(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''تین شخص ایسے ہیں جن کے حقوق کومنافق ہی ہلکا جانے گا: (۱)جسے اسلام میں بڑھاپا آیا (۲)عالمِ دین اور (۳)انصاف پسند بادشاہ۔''
(المعجم الکبیر، الحدیث: ۷۸۱۹،ج۸،ص۲۰۲)
(2)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے ہمارے بڑوں کی عزت نہ کی، ہمارے چھوٹوں پررحم نہ کیا اور ہمارے علماء (کے حقوق) نہ پہچانے وہ میری اُمت میں سے نہیں۔''
(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند الانصار،الحدیث: ۲۲۸۱۹،ج۸،ص۴۱۲)
(3)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کی وہ ہم میں سے نہیں۔''
(جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی رحمۃ السیان،الحدیث:۱۹۲۰،ص۱۸۴۵)
(4)۔۔۔۔۔۔سرکارِمدینہ ،قرارِقلب وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''علم سیکھو، علم کے لئے سکینہ (یعنی اطمینان )اور وقار سیکھو اور جس سے علم سیکھواس کے لئے تواضع اور عاجزی بھی کرو۔'' (المعجم الاوسط،الحدیث:۶۱۸۴،ج۴،ص۳۴۲)
5)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دعا مانگی ''خدایا!میں وہ زمانہ نہ پاؤں یا (اے میرے صحابہ) تم وہ زمانہ نہ پاؤ کہ جس میں عالم کی پیروی اور حلیم (یعنی بردبار)سے حیانہ کی جائے گی، اس زمانے کے لوگوں کے دل عجمیوں کے اور زبان عربوں کی ہو گی۔''
(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند الانصار،الحدیث: ۲۲۹۴۲،ج۸،ص۴۴۳)
(6)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''برکت تمہارے اکابر کے ساتھ ہے۔''
(المستدرک،کتاب الایمان،باب البرکۃ مع الاکابر،الحدیث:۲۱۸،ج۱،ص۲۳۸)
(7)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، باذنِ پروردگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' جوبڑے کی عزت نہ کرے، چھوٹے پر رحم نہ کرے، نیکی کا حکم نہ دے اوربرائی سے منع نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔''
(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند عبداللہ بن عباس،الحدیث: ۲۳۲۹،ج۱،ص۵۵۴)
(8)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کاحق نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں۔''
(جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی رحمۃ السیان،الحدیث:۱۹۲۰،ص۱۸۴۵)
تنبیہ:
مندرجہ بالا احادیث کے ظاہر کے اعتبار سے اسے گناہِ کبیرہ کہا گیا ہے اور یہ قیاس کے طور پر بعید بھی نہیں اگرچہ علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر نہیں کیا کیونکہ جس طرح انہوں نے غیبت کے معاملہ میں علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اور دیگر لوگوں میں تفریق کی ہے اسی طرح استخفاف یعنی حقوق کے ہلکا جاننے کے معاملہ میں بھی ان میں فرق ہے، عنقریب اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کو ایذا دینے کے بیان میں اس بارے میں صریح احادیث آئیں گی کیونکہ وہ حقیقتًاباعمل علما ء ہی ہیں۔
(9)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''اللہ عزوجل جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتاہے۔''
(المعجم الکبیر،الحدیث: ۸۷۵۶،ج۹،ص۱۵۱)
(10)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :'' جب اللہ عزوجل کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تواسے دین میں فقیہ بنا دیتا ہے اور رشد وہدایت الہام فرما دیتا ہے۔ ''
(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند الشامیین،الحدیث:۱۶۸۸۰،ج۶،ص۲۳،بدون ''ألہمہ رشدہ'')
(11)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''سب سے بڑی عبادت فقہ یعنی دین میں غورو فکر کرنا اور دین کی سب سے افضل چیز تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔''
(مجمع الزاوئد،کتاب العلم، باب فی فضل العلم، الحدیث:۴۷۹،ج۱،ص۳۲۵)
(12)۔۔۔۔۔۔حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بہتر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل پرہیزگاری ہے، جو شخص کسی راستے پر علم کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ عزوجل اس کی وجہ سے اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرمادیتا ہے، بے شک فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اس کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، عالمِ دین کے لئے زمین وآسمان والے یہا ں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں، عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو دیگر ستاروں پرہے، علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے وارث ہیں، انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام درہم ودینارکا وارث نہیں بناتے بلکہ وہ توعلم کا وارث بناتے ہیں، لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اس نے پورا حصہ پا لیا۔''
(جامع الترمذی، ابواب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۶۸۲،ص۱۹۲۲)
(المستدرک،کتا ب العلم، باب فضل العلم ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۲۰،ج۱،ص۲۸۳)
(13)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: '' یارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم! میں علم حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔''تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''طالبِ علم کو مرحبا(يعنی کشادہ دلی سے خوش آمديد )! بے شک طالب علم کو فرشتے اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں، پھر وہ طالب علم سے طلبِ علم کی وجہ سے محبت کرتے ہوئے قطار درقطارآسمانِ دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔'' (المعجم الکبیر،الحدیث:۷۳۴۷،ج۸،ص۵۴)
(14)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''اے ابوذر! تيرا صبح کے وقت کتاب اللہ عزوجل کی ایک آیت سیکھنے کے لئے نکلنا تیرے لئے 100رکعت ادا کرنے سے بہتر ہے اور تيرا صبح کے وقت علم کا ایک باب سیکھنے کے لئے نکلنا خواہ تواس پرعمل کرے یا نہ کرے تيرے لئے 1000رکعت ادا کرنے سے بہتر ہے۔''
(سنن ابن ماجہ،ابواب السنۃ ، باب ثواب معلم الناس خیرا،الحدیث:۲۱۹،ص۲۴۹۰)
(15)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''دنیا ملعون ہے اوراللہ عزوجل کے ذکر، اس کے ولی یعنی دوست اور دینی علم پڑھنے اور پڑھانے والے کے سوااس کی ہرچیزبھی ملعون ہے۔''
(سنن ابن ماجہ،ابواب الزھد ، باب مثل الدنیا،الحدیث:۴۱۱۲،ص۲۷۲۷)
(16)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''موت کے بعدمؤمن کواس کے عمل اور نیکیوں میں سے جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: (۱)اس کا وہ علم جو اس نے پھیلایا(۲)نیک بچہ چھوڑ کر مرا (۳)مصحف یعنی قرآن کریم جسے ورثہ میں چھوڑا (۴)مسجد بنائی(۵)مسافرکے لئے مکان بنادیا(۶)نہر جاری کر دی اور (۷)اپنی زندگی اورصحت میں اپنے مال سے ایسا صدقہ نکالا جو اُسے موت کے بعد بھی ملتا رہے۔''
(سنن ابن ماجہ، ابواب السنۃ ، باب ثواب معلم الناس خیرا،الحدیث:۲۴۲،ص۲۴۹۲)
(17)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''آدمی اپنے بعد جو بہترین چیزیں چھوڑتا ہے وہ یہ 3چیزیں ہیں: (۱)نیک بچہ جواس کے لئے دعا کرے(۲)صدقہ جاریہ جس کا اجر اسے ملتا رہے اور (۳)وہ علم جس پراس کے بعدبھی عمل کیا جاتا رہے۔''
(المرجع السابق، الحدیث: ۲۴۱،ص۲۴۹۲)
(18)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''اس اُمت کے علماء دو طرح کے فرد ہیں: (۱)وہ شخص جسے اللہ عزوجل نے علم عطا فرمایا تو اس نے اسے لوگوں کے لئے خرچ کیا اور اس کے عوض نہ تو کوئی خواہش پوری کی اور نہ ہی اس کے بدلے مال خریدا، یہی وہ شخص ہے جس کے لئے سمندر کی مچھلیاں، خشکی کے جانور اور فضاء میں پرندے استغفار کرتے ہیں (۲) وہ شخص جسے اللہ عزوجل نے علم عطا فرمایا تو اس نے اسے اللہ عزوجل کے بندوں سے چھپایا، اس کے ذریعے خواہش پوری کی اور مال خریدا، یہی وہ شخص ہے جسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائی جائے گی اور ایک منادی ندا دے گا:''یہ وہ شخص ہے جسے اللہ عزوجل نے علم عطا فرمایا تو اس نے اسے اللہ عزوجل کے بندوں سے چھپا لیا اور اس کے ذریعے خواہشات پوری کیں اور مال خریدا۔'' اُس کے حساب سے فارغ ہونے تک یہی نداء ہوتی رہے گی۔''
(المعجم الاوسط، الحدیث: ۷۱۸۷،ج۵، ص۲۳۷)
(19)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المبلّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی فضیلت مجھے تمہارے ادنیٰ شخص پر حاصل ہے،اوربے شک اللہ عزوجل، اس کے فرشتے اور زمین وآسمان والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں پانی میں لوگوں کوخیر سکھانے والے کی بھلائی کی خواہاں رہتی ہیں۔''
(جامع الترمذی، ابواب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ،الحدیث:۲۶۸۵،ص۱۹۲۲)
(20)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العٰلمین، جنابِ صادق و امین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''اللہ عزوجل قیامت کے دن علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ سے ارشاد فرمائے گا:میں نے اپناعلم اورحلم تمہیں اسی لئے دیاتھا کہ میں تمہاری خطائیں معاف کرنے کاارادہ رکھتا تھا اورمجھے کوئی پرواہ نہیں۔''
(الآلیئ المصنوعۃ،کتاب العلم، ج۱،ص۲۰۲،مفہومًا)
اس حدیث پاک میں علم اورحلم کی اللہ عزوجل کی طرف اضافت ان علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے باعمل اورمخلص ہونے کی صراحت کرتی ہے۔
(21)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''علم دو طرح کے ہیں،وہ علم جو دل میں ہو اور یہی علم نافع ہوتا ہے، جبکہ وہ علم جو زبان پر ہے وہی آدمی پر اللہ عزوجل کی حجت ہے۔''
(الترغیب والترہیب، کتاب العلم، باب الترغیب الرحلۃ فی طلب العلم، الحدیث: ۱۴۰،ج۱،ص۷۴)
(22)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جو بھلائی سیکھنے یا سکھانے کے لئے مسجد کی طرف جائے اسے کامل حج کرنے والے جیسا ثواب ملے گا۔''
(المعجم الکبیر،الحدیث:۷۴۷۳،ج۸،ص۹۴)
(23)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جو علم کی تلاش میں نکلاوہ واپس لوٹنے تک اللہ عزوجل کی راہ میں ہے۔''
(جامع الترمذی، ابواب العلم، باب فضل طلب العلم،الحدیث:۲۶۴۷،ص۱۹۱۸)
(24)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جواللہ عزوجل کے لئے علم سیکھنے نکلتاہے اللہ عزوجل اس کے لئے جنت کادروازہ کھول دیتا ہے اور ملائکہ اس کے لئے اپنے بازو بچھا دیتے ہیں اور آسمان کے فرشتے اور سمندر کی مچھلیاں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں،مزید ارشاد فرمایا :''عالم کو عا بد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کو آسمان کے چھوٹے ستارے پر۔''
(شعب الایمان،باب فی طلب العلم،الحدیث: ۱۶۹۹،ج۲،ص۲۶۳)
(25)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام درہم ودینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں، لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اس نے پورا حصہ پا لیا۔''
(سنن ابی داؤد،کتاب العلم، باب فی فضل العلم، الحدیث: ۳۶۴۱،ص۱۴۹۳)
(26)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''عالم کی موت ایسی مصیبت ہے جس کا ازالہ نہیں ہو سکتا اور یہ ایسا خلا ہے جسے پر نہیں کیا جا سکتا گویا وہ ایک ستا رہ تھا جو ماند پڑ گیااورایک قبیلے کی موت عالمِ دین کی موت سے زیادہ ہلکی ہے۔''
(شعب الایمان، باب فی طلب العلم،الحدیث: ۱۶۹۹،ج۲،ص۲۶۴،تقدما تأخرا)
(27)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، باذنِ پروردگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''اللہ عزوجل اس شخص کو خوشحال رکھے جس نے میرا کلام سنا پھر اسے یاد کر لیا اور جیسا سنا تھا ویسا ہی آگے پہنچا یا کیونکہ بسا اوقات علم کے حامل کچھ ا فراداپنے سے زیادہ فقیہ لوگوں تک علم پہنچاتے ہیں اور بسا اوقات علم کے حامل کچھ افرادفقیہ نہیں ہوتے۔''
(سنن ابن ماجہ ، ابواب السنۃ ، باب من بلغ علماء ،الحدیث: ۲۳۶،ص۲۴۹۱،تقدما تأخرا)
(28)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا: (۱)اللہ عزوجل کے لئے اخلاص کے ساتھ عمل کرنا، (۲)حکمران کی خیر خواہی اور (۳)جماعت کا لازم پکڑنا، کیونکہ ان کی دُعا رائیگاں نہیں جاتی۔''
(المستدرک،کتاب العلم،الحدیث:۳۰۲،ج۱،ص۲۷۴، بتغیرٍ قلیلٍ)
(29)۔۔۔۔۔۔جبکہ ایک اور روایت میں ہے :''ان کی دعا ان کے بعد والوں کی حفا ظت کرتی ہے۔''
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۵۴۱،ج۲،ص۱۲۶)
(30)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس کی نیت دنیا(کی طلب) ہو اللہ عزوجل اس کے کام منتشر کر ديتا ہے اور اس کی تنگدستی اس کے سامنے کر ديتا ہے حالانکہ اسے دنیا سے وہی کچھ ملے گا جو اس کے لئے لکھا جا چکا ہے، اور جس کی نیت آخرت (کی طلب)ہو اللہ عزوجل اس کے کام یکجا فرما ديتا ہے اور اس کے دل کو غنا سے بھر ديتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔''
(سنن ابن ماجہ ، ابواب الزھد ، باب الھم بالدنیا ،الحدیث: ۴۱۰۵،ص۲۷۲۶)
(31)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :'' جس نے کسی بھلائی کی طرف رہنمائی کی اسے اس پر عمل کرنے والے جتنا ثواب ملے گا۔''
(جامع الترمذی ، ابواب العلم،باب ماجاء فی ان الدال علی الخیر۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۶۷۱،ص۱۹۲۱)
(32)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''بھلائی کی رہنمائی کرنے والا اس بھلائی پر عمل کرنے والے کی طرح ہے اور اللہ عزوجل مصیبت زدہ کی مدد کو پسند فرماتا ہے۔''
(مسند ابی یعلی، مسند انس بن مالک، الحدیث: ۴۲۸۰،ج۳،ص۴۵۲)
(33)۔۔۔۔۔۔حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے ہدایت کی طرف بلایا اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں جتنا ثواب ملے گا اوران کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔''
(صحیح مسلم،کتاب العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۶۸۰۴،ص۱۱۴۴)
0 Comments: