حضرت داؤد علیہ السلام خداوند قدوس کی تسبیح و تقدیس میں بہت زیادہ مشغول و مصروف رہتے تھے اور آپ اس قدر خوش الحان تھے کہ جب آپ زبور شریف پڑھتے تھے تو آپ کے وجد آفریں نغموں سے نہ صرف انسان بلکہ وحوش و طیور بھی وجد میں آجاتے اور آپ کے گرد جمع ہو کر خدا کی حمد کے ترانے گاتے اور اپنی اپنی سریلی اور پرکیف آوازوں میں تسبیح و تقدیس میں حضرت داؤد علیہ السلام کی ہمنوائی کرتے اور چرند و پرند ہی نہیں بلکہ پہاڑ بھی خداوند تعالیٰ کی حمد و ثناء میں گونج اٹھتے تھے۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کے ان معجزات کا ذکر جمیل اللہ تعالیٰ نے سورہ انبیاء و سورہ سبا و سورہ ص ۤ میں صراحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ:
وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیۡرَ ؕ وَکُنَّا فٰعِلِیۡنَ
ترجمہ کنزالایمان:۔اور داؤد کے ساتھ پہاڑ مسخر فرما دیئے کہ تسبیح کرتے اور پرندے اور یہ ہمارے کام تھے۔ (پ17،الانبیاء:79)
اور سورہ سبا میں اس طرح ارشاد فرمایا کہ:
وَلَقَدْ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ؕ یٰجِبَالُ اَوِّبِیۡ مَعَہٗ وَالطَّیۡرَ ۚ
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنا بڑا فضل دیا اے پہاڑو اس کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرو اور اے پرندو۔(پ22،سبا :10)
اور سورہ ص ۤ میں ارشاد ربانی اس طرح ہوا کہ:
اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ ﴿ۙ18﴾وَالطَّیۡرَ مَحْشُوۡرَۃً ؕ کُلٌّ لَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿19﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ بیشک ہم نے اس کے ساتھ پہاڑ مسخر فرمادیے تسبیح کرتے شام کو اورسورج چمکتے اورپرندے جمع کئے ہوئے سب اس کے فرمانبردار تھے ۔ (پ23،صۤ:18۔19)
درسِ ہدایت:۔ بے عقل پرندے اور بے جان پہاڑ جب خداوند قدوس کی تسبیح و تقدیس کا نغمہ گایا کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیتوں میں آپ پڑھ چکے تو اس سے ہم انسانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہم انسان جو عقل والے، ہوشمند اور صاحب ِ زبان ہیں ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم خداوند قدوس کی تسبیح اور اس کی حمد و ثناء کے افکار کو ورد زبان بنائیں اور اس کی تسبیح و تقدیس میں برابر مشغول و مصروف رہیں۔
حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے اس سلسلہ میں ایک بہت ہی لطیف و لذیذ اور نہایت ہی مؤثر حکایت بیان فرمائی ہے اس کو پڑھئے اور عبرت و نصیحت حاصل کیجئے وہ فرماتے ہیں:
دوش مرغے بصبح می نالید
عقل و صبرم ربود و طاقت و ہوش
ایک پرند صبح کو چہچہا رہا تھا تو اس کی آواز سے میری عقل و صبر اور طاقت و ہوش سب غارت ہو گئے۔
یکے از دوستانِ مخلص
را مگر آوازِ من رسید بگوش
میرے ایک مخلص دوست کے کان میں شاید میری آواز پہنچ گئی۔
گفت باور نداشتم کہ ترا
بانگ مرغے چنیں کند مدہوش
تو اس نے کہا کہ مجھے یقین نہیں آتا کہ ایک پرند کی آواز تم کو اس طرح مدہوش کردے گی۔
گفتم این شرط آدمیت نیست
مرغ تسبیح خوان و من خاموش
تو میں نے کہا کہ یہ آدمیت کی شان نہیں ہے کہ پرند تو تسبیح پڑھے اور میں خاموش رہوں۔
0 Comments: