ایک مرتبہ ابوجہل اور اس کے قبیلے کے دو آدمیوں نے حلف اٹھایا کہ اگر ہم لوگوں نے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھ لیا تو ہم پتھر سے ان کا سر کچل دیں گے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز کے لئے حرم کعبہ میں تشریف لے گئے اور ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ ایک بہت بڑا پتھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس پتھر کو پھینکنے کے لئے اپنے سر کے اوپر دونوں ہاتھوں سے اٹھایا تو اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن میں آگئے اور پتھر اس کے ہاتھوں میں چپک کر رہ گیا اور دونوں ہاتھ طوق بن کرٹھوڑی کے پاس بندھ گئے اور وہ اس طرح ناکام ہو کر لوٹ آیا۔ اس کے دوسرے دن ولید بن مغیرہ نے جھنجھلا کر کہا کہ تم پتھر مجھے دے دو۔ میں اس کو ان کے سر پر دے ماروں گا۔ چنانچہ اس بدنصیب نے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر چلانے کا ارادہ کیا تو ایک دم اندھا ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کی آواز تو سنتا رہا مگر آپ صلی اللہ علیہ سلم کی صورت نہیں دیکھ سکتا تھا، مجبوراً پلٹ گیا تو اپنے ساتھیوں کو بھی نہ دیکھ سکا۔ جب آواز دی تو ساتھیوں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو اس نے اپنی مجبوری کا حال بیان کیا پھر اس کے تیسرے ساتھی نے غصہ میں بھر کر پتھر کو اپنے ہاتھ میں لیا مگر یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچتے ہی الٹے پاؤں بدحواس ہو کر بھاگا اور ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں جب ان کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک ایسا سانڈ ان کے قریب اپنی دم ہلا رہا ہے کہ میں نے آج تک ایسا خوفناک سانڈ دیکھا ہی نہیں تھا۔ لات و عزیٰ کی قسم! اگر میں ان کے قریب جاتا تو وہ مجھے ہلاک کردیتا۔
(تفسیر صاوی، ج۵، ص۱۷۰۶، یٰسۤ :۸۔۹)
اس واقعہ کا ذکر سورہ یٰس ۤ میں ان لفظوں کے ساتھ مذکور ہے۔
اِنَّا جَعَلْنَا فِیۡۤ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلًا فَہِیَ اِلَی الۡاَذْقَانِ فَہُمۡ مُّقْمَحُوۡنَ ﴿8﴾وَ جَعَلْنَا مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیۡنٰہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُوۡنَ ﴿9﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ہم نے ان کی گردنوں میں طوق کردیئے ہیں کہ وہ ٹھوڑیوں تک ہیں تو یہ اب اوپر کو منہ اٹھائے رہ گئے اور ہم نے ان کے آگے دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے ایک دیوار اور انہیں اوپر سے ڈھانک دیا تو انہیں کچھ نہیں سوجھتا۔(پ22،یسۤ:8۔9)
درسِ ہدایت:۔یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے۔ بارہا کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش کی اور اپنی خفیہ چالبازیوں اور دسیسہ کاریوں میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا، مگر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی بھی کوئی آنچ نہ آسکی اور خداوند قدوس کا وعدہ پور اہوا کہ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ
یعنی اے محبوب! اللہ تعالیٰ لوگوں کی چالوں سے آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے گا۔(پ6،المائدہ:67) واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: