ٹل نہ جائے۔(انفال)
(۲)اور ایک وقت میں مسلمان مشرکین کی نظر میں دگنے نظر آئے تاکہ مشرکین مسلمانوں سے شکست کھا جائیں۔ (آلِ عمران)
(۳)پہلے مسلمانوں کی مدد کے لئے ایک ہزار فرشتے بھیجے گئے۔ پھر فرشتوں کی تعداد بڑھا کر تین ہزار کردی گئی۔ پھر فرشتوں کی تعداد پانچ ہزار ہو گئی۔ (آلِ عمران)
(۴)مسلمانوں پر عین معرکہ کے وقت تھوڑی دیر کے لئے غنودگی اور نیند طاری کر دی گئی جس کے چند منٹ بعد ان کی بیداری نے ان میں ایک نئی تازگی اور نئی روح پیدا کردی۔ (انفال)
(۵)آسمان سے پانی برسا کر مسلمانوں کے لئے ریتیلی زمین کو پختہ زمین کی طرح بنا دیا اور مشرکین کے محاذ ِ جنگ کی زمین کو کیچڑ اور پھسلن والی دلدل بنا دیا۔ (انفال)
(۶)نتیجہ جنگ یہ ہوا کہ ذرا دیر میں مشرکین کے بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان اور جنگجو شہسوار مارے گئے۔ چنانچہ ستر مشرکین قتل ہوئے اور ستر گرفتار ہو کر قیدی بنائے گئے اور مشرکین کا لشکر اپنا سارا سامان چھوڑ کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلا اور یہ سارا سامان مسلمانوں کو مالِ غنیمت میں مل گیا۔
مسلمان اگرچہ خداوند ِ قدوس کی مذکورہ بالا امداد اور اس کے فضل سے فتح یاب ہوئے،تاہم اس جنگ میں چودہ مجاہدین ِ اسلام نے بھی جام ِ شہادت نوش کیا۔
(زرقانی، ج ۲، ص ۲۷۰)
یہ واقعہ ہمیں متنبہ کررہا ہے کہ اگر مسلمان خدا پر بھروسہ کر کے حق و باطل کی جنگ میں ثابت قدمی اور پامردی کے ساتھ ڈٹے رہیں تو تعداد کی کمی اور بے سروسامانی کے باوجود ضرور خدا کی مدد اُتر پڑے گی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گی۔ یہ رب العزت کے فضل و کرم کا وہ دستور ہے کہ جس میں ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ بس شرط یہ ہے کہ مسلمان نہ بدل جائیں، اور ان کے اسلامی خصائل و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ ورنہ خدا کا دستور تو نہ بدلا ہے نہ کبھی بدلے گا اس کا وعدہ ہے کہ
فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیۡلًا ۬ۚ
یعنی ہر گز ہرگز خدا کے دستور میں کوئی ردو بدل نہیں ہو گا۔(پ22،الفاطر:43) واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: