(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''اسلا م غالب ہو گا یہاں تک کہ تاجر لوگ سمندر میں کثرت سے سفر کریں گے اورراہِ خدا عزوجل میں گھوڑے کُلیلیں کريں گے(یعنی خوشی سے دائيں بائيں جانب اچھلتے کودتے پھریں گے) پھر قرآن پڑھنے والی ایک قوم ظاہر ہو گی ، وہ کہيں گے ہم سے بڑا قاری کون ہے؟ ہم سے بڑا عالم کون ہے؟ ہم سے بڑا فقیہ کون ہے؟''پھرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو مخاطب کر کے استفسار فرمایا :''کیا ان لوگوں میں کوئی بھلائی ہے؟'' تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی ''اللہ اوراس کارسول عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہی بہتر جانتے ہیں۔'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''وہ لوگ تم میں سے ہی ہوں گے اور وہی جہنم کا ایندھن ہیں۔''
(المعجم الاوسط،الحدیث:۶۲۴۲،ج۴،ص۳۶۰)
(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے، تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ایک رات مکہ مکرمہ میں کھڑے ہو کر تین مرتبہ ارشاد فرمایا :''اے اللہ عزوجل! کیا میں نے تیرا پیغام نہيں پہنچایا ؟'' تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے چونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے حد درد مند تھے لہٰذا عرض کی ''جی ہاں! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اللہ عزوجل کی نعمتوں کی رغبت دلائی، اس معاملہ میں خوب کوشش کی اور خیرخواہی سے کام لیا۔'' توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''ایمان ضرور غالب آئے گا یہاں تک کہ کفر اپنی جگہوں کی طرف لوٹ جائے گا اور سمندر اسلام سے بھر جائیں گے اور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں وہ قرآن پاک سیکھیں گے اور اس کی قراء ت کریں گے، پھر کہیں گے ہم نے قرآن پاک پڑھا اور دوسروں کو سکھا یا تو ہم سے بہتر کون ہے؟ کیا ان لوگوں میں کوئی بھلائی ہے؟'' صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی ''یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم! وہ کون ہوں گے؟'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''وہ تم میں سے ہی ہوں گے اور وہی لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔''
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۳۰۱۹،ج۱۲،ص۱۹۴)
(3)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جو اپنے بارے میں کہے : ''میں عالم ہوں تو وہ جاہل ہے۔''
(المعجم الاوسط،الحدیث:۶۸۴۶،ج۵،ص۱۳۹)
تنبیہ:
اس گناہ کو ان مذکورہ قیودات کی وجہ سے کبیرہ شمار کیاگیا ہے جو میں نے احادیثِ مبارکہ سے بیان کی ہیں، اور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے کلام کے قیاس کی رو سے بھی یہ بعید نہیں کیونکہ جب علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے تکبر کی وجہ سے ازار لٹکانے کو کبیرہ گناہ شمارکيا تو اس گناہ کا کبیرہ ہونا زیادہ اَوْلیٰ ہے کیونکہ یہ اس سے زیادہ قبیح اور فحش ہے، دیگر عبادات کو اس پر قیاس کرنا بھی دیگر قیودات کے ساتھ ظاہر ہے اور میں نے عنوان میں ''ناحق اور بغیر ضرورت '' کی قید کے ذریعے اس بات سے احتراز کیا ہے کہ اگر کوئی عالم ایسے شہرمیں جائے جہاں کے باسی اس کے علم اور اطاعت کو نہ جانتے ہوں تو اسے اس بات کا اختیار ہے کہ ان کے سامنے اس نیت سے اپنا علم وتقویٰ ظاہر کرے کہ وہ لوگ اسے قبول کر لیں اور اس سے نفع اٹھائیں، اس کی مثال حضرت سیدنا یوسف علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ و السلام کا یہ فرمان جسے قرآن پاک میں یوں بیان کیاگیاہے :
اجْعَلْنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرْضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿55﴾
ترجمۂ کنز الایمان:مجھے زمین کے خزانوں پرکردے بے شک میں حفا ظت والا علم والا ہوں۔(پ13، یوسف:55)
اسی طرح اگر کوئی جاہل یادشمنی رکھنے والا اس کے علم کا انکار کر دے تو اسے اس آیتِ مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے اپنے علم کے بارے میں بتانے کااختیار ہے تا کہ اس دشمنی رکھنے والے کی ناک خاک میں مل جائے اور لوگ اسے قبول کرتے ہوئے اس کے علوم سے نفع اٹھائیں۔
0 Comments: