جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر پہنچ کر ٹھہر گئی اور سب کفار غرق ہو کر فنا ہوچکے تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اے زمین! جتنا پانی تجھ سے چشموں کی صورت میں نکلا ہے تو ان سب پانیوں کو پی لے۔ اور اے آسمان! تو اپنی بارش بند کردے۔ چنانچہ پانی گھٹنا شروع ہو گیا اور طوفان ختم ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اے نوح! آپ کشتی سے اُتر جایئے۔ اللہ کی طرف سے سلامتی اور برکتیں آپ پر بھی ہیں اور ان لوگوں پر بھی ہیں جو کشتی میں آپ کے ساتھ رہے۔ (پ۱۲،ھود:۴۸)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے روئے زمین کی خبر لانے کے لئے کسی کو بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے مرغی نے کہا کہ میں روئے زمین کی خبر لاؤں گی تو آپ نے اس کو پکڑ لیا اور اس کے بازوؤں پر مہر لگا کر فرمایا کہ تجھ پر میری مہر ہے، تو پرند ہوتے ہوئے بھی لمبی اُڑان نہ اُڑ سکے گی اور میری امت تجھ سے فائدہ اٹھائے گی۔ پھر آپ نے کوے کو بھیجا تو وہ ایک مردار دیکھ کر اس پر گر پڑا اور واپس نہیں آیا۔ تو آپ نے اس پر لعنت فرما دی اور اس کے لئے بددعا فرما دی کہ وہ ہمیشہ خوف میں مبتلا رہے۔ چنانچہ کوے کو حل و حرم میں کہیں بھی پناہ نہیں ہے۔ پھر آپ نے کبوتر کو بھیجا تو وہ زمین پر نہیں اُترا بلکہ ملک سبا سے زیتون کی ایک پتی چونچ میں لے کر آگیا تو آپ نے فرمایا کہ تم زمین پر نہیں اُترے اس لئے پھر جاؤ اور روئے زمین کی خبر لاؤ۔ تو کبوتر دوبارہ روانہ ہوا اور مکہ مکرمہ میں حرم کعبہ کی زمین پر اُترا اور دیکھ لیا کہ پانی زمین حرم سے ختم ہو چکا ہے اور سرخ رنگ کی مٹی ظاہر ہو گئی ہے۔ کبوتر کے دونوں پاؤں سرخ مٹی سے رنگین ہو گئے۔ اور وہ اسی حالت میں حضرت نوح علیہ السلام کے پاس واپس آگیا اور عرض کیا کہ اے خدا کے پیغمبر! آپ میرے گلے میں ایک خوبصورت طوق عطا فرمایئے اور میرے پاؤں میں سرخ خضاب مرحمت فرمایئے اور مجھے زمین حرم میں سکونت کا شرف عطا فرمایئے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے کبوتر کے سر پر دست شفقت پھیرا اور اس کے لئے یہ دعا فرما دی کہ اس کے گلے میں دھاری کا ایک خوبصورت ہار پڑا رہے اور اس کے پاؤں سرخ ہوجائیں اور اس کی نسل میں خیر و برکت رہے اور اس کو زمین حرم میں سکونت کا شرف ملے۔
(تفسیر صاوی،ج۳، ص ۹۱۶،پ۱۲، ھود: ۴۸)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ:
وَ قِیۡلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیۡ مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیۡ وَغِیۡضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الۡاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوۡدِیِّ وَقِیۡلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿44﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ۔(پ12،ھود:44)
اور حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی سے اترنے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَعَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ ترجمہ کنزالایمان:۔ فرمایا گیا اے نوح کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کے کچھ گروہوں پر۔(پ۱۲، ھود:۴۸)
درسِ ہدایت:۔حضرت نوح علیہ السلام کے اس واقعہ میں بڑی بڑی عبرتوں کے سامان ہیں جن کے انوار و تجلیات سے قلوب ِ مومنین پر ایسی ایمانی روشنی پڑتی ہے جس سے مومنین کا سینہ نور ِ عرفان و جلوہ ایمان سے منور اور روشن ہوجاتا ہے۔ چند تجلیوں کی نشاندہی حاضر ہے:
(۱)حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کی ایذاء رسانیوں اور دلخراش طعنوں اور گالیوں کے باوجود صبر و تحمل کے ساتھ اپنی قوم کو ہدایت کا درس دیتے رہے اور جب تک ان پر وحی نہیں آگئی کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اس وقت تک آپ برابر ہدایت کا وعظ سناتے ہی رہے۔ جب بذریعہ وحی آپ ان لوگوں کے ایمان سے مایوس ہوگئے تو آپ نے ان ظالموں کے لئے ہلاکت کی دعا فرمائی۔ قوم مسلم کے واعظوں اور ہادیوں کے لئے حضرت نوح علیہ السلام کا اسوہ حسنہ چراغ ہدایت و منارئہ نور ہے کہ وہ بھی صبر و استقلال کے ساتھ برابر تبلیغ و ارشاد کا کام جاری رکھیں۔
(۲)حضرت نوح علیہ السلام اور مومنین طوفان کے عظیم سیلاب میں جب کہ طوفان کی موجیں پہاڑوں کی طرح سر اُٹھا رہی تھیں، کشتی پر سوار تھے اور طوفانی موجوں کے سیلاب ِ عظیم میں ایک تنکے کی طرح یہ کشتی ہچکولے کھاتی چلی جا رہی تھی۔ مگر حضرت نوح علیہ السلام اور مومنین توکل کی ایسی منزل بلند میں تھے کہ نہ ان لوگوں کو کوئی گھبراہٹ تھی نہ کوئی پریشانی۔ اس میں مومنین کے لئے یہ ہدایت ہے کہ بڑی سے بڑی مصیبت کے وقت میں بھی مومن کو اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھ کر مطمئن رہنا چاہے۔
(۳)حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان کافر تھا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ نیکوں کی اولاد کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ نیک ہی ہوں۔ بروں کی اولاد اچھی اور اچھوں کی اولاد بری ہوسکتی ہے۔ یہ خداوند تعالیٰ کی مشیت اور مرضی پر موقوف ہے۔ وہ جس کو چاہے اچھا بنا دے اور جس کو چاہے برا بنا دے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: