شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کی تصنیف مقاصد الاسلام حصہ }۱۱{ ایک مطالعہ
بقلم : حضرت مولانا سید قبول بادشاہ شطاری
، جانشین حضرت کاملؒ و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ
انسانی زندگی عبارت ہے جہد مسلسل وسعی پیہم سے اور ہر شعبہ حیات دعوت فکر ونظر سے معمور ہے۔ فکر و نظر کی صحت مندی سماجی قدروں سے آشنائی وہم آہنگی میدان عمل میں مسابقتی فکر کی صحیح سمت اور زاویوں کا تعین کرتی ہے اور زندگی کے تعمیری ومقصدی پہلو کو بھی اجاگر کرتی ہے اسطرح بصارت آمیز ہو کر منزل کو حد نظر میں لے آتی ہے اور واضح سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے یہی بصیرت وقت کے تقاضوں کو محسوس کرنے اور انکی تکمیل میں، شعوری قدم اٹھانے میں معاون ومددگار ہوکر حقیقی زندگی سے روشناس کراتی اور عرفان زندگی بخشی ہے۔ زندگی کی تگ ودو میں عملاً مختلف النوع مسائل کا سامنا ناگزیر ہے تو انکے مناسب حل کی تلاش بھی ضروری ہوجاتی ہے جو احکام الہی اور ہدایات نبویﷺ کی روشنی میں ہر گتھی کو سلجھا کر ہر مسئلہ کاحل فراہم کرتی اور صراط مستقیم پر گامزن کردیتی ہے اسطرح دنیا اور آخرت کو سنوار کر عبدومعبود کے ربط ورشتہ کو مضبوط و مستحکم کرتے ہوئے کمال بندگی سے ہمکنار کردیتی ہے اور کمال بندگی ہی معراج مومن ہے۔
شیخ الاسلام حضرت العلامہ محمد انوار اللہ المخاطب خان بہادر و فضیلت جنگ علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ نے اس علمی ادارے کی بناء بارگاہ رسالت کے حکم پر ڈالی ہے۔ ہم اپنی ذمہ داریاں دوسروں کے سر تھوپکر ضمیر کی ملامت سے بچنے کیلئے کچھ ایسے مخاطب فریب بنے کہ آخر کار خود فریبی پر اتر آئے اور کبھی یہ غور کرنے کی زحمت بھی نہ اٹھائی کہ علوم دینیہ بغیر صحت مند حیات ایک پریشان اور بے تعبیر خواب کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔
لیکن بزرگان سلف نے صراط مستقیم پر گامزنی اور تلاش حق کو اپنا مقصور بنایا اور علوم دینیہ کی تعلیم وترویج و اشاعت اور تبلیغ اسلام کو شعار زندگی بنا کر اسلامی معاشرہ کی فلاح اور اسکے استحکام کیلئے اپنے آپ کو کلیۃً وقف کردیا تصنیف وتالیف کے ذریعہ دینی خدمات انجام دیں اوراسی طرح خانقاہی نظام بہ انداز تدریس وتفہیم، رشد و ہدایت وجود میں آیا۔
بے دینی اور بد اعتقادی کے اس عالمگیر سیلاب میں جو چاروں طرف سے امڈ چلا آرہا ہے۔ اگر ہمیں اپنی نسلوں کا ایمان محفوظ رکھنا ہے تو ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتا ہوں کہ جس سے سمینار کا حقیقی مقصد ہمیں حاصل ہوگا وہ یہ کہ شیخ الاسلام حضرت علامہ محمد انواراللہ المخاطب فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ کی تصانیف کا مطالعہ ہر گھر، ہر مکتب ومدرسہ میں جاری ہوجائے تو بانی جامعہ نظامیہ کی تصانیف کے مطالعہ سے ایک مسلمان صحیح الخیال ، صحیح العقیدہ، اور صحیح الایمان بن جاتا ہے۔ قابل مبارکباد ہیں انجمن طلبائے قدیم کے ذمہ داران جنہوں نے وقت کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے باشعور قدم اٹھایا ہے اللہ تعالیٰ بطفیل نبی اکرم ﷺ اخلاص فی العمل کے جذبہ کے ساتھ ان کے ارادوں اور نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے یہ علمی محفل یوں بھی برکتوں کی آئینہ دار ہے کہ شیخ الاسلام علیہ الرحمہ سالانہ یاد کے موقع پر منعقد ہورہی ہے۔ جسمیں مجھ جیسے طالب علم کو ’’مقاصد الاسلام‘‘ حصہ یازدہم کے چند گوشوں پر روشنی ڈالنے ذمہ داران انجمن کی جانب سے محکوم کیاگیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حیدرآباد دکن کے دامن پر ایسے ایسے علمی ہیرے ٹکے ہیں کہ جن کا تبحر علمی عالم اسلام میں بے مثال و بے نظیر ہے یوں تو ہیروں کی قیمتیں مختلف وجداگانہ ہوتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ ہر ہیرا اپنی ایک قیمت رکھتا ہے ان ہی علمی ہیروں میں ایک باکمال شخصیت حضرت العلامہ محمد انواراللہ فاروقی علیہ الرحمہ کی ہے جن کا علمی فیضان آج تک جاری وساری ہے اور رہیگا۔
حضرت العلامہ محمد انواراللہ فاروقی علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ ’’مقاصد الاسلام‘‘ کے حصہ یازدہم میں رقم طراز ہیں کہ ہمارے دین میں ادب کی نہایت ضرورت ہے جب تک اہل اسلام میں کامل طور پر ادب رہا اسلام کو دن دونی رات چوگنی ترقی ہوتی رہی۔ آنحضرت ا کے چند فضائل اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں جن سے نبی کریمﷺ کی عظمت ثابت ہوتی ہے اسلئے کہ آدمی اسی سے ادب کرتا ہے جسکی عظمت اس کے دل میں ہوتی ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب آدم علیہ السلام جنت سے نکلتے دیکھا کہ ساق عرش پر اور جنت میں ہر جگہ نام محمد ا اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ لکھا ہوا ہے‘ عرض کیایا رب یہ محمدؐ کون ہیں ارشاد ہوا کہ وہ تمہارے فرزند ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو میں تم کو پیدا نہ کرتا عرض کیا یارب اس فرزند کی حرمت سے اس والد پر رحم کر ندا آئی کہ اے آدم اگر تم محمد ا کے وسیلہ سے کل زمین وآسمان والوں کے حق میں شفارش کرتے تو بھی قبو ل کرلیتے۔ حدیث میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ ا نے جب آدم علیہ السلام سے گناہ صادر ہوا تو عرش کی طرف سراٹھا کر دعا کی کہ الٰہی بحق محمد ﷺ مجھے بخشدے ان پر وحی ہوئی کہ محمد ا کون ۔ عرض کیا الہی جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میںنے عرش کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا ہے’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘اس سے میں نے جانا کہ جن کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے ان سے زیادہ کسی شخص کا مرتبہ تیرے پاس نہ ہوگا۔ وحی آئی کہ ائے آدم تمہاری اولاد میں وہ سب نبیوں کے آخر ہونگے۔ حضور پاکﷺ کا نام مبارک جنت کے ہر مقام میں اور ہر درخت کے پتوں میں لکھا ہے۔ حق تعالیٰ نے اپنے نام مبارک کے ساتھ ہر جگہ آپ کا نام لکھا ہے جبکہ کسی معزز فرشتہ کا نام نہیں لکھا گیا اور جن کا نام مبارک لکھا گیا وہ ضرور اولین و آخرین میں سب سے افضل اور خدائے تعالیٰ کے نزدیک سب سے معظم ومکرم ہیں۔ اور آپ کے قدوم میمنت لزوم کے آمد، آمد کے انتظار میں تمام عالم رہے گا۔ اور ساری خدائی میں آپ کی کس قدر عزت وعظمت ہے کہ اگر عالم میں ابوالبشر علیہ السلام کی نظر، کوئی شخص رکھتا ہو تو وہ جان سکتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ میں اس وقت نبی تھا جبکہ آدم آب وگل کے درمیان تھے اسطرح آپ کی اسوقت بھی نبوت بالفعل جاری رہی اسوقت کوئی فرشتہ یہ نہیں جانتا تھا کہ آدم علیہ السلام یا انکی اولاد میں کوئی نبی ہونیوالے ہیں بلکہ سب یہی جانتے تھے کہ اگر رسول اللہ ہیں تو محمد ا ہیں۔
غرضکہ حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ تمام عالم میں آپ کی عظمت متمکن اور ذہن نشین ہو جائے۔ یہ نور مبارک کی عظمت مبدأ ایجاد عالم ہے۔ جن اصلاب طاہرہ میں نور منتقل ہوتا گیا وہاں اقسام کے برکات وعجائبات ظاہر ہوتے گئے۔
چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور ا کی نعت میں ایک قصیدہ سرکار کو سنایا اور آپ نے ان کو دعا دی منجملہ اور اشعار کے ایک شعر یہ ہے۔
بردت نار الخلیل مکتتما
فی صلبہ انت کیف تحترق
یعنی ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جب آگ میں ڈالے گئے اسوقت آپ انکی پیٹھ میں تھے وہ کیونکر جل سکتے تھے غرضکہ آدم علیہ السلام سے جہاں جہاں یہ نور مبارک منتقل ہوتا گیا سب کو یہ فضیلت حاصل ہوتی گئی۔ بات یہ تھی کہ آنحضرت ا کی عظمت شان ان کے پیش نظر تھی یہ ثابت ہے کہ عالم کی ہر چیز حضور اکرم ا کی تعظیم و توقیر کرتی ہے صحابہ کرام کا جو بول بالا ہوا وہ ان کے ایسے ہی خیالات کا اثر تھا۔
مذکورہ شعر میں ایک حقیقت واضح ہوئی کہ شاعرانہ حیثیت باقی نہ رہی بلکہ شرعی حیثیت آگئی کیونکہ شارع علیہ السلام کا سکوت کسی مسئلہ میں جو اعتقاد سے متعلق ہو اسکو شرعی مسئلہ بنادیتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ا سے دریافت کیا تھا کہ سب سے پہلے خدائے تعالیٰ نے کس چیز کو پیدا کیا اسکا جواب بظاہر یہی تھا کہ میرے نور کو پیدا فرمایا مگر سرکار نے ایسا جواب نہ دیا بلکہ فرمایا: تمہارے نبی کے نور کو ۔ اس سے ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس جواب سے حضور کا کیا مقصد تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حیوانات نباتات ، جمادات آپ کو سجدہ کیا کرتے تھے اور کسی روایت میں یہ بات نہیں ملتی کہ آدم علیہ السلام کو بھی حیوانات وغیرہ سجدہ کیا کرتے تھے الغرض ہمارے نبی کریم ا مسجود خلائق تھے سرکار دو عالم ﷺ ۴۰ سال تک کفار میں رہے۔ ظاہری اعتبار سے اعلان نبوت چالیس سال پر ہوا اس عالم میں آپ ایک مدت تک ذکرِ الٰہی میں مصروف رہے۔ آدم علیہ السلام سے لیکرعیسٰی علیہ السلام تک ایک لاکھ کئی ہزار نبی گذرے پھر تمام مخلوق کے نبی حضور کیونکر ہوسکتے ہیں۔ اسکا جواب قرآن شریف سے یہ ملتا ہے کہ کل انبیاء علیہم السلام بھی سرکار کے امتی ہیں کیونکہ حق تعالی فرماتا ہے
’’وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَّا اَتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٔ لِّمَا مَعَکُمْ لِتُؤْمِنَنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرَنَّہُ قَالَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذَالِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشَّاھِدِیْنَ‘‘۔
یعنی اللہ تعالی نے نبیوں سے اقرار کیا کہ اگر آئے تمہارے پاس رسول جو تصدیق کرنیوالے ہیں اس چیز کا جو تمہارے پاس ہے تو تم ان پر ایمان لاؤ اور انکی مدد کرو کہا کیا تم نے اقرار کیا کہا انہوں نے اقرار کیا پس تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں اسکے بعد شیخ تقی الدین سبکیؒ کا قول جس سے ثابت ہے کہ کل انبیاء اور ان کی امتیں سرکار دوعالم ا کی امت ہیں۔
الغرض یہ شرف نہ کسی کو حاصل ہے نہ نبی کو۔ اگر آدم علیہ السلام کو ابو البشر ہونے کی فضیلت ہے تو تمہارے نبی کریم ا کو ابو العالم ہونے کی فضیلت ہے‘ جس زمانے میں آنحضرت ا کی ولادت نہیں ہوئی تھی اسوقت فرشتے سرکار کا کلمہ پڑھتے تھے حالانکہ آپ ا نے کوئی پیام نہیں پہونچایا تھا جس سے آپ کو رسول ماننے کی ضرورت ہو۔
’’اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلاً اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ‘‘۔
اس آیت شریفہ میں نبی اکرم ا کی طرف خطاب کرکے فرمایا کہ ہم نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا یعنی اپنی امت پر اور جمیع انبیاء کے کاموں پر گواہی دینے والے اور فرمایاکہ آپ اہل ایمان کو خوشخبری دینے والے اور ایمان نہ لانے والوں کو ڈرانے والے ہیں۔ یہاں تک تو خطاب تھا اسکے بعد مسلمانوں کی طرف خطاب کرکے فرمایا کہ ہم نے ان کو اسواسطے بھیجا ہے کہ تم خدا اور رسول پر ایمان لاؤ اور انکی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام انکی پاکی بیان کرتے رہو‘ ائے رسول جولوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ آپ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے صرف اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ پر اللہ کاہاتھ ہوتا ہے۔ یہاں کچھ اور ہی معاملہ ہورہا ہے کہ غیریت اٹھادی جاری ہے اور من توشدم تومن شدی کا مضمون ارشاد ہورہا ہے اسطرح مسلمانوں کو ارشاد ہورہا ہے کہ ان کی تعظیم وتوقیر کرو یہ تعظیم حضور اکرم ا کی ہے تو بھی صحیح ہے اور یہ خاص حق تعالی کی تعظیم وتوقیر ہے تو بھی صحیح ہے اس کے بعد اگر کوئی آنحضرت ا کی توہین اور کسرشان کرے تو وہ بھی خدا کی توہین ہوگی۔ ’’درمنثور‘‘ میں تعزروہ وتوقروہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ قتادۃ رضی اللہ عنہ نے اس آیت شریفہ کا مطلب یہ بیان کیا کہ
’’اَمَرَ اللّٰہُ بِتَسْوِیْدِہِ وَتَفْخِیْمِہٖ وَتَشْرِیْفِہٖ وَتَعْظِیْمِہِ‘‘۔
یعنی خدائے تعالی نے حکم فرمایا کہ حضور کی سیادت تسلیم کرو اور ان کی تعظیم کرو اور ہر قسم کا شرف آپ کیلئے مسلم رکھو اور نہایت بزرگ سمجھو‘ غور کیجئے کہ خدائے تعالیٰ تو سرکار کی سیادت اور تعظیم کیلئے ارشاد فرماتا ہے اورآخری زمانے کے لوگ رسول کے معنی ہر کارہ لیکر توہین کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا تعالی کی مخالفت کررہے ہیں حالانکہ حضور کی فضیلت کو مسلمانوں پر واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
زرقانی اور خصائص کبری میں روایت ہے کہ عباد بن عبدالصمد کہتے ہیں کہ ایک روز ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے اپنی لونڈی کو پکار کر کہا کہ دسترخوان لے آنا۔ تا کہ ہم سب کھانا کھائیں وہ لے آئی پھر کہا وہ رومال بھی لے آ وہ ایک میلا رومال لے آئی فرمایا تنور سلگا جب آگ اسمیں دہکنے لگی تو اس رومال کو اسمیں ڈالدیا جب نکالا گیا تو وہ مثل دودھ کے نہایت سفید تھا ہم نے پوچھا کہ اس رومال کا واقعہ کیاہے فرمایا اس رومال سے آنحضرت ا چہرہ مبارک پونچھتے تھے۔ سرکار کی عالم میں کیسی عظمت تھی کہ آگ جیسی چیز کہ فولاد کو بھی نہیں چھوڑتی ہرچیز میں اپنا پورا اثر کرتی ہیں مگر اس متبرک رومال کے مقابلہ میں پانی بن گئی۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بھی کمال کیا یہ کام پانی سے لینے کاتھا وہ آگ سے لیا۔ اور آگ کی مجال نہیں کہ اس متبرک رومال کو جلا سکے۔ اسلئے انہوں نے بلا تامل آگ میں ڈالدیا کیونکہ وہ تبرک ایسا نہ تھا کہ اسکا مثل مل سکتا ۔
حضور انور ا کو بھی ایسا ہی پیدا کیاگیا کہ عالم میں کوئی آپ کا مثل نہیں اسلئے کہ آنحضرت ا کے ادراک سے بھی عقل عاجز ہے۔
سرورِ عالم مرادِ بندہ و مولا ہیں آپ
ماورائے ہر یقیں پر میرے آقا ہیں آپ
عشق کا مقصود ہیں اور حسن کا منشا ہیں آپ
فکر کی پرواز کیا اس سے بہت بالا ہیں آپ
مگر چونکہ آنحضرت ا خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں کہ اللہ کے نور سے آپ کا نور پیدا ہوا۔
ادھر اللہ سے واصل ادھر مخلوق میں شامل
خواص اس برزخ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا
حاضرین کرام: بس یہی بات ایمان کے عین مطابق کہ اللہ تعالی کے بعد آپ سے بڑاکوئی نہیں نور اول سے رابطہ کے بعد کائنات کے ذرہ ذرہ نے منصہ شہود پر ہزاروں کے بودیوں کے باوجود بود ونمود پایا اور آج بھی ہر موجود اپنی حیات مستعارمیں نور محمدیؐ سے ربط ونسبت میں خلقۃً وفطرۃً محتاج ومجبور ہے لیکن یہ سب کچھ ہو کر بھی اخلاق محمدیہؐ کا یہ حال اور تعلیم رسالت ہم گنہ گاران امت کہ کسی نبی کا نام لیکر تقابلی حیثیت سے میری برتری بیان نہ کیا کرو کیونکہ اس سے انکی تنقیص ہوگی جس سے تم نام لیکر میرا تقابل کرو گے حالانکہ حضور کے سید الانبیاء والمرسلین ہونے پر سب متفق ہیں۔
قرآن کریم کہہ رہا ہے کہ’’لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ اذْبَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ ( )یعنی اللہ تعالی کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے حضور اکرم ا کو ہمارے ہی نفسوں میں سے رسول بنا کر مبعوث کیا تا کہ ہم جنس سے مانوس ہونے کے فطری تقاضے کی مافوق البشر شخصیت کے مبعوث کرنے سے نامانوسی کی بناء پر اس سے استفادہ فیضان سے کسی بھی اعتبار سے محروم نہ کردیں۔
آتے نہ گر پہن کر لباس بشر حضور
فوق البشر ہوتے تو کچھ بات ہی نہ تھی
ہوتے نہ کوئی دعوت فکر و نظر حضور
ہاں یہ کمال ہے کہ ہیں خیر البشر حضور
حضور کی شان بشریت کچھ اور ہے شان رسالت اور شان عبدیت کچھ اور ہے یہی عبدیت کا وہ نازک مقام ہے کہ اپنی طرح بشر سمجھ کر دامن رسالت سے محروم استفادہ ہوکر دور ہونے والے دور ہونگے اور غیر شرعی فکر کو عرفان وتصوف قرار دینے والے الحاد و زندقہ بکنے لگے یہی وہ دوراہا ہے جہاں کسی پیر طریقت کی دستگیری و رہنمائی کی صورت میں اگر فضل باری تعالی شامل حال نہ رہا تو اس عبد کامل ا کی عبدیت کا مقام ارفع واعلی کسی بھی اعتبار سے عامیانہ ذہن کے پلے نہیں پڑتا۔
بردران ملت : حضور اکرم ا کے اس ارشاد کے بعد کہ ’’لَا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَ وَالِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘‘ ترجمہ :تم میں کا کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا یہانتک کہ میں اسکی اولاد او راسکے ماں باپ اور سارے انسانوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں ۔ یہ ثابت ہوگیا کہ عین ایمان سید الانبیا المرسلین ا سے ایسی محبت ہے جس پر سب کی محبتیں قربان اسطرح آپ ا سے محبت ایمان ہے ورنہ ایمان ناقص رہ جائیگا۔
الحاصل ان سے وابستگی ہے تو سب کچھ ہے اور اگر ان سے وابستگی نہیں تو کچھ بھی نہیں اللہ تعالی بطفیل نبی کریم ا ہمیں شیخ الاسلامؒ کی تصانیف کو سمجھنے اور برتنے کا سلیقہ عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ انکی تعلیمات وتصانیف کی اشاعت ہوتی رہے اور استفادہ عام ہو۔
٭٭٭
0 Comments: