باب افتعال کا مصدر میمی ہے۔ مُزْتَجَرٌ تھا۔ باب افتعال کا فاء کلمہ زاء ہونے کی وجہ سے اسے دال سے بدلا، نیز وزن کے اعتبار سے یہ اسم مفعول اور اسم ظرف کا صیغہ بھی ہو سکتاہے۔
صیغہ نمبر(۲۵): فَمَنِضْطُرَّ (فَمَنْ اُضْطُرَّ)
اُضْطُرَّ
صیغہ واحد مذکر غائب فعل ماضی مثبت مجہول از باب افتعال ہے۔ ہمزہ وصل درمیان میں آنے کی وجہ سے گرگیا اور فَمَنْ کے نون ساکن کو کسرہ دیا کیونکہ جب ساکن کر حرکت دیناہوتو کسرہ دیتے ہیں۔
صیغہ نمبر(۲۶): مَضْطُرِرْتُمْ (مَا اُضْطُرِرْتُمْ)
قرآن مجید میں ہے: (اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ) الآیۃ، اُضْطُرِرْتُمْ صیغہ جمع مذکر حاضر اثبات ماضی مجہول مضاعف از باب افتعال ہے۔ ہمزہ وصل درمیان میں آنے کی وجہ سے گر گیا ،نیز مَا کا الف اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگیا ،اور فاء کلمہ ضاد ہونے کی وجہ سے افتعال کی تاء طاء سے بدل گئی۔
صیغہ نمبر(۲۷): فَمَسْطَاعُوْا (فَمَا اسْطَاعُوْا)
دراصل یہ اِسْتَطَاعُوْا تھا صیغہ جمع مذکرغائب نفی ماضی معروف اجوف واوی از باب استفعال ہے ، استفعال کی تاء کو حذف کیا ،ہمزہ وصل درمیان میں آگیا ،اورمَا کا الف اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگیا ،تو فَمَسْطَاعُوْا (فَمَا اسْطَاعُوْا) ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۲۸): لَمْ تَسْطِعْ
اصل میں لَمْ تَسْتَطِعْ تھا تاء کو حذف کردیا، اس میں لَمْ یَسْتَقِمْ کی طرح تعلیل ہوئی ہے۔
صیغہ نمبر(۲۹):مُضِیًّا
ناقص واوی باب ضَرَبَ یَضْرِبُ ( مَضٰی یَمْضِیْ) کا مصدر ہے۔ اصل میں مُضُوْیًا تھا، مَرْمِیٌّ کے قاعدہ کے تحت اس کی تعلیل ہوئی مُضِیّ ٌہوگیا۔ اس میں فاء کلمہ کو کسرہ دے کر مِضِیٌّ پڑھنا بھی جائز ہے۔
صیغہ نمبر(۳۰): عِصِیَّھُمْ
عِصِیٌّ(عَصًا)کی جمع ہے اصل میں عُصُوْوٌ تھا دِلِیٌّ کا قاعدہ استعمال
کرتے ہوئے دونوں واو کو یاء سے، اور صاد کے ضمہ کو کسرہ سے بدلا ،تو عُصِیٌّ ہوگیا، پھر صاد کی مطابقت میں عین کو بھی کسرہ دے دیا تو عِصِیٌّ ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۳۱): لَنَسْفَعاً
لَنَسْفَعَنْ بروزن لَنَفْعَلَنْ صیغہ جمع متکلم لام تاکید بانون تاکید خفیفہ ہے۔ بعض اوقات نون خفیفہ کو تنوین کی صورت میں بھی لکھتے ہیں، لہذا یہاں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔
صیغہ نمبر(۳۲): نَبْغِ
اصل میں نَبْغِیْ ہے۔ جیسے: نَرْمِیْ، صیغہ جمع متکلم فعل مضارع معروف ناقص یائی باب ضَرَبَ یَضْرِبُ۔ حالت وقف میں ناقص کے آخر سے حرف علت کو حذف کرنا جائز ہے اس لیے یہاں بھی یاء کو حذف کیا گیا۔
نوٹ:
محققین علم صرف نے لکھا ہے کہ اہل عرب جزم اور وقف کے بغیر بھی یَدْعُوْ کو یَدْعُ اور یَرْمِیْ کو یَرْمِ پڑھتے ہیں ۔
صیغہ نمبر(۳۳):غَوَاشٍ
غَاشِیَۃٌ کی جمع ہے، جَوَارٍ والے قاعدے پر عمل کیا یعنی غَوَاشِیٌ تھا ، یاء پر ضمہ ثقیل تھا اسے گرادیا۔ یاء اور نون تنوین دو ساکن جمع ہوگئے ،یاء کو گرادیا غَوَاشٍ ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۳۴): فَقَدْ رَأَیْتُمُوْہُ
رَاَیْتُمْ بروزن فَعَلْتُمْ صیغہ جمع مذکر حاضر ، فعل ماضی مثبت معروف از باب فتح یفتح مہموز العین وناقص یائی ہے۔ شروع میں فاء برائے تعقیب اور قد تحقیق کے لیے آیا ہے، جب آخر میں (ھا) ضمیر منصوب لائی گئی تو تُمْ پر واو کا ضافہ کردیا؛ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ کُمْ ، ھُمْ ، اور تُمْ، کے بعد جب ضمیر لانا ہوتومیم کے بعد واو کا اضافہ کرتے ہیں اور میم کو ضمہ دیا جاتاہے ۔جیسے: قُلْتُمُوْھُمْ، اَکَلْتُمُوْھُمْ، اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ، طَلَّقْتُمُوْھُنَّ، بلکہ واحد مونث حاضر کے صیغے میں ضمیر کا اضافہ کرتے وقت تائے مکسورہ کے بعد یاء ساکن کا اضافہ کرتے ہیں۔ جیسے: ''صحیح بخاری'' میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے قول میں آیا ہے: ((لَوْ قَرَأْتِیْہِ لَوَجَدْتِیْہِ))۔
صیغہ نمبر(۳۵): اَنُلْزِمُکُمُوْھَا
صیغہ جمع متکلم فعل مضارع صحیح از باب اِفْعَالٌ بروزن نُکْرِمُ ہے۔ شروع میں ہمزہ استفہام ہے اور آخر میں ضمیر منصوب کُمْ ہے ،چونکہ اس کے بعد پھر ھَا ضمیر آرہی ہے اس لیے درمیان میں واو کا اضافہ کیا اور میم کو ضمہ دیا۔
صیغہ نمبر(۳۶): اَنْ سَیَکُوْنُ
صیغہ واحد مذکر غائب فعل مضارع بروزن یَقُوْلُ ہے ۔یہاں اشکال یا مغالطہ یہ ہے کہ اَنْ کے باوجود مضارع منصوب نہیں،لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اَنْ ناصبہ نہیں ہے بلکہ اَنْ مخففہ ہے، لفظ عَلِمَ اور ظَنَّ (یا ان کے مشتقات کے )بعد یہ اَنْ آتاہے اور نصب نہیں دیتا۔
صیغہ نمبر(۳۷):مِتْنَا
صیغہ جمع متکلم فعل ما ضی مثبت معروف ہے۔ جیسے:خِفْنَا، یہاں اشکال یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس کا مضارع مضموم العین استعمال ہواہے ۔جیسے: یَمُوْتُ اور یَمُوْتُوْنَ، لہذا یہ باب نَصَرَ یَنْصُرُ سے مُتْنَا آنا چاہیے تھا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ بقول مفسرین یہ باب نَصَرَ یَنْصُرُ سے بھی آتاہے اور سَمِعَ یَسْمَعُ سے بھی۔ جیسے : مَاتَ یَمُوْتُ اور مَاتَ یَمَاتُ (قَالَ یَقُوْل ُاورخَافَ یَخَافُ کے وزن پر) قرآن مجید میں اس کی ماضی سَمِعَ یَسْمَعُ سے اور مضارع نَصَرَ یَنْصُرُ سے مستعمل ہے۔
صیغہ نمبر(۳۸): فَمْبَجَسَتْ (فَانْبَجَسَتْ) صیغہ واحد مونث غائب فعل ماضی معروف از باب اِنْفِعَالٌ ہے۔ جیسے : اِنْبَجَسَتْ ) (بروزن اِنْفَطَرَتْ) فاء کی وجہ سے ہمزہ درمیان میں آگیا اس لئے پڑھنے سے ساقط ہوگیا ،اور نون ساکن اپنے بعد والے باء کی وجہ سے میم سے بدل گیا، اس لیے صیغے میں اشکال پیدا ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۳۹): اَلدَّاعِ
اسم فاعل دَاعِیْ ہے ۔ قاعدہ یہ ہے کہ اسم معرف باللام کے آخر سے بعض اوقات یاء گرجاتی ہے، لہذا یہاں بھی گرگئی اور اَلدَّاعِ ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۴۰): اَلْجَوَارِ
اَلْجَوَارِیْ تھا مندرجہ بالا قاعدہ کے تحت آخر سے یاء گرگئی۔
صیغہ نمبر(۴۱): اَلتَّنَادِ
اَلتَّنَادِیْ باب تَفَاعُلٌ کا مصدر اَلتَّنَادُیُ تھا۔ دال کے ضمہ کو کسرہ سے بدلا، اب یاء ساکن ہو کر مندرجہ بالا قاعدے کے تحت گرگئی تواَلتَّنَادِ ہوگیا۔
صیغہ نمبر(۴۲): دَسّٰھَا
دَسّٰی صیغہ واحد مذکر غائب فعل ماضی معروف صحیح از باب تَفْعِیْلٌ مضاعف ثلاثی ہے ۔اصل میں دَسَّسَ تھا آخری حرف کوحرف علت یاء سے بدلا دَسَّیَ ہوگیا،پھر یاء کو الف سے بدلا دَسّٰی ہوگیا، اکثر اہل عرب اسی طرح کرتے ہیں۔
صیغہ نمبر(۴۳): فَظَلْتُمْ
جمع مذکر حاضر فعل ماضی معروف مضاعف ثلاثی ازباب سَمِعَ یَسْمَعُ۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب دو حروف ایک جنس کے اکٹھے ہوں تو بعض اوقات ایک کو حذف کردیتے ہیں اس لیے لام کلمہ کو حذف کیا یعنی ظَلِلْتُمْ سے ظَلْتُمْ ہوگیا۔ بعض اوقات پہلے لام کی حرکت ظاء کو دے کرظِلْتُمْ بھی پڑھتے ہیں۔
صیغہ نمبر(۴۴): قَرْنَ
بعض مفسرین کے نزدیک یہ اِقْرَرْنَ تھا۔ مندرجہ بالا قاعدہ کے مطابق پہلی راء کی حرکت کاف کو دیکر راء کو حذف کردیا، اب ہمزہ وصل کی ضرورت نہ رہی اسے حذف کردیا قَرْنَ ہوگیا۔
''تفسیر بیضاوی'' میں اس کی ایک توجیہ یہ منقول ہے کہ یہ خِفْنَ کے وزن ،
قِرْنَ، قَارَ یَقَارُ (سَمِعَ یَسْمَعُ) سے بنا ہے، اور اس کے معنی مادہ قرار کے قریب قریب لکھے ہیں۔
0 Comments: