صلح میں تاخیر مت کیجئے
الغرض لڑائی جھگڑے اور ناچاقیوں کی صورت میں میاں بیوی کو خانہ بربادی اور ایک دوسرے سے علیحدگی کی روک تھام کیلئے صلح میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ قرآنِ کریم میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :
وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًاؕ-وَ الصُّلْحُ خَیْرٌؕ- (پ۵ ، النساء : ۱۲۸)
تَرْجَمَۂ کنز العرفان : اور اگر کسی عورت کواپنے شوہر کی زِیادَتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہوتو ان پر کوئی حرج نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہترہے۔
تفسیر صراطُ الجنان میں اس آیتِ مُبارَکہ کے تحت لکھا ہےکہ قرآن نے گھریلو زندگی اور مُعاشَرَتی بُرائیوں کی اصلاح پر بہت زور دیا ہے اسی لئے جو گُناہ مُعاشَرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں اور جو چیزیں خاندانی نظام میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں اور خرابیوں کو جنم دیتی ہیں ان کی قرآن میں بار بار اصلاح فرمائی گئی ہے جیسا کہ یہاں فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی عورت کواپنے شوہر کی زِیادَتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو ، زِیادَتی تو اس طرح کہ شوہر اس سے علیحدہ رہے ، کھانے پہننے کو نہ دے یا اس میں کمی کرے یا مارے یا بدزبانی کرے اور اِعراض یعنی مُنہ پھیرنا یہ کہ بیوی سے محبت نہ رکھے ، بول چال ترک کردے یا کم کردے۔ تو ان پر کوئی حرج نہیں کہ آپس میں اِفہام و تفہیم سے صلح کرلیں جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ عورت شوہر سے اپنے مُطالبات کچھ کم کردے اور اپنے کچھ حُقوق کا بوجھ کم کر دے اور شوہر یُوں کرے کہ باوُجُود رغبت کم ہونے کے اس بیوی سے اچھا برتاؤ بہ تکلّف کرے۔ یہ نہیں کہ عورت ہی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔ مردو عورت کا یوں آپس میں صلح کرلینا زِیادَتی کرنے اور جدائی ہوجانے دونوں سے بہتر ہے کیونکہ طَلَاق اگرچہ بعض صورتوں میں جائز ہے مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں نہایت ناپسندیدہ چیز ہے۔ حضرت عبدُ اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسند چیز طَلَاق دینا ہے۔ (1)
________________________________
1 - تفسیرصراط الجنان ، پ۵ ، النساء ، تحت الآیۃ : ۱۲۸ ، ۲ / ۳۲۱ ، ابو داؤد ، کتاب الطلاق ، باب کراھیة الطلاق ، ۲ / ۳۷۰ ، حدیث : ۲۱۷۸
0 Comments: