قرآن مجید میں حضرت الیاس علیہ السلام کا تذکرہ دو جگہ آیا ہے سورہ انعام میں اور سورہ الصّٰفٰت میں۔ سورہ انعام میں تو صرف ان کو انبیاء علیہم السلام کی فہرست میں شمار کیا ہے اور سورہ الصّٰفٰت میں آپ کی بعثت اور قوم کی ہدایت کے متعلق مختصر طور پر بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ انعام میں ہے:
وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡسُفَ وَ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ؕ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿ۙ84﴾وَ زَکَرِیَّا وَ یَحْیٰی وَ عِیۡسٰی وَ اِلْیَاسَ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿ۙ85﴾وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوۡنُسَ وَ لُوۡطًا ؕ وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ86﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکو کاروں کو اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔ اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔(پ7،الانعام:84)
اور سورہ الصّٰفٰت میں اس طرح ارشاد فرمایا کہ:
وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿123﴾ؕاِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖۤ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿124﴾اَتَدْعُوۡنَ بَعْلًا وَّ تَذَرُوۡنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیۡنَ ﴿125﴾ۙاللہَ رَبَّکُمْ وَ رَبَّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیۡنَ ﴿126﴾فَکَذَّبُوۡہُ فَاِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوۡنَ ﴿127﴾ۙاِلَّا عِبَادَ اللہِ الْمُخْلَصِیۡنَ ﴿128﴾وَ تَرَکْنَا عَلَیۡہِ فِی الْاٰخِرِیۡنَ ﴿129﴾ۙسَلٰمٌ عَلٰۤی اِلْ یَاسِیۡنَ ﴿130﴾اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿131﴾اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿132﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک الیاس پیغمبروں سے ہے۔ جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا کیا تم ڈرتے نہیں کیا بعل کو پوجتے ہو اور چھوڑتے ہو سب سے اچھا پیدا کرنے والے اللہ کو جو رب ہے تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پھر انہوں نے اسے جھٹلایا تو وہ ضرور پکڑے آئیں گے مگر اللہ کے چنے ہوئے بندے اور ہم نے پچھلوں میں اس کی ثنا باقی رکھی سلام ہو الیاس پر بیشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔(پ23،الصفات:123 تا 132)
حضرت الیاس علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ اگرچہ قرآن مجید میں بہت ہی مختصر مذکور ہے تاہم اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہودیوں کی ذہنیت اس قدر مسخ ہو گئی تھی کہ کوئی ایسی برائی نہیں تھی جس کے کرنے پر یہ لوگ حریص نہ ہوں باوجودیکہ ان میں ہدایت کے لئے مسلسل انبیاء کرام تشریف لاتے رہے مگر پھر بھی بت پرستی، کواکب پرستی اور غیر اللہ کی عبادت ان لوگوں سے نہ چھوٹ سکی۔ پھر یہ لوگ اعلیٰ درجے کے جھوٹے، بدعہد اور رشوت خور بھی رہے اور اللہ تعالیٰ کے مقدس نبیوں کو ایذائیں دینا اور ان کو قتل کردینا ان ظالموں کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ بہرحال ان ظالموں کے واقعات سے جہاں ان لوگوں کی بدبختی و کجروی اور مجرمانہ شقاوت پر روشنی پڑتی ہے، وہیں ہم لوگوں کو یہ نصیحت و عبرت بھی حاصل ہوتی ہے کہ اب جب کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے تو ہمارے لئے بے حد ضروری ہے کہ خدا کے آخری پیغام یعنی اسلام پر مضبوطی سے قائم رہ کر یہودیوں کے ظالمانہ طریقوں کی مخالفت کریں اور کفار کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں پر صبر کر کے خدا کے مقدس نبیوں کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: