مولاناسیدشوکت علی باپواشرفی
کرجن گجرات
پندرہویں صدی کے مجدد کون ہیں؟
شرائط مجدد
۱ :- صدی کے آخر میں شہرت تامہ خاص و عام میں حاصل ہو۔ اگلی صدی کا کچھ وقت حیات ظاہری میں پا لے۔
حضور شیخ الاسلام کی ولادت ۱۴ ؍ویں صدی میں یکم رجب المرجب ۱۳۵۷ ھ مطابق ۲۸ ؍اگست ۱۹۳۷ ء اتوار کے روز ہوئی۔ اور حضور محدث اعظم ہند کے وصال کے بعد چہلم کے موقع پر ۲۶ ؍شوال ۱۳۸۱ ھ مطابق فروری ۱۹۶۲ ء میں آپ جانشینِ محدث اعظم ہند بنے۔ اس درمیان میں آپ نے اپنے زمانے کے مایہ ٔ ناز علماء اسلام سے نحو، صرف، تفسیر ، اصول تفسیر ، حدیث ، اصول حدیث ، فقہ ، اصول فقہ ، بلاغت ، کلام ، معانی وغیرہ عربی فارسی ادبیات اور ظاہری علوم و فنون کی منزلوں کو طے کر لیا۔ اور عالم روحانیت کے جلیل ا لقدر مشائخ عظام سے باطنی علوم حاصل کر لئے۔ پھر جانشینی کے بعد آپ نے اہل سنت و جماعت کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے ملک اور بیرونِ ملک تبلیغی دورے فرمائے۔ اور اپنی تقاریر و تصانیف کے ذریعہ مسلکِ اہل سنت و جماعت کو ہرسو عام کر دیا۔ وقت کے جلیل القدر علماء کرام اور مفتیانِ عظام نے آپ کے علم کا لوہا مانا۔ اور مشائخ کرام نے آپ کو اپنا ہمنشین بنا لیا۔ اس طرح ۱۴؍ویں صدی کے آخر تک تو آپ تمام عالم اسلام پر چھا گئے اور آپ کو ہر خاص و عام میں شہرت عامہ و تامہ حاصل ہو گئی۔ آج ۱۴۳۷ھ اس ۱۵ویں صدی میں بھی ۳۷سال سے آپ رات و دن اور صبح و شام دین و سنیت کی خدمت میں مشغول و مصروف ہیں۔ غرضیکہ ۱۴ ویں صدی کے ۴۳ سال اور اس ۱۵ ویں صدی کے ۳۶سال ، کل۷۹ سالہ زندگی میں لاکھوں نہیں ، بلکہ کروڑوں لوگ آپ کے معتقد و معترف ہو گئے۔ اس طرح ۱۴ویں اور ۱۵ویں ، دونوں صدیوں میں آپ کا فیضان جاری ہوا اور ہے۔
۲ :- قرآن، حدیث، تفسیر ، فقہ کا زبردست عالم ہو۔
حضور شیخ الاسلام قرآن و حدیث اور تفسیر و فقہ کے بے مثال زبردست عالم ہیں۔ بلکہ آپ عظیم مفسرِ قرآن، بے نظیر شارحِ حدیث ، قابل مفتی ، کامل فقیہ اور زبردست محقق ہیں۔ آپ کے تبحرِ علمی کا لوہا بڑے بڑے علماء و فقہاء و فضلاء نے مانا ہے۔قرآن و حدیث اور علوم دینیہ پر آپ کو مہارتِ تامہ و کاملہ حاصل ہے۔ آپ جب بھی کسی آیت یا حدیث یا مسئلہ پر میدانِ تحقیق میں اُترتے ہیں تو بال کی کھال نکال کر رکھ دیتے ہیں، جسے دیکھ کر وقت کے عظیم فقہاء و علماء بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ آپ کی لکھی ہوئی تفسیر بنام ’’ تفسیرِ اشرفی ‘‘ آپ کے عظیم مفسرِ قرآن ہونے کی شاہد ہے، جس میں آپ نے قرآنِ پاک کا صحیح معنی و مفہوم بیان فرما کر گویا ’’گاگر میں ساگر ‘‘ کو سمو دیا ہے۔ آپ نے ’’تفہیم الحدیث شرح مشکوۃ شریف المعروف الاربعین الاشرفی ‘‘ تحریر فرما کر اپنے محدث ہونے اور باب حدیث میں بھی آپ کو کامل عبور حاصل ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ فقہ اور اصول فقہ کے باب میں آپ کو ایسی گہری معلومات اور زبردست مہارت حاصل ہے کہ دورِحاضر کے بڑے بڑے فضلاء و فقہاء نے آپ کو اپنا سردار جانا و مانا ہے اور آپ کے علم کا اعتراف کیا ہے۔ ویڈیو-ٹی وی کے شرعی استعمال کو آج ہر ایک کو مسرورًا یا مجبورًا مان رہا ہے۔ جب کہ آپ نے تو آج سے ۲۵ سال پہلے ہی (۱۹۸۵ ء میں ) اسکے شرعی جواز کا فتوی صادر فرما دیا تھا۔ اسی طرح عورتوں ، لڑکیوں کو لکھنا سکھانے کے بارے میں آپ کی تحقیق کو دیکھنے سے آپ کی عظیم محققانہ شان کا پتہ چلتا ہے۔ نیز آپ کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد فقہ اور اصول فقہ پر آپکی زبردست پکڑ اور فقیہانہ و محدثانہ شان ظاہر ہوتی ہے۔المختصرحقیقت میں آپ ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ کی روشنی میں حقیقی وارثِ علوم ِنبی اور ’’علماء اُمتی کانبیاء بنی اسرائیل ‘‘حدیث کے تحت علمی صفت سے متصف ہیں۔
۳ :- شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا زبردست حامی اور خود پابندِ شریعت ہو۔
بلا شبہ حضور شیخ الاسلام زبردست حا می ٔ شریعت مصطفی ، حامی ٔ اہل سنت اورماحی ٔ کفر و ضلالت ہیں۔آپ نے مسلسل ۴۰ سال تک گاؤں گاؤں اور شہر شہر خطاب فرما کر مسلکِ اہل سنت کے پرچم کو بلند و بالا فرما دیا۔ اور دیوبندیت ، وہابیت ، قادیانیت ، مودودیت اور غیر مقلدیت کا منہ کالا کر دیا۔آپ نے اپنے خطابات سے بے ایمانوں کو ایمان والا اور ایمان والوں کو عشق و عرفان والا بنا دیا۔آپ کے خطابات باطل کے لئے کھلی شمشیر ہیں۔آپ نے احقاق حق اور ابطال باطل کا فرضِ منصبی بحسن و خوبی ادا فرما دیا۔
آپ پابندِ شریعت اور پابندِ سنت ہیں۔ بے شک آپ ’’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘‘ کی سراپا تفسیر ہیں۔ آپ عاشق رسول ہیں۔ آپ کی جلوت و خلوت سب یکساں ہیں۔ آپ کی محفلوں میں ہمیشہ اللہ و رسول کا ، شریعت و سنت کا، علم و حکمت کا اور مسائل دینیہ ہی کا ذکر ہوتا ہے۔ آپ کی مجلسیں لغویات و بدگوئیوں سے پاک ہیں۔ آپ کی ذات ولایت کی پہچان ہے۔ ولی وہ ہوتا ہے ، جسے دیکھ کر خدا یاد آئے۔ بے شک و یقینًا آپ کو دیکھ کر اور آپ کی صحبت کو پاکر خدا کی یاد آتی ہے۔
۴ :- علماء و مشائخ اسے اپنا مقتدیٰ تسلیم کرتے ہوںاور دینی مسائل میں رجوع کرتے ہوں۔
یقینًا حضور شیخ الاسلام کی ذات بھی وہ ذات ہے ، جسے علماء و مشائخ نے اپنا مقتدیٰ جانا و مانا ہے۔ ملک ہندوستان و پاکستان اور دیگر ممالک کی مختلف خانقاہوں کے مشائخ نے آپ کو سراہا اور اپنا ہمنشیں بنایا ہے۔ خود غزالی ٔ دوراں مظہر امام احمد رضا حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ جیسی پاکستان کی بزرگ شخصیت نے آپ کے فتاوی کی تصدیق اور آپ کی خوب خوب تعریف فرمائی ۔بغداد شریف آستانہ ٔ غوث اعظم کے سجادہ نشین شیخ طریقت نے آپ کا خوب خوب ادب و احترام فرمایا اور خوب تعظیم و تکریم فرمائی۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے آستانہ کے بزرگ سجادہ نشین نے آپ کو اپنی خانقاہ پر بلا کر آپ کا شاندار استقبال فرمایا۔ حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کے آستانہ کے سجادہ نشین نے بھی آپ کو اپنی خانقاہ پر دعوت دیکر آپ کا شایانِ شان استقبال فرمایا اور آپ کو خوب دعاؤں سے نوازا ۔ اور عالم اسلام میں آپ کی عظیم خدمات کی تعریف فرمائی۔ نیز آپ کو حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کے آستانہ کا خاص خرقہ عطا فرمایا۔
ہندوستان ، پاکستان ، مکہ معظمہ ، مدینہ منورہ ، عراق ، افریقہ ، امریکہ ، برطانیہ وغیرہ ملک و بیرونِ ملک ہر جگہ ہمیشہ علماء کرام نے علمی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کیا آپ سے علمی مباحثہ کرکے فیضیاب ہوئے۔ تحقیقی مسائل میں دور دراز سے علماء کرام آج تک آپ کی طرف رجوع کرتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں۔ :- اسکا ہر عمل اللہ عز و جل کی رضا اور دین کے فائدے کے لئے ہو۔
بلا شک و شبہ حضور شیخ الاسلام کا ہر ہر عمل خالص خدا کی رضا کے لئے اور صرف اور صرف دین اسلام کے فائدے کے لئے ہوتا ہے۔ چاہے تقریر ہو یا تحریر ، عبادت و ریاضت یا وعظ و نصیحت ، جلوت ہو یا خلوت ، ہر حال میں ہر عمل خلوص و للہیت کے لئے کرتے ہیں۔ ریاکاری اور دکھاوا آپ سے کوسوں دور رہتا ہے۔ دین کے فائدے اور تعلیم دینِ اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے آپ نے ایک عظیم مشن بنام ’’محدث اعظم مشن ‘‘ قائم فرمایا۔ اس مشن کی صوبہ گجرات اور ہندوستان اور دیگر ملکوں میں دو سو سے زیادہ شاخیں ہیں ، جو اپنے اپنے طریقے پر دینِ اسلام کی خدمت کر رہی ہے۔ دین کے فائدے ہی کے لئے آپ نے بے شمار دینی مدرسوں کی سرپرستی قبول فرمائی اور دین کے معاملہ میں انکی رہنمائی فرمائی۔ بلکہ آپ نے اپنی ذات کو دین اسلام کی خاطر وقف کر دیا ہے۔
۶ :- اپنے ذاتی مفاد کے لئے کسی کے آگے دستِ طلب دراز نہ کرتا ہو۔
حضور شیخ الاسلام کی یہ امتیازی و انفرادی شان ہے کہ آج تک آپ نے کبھی بھی کسی سے دستِ طلب دراز نہیں فرمایا۔ چاہے قریب والے ہوں یا دور والے۔ اور چاہے دینی کام ہو یا دنیوی، ذاتی کام ہو یا غیر ذاتی۔ کبھی بھی آپ نے کسی سے سوال نہیں کیا۔ بلکہ نہ کبھی دل میں طمع رکھی اورنہ کسی سے امید۔بس ہمیشہ اپنے اللہ اور اپنے رسول ہی سے مانگا۔ انہیں کی بارگاہ میں عرض کیا اور انہیں سے پایا۔ وھو المعطی و ھو القاسم عز و جل وصلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم۔
میری نظرمیںاوپر لکھے ہوئے شرائط پر اگر کوئی ذات پوری اُترتی ہے ، تو وہ سرکار شیخ الاسلام کی ذات ہے، جو در حقیقت رسولِ اعظم کا معجزہ اور غوثِ اعظم کی کرامت ہے۔ بلاشبہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین ، رئیس المحققین ، جانشینِ حضور محدثِ اعظم ہند ، رہبر شریعت ، پیر طریقت ، واقف اسرار حقیقت ، عارف رموزمعرفت، حضرت علامہ مولانا مفتی الحاج الشاہ سید محمد مدنی میاں قادری چشتی اشرفی جیلانی کچھوچھوی ،مدظلہ العالی.
سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ولا حول ولا قوۃالا باللہ العلی العظیم ۔
0 Comments: