سبق نمبر :(3)
(۔۔۔۔۔۔ باب نَصَرَ یَنْصُرُ کی خاصیات۔۔۔۔۔۔)
اس باب کی مندرجہ ذیل خاصیات ہیں:
(۱)تعمل (۲)موافقت (۳)اتخاذ(۴)تدریج(۵)کثرتِ مأخذ(۶) اطعامِ مأخذ (۷)الباسِ مأخذ (۸) قطعِ مأخذ(۹) اعطائے مأخذ(۱۰) سلبِ مأخذ(۱۱)ضربِ مأخذ (۱۲)بلوغ(۱۳) تطلیہ(۱۴) مطاوعت (۱۵) صیرورت(۱۶) طلب مأخذ (۱۷) دفعِ مأخذ
(1)۔۔۔۔۔۔تَعَمُّل :
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
قَلٰی الصَّبِیُّ بچے نے گلی پھینکی قُلَّۃٌ گلی
اس مثال میں فاعل(بچہ) مأخذ(قُلَّہ)بمعنی گلی ڈنڈا کواپنے کام یا عمل میں لایا۔
(2)۔۔۔۔۔۔مُوَافَقَت:
موافقت کا معنی ہے ایک باب کا دوسرے باب کے ہم معنی ہونا۔باب نَصَرَ درج ذیل ابواب کی موافقت کرتاہے:
۱۔ موافقتِ باب سَمِعَ وَکَرُمَ وَضَرَ بَ: جیسے عَثِرَ زَیْدٌ،عَثُر زَیْدٌ، عَثَرَ زَیْدٌ تینوں افعال کامعنی ہے زیدگرا۔
۲۔موافقت إِفْعَال: باب نَصَرَ کا باب إِفْعَال کے ہم معنی ہونا۔جیسے صَلَقَ زَیْدٌوأَصْلَقَ زَیْدٌ، زید مصیبت میں چلایا یہ دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۳۔موافقت تَفْعِیْل:
باب نَصَرَ کا باب تَفْعِیْل کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: شَرَفَ زَیْدٌ الْبَیْتَ وَشَرَّفَ زَیْدٌ الْبَیْتَ۔ زید نے گھر میں کنگرہ بنایا، دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۴۔موافقت اِنْفِعَال:
باب نَصَرکا باب اِنْفِعَال کے ہم معنی ہونا۔ جیسے زَقَبَ الْجَزْدُ فِی الْجُحْرِ وَانْزَقَبَ الْجَزْدُفِی الْجُحْرِ ۔ چوہا سوراخ میں داخل ہوایہ دونوں فعل ہم معنی ہیں۔
۵۔موافقت فَعْلَلَ:
باب نَصَرَ کا باب فَعْلَلَۃ کے ہم معنی ہونا۔ مثال قَرَصَ زَیْدٌ وَقَرْصَبَ زَیْدٌ ۔ زید نے کاٹا دونوں باب ہم معنی ہیں۔
(3)۔۔۔۔۔۔اِتِّخَاذ:ـ
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
حَاضَ خَالِدٌ خالد نے حوض بنایا حَوْضٌ حوض
اس مثال میں فاعل(خالد)نے مأخذ(حوض) کوبنایا۔
(4)۔۔۔۔۔۔تَدْرِیْج:
فاعل کا کسی کام کو آہستہ آہستہ کرنا۔جیسے : غَتَّ خَالِدٌ الْمَآءَ ، خالد نے گھونٹ گھونٹ پانی پیا۔
اس مثال میں فاعل(خالد)نے پینے والے فعل کو آہستگی سے کیاہے،
اور یہ تَدْرِیْج ہے۔
(5)۔۔۔۔۔۔کَثْرَتِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
غَثی الْمَکَانُ مکان میں کوڑا کرکٹ کثیر ہوگیا غُثَاءٌ کوڑا کرکٹ
اس مثال میں مکان میں مأخذ( کوڑا کرکٹ) کثیر ہوگیا۔
(6)۔۔۔۔۔۔اِطْعَامِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
عَسَلَ زَیْدٌ بَکْرًا زید نے بکر کو شہد کھلایا عَسَلٌ شہد
اس مثال میں فاعل(زید)نے مفعول(بکر)کو مأخذ(شہد) کھلایا۔
(7)۔۔۔۔۔۔إِلْبَاسِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
زَنَرَتْ ہِنْدٌ الْغُلاَمَ ہند نے غلام کو زنار پہنایا زَنَّارٌ عینِ زنار جو پہناجاتاہے
اس مثال میں فاعل(ہند)نے مفعول(غلام) کو مأخذ (عین زنار) پہنایا ۔
(8)۔۔۔۔۔۔ قَطْعِ مَأخَذ:ـ
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
حَشَشْتُ میں نے خشک گھاس کاٹی حَشِیْشٌ خشک گھاس
اس مثال میں فاعل(ذاتِ متکلم)نے مأخذ(خشک گھاس) کو کاٹا۔ اور اسی مأخذ کے کاٹنے والے عمل کو قطع مأخذ کہتے ہیں۔
(9)۔۔۔۔۔۔إِعْطَائے مَأخَذ :
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
عَظَمْتُ الْکَلْبَ میں نے کتے کو ہڈی دی عَظْمٌ ہڈی
اس مثال میں فاعل(ذاتِ متکلم)نے مفعول(کتے)کو مأخذ (عَظْم) کا مدلول( ہڈی) دی۔
(10)۔۔۔۔۔۔ سَلْبِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
قَشَرَ زَیْدٌ بَیْضَۃً زید نے انڈے سے چھلکا اتاردیا قِشْرٌ چھلکا
اس مثال میں فاعل(زید)نے مفعول(انڈے)سے مأخذ(قِشْر) کو دور کردیا۔
(11)۔۔۔۔۔۔ضَرْبِ مَأخَذ :
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
مَتَنَ زَیْدٌ عَمْروًا زید نے عمرو کی پیٹھ پر مارا مَتَنٌ پیٹھ/کمر
اس مثال میں فاعل(زید)نے مفعول (عمرو) کو مأخذ( پیٹھ) پر مارا۔
(12)۔۔۔۔۔۔بُلُوْغ :
بلوغ کامعنی ہے پہنچنااور اس کی دو اقسام ہیں:
۱۔۔۔۔۔۔بلوغ رتبی ۲۔۔۔۔۔۔بلوغ زمانی
۱۔ بلوغ رتبی : فاعل کا مأخذ کے مرتبے تک پہنچنا ۔
۲۔بلوغ زمانی: فاعل کا مأخذ کے وقت میں پہنچنا ۔
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
نَصَفَ زَیْدٌ الْقُرْآنَ زید قرآن کے نصف تک پہنچ گیا نِصْفٌ قرآن کاآدھا حصہ جو ایک مرتبہ ہے
سَبَتَ زَیْدٌ زید ہفتہ کے دن پہنچا سَبْتٌ ہفتہ جو کہ ایک وقت /زمانہ ہے
پہلی مثا ل بلوغ رتبی کی ہے کہ اس میں فاعل(زید)قرآن کے نصف تک پہنچاجو کہ ایک مرتبہ ہے ،کوئی زمانہ نہیں۔دوسری مثال بلوغ زمانی کی ہے کیونکہ اس میں فاعل(زید)ہفتے کے دن پہنچااورہفتے کادن ایک وقت ہے کوئی رتبہ نہیں ہے۔
(13)۔۔۔۔۔۔ تَطْلِیَہ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
قَطَرَ زَیْدٌ الْبَعِیْرَ زید نے اونٹ کو تارکول ملا قَطِرَانٌ تارکول
اس مثال میں فاعل(زید)نے مفعول(اونٹ)کو مأخذ (تارکول) ملا۔
(14)۔۔۔۔۔۔مُطَاوَعَتِ اِفْتِعَال:
یعنی باب نَصَرَکے بعد باب اِفْتِعَال کو اس غرض سے لانا تاکہ معلوم ہو کہ باب نَصَرَکے فاعل نے اپنے مفعول پر جو اثر کیا تھا، مفعول نے اس اثر کو قبول کرلیاہے۔ جیسے: سَآءَ بَکْرٌ زَیْدًا فَا سْتَآءَ زَیْدٌ، بکر نے زید کو غمگین
کیا تو زید غمگین ہوگیا۔
اس مثال میں سَآء کے فاعل(بکر)نے اپنے مفعول (زید)پر جو غمگین کرنے کافعل واقع کیاتھا،مفعول(زید)نے اس فعل کے اثر کو قبول کرلیاہے، یعنی وہ غمگین ہوگیاہے۔
15)۔۔۔۔۔۔ صَیْرُ ْورَت:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
بَابَ زَیْدٌ لِلْاَمِیْرِ زید امیر کا دربان (صاحب باب) ہوا بَابٌ
دروازہ
اس مثال میں فاعل(زید ) مأخذ(باب )والا ہوا،یعنی دربان ہوگیا۔
(16)۔۔۔۔۔۔طَلْبِ مَأخَذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
جَدَا زَیْدٌ عَمْرواً زید نے عمرو سے عطیہ طلب کیا جَدْوٰی عطیہ
اس مثال میں فاعل (زید)نے مفعول( عمرو) سے مأخذ ( عطیہ)طلب کیا۔
(17)۔۔۔۔۔۔دَفْعِ مأخذ:
مثال معنی مأخذ مدلول مأخذ
بَزَقَ زَیْدٌ زید نے تھوکا بُزَاقٌ تھوک
اس مثال میں فاعل( زید)نے مأخذ (تھوک) کودور کیا۔
نوٹ:
باب نَصَرَ یَنْصُرُ کی خصوصیات سے ایک مشہور خاصہ مُغَالَبَہ بھی ہے چنانچہ'' شرح شافیہ ابن حاجب '' میں ہے : وَمِمَّا یَخْتَصُّ بَہٰذَا الْبَابِ
بَضَمِّ مُضَارِعِہ المُغَالَبَۃُ، ونَعْنِی بہا أن یَغْلِبَ أَحَدٌ الامرَیْن الاخرَ فی معنَی الْمَصْدَرِ، فلا یکونُ إذنْ إلا مُتَعَدِّیاً نحوُ:کَارَمَنِی فَکَرُمْتُہ أَکْرُمُہ: أی غَلَبْتُہ بِالْکَرَم، وخَاصَمَنِی فَخَصَمْتُہ أخصُمہ، وغَالَبَنِی فَغَلَبْتُہ أغلُبہ، وقد یکونُ الفعلُ من غیرِ ہٰذَا البابِ کَغَلَب وخصَم وکرُم، فإذا قَصَدتَّ ہذَا الْمَعْنٰی نَقَلْتَہ إلی ہذا البابِ، إلا أن یکونَ المثالَ الواویَّ کَوَعَدَ،والْاجوفَ والنَّاقِصَ الیائیین کَبَاعَ ورمَی، فَاِنَّکَ لا تَنْقُلْہا عن فعَل یفعِل، بل تنقُلُہا إلیہ إنْ کَانَتْ مِنْ غَیْرِہٖ'' یعنی اس باب کا ایک خاصہ مغالبہ ہے اور اس سے مراد دو امور میں سے کسی ایک کادوسرے پر معنی مصدری میں غالب آجانا ہے (غلبہ کے اظہار کیلئے باب مفاعلہ کے بعد اسی باب سے فعل ذکر کرتے ہیں)لہذا ایسی صورت میں فعل متعدی ہی ہوتا ہے۔ جیسے :کَارَمَنِی زَیْدٌ فَکََرُمْتُہ یاأَکْرُمُہ: أی غَلَبْتُہ بِالْکَرَم(میرا اور زید کا سخاوت کرنے میں باہم مقابلہ ہوا اور میں سخاوت کرنے میں غالب آگیا )، وخَاصَمَنِی فَخَصَمْتُہ یاأخصُمہ، وغَالَبَنِی فَغَلَبْتُہ یاأغلُبُہ کبھی یہ فعل باب نصر کے علاوہ سے بھی آتا ہے۔جیسے:غَلَبَ وخَصَمَ وکَرُمَ یہاں یہ ذہن میں رہے کہ دوسرے باب سے آنے کی صورت میں بھی اس فعل کو باب نَصَرَ کے ہی وزن پر ذکر کیا جائے گا جبکہ وہ فعل مذکور صحیح، اجوف واوی، یا ناقص واوی ہو۔جیسے یُضَارِبُنِی زَیْدٌ فَاَضْرُبُہ ہاں اگر مذکور فعل مثال واوی،اجوف یائی یا ناقص یائی ہو تو باب ضَرَب سے آئے گا۔
0 Comments: