ایک شخص جو کفار عرب کے سرداروں میں سے تھا اس کے پاس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چند صحابہ کرام (علیہم الرضوان)کو تبلیغ اسلام کے لئے بھیجا۔ چنانچہ ان حضرات نے اس کے پاس پہنچ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنا کر اسلام کی دعوت دی تو اس گستاخ نے ازراہ ِ تمسخر کہا کہ اللہ کون ہے؟ کیسا ہے اور کہاں ہے؟ کیا وہ سونے کا ہے یا چاندی کا ہے یا تانبے کا؟ اس کا یہ متکبرانہ اور گستاخانہ جواب سن کر صحابہ کرام (علیہم الرضوان)کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور ان حضرات نے بارگاہ ِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں واپس حاضر ہو کر سارا ماجرا سنایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس شخص سے بڑھ کر کافر اور باری تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنے والا تو ہم لوگوں نے دیکھا ہی نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ دوبارہ اس کے پاس جاؤ۔ چنانچہ
یہ حضرات دوبارہ اس کے پاس پہنچے، تو اس خبیث نے پہلے سے بھی زیادہ گستاخانہ الفاظ زبان سے نکالے۔ صحابہ کرام (علیہم الرضوان)اس کی گستاخیوں اور بدزبانیوں سے رنجیدہ ہو کر دربارِ نبوت میں واپس پلٹ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ ان صحابہ کرام (علیہم الرضوان)کو اس کے پاس بھیجا جہاں یہ لوگ پہنچ کر اس کو دعوتِ اسلام دینے لگے اور وہ گستاخ ان حضرات سے جھگڑا کرتے ہوئے بدزبانی اور گالی گلوچ پر اُتر آیا۔ صحابہ کرام (علیہم الرضوان) ارشاد نبوی کے مطابق صبر کرتے رہے ۔
اسی دوران میں لوگوں نے دیکھا کہ ناگہاں ایک بدلی آئی اور اس بدلی میں اچانک گرج اور چمک پیدا ہوئی۔ پھر ایک دم نہایت ہی مہیب گرج کے ساتھ اس کافر پر بجلی گری جس سے اس کی کھوپڑی اُڑ گئی اور وہ لمحہ بھر میں جل کر راکھ ہو گیا ۔یہ منظر دیکھ کر صحابہ کرام (علیہم الرضوان) بارگاہِ اقدس میں واپس آئے تو ان حضرات کو دیکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ جس گستاخ کے یہاں گئے تھے وہ تو جل کر راکھ ہو گیا۔ صحابہ کرام نے انتہائی حیرت و تعجب سے عرض کیا کہ یا رسول ! آپ کو کیسے اور کس طرح اس کی خبر ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ابھی مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ (تفسیر صاوی ، ج ۳ ، ص ۹۹۶۔۹۹۵ ،پ۱۳، الرعد: ۱۳)
وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیۡبُ بِہَا مَنۡ یَّشَآءُ وَہُمْ یُجَادِلُوۡنَ فِی اللہِ ۚ وَ ہُوَ شَدِیۡدُ الْمِحَالِ ﴿ؕ۱۳﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔اور کڑک بھیجتا ہے تو اسے ڈالتا ہے جس پر چاہے اور وہ اللہ میں جھگڑتے ہوتے ہیں اوراس کی پکڑ سخت ہے۔(پ۱۳،الرعد:۱۳)
درسِ ہدایت:۔ باری تعالیٰ کی شان میں اس طرح کی گستاخی کرنے والوں کو بارہا عذابِ الٰہی نے اپنی گرفت میں لے کر ہلاک کرڈالا لہٰذا خبردار، خبردار! اس مقدس جناب میں ہرگزہرگز کوئی ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا چاہے جو شانِ الوہیت میں بے ادبی قرار پائے۔ آج کل بہت سے لوگ بیماریوں اور مصیبتوں کے وقت خداوند تعالیٰ کی شان میں ناشکری کے الفاظ بول کر خداوند قدوس کی بے ادبی کربیٹھتے ہیں۔ جس سے ان کا ایمان بھی جاتا رہتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں عذاب کے حق دار بن جاتے ہیں۔ (توبہ نعوذباللہ منہ)
0 Comments: