عجب کی بہت سی آفتیں ہیں اس سے کِبْر پیدا ہوتا ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں لہٰذا کِبْر کی آفات عجب کی بھی آفات ہوئیں کیونکہ وہ اصل ہے، یہ صورت بندوں کے مقابلے میں ہے جبکہ اللہ عزوجل کے ساتھ عجب سے مراد یہ ہے کہ بندہ یہ گمان کر کے اپنے گناہ بھول جائے کہ اس پر ان کامؤاخذہ نہ ہو گا اور نہ ہی اسے ان کی سزا ملے گی، یہ عمل بندے کو اپنی عبادات کوعظیم سمجھنے پرابھارتا ہے، وہ انہیں ادا کر کے اللہ عزوجل پر گویا احسان جتلاتا ہے اور اس کی آفات کو نہ جانتے ہوئے اندھا ہو جاتا ہے اس طرح وہ اپنی تمام یا اکثر عبادات ضائع کر بیٹھتا ہے، کیونکہ عمل جب تک ان برائیوں سے پاک نہ ہو گا نفع نہ دے گا اور عمل کو ان برائیوں سے پاکیزہ رکھنے پر خوف ہی ابھار سکتا ہے، جبکہ خودپسند شخص کو اس کا نفس اپنے رب عزوجل سے دھوکے میں ڈال دیتا ہے تو وہ اس کی خفیہ تدبیر اور اس کے عقاب سے بے خوف ہو جاتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ عمل کرنے کی وجہ سے اس کا اللہ عزوجل پر کوئی حق ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو اچھا سمجھنے لگتاہے، اپنی رائے، عقل اور علم پر فخر کرنے لگتاہے یہاں تک کہ اس کا یہ خیال پختہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کا نفس علم وعمل میں غیر کی طرف رجوع کرنے سے مطمئن نہیں ہوتا اس لئے وہ نصیحت کی بات پر کان نہیں دھرتا بلکہ غیر کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی وجہ سے نصیحت حاصل ہی نہیں کر پاتا۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ خودپسندی ایسے وصف پر ہوتی ہے جو بندے کی ذات میں کمال کا درجہ رکھتا ہے، مگر بندہ جب تک اس وصف کے چھن جانے سے خوفزدہ رہتا ہے خودپسندی میں مبتلا نہیں ہوتا، اسی طرح اگر وہ اس بات پر خوش ہوکہ یہ اللہ عزوجل کی نعمت ہے اور اسی نے اسے عطا فرمائی ہے تب بھی وہ خودپسندی سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اگر وہ اس پراس لئے خوش ہو کہ اس کی صفت کمال ہے اور اس کی نسبت کے اللہ عزوجل کی طرف ہونے سے آنکھیں بند کرلے تو یہی خودپسندی میں مبتلا ہونا، اس نعمت کو بڑا سمجھنا اور اس کی اللہ عزوجل کی طرف نسبت کو بھول جانا ہے۔ اب اگر اس کے اس اعتقاد کی بنا پر کہ اس کا اللہ عزوجل کے ہاں کچھ حق ہے، اس کی توقعات کو بھی اس کے ساتھ ملا دیا جائے تو اب وہ بندہ نازوادا اور نخرے کے مقام پر کھڑا ہو گا جو کہ عجب سے بھی خاص ہے۔
0 Comments: