حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا جس کا نام ''کنعان'' تھا۔ وہ صدقِ دل سے آپ پر ایمان نہیں لایا تھا، بلکہ وہ منافق تھا۔ اور اپنے کفر کو چھپائے رکھتا تھا۔ لیکن طوفان کے وقت اس نے اپنے کفر کو ظاہر کردیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی پر سوار ہوتے وقت اس کو بلایا اور فرمایا کہ میرے پیارے بیٹے! تم کشتی پر سوار ہوجاؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دو تو اس نے کہا کہ میں طوفان میں پہاڑوں پر چڑھ کر پناہ لے لوں گا تو آپ نے بڑی دل سوزی کے ساتھ فرمایا کہ بیٹا! آج خدا کے عذاب سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا۔ ہاں جس پر خداوند کریم اپنا رحم فرمائے بس وہی بچ سکتا ہے۔ باپ بیٹے میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک زور دار موج آئی اور کنعان غرق ہو گیا اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ کنعان ایک بلند پہاڑ پر چڑھ کر ایک غار میں چھپ گیا اور غار کے تمام سوراخوں کو بند کرلیا مگر جب طوفان کی موج اس پہاڑ کی چوٹی سے ٹکرائی تو غار میں پانی بھر گیا ۔اس طرح کنعان اپنے بول و براز میں لت پت ہو کر غرق ہو گیا۔
(تفسیر صاوی، ج۳،ص ۹۱۴،پ۱۲،ھود:۴۳)
قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے اس واقعہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ:
وَنَادٰی نُوۡحُ ۣابْنَہٗ وَکَانَ فِیۡ مَعْزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارْکَبۡ مَّعَنَا وَلَا تَکُنۡ مَّعَ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿42﴾قَالَ سَاٰوِیۡۤ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیۡ مِنَ الْمَآءِ ؕ قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللہِ اِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَیۡنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیۡنَ ﴿43﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ اس سے کنارے تھا اے میرے بچے ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو بولا اب میں کسی پہاڑ کی پناہ لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچالے گا کہا آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر وہ رحم کرے اور اُن کے بیچ میں موج آڑے آئی تو وہ ڈوبتوں میں رہ گیا۔ (پ12،ھود:42)
بیٹے کو اپنے سامنے اس طرح غرقاب ہوتے دیکھ کر حضرت نوح علیہ السلام کو بڑا صدمہ و رنج پہنچا اور آپ نے جناب باری تعالیٰ میں عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! میرا بیٹا کنعان تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو احکم الحاکمین ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح! یہ آپ کا بیٹا کنعان آپ کے ان گھر والوں میں سے نہیں ہے جن کو بچانے کاہم نے وعدہ کیا تھالہذا،اے نوح! تمہارا یہ سوال ٹھیک نہیں ہے اس لئے تم مجھ سے ایسی کسی بات کا سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں تجھ سے کسی ایسی بات کا سوال کروں جو مجھے معلوم نہیں ہے اور اگر تو مجھے معاف فرما کر رحم نہ فرمائے گا تو میں نقصان میں پڑ جاؤں گا۔
(تفسیر صاوی،ج۳، ص ۹۱۶۔۹۱۵(ملخصاً)،پ۱۲،ھود، : ۴۵۔ ۴۷)
قرآن مجید میں حضرت حق جل جلالہ نے اس واقعہ کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
وَنَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنْ اَہۡلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَ اَنۡتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیۡنَ ﴿45﴾قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۫٭ۖ فَلَا تَسْـَٔلْنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الْجٰہِلِیۡنَ ﴿46﴾قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنْ اَسْـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلْمٌ ؕ وَ اِلَّا تَغْفِرْ لِیۡ وَ تَرْحَمْنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿47﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور نوح نے اپنے رب کو پکارا عرض کی اے میرے رب میرا بیٹا بھی تو میرا گھر والا ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑھ کر حکم والا فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں نہیں بیشک اس کے کام بڑے نالائق ہیں تو مجھ سے وہ بات نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ نادان نہ بن۔ عرض کی اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو مجھے نہ بخشے اور رحم نہ کرے تو میں ریا کار ہوجاؤں۔(پ12،ھود:45۔47)
0 Comments: