ایک مرتبہ جہاد کی ایک مہم کے موقع پر شام کے وقت حضرت سلیمان علیہ السلام نے گھوڑوں کو اصطبل سے لانے کا حکم دیا۔ جب وہ پیش کئے گئے تو چونکہ آپ کو گھوڑوں کی نسلوں اور ان کے ذاتی اوصاف کے علم کا کمال حاصل تھا اس لئے جب آپ نے ان گھوڑوں کو اصیل سبک رو اور خوش رو پایا اور یہ ملاحظہ فرمایا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے تو آپ پرمسرت و انبساط کی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ فرمانے لگے کہ ان گھوڑوں سے میری محبت ایسی مالی محبت میں شامل ہے جو پروردگار کے ذکر ہی کا ایک شعبہ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس غوروفکر کے درمیان گھوڑے اصطبل کو روانہ ہو گئے۔ چنانچہ جب آپ نے نظر اٹھائی تو وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہوگئے تھے۔ تو آپ نے حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو واپس لاؤ۔
جب وہ گھوڑے واپس لائے گئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جوش محبت میں ان گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا اور تھپتھپانا شروع کردیا۔ کیونکہ یہ گھوڑے جہاد کا سامان تھے اس لئے آپ ان کی عزت و توقیر کرتے ہوئے ایک ماہر فن کی طرح سے ان گھوڑوں کو مانوس کرنے لگے اور اظہارِ محبت فرمانے لگے۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو حسب ِ ذیل عبارت میں بیان فرمایا ہے:
وَ وَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیۡمٰنَ ؕ نِعْمَ الْعَبْدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿ؕ30﴾اِذْ عُرِضَ عَلَیۡہِ بِالْعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِیَادُ ﴿ۙ31﴾فَقَالَ اِنِّیۡۤ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیۡرِ عَنۡ ذِکْرِ رَبِّیۡ ۚ حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ﴿32﴾ٝرُدُّوۡہَا عَلَیَّ ؕ فَطَفِقَ مَسْحًۢابِالسُّوۡقِ وَالْاَعْنَاقِ ﴿33﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا فرمایا کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا جب کہ اس پر پیش کئے گئے تیسرے پہر کو کہ رُوکئے تو تین پاؤں پر کھڑے ہوں چوتھے سم کا کنارہ زمین پر لگائے ہوئے اور چلایئے تو ہوا ہو جائیں تو سلیمان نے کہا مجھے ان گھوڑوں کی محبت پسند آئی ہے اپنے رب کی یاد کے لئے پھر انہیں چلانے کا حکم دیا یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چھپ گئے پھر حکم دیا کہ انہیں میرے پاس واپس لاؤ تو ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔(پ23،صۤ:30۔33)
درسِ ہدایت:۔ان آیات کی جو تفسیر ہم نے تحریر کی ہے اس کو ابن جریر طبری اور امام رازی نے ترجیح دی ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی یہی تفسیر فرمائی ہے۔ جس کے ناقل علی بن ابی طلحہ ہیں ان آیات کی تفسیر میں بعض مفسرین نے گھوڑوں کی پنڈلیاں اور گھوڑوں کی گردنوں کو تلوار سے کاٹ ڈالنا تحریر کیا ہے اور اسی قسم کے بعض دوسرے کمزور اقوال بھی تحریر کئے ہیں جن کی صحت پر کوئی دلیل نہیں ہے اور وہ محض حکایات اور داستانیں ہیں جو دلائل قویہ کے سامنے کسی طرح قابل قبول نہیں اور یہ تفسیر جو ہم نے تحریر کی ہے اس پر نہ کوئی اشکال و اعتراض پڑتا ہے نہ کسی تاویل کی ضرورت پیش آتی ہے۔
(تفسیر خزائن العرفان،ص ۸۱۹، پ۲۳، ص ۤ: ۳۳)
0 Comments: