بشارت علی صدیقی اشرفی
اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن،حیدرآباد۔ دکن
خلفائے حضرت شیخ الاسلام (قسط اول)
جانشین محدث اعظم ہند حضرت شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی دامت برکاتہم العالیہ کے خلفاء کی فہرست جو میں نے مرتب کی ہے اس میں 300سے زائد خلفاء کے نام درج ہیں۔ اس میں سے جنوبی ہند کے 30 سے زائد خلفاء کا تعارف مکرمی مولانا حافظ سید صادق انواری اشرفی نظامی قبلہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں، جو مجلہ باشیبان(جنوری۔2015ء) میں مضون کی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔
لفائےحضرت شیخ الاسلام پر یہ دوسری اہم تحریر ہے جس میں ہم نے 20 اکابر خلفاء کا مختصر تذکرہ کیا ہے اوراسے قسط اول کے نام سے موسوم کیا ہے کیونکہ بہت سے خلفاء کے تعلق سے مواد ہم تک پہنچ نہیں پایاہے، اورجو مواد پہنچا ہے اسے ہم وقت کی قلت، اور مضمون کا غیر معمولی طور پر طویل ہو جانے کے خوف سے شامل نہ کر سکے۔ ان شاء اللہ تعالی اگلے شمارے اور قسط دوم میں انہیں پیش کیا جائےگا۔
(1) حضرت علامہ مفتی قمر عالم صدیقی اشرفی مصباحی مظفر پوری
شیخ الحدیث- دار العلوم علیمیہ، جمدا شاہی ،یوپی
زین المحدثین ، استاذ المشائخ،سیدی و سندی حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر عالم صدیقی قادری اشرفی مصباحی ابن محمد تعظیم الحق صدیقی ابن امیر الدین ابن برکت علی صدیقی کی ولادت ۲۹؍ جون ۱۹۵۹ء کو اپنے آبائی گائوں بلتھی ،رسول پور ،ضلع مظفر پور ،بہار میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم اپنے گائوںمیں حاصل کرکے عربی وفارسی کی تعلیم مدرسہ’ نور الہدیٰـ ،پوکھریرا،ضلع سیتامڑھی‘ میں مکمل کی۔اس کے بعد’ جامعہ قادریہ مقصود پور، ضلع مظفر پور‘ میں چار سال تک رہ کر شرح جامی تک تعلیم حاصل کی۔جامعہ قادریہ میں سب سے زیادہ خلیفئہ مفتی اعظم شیر بہار حضرت علامہ مفتی محمد اسلم قادری رضوی سے استفادہ کیا۔پھر یہاں سے آپ نے ’دار العلوم مظہر الاسلام ،بریلی شریف ‘ کا رخ کیا اور دو سال رہ کر متوسطات تک تعلیم حاصل کی ۔یہاں آپ کو محدث مئو حضرت علامہ مفتی ثنا ء اللہ قادری رضوی ،حضرت مفتی محمد اعظم ٹانڈوی اور حضرت علامہ مولانامحمد صالح (موجودہ شیخ الحدیث الجامعۃ الرضا،بریلی شریف)سے خصوصی علمی فیض حاصل ہوا۔
اپنے استاذ کریم حضرت مفتی محمد اسلم رضوی کے مشورے سے شیخ المعقولات حضرت علامہ معین الدین خان سے اکتساب فیض کے لیے ’جامعہ عربیہ ،سلطان پور،یوپی‘ تشریف لے گئے اور قطبی مع میر، شرح عقائد ، ملا حسن کی خصوصی تعلیم حاصل کی ،پھر حضرت شیخ المعقولات کے مشورے سے جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں شعبئہ فضیلت میں داخلہ لیا۔سابعہ سے تعلیم شروع ہوئی ،پہلے ہی سال اپنی جماعت میں اول درجہ حاصل کیا اور پورے دار العلوم میں امتیازی نمبر ات حاصل کیے۔تمام اساتذہ نے دعا ئوں سے نوازا ۔
اس کے بعد جماعت ثامنہ میں ترقی ہوئی ، اسی دوران دار العلوم ضیاء العلوم ،ادری ، مئو کے صدر المدرسین نے استعفی دے دیا ،ان کی جگہ پُر کرنے کے لیے وہاں کے ارباب حل و عقد نے جامعہ اشرفیہ سے رابطہ کیا۔اس وقت حضرت بحر العلوم مفتی عبد المنا ن اعظمی علیہ الرحمہ جامعہ اشرفیہ کے رئیس الاساتذہ تھے۔آپ نے حضرت عزیز ملت و دیگر اساتذہ کی میٹنگ کی اور باتفاق رائے مدرسہ ضیاء العلوم میں جب تک کوئی صدر المدرسین نہ آجائے بحیثیت صد ر المدرسین آپ کا انتخاب ہوا ۔
جامعہ اشرفیہ میں جن اکابر علماء سے شرف تلمذ حاصل ہوا ان میں حضرت بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی ، محدث کبیر حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی ، محدث جلیل حضرت علامہ عبد الشکور قادری مصباحی اور شیخ القرآن علامہ عبد اللہ خان عزیزی کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔ ۱۷؍اپریل ۱۹۸۰ء میں جامعہ اشرفیہ سے فراغت ہوئی۔بعد فراغت مدرسہ ضیاء العلوم ،ادری ،مئو میں ۴ ؍ستمبر ۱۹۸۰ء کو نائب عالیہ کی جگہ تقرری ہوئی اور دوسرے سال ہی مدرسہ میں بحیثیت صدر المدرسین منتخب کیے گئے اور ۱۳ ؍ جون ۱۹۸۴ء تک عہدئہ صدارت پر فائز رہے۔
اس زمانے میں مدرسہ ضیاء العلوم میں صرف رابعہ تک تعلیم ہوتی تھی اور مزید تعلیمی ترقی کی راہ نظر نہ آنے کی صورت میں وہاں سے استعفیٰ دے کر جامع اشرف ،کچھوچھا شریف تشریف لائے اور یہاں منتہیٰ تک کے طلبہ کو پڑھانے کا موقع ملا۔جامع اشرف میں تدریس کے دوران حضرت مخدوم اشرف سمنانی و مشائخ سلسلہ اشرفیہ کے روحانی فیوض و برکات سے خوب مالامال ہوئے۔ جامع اشرف کچھوچھا شریف میں چار سال رہ کر وہاں سے ۱۸؍جون ۱۹۸۸ء کو دار العلوم اہل سنت ،جبلپورمنتقل ہوئے۔جہاں پر صدر المدرسین ، شیخ الحدیث اور دار الافتاء جیسی تین اہم و عظیم ذمہ داریاں سنبھالی اور ان عہدوں پر ۱۹۹۵ ء تک فائز رہے۔اسی دوران سائوتھ افریقہ اور ملاوی کاتبلیغی دورہ بھی کیا۔ یکم نومبر ۱۹۹۵ء کو اپنے استاذ محتر م حضرت شیخ القرآن عبد اللہ خان عزیزی کے حکم پر دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی میں تدریسی ذمہ داری سنبھالی ۔ یہاں پر نائب عالیہ کی جگہ تقرر ہوئی اور پھر شیخ الحدیث کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔
حضرت شیخ الحدیث صاحب کو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں حضرت سید علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے خلیفہ ،قبلہ مفتی اعظم کانپور حضرت علامہ مفتی رفاقت حسین اشرفی مظفر پوری علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل ہے اور جانشین محدث اعظم ہند حضرت شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی دامت برکاتہم العالیہ سے ۲۳؍شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ مطا بق ۲۴؍ ستمبر ۱۹۹۷ ء کوخلافت و اجازتِ اشرفیہ حاصل ہوئی۔اجازت و خلافت کے بعد حضرت شیخ صاحب قبلہ اپنی آباد ی کے علاوہ سیوان، جمدا شاہی، ممبئی اور ناگپور کے عقیدت مند وں کے اصرار پر ان کو داخل سلسلہ بھی کرتے رہے ہیں۔
حضرت شیخ صاحب قبلہ کوکئی اکابر علماء اہل سنت سے اجا زت سند حدیث حاصل ہے ۔جس میں حضور سرکار کلاں مخدوم المشائخ حضرت علامہ مفتی الشاہ سید محمد مختار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ اور سرکار مجاہد ملت حضرت علامہ مفتی حبیب الرحمن نقشبندی قادری اشرفی اڑیسہ علیہ الرحمہ جیسی قد آورشخصیات بھی ہیں۔
سن ۲۰۰۴ء میں حج بیت اللہ شریف زادھا اللہ تعظیما و تکریما اور زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے۔۱۹۹۳ء میںسائوتھ افریقہ اور ملاوی ، ۲۰۱۳ء میں نیپال اورفروری ۲۰۱۵ء میں ماریشس کا دعوتی و تبلیغی دورہ فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(2) محترم المقام حضرت سید صابر علی باپو اشرفی
گجرات ،انڈیا۔
حضرت سید صابر علی باپو اشرفی ، حضرت سید شرف الدین اشرفی بن سید صدر الدین بن بحر الدین بروڈوی کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۹۳۰ء ؍ ۱۳۴۸ھ بروز منگل کو ہوئی۔ آپ ابھی کم سن ہی تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ۱۹۳۶ء ؍ ۱۳۵۴ء میںہوگیا۔ اس کے بعدآپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کی نانی صاحبہ نے لے لی۔
آپ کو شرف بیعت حضر ت مخدوم الملت ،محدث اعظم ہند علامہ سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے حاصل تھا ، حضرت محدث اعظم ہند آپ کے زہد و تقویٰ سے بے حد متاثر تھے اور آپ کو اپنی خلافت و اجازت سے نوازنا چاہتے تھے اوراسی کے لیئے آپ کوناپاڈبلایاتھا۔مگراتفاق ایسا ہوا کہ حضرت سید صابر علی باپو کو وہاںپہونچنے میں تاخیر ہوگئی اور جب وہ محدث اعظم کی قیامگاہ پہونچے تو حضرت گاڑی میںبیٹھ چکے تھے اور گاڑی نکلنے ہی والی تھی ۔حضرت محدث اعظم نے افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اگلے دورے میں اس کام کو پایئہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا ۔مگر حضرت محدث اعظم کا کچھ مہینوں بعد انتقال ہوگیا۔
حضرت شیخ الاسلام کی فراغت و جانشینی کے بعد جب پہلی بار گجرات کے کا دورہ ہوا توحضور شیخ الاسلام کا قیام کرجن میں ٹھاکر رتن سنگھ کے گھر ہوا۔اس با برکت محفل میں حضرت صابر علی باپو ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے ،حضرت شیخ الاسلام نے صابر علی باپو کو قریب بلایا اور کہا کہ ہمیں ہمارے بزرگوں نے اشارہ دیا ہے کہ آپ کو سلسلہ اشرفیہ کی اجازت و خلافت عطا کی جائے۔ بقول سید شوکت علی باپو : حضرت شیخ الاسلام کو خواب میں حضور محدث اعظم نے حکم فرمایا تھا اور حضرت صابر علی باپو کا چہرہ بھی دکھادیا تھا جس کی وجہ سے شیخ الاسلام نے بھری محفل میں اس پاکباز و نورانی ہستی کو پہچان لیا تھا۔
حضرت شیخ الاسلام نے خلافت نامہ اپنے ہاتھ سے لکھا اور عطا کیا۔اس طرح سید صابر علی باپو کو حضرت شیخ الاسلام کے سب سے پہلے خلیفہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ ۱۳۸۸ھ ۱۹۶۸ء کاواقعہ ہے۔آپ نے حضرت شیخ الاسلام کے ساتھ ۱۹۸۱ ء میں حج بیت اللہ شریف ،زیارت حرمین شریفین کے ساتھ شام و عراق کے مقدس مقامات کی زیارت کی۔
حضرت سید صابر علی باپو کے کل بارہ (۱۲)اولادہوئی۔ ۵؍ صاحبزادیاں اور ۷؍ صاحبزادے۔خلیفہ حضور شیخ الاسلام حضرت علامہ قاری سید نورالدین اشرفی اور خلیفہ حضور شیخ الاسلام حضرت حافظ و قاری مولانا سید شوکت علی باپو اشرفی کرجن ، گجرات آپ ہی کے صاحبزادے ہیں۔
حضرت صابر علی باپو کے دینی و مسلکی خدمات سے ایک عالم واقف ہے ، آپ نے اپنے علاقے میں کئی دینی و فلاحی ادارے قائم فرمائے ،مساجد کی تعمیر کیے،تحریکیں چلائیں اور قیادت فرمائی ۔کرجن کی جامع مسجد آپ ہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔سنی حنفی کا قیام ،خانقاہ اشرفیہ کی تعمیر ،صابری ہائی اسکول،مدرسہ منظر اشرف، پرانی مسجد کرچیا کی تعمیر نو ، وغیرہ جیسے عظیم دینی خدمات انجام دیے ہیں۔
آپ کا وصال کرجن میں ہوا۔کرجن کی تاریخ میں اس طرح کا جنازہ پہلی بار ہوا۔فاتحہ چہلم میں سادات کرام خصوصاًخانوادئہ اشرفیہ کے اکابر ، حضور سرکار کلاں مخدوم المشائخ حضرت علامہ سید مختار اشرف اشرفی جیلانی ، مفکر اسلام حضرت سید مثنی میاں اشرفی جیلانی ،محبوب المشائخ مفتی محبوب اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی ثم ناگپوری،غازی ملت سید ہاشمی میاں اشرفی جیلانی اور حضرت سید سلیم اللہ رفاعی سورتی تشریف لائے تھے ۔
(3) مفتی اعظم پاکستان حضرت پیرطریقت مفتی محمد اشرف القادری اشرفی صاحب قبلہ
،محدث نیک آبادی گجرات،پاکستان
حضرت علامہ مفتی اشرف القادری کی ولادت ۱۳؍جمادی الثانی ۱۳۶۸ھ مطابق۱۲؍اپریل ۱۹۴۹ء کو ولی کامل، شیخ المشائخ حضرت پیر محمد اسلم قادری (۱۳۴۷ھ ۔۱۴۲۴ھ ؍۱۹۲۹ء۔ ۲۰۰۴ء)ابن قطب العارفین حضرت علامہ مولانا پیر محمد نیک عالم قادری (۱۳۰۱ھ۔۱۳۷۸ھ؍ ۱۸۸۴ء۔۱۹۵۸ء) علیہما الرحمہ کے گھر ضلع گجرات پاکستان میں ہوئی۔آپ کے والد شیخ المشائخ حضرت پیر محمد اسلم قادری کو حضر ت مخدوم الملت ،محدث اعظم ہند علامہ سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے خلافت واجازت حاصل تھی۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کرنے کے بعدآپ کا داخلہ مدرسہ غوثیہ نعیمیہ گجرات میں ہو اجہاں آپ نے اشرف المفسرین حکیم الامت مفتی احمد یار خان اشرفی نعیمی سے اکتساب فیض کیا ، پھر مرکزی دار العلوم حزب الاحناف لاہور کا رخ کیا اور مفتی اعظم پاکستان حضرت ابو البرکات سید احمد قادری اشرفی سے درسیات مکمل کی اور ۱۳۸۳ ھ مطابق ۱۹۶۳ ء میں دستار فضیلت سے نوازے گئے۔
تدریس و افتا نویسی: دار العلوم حزب الاحناف میں حضرت سیدی ابو البرکات احمد قادری کی نگرانی میں چار سال فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دی۔ اور تدریسی خدمات کا آغاز اپنے دادا حضرت محمد نیک عالم قادری کے ۱۹۰۵ء میںقائم کردہ ’’دار العلوم جامعہ قادریہ عالمیہ‘‘مراڈیاں شریف کا با قاعدہ آغاز کیا۔ایک عرصہ تک جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو ،لاہور میں شیخ التفسیر ، شیخ الحدیث ،صدر المدرسین اور رئیس دار الافتاء کے عظیم منصب پر بھی فائز رہے۔
سن ۱۹۷۹ء میں برائے تبلیغ اسلام آپ نے’’ سرینام مسلم ایسوسی ایشن‘‘ کی دعوت پر سرینام سائوتھ امریکہ کا سفر کیا ، یہاں آ پ کا قیام چار ۴ سال رہا۔
تصانیف: (۱) فتح العلام فی فتاوی سرینام۔سرینام و دیگر یورپی ممالک کی مسلم تنظیموں کی طرف سے قدیم و جدید مسائل پر آپ کے تقریبباًچھ سو (۶۰۰)فتاوی کا مجموعہ غیر مطبوعہ۔ (۲)شرب بول النبی ﷺ ۔ اُن واقعات و احادیث کا مجموعہ جن میں صحابہ کرام کا رسول اللہ ﷺ کا بول مبارک پینے کا ذکر ہے۔ان تمام روایات پر غیر مقلدین کی طرف سے وارد اعتراضات کا زبر دست تحقیقی جواب بھی شامل کتاب ہے۔یہ کتاب حضرت علامہ اشرف القادری قبلہ کی شاہکار تصنیف اور تحقیق ہے جس سے آپ کی محدثانہ بصیرت اجاگر ہوتی ہے۔ عنقریب ’’اشرفیہ اسلامک فائونڈیشن ‘‘سے شائع ہوکر منظر عام پر آئے گی۔ (۳) بارہ ربیع الاول :میلاد النبی یا وفات النبی ؟ رسول اللہ ﷺ کی تاریخ ولادت و وصال پر اولین جامع تحقیق۔
سن ۲۰۰۴ ء ؍ ۱۴۲۵ھ میں آپ کے والد گرامی حضرت پیر محمد اسلم قادری کے انتقا ل کے بعدآپ درگاہ عالیہ قادریہ نیک آباد کے سجادہ نشین بنے۔عرس چہلم میں اکابر علماء و مشائخ اہل سنت کی موجودگی میںاس بات کا اعلان آپ کے برادر اصغر پیر طریقت علامہ مولانا محمد افضل قادری نے کیا۔
اسی سال اپنے والد گرامی کے روحانی اشارے پر ’’الجامعۃ الاشرفیہ ‘‘کو قائم کیا جو فی الوقت پاکستان کے مشہور ترین بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے۔حضرت علامہ اشرف القادری کی سرپرستی میں ’’ماہنامہ اہل سنت ‘‘بھی پابندی سے ایک زمانے سے شائع ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضر ت قبلہ کو صالح اولاد بھی عطا فرمائی ہے۔آپ کے چار صاحبزادیا ں اور دو صاحبزادے ہیں۔خلف اکبر حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ عبداللہ قادری اشرفی ’’الجامعۃ الاشرفیہ‘‘ کے ناظم اعلی ہیں اور خلف اصغرحضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبد الرحمن قادری اشرفی ’’الجامعۃ الاشرفیہ‘‘ میں درس و افتاء کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
خلا فت:حضرت علامہ مفتی اشرف القادری کواپنے والد گرامی کے علاوہ قطب مدینہ حضرت علامہ ضیاء الدین احمد مدنی، مفتی اعظم پاکستان حضرت ابو البرکات سید احمد قادری اشرفی اورجانشین محدث اعظم ہند حضرت شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی دامت برکاتہم العالیہ سے خلافت و اجازتِ اشرفیہ حاصل ہے۔اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ حضرت مفتی اعظم پاکستان کا سایہ ہم اہل سنت پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔
(4) حضرت علامہ مفتی محمداکمل قادری عطاری مدنی
کراچی ، پاکستان
Qtvکے مشہور و معروف مفتی ،حضرت علامہ مفتی محمد اکمل قادری ابن محمد شمشیر علی خان کی ولادت ۱۰؍صفر ۱۳۸۸ ھ /۷؍مئی ۱۹۶۸ ء کو مظفر گڑھ میں ہوئی۔آپ پہلے عصری تعلیم سے آراستہ ہوئے ۔آپ ایک زبردست کیمیکل انجینیرہیں۔دوران طالب علمی ہی میں آپ عالمی تحریک دعوت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور ایک بہترین مبلغ کے طور پر ابھرے ۔پھر آپ با قاعدہ دینی تعلیم یعنی درس نظامی کی تکمیل کے لیے حضرت علامہ مولانا مفتی الیاس رضوی اشرفی ،پرنسپل جامعہ نصرۃ العلوم کراچی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔پھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ نے جامعہ نظامیہ رضویہ ،لاہور میںداخلہ لیا جہاں آپ نے مفتی اعظم پاکستان مفتی عبد القیوم ہزاروی قادری رضوی ،شرف ملت حضرت علامہ مفتی عبد الحکیم شر ف قادری رضوی ،علامہ مفتی اشفاق احمد رضوی ، علامہ مولانا محمد صدیق ہزاروی ،علامہ مولانا عبد الستار سعیدی،علامہ مولانا مفتی گل احمد عتیقی ،علامہ مولانا شیخ الحدیث خادم حسین نقشبندی رضوی وغیرہم جیسے اکابر علماء اہل سنت سے اکتساب فیض فرمایا ۔مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی عبد القیوم ہزاروی کی خدمت میں رہ کر افتا نویسی کی مشق کی اور خصوصی سند ِافتا سے نوازئےگئے۔
تصنیف و تالیف : ۱) ایصال ثواب سنت ہے۔۲) عاشقوں کی عید۔۳) نجاستوں کی پہچان۔۴) ٹھنڈی چھائوں ۔۵) نفل کی جماعت کرنا کیسا ہے؟ ۶)مقصد حیات۔ ۷) البیان۔۸) ہمیں امیر اہل سنت سے پیر ہے۔۹)تلفظ درست کیجیے۔۱۰) احساس نعمت ۔۱۱)روزوں کے مسائل۔۱۲) عیوب و نقائص کی پہچان ۔۱۳) عقل کا دشمن۔۱۴)ہدایۃ النحو۔۱۵) النحو الکبیر۔۱۶) ہدایۃ الصرف۔۱۷)الترکیب ۔۱۸)بڑابھائی۔۱۹) قابل رشک خواتین۔۲۰) شیطانی چکر ۔۲۱) نیکیوں کا چور ۔۲۲) ایمان کی صفت۔۲۳)الاربعین الرضوی۔۲۴)میٹھا زہر۔ ۲۵) باطنی گناہ اور ان کا علاج ۔۲۶)کیا آپ جانتے ہیں ؟۲۷) رہنمائے کامل۔ (۱۰حصے)۲۸) اصلاحی بیانات ۔۲۹) سرکار کے قافلے ،وغیرہ اہم اور ضروری موضوعات پر حضرت مفتی صاحب کی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
بیعت و خلافت:دور طالب علمی میں امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا الیاس عطار قادری رضوی ضیائی سے سلسلہ قادریہ رضویہ ضیائیہ میں مرید ہوے۔جانشین محدث اعظم ہند حضور شیخ الاسلام حضرت علامہ مفتی سیدمحمد مدنی میاں اشرفی جیلانی سے سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ میں ذی الحجہ ۱۴۳۶ھ، اکتوبر ۲۰۱۵ء کو خلافت حاصل ہوئی۔
آپ کو شرف ملت حضرت علامہ مولانا عبد الحکیم شرف قادری ،مفکر اسلام حضرت مولانا قمر الزماں اعظمی قادری، حضرت علامہ مولانا سید وجاہت رسول قادری، حضرت علامہ مفتی اشفاق رضوی رحمت اللہ علیہ اور حضرت علامہ مولانا مفتی حنیف قادری صاحب سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت مفتی صاحب کو مزید دینی خدمت انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ، اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہم اہل سنت پر ان کا سایہ دراز فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ!
(5)حضرت علامہ مفتی محمد شبیراحمد صدیقی اشرفی
قاضی القضاۃ -گجرات وناظم اعلی - دارالعلوم شیخ احمد گنج بخش کھٹو،سرخیز۔ احمدآباد
حضرت علامہ مفتی محمد شبیراحمد صدیقی اشرفی ابن محمد مجیب الرحمن صدیقی کی پیدائش 12دسمبر1958ء کوسمری، بختیارپور، ضلع سہرسہ، بہارمیں ہوئی- آپ کی تعلیم ابتدا سےلے کرمولوی تک علاقائی مدرسہ قادریہ انوارالعلوم سربیلہ، ضلع سہرسہ،بہارمیں ہوئی- اس کےبعد درس نظامیہ کی تعلیم مدرسہ اشرفیہ اظہارالعلوم- برہان پور،ایم پی میں ہوئی اور1975ء میں فراغت ہوئی۔ پھراس کےبعد بہارمدرسہ ایجوکیشن بورڈ، مدرسہ شمس الھدی پٹنہ، بہار سے عالم فاضل کی سندحاصل کی۔ اس کےبعد تقریبا تین چارسال تک مدرسہ مفتاح العلوم، راوڑکیلا،اڑیسہ میں تدریسی خدمات انجام دی، اور وہاں سےکچھ دنوں کےلئےمدرسہ معین العلوم، درگاہ اجمیرشریف چلے گیے اورتدریسی خدمات پرمامور رہے۔ پھر1982ء میں گجرات کی مرکزی درس گاہ ’دارالعلوم شاہ عالم‘ میں درس وتدریس کےساتھ اٹھارہ سال تک فتوی نویسی کی ذمہ داری سنبھالی۔
1995ء میں احباب کی خواہش اوردعوت پراحمدآباد کی شاہی جامع مسجد کی امامت وخطابت قبول کی۔2001ء میں فیملی کےساتھ حج و زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔ حج سےواپسی کےبعد دارالعلوم شاہ عالم سے استعفیٰ دے کرحضورسیدی شیخ الاسلام کی سرپرستی میں’ دارالعلوم شیخ احمد گنج بخش کھٹو،سرخیز‘ کےنام سے دارالعلوم قائم کیا جہاں بفضلہ تعالی ابتدا سےلےکرعالم فاضل کےعلاوہ تخصص کی تعلیم کےساتھ ساتھ حالت حاضرہ کےتحت انگلش و ہندی کی تعلیم بھی ہوتی ہے۔ اردوکمپیوٹرکورس کا بھی مکمل انتظام ہے۔
گجرات میںضرورت کومحسوس کرتےہوئےحضرت شیخ الاسلام کےمشورے سےہندوستان کےقابل قدرمفتیان عظام کےہاتھوں سےادارہ شرعیہ گجرات قائم کیا گیا۔جس میں بالخصوص محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی برکاتی- صدرمفتی الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، صدر العلماء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی- ناظم تعلیمات- الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، حضرت علامہ مفتی آل مصطفی اشرفی مصباحی، گھوسی، حضرت علامہ مفتی عبیدالرحمن رشیدی، قاضی شرع ضلع کٹھیار،پورنیہ بہاراورحضرت علامہ مفتی اشرف رضا صاحب، قاضی شرع، مہاراشٹر،بمبئی تشریف فرما تھے۔ یہ اکابرین نےباضابطہ حضرت علامہ مفتی محمد شبیراحمد صدیقی اشرفی کو گجرات کا قاضی القضاۃ منتخب فرمایا۔ویسےانفرادی طورپر جانشین محدث اعظم ہند حضور شیخ الاسلام حضرت علامہ مفتی سیدمحمد مدنی میاں اشرفی جیلانی نے حضرت علامہ مفتی محمد شبیراحمد صدیقی اشرفی کو گجرات کا چیف قاضی منتخب فرماچکےتھے۔
حضرت علامہ مفتی محمد شبیراحمد صدیقی اشرفی کو شرف بیعت حضورسیدی سرکارکلاں سید مختاراشرف اشرفی جیلانی،سجادہ نشین خانقاہ اشرفیہ سرکارکلاں سےحاصل ہے اور جانشین محدث اعظم ہند حضور شیخ الاسلام حضرت علامہ مفتی سیدمحمد مدنی میاں اشرفی جیلانی سے سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ کی خلافت و اجازت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مفتی محمد شبیراحمد صدیقی اشرفی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(6) حضرت علامہ مفتی محمد ممتاز عالم اشرفی مصباحی
صدر المدرسین-جامعہ شمس العلوم، گھوسی
ممتاز العلما حضرت علامہ مفتی محمد ممتازعالم اشرفی مصباحی بن الحاج ماسٹرعبد الوحید ابن محمد حصیر الدین بن محمد اشرف بن محمد وزیر کی ولادت ۱۰؍فروری ۱۹۶۸ء کومقام ہتھمنڈل [Hathmandal]،سمری بختیارپور، ضلع سہرسا، بہارمیں ہوئی۔ آپ کے آباواجداد جونپور سے آئے تھے اور آج بھی جون پوری کہلاتے ہیں۔ حضرت علامہ مفتی محمد ممتازعالم صاحب کے خاندان کو اعلی وجاہت او رسماجی ثقاہت حاصل ہے- تایا زاد کل ملاکر پندرہ بھائی ہے- ان میں اکثر صاحبان علم وفضل مصباحی ہیں- ضلع اور آس پاس میں اس خاندان کے علمی قابلیت اور فکری قیادت کا ثمرہ ہے- نئی نسل دینی اور عصری علوم سے آراستہ ہے- خاندان میں عم زاد بقیۃ السلف، حجۃ الخلف، قدوۃ العلماء حضرت علامہ مفتی عبد الشکور مصباحی قبلہ زیدت مکارمھم کو قائدانہ حیثیت حاصل ہے-
حضرت علامہ مفتی محمد ممتازعالم اشرفی نےابتدائی تعلیم مولوی کلیم الدین اشرفی، بڑے والد محمد توحید مرحوم، بری ہمشیرہ عنبری خاتون سے، ناظرہ اور پرائمری کی تعلیم حاصل کی-درجۂ اعدادیہ واولی دار العلوم اسحاقیہ جودھ پورراجستھان میں بقیۃ السلف، حجۃ الخلف، عمدۃ المحققین، مفتی عبد القدوس اشرفی مصباحی ناظم تعلیمات دار العلوم کی سرپرستی میں حاصل کی- چند مہینے علاقائی دار العلوم قادریہ انوار العلوم سربیلہ میں بھی تعلیم حاصل کی-
اس کے بعد الجامعۃ الاشرفیہ میں داخلہ لیا اوردرجہ ٔثانیہ سے لے کرفضیلت تک تعلیم یہیں حاصل کی اور۱۹۸۵ء میں فراغت ہوئی۔ ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیابی اور پوزیشن اول رہی- سند اور مارک شیٹ پر عمدۃ الفقہاء والمحدثین ، سلطان الاساتذہ حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری صاحب قبلہ نے بحیثیت صدر المدرسین اپنے قلم سے ’’ممتاز ‘‘ لکھا تھا-
اشرفیہ سے فراغت کے بعد جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی کے بانی حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری صاحب قبلہ نے مدرس اول کے طور پر منتخب فرمایا- تین سال تک یہیں تدریسی خدمات عربی میڈیم سے انجام دی- پھر۱۹۸۸ء میں جامعہ شمس العلوم میں تقرری عمل میں آئی اور درس نظامی کی منتہی کتابوں کا درس متعلق رہا اور ۲۰۰۰ء میں بحیثیت صدر المدرسین انتخاب ہوا-
حضرت علامہ مفتی محمد ممتازعالم اشرفی مصباحی کو سلطان المفسرین شیخ الاسلام والمسلمین رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی کےدست مبارک پرشرف بیعت حاصل ہے اور نعمت خلافت و اجازت اشرفیہ حاصل ہوئی۔
جامعہ شمس العلوم میں حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد دار الافتا کی اضافی ذمہ داری بھی حضرت علامہ مفتی صاحب قبلہ پرآئی،اسی طرح تخصص فی الفقہ والوں کو فتاوی نویسی کی مشق بھی حضرت علامہ مفتی صاحب کے ذمہ ہے-حضرت علامہ مفتی صاحب قبلہ پرآئی کے مشاغل میں تدریس، تقریر، مقالہ نویسی، فقہی سمیناروں میں شرکت شامل ہیں۔ آپ نے کچھ کتابیں بھی تصنیف کی ہیں- جس میں[۱]جہیز کی تباہ کاریاں[۲] مصافحہ ومعانقہ کی شرعی حیثیت[۳]شرح ملاحسن زیرترتیب وغیرہ قابل ذکر ہے۔
حضرت علامہ مفتی محمد ممتازعالم اشرفی کےقابل ذکر اساتذہ میںاستاذ الاساتذہ مفتی عبد الرشید اشرفی علیہ الرحمہ[۲] شیخ الاساتذہ بحر العلوم حضرت مفتی عبد المنان صاحب علیہ الرحمہ[۳] قاضی شریعت حضرت علامہ ومولانا شفیع اعظمی صاحب علیہ الرحمہ [۴] سلطان الاساتذہ ممتاز الفقہاء محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ صاحب قبلہ[۵]شیخ القرآن حضرت علامہ عبد اللہ خان صاحب عزیزی علیہ الرحمہ[۶]زبدۃ الاساتذہ حضرت علامہ عبد الشکور صاحب قبلہ شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور[۷] نصیر ملت حضرت علامہ مولانا نصیر الدین صاحب قبلہ[۸] یادگار سلف حضرت علامہ مفتی اشفاق حسین صاحب علیہ الرحمہ مفتی اعظم راجستھان [۱۰]سراج الفقہاء محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی نظام الدین صاحب قبلہ صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور [۱۱] مولانا اسرار احمد صاحب قبلہ جیسے اکابرین شامل ہیں۔
آپ کے تعلق سےاشفاق العلماء حضور مفتی اعظم راجستھان مفتی اشفاق حسین نعیمی علیہ الرحمہ ذہانت وطباعی کو دیکھتے ہوئے پیش گوئی فرمایا کرتے تھے کہ:’’یہ لڑکا شیخ الحدیث ہوگا‘‘ الحمد للہ حضرت علامہ مفتی محمد ممتازعالم اشرفی کئی سالوں سے بخاری شریف کادرس دے رہے ہیں- اسی طرح محدث کبیر نے جامعہ امجدیہ کے صحن میں طلبہ سے خطاب کے دوران فرمایاکہ:’’ میراممتاز ممتاز العلماہے!‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت ممتاز العلماعلامہ مفتی محمد ممتازعالم اشرفی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(7)حضرت علامہ مولانا مفتی ایوب اشرفی شمسی سنبھلی
امام وخطیب ، جامع مسجد نورالاسلام، بولٹن، یو،کے
حضرت علامہ مولانا مفتی ایوب اشرفی خان ابن جناب عبد الحفیظ خان اشرفی ابن الحاج جناب عبد الرشید خان اشرفی اپنے علاقے کےایک بڑے زمیندارگھرانے میں یکم اگست ۱۹۶۶ء میں کو سنبھل ضلع مرادآباد کے معروف علاقہ کوٹور میں پیدا ہوئے۔ حضرت علامہ نے نویں کلاس کے بعد اسکول کو خیرآباد کہہ کر علوم دینیہ کی طرف رجوع کیا۔جو آپ کے والد گرامی کی خواہش کا تقاضہ تھا،استادِ گرامی قدر مولانا پیر محمد صاحب داغستانی کے ارشاد پر آپ مدرسہ اشرفیہ شمس العلوم سنبھل میں داخلہ لیا۔ اور حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ و قاری محمد معین الدین اشرفی( شاگرد شمس العلماء قاضی سید شمس الدین قادری رضوی جونپوری رحمۃ اللہ علیہ) سےجملہ علوم ِ عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل میں مشغول ہوئے۔اور ۱۹۸۵ میں دار العلوم اہلِ سنت جبل پور سے پہلی سند فراغت حاصل کی۔ آپ نے پھر دوبارہ مدرسہ اشرفیہ شمس العلوم سنبھل میںمراجعت فرمائی۔اور یہاں آپ مشقِ افتا بھی کرتے رہے اور تیس سال کی عمر میں ۱۹۹۰ ءمیں ساٹھ ستر ہزار کے عظیم اجتماع میں جہاں ملک بھر کے مقتدر علماء و مشائخ کا جم غفیر تھا، فاضل درسیا ت اور افتاء کی دستار سے نوازے گے ٔ۔
عوام و خواص اور علماے ٔ کرام مشائخ عظام کے اس کثیر مجمع میں بطور ہدیۂ تشکر و خیر مقدم میں آپ نے فصیح و بلیغ عربی میں نصف گھنٹے تک تقریر فرمائی، جس سے جملہ اہلِ علم و زباں بےحد متاثر ہوے، اس تقریر کی پذرائی کا عالم یہ تھا کہ تنویر ملت حضرت علامہ سید تنویر اشرف اشرفی کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ۔مہتمم دارالعلوم اہل سنت جبل پور نے اپنے مدرسہ میں آپ کی خدما ت حاصل کرنا چاہا۔ چنانچہ حضرت سیدی شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کے حکم اور استادِ گرامی مفتی معین الدین اشرفی کے ارشاد کے مطابق آپ جبل پور پہنچے۔ اور ۶ جولائ ۱۹۹۱ء کو آپ دار العلوم اہل سنت میں نائب شیخ الحدیث پر تقرر ہوئے۔
حضرت علامہ مفتی ایوب اشرفی قبلہ کو شرفِ بیعت حضرت سرکار کلاں مخدوم المشائخ مفتی سید مختا اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی سے حاصل ہے، اور انہیں سے خاص سندِ حدیث اور سلسلۂ عالیہ اشرفیہ میں خلافت بھی حاصل ہوئی۔ پھر بعد میںحضرت شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی سے بھی خلافت اشرفیہ حاصل ہوئی۔
حضرت مولانا ایوب اشرفی کی شادی صدر العلماء امام النحو حضرت علامہ مولانا سید شاہ غلام جیلانی اشرفی میرٹھی کی صاحب زادی سے۲۶ اپریل ۱۹۹۵ کو ہوئی، تقریبِ عقد ِ نکاح میں غازی ملت حضرت علامہ مولانا سید ہاشمی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی اور محبوب العلماء حضرت علامہ سید محبوب اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی جیسی شخصیات نےشرکت کی۔
حضرت علامہ شمسی صاحب برطانیہ اپنے برادرِ نسبتی شہزادۂ امام النحو حافظ و قاری سید محمد عرفان میاں کی دعوت پر ۱۹۹۷ء میں پہنچے اور مسجد نور الاسلام ، بولٹن میں بحیثیت امام و خطیب تقرر ہوا، اس کے علاوہ مدرسہ نورا لاسلام میں تدریسی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ حضرت شمسی صاحب کو تصنیف و تالیف بھی کافی دلچسپی ہے، آپ کے تصانیف میں ’’ مختصر تذکرۂ سرکار کلاں ، مطبوعہ، اشرفی جامع مسجد، اشرفی چوک،مرید کے، شیخو پورہ،پاکستان۔ ’’ حیات ِ صدر العلماء۔ حضرت علامہ سید غلام جیلانی اشرفی میرٹھی، ’’ حضرت امام النحو کی حیات و خدمات پر ضخیم دو جلدوں میں ’’ صدر العلماء نمبر‘‘ جیسے اہم تصانیف شامل ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مولانا مفتی ایوب اشرفی شمسی سنبھلی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(8)حضرت علامہ مفتی آل ِ مصطفیٰ صدیقی اشرفی مصباحی
استاد و مفتی - جامعہ امجدیہ رضویہ ،گھوسی
زین الفقہاء، شمس المحققین حضرت علامہ مولانا مفتی آل ِ مصطفیٰ صدیقی اشرفی مصباحی ابن حضرت علامہ مولانا مفتی شہاب الدین اشرفی لطیفی ابن علامہ منشی نجابت حسین صدیقی کی ولادت شہجنہ، بارسوئ، ضلع کٹیہار ،بہار میں ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۱ء میں ہوئی۔ والد گرامی حضرت علامہ مفتی شہاب الدین اشرفی لطیفی حضرت ملک المحدثین ملک العلماء حضرت علامہ مفتی سید ظفر الدین رضوی فاضل بہار علیہ الرحمہ کی ارشد تلامذ ہ میں سے تھے اور حضرت سرکارِ کلاں حضرت علامہ مولانا مفتی سید مختار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی کےمرید و خلیفہ تھے۔حضرت علامہ مفتی آل مصطفیٰ قبلہ کے نانا حضرت قاضی ثمیر الدین رشیدی علیہ الرحمہ جامع معقول ومنقول حضرت علامہ ہدایت اللہ خان رامپوری ثم جونپوری علیہ الرحمہ کے شاگردں میں سے تھے۔
حضرت مفتی صاحب کی ابتدائی تعلیم گائوں کے مکتب میں ہوئی، فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم،حورا حجرا، سوناپور ، کٹہار مین ہوئی، پھر مدرسہ فیض العلوم ، محمد آباد، گوہنہ میں داخلہ لیا، اوراس کے بعد جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور سے دورہ ٔ حدیث و مشق ِافتاء مکمل کیا اور ۱۹۸۹ میں فارغ ہوئے۔
آپ کے اساتذہ میں آ پ کے والد ِ گرامی مفتی شہاب الدین صاحب اشرفی، صدر العلماء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی ، حضرت علامہ مولانا علامہ مفتی مطیع الرحمان مضطر رضوی،حضرت علامہ مولانا نصر اللہ خان رضوی مصباحی بھیروی،حضرت علامہ مولانا عارف اللہ اشرفی مصباحی فیضی، حضرت علامہ مولانا مفتی شمس الہدیٰ مصباحی، حضرت سراج الفقہاء علامہ مفتی نظام الدین برکاتی رضوی مصباحی ، محدث جلیل حضرت علامہ عبد الشکور مصباحی ، محدث کبیر علامہ مولانا ضیاء المصطفیٰ قادری رضوی امجدی و شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی جیسے اکابرین شامل ہیں۔اجازتِ فقہ مفتی شریف الحق ، اجازتِ حدیث حضرت بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی، علامہ ضیاء المصطفیٰ اور اپنے والدِ گرامی حضرت شہاب الدین اشرفی سے حاصل کی۔
حضرت علامہ مولانا مفتی آل ِ مصطفیٰ صاحب کوبیعت کا شرف حضرت سرکار کلاں مخدوم المشائخ مفتی سید مختا راشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی سے حاصل ہے اور حضرت شیخ الاسلام ، رئیس المحققین حضرت علامہ مولانا سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی سے خلافت سلسلۂ عالیہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ حاصل ہوئی، اس کے علاوہ آپ کو دیگر اکابرین سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے۔ جامعہ اشرفیہ کی فراغت کے بعد ،حضرت علامہ مفتی آل مصطفیٰ قبلہ نے اپنے استاد گرامی محدث کبیر کی دعوت پر جامعہ امجدیہ گھو سی تشریف لےگئے۔یہاں آپ کے ذمہ مروجہ علوم و فنون کی منتہی کتابوں کی تدریس ، شعبۂ تخصص فی الفقہ کی نگرانی،، اصول ِ افتاء کی تدریس اور فن افتاء کی مشق و تربیت ہے۔ آپ کی اہم تصنیفات، تالیفات اور تحقیقات میں : سوانحِ صدر الشریعہ، بیمہ ٔ زندگی کی شرعی حیثیت،کنز الایمان پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ، منصبِ رسالت کا ادب و احترام ، اسبابِ ستہ اور عموم بلویٰ کی توضیح و تنقیح، روداد مناظرہ بنگال،بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے اصول،نقشہ ٔدائمی اوقات صلوٰۃ براے ٔ گھوسی، حاشیہ فتاویٰ امجدیہ(صدر الشریعہ) جلدِ سوم و چہارم،حاشیہ توضیح عربی (مجلسِ برکات)وغیرہ ہیںاور تقریباً ۳۰سےزائد علمی و تحقیقی مضامین ہیں جو مختلف جرائد و ماہنامہ میں شائع ہو چکے ہیں۔
حضرت علامہ مفتی آل مصطفیٰ مصباحی ’’ مجلس ِ شرعی‘‘ جامعہ اشرفیہ کے اہم رکن بھی ہیں۔اور ہند و پاک کے صفِ اول کے فقہاء و محققین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ جن پر سلسلۂ اشرفیہ اور ساری سنیت کو ناز ہے۔ حضرت کے فتاویٰ کے تین ضخیم رجسٹر حضرت کے پاس رہ پاے ٔ ہیں ہنوز غیر مطبوعہ ہیں، علم اورعرفان سے بھر پور ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مولانا مفتی آل ِ مصطفیٰ صدیقی اشرفی مصباحی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(9)حضرت علامہ قاری سید نورالدین اشرفی
کرجن، گجرات
حضرت علامہ قاری سید نورالدین اشرفی ابن خلیفۂ شیخ الاسلام حضرت سید صابر علی اشرفی کی ولادت 1 جون 1956ءکوایک علمی گھرانےمیں بمقام بروڈہ ہوئی۔ آپ نےابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کرنے کے بعد مقامی اسکول میں داخلہ لیا اورعصری تعلیم حاصل کرنے لگے۔ پھراس کے بعد شیخ الاسلام کے مشورے سے آپ کا داخلہ دارالعلوم دیوان شاہ،بھیونڈی میں ہوا اوریہاں سےآپ نےقرات میں مہارت حاصل کی۔فراغت کے بعد آپ اپنےوطن واپس لوٹ آئے اوریہاں ملت ومسلک کی بڑی خدمات انجام دی۔آپ کا گھرانہ پہلے ہی سےخانودۂ اشرفیہ کےبزرگوں کامرکزتھا۔ آپ کے والد گرامی کوحضورشیخ الاسلام کےسب پہلےخلیفہ ہونےکا شرف حاصل تھا۔ حضرت علامہ قاری نورالدین اشرفی نے 1961ءمیں حضرت شیخ الاسلام والمسلمین،رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی کےدست اقدس پربیعت ہونے کا شرف پایااورحضرت ہی سےخلافت واجازت حاصل ہوئی۔
حضرت علامہ قاری نورالدین اشرفی کئی کتب کےمصنف ہیں؛ 1) ہماراایودھیا؛ 2) حالات خواجہ غریب نواز؛ 3) تاریخ بیت المقدس؛ 4) شریعت نہ اکھاڑاں؛ 5) امام احمد رفاعی؛ 6) حالات نورالعین؛ 7) حالات محمود دریائی؛ 8) نغمات اشرفی؛ 9) سیدی مختاراشرف؛ 10) مشائخ اشرفیہ؛ 11) مشائخ قادریہ؛ 12) درود کا خزانہ؛ 13) آؤتبلیغ کریں؛ 14) اوراد اشرفیہ؛ 15) مومن کی نماز؛ 16) مناقب رفاعی؛ 17) صابری عملیات؛ 18) معلومات قرآنی؛ 19) سوانح محدث اعظم؛ 20) خلفاءاعلی حضرت اشرفی میاں؛ 21) یہ سب تمہارا کرم ہےآقا؛ 22) تفسیرسورہ فاتحہ؛ وغیرہ وغیرہ۔
آپ نے 1999ءمیں میں حج بیت اللہ اورزیارت روضۂ رسول ﷺسےمشرف ہوئے،2002ءمیں حضرت شیخ الاسلام والمسلمین،رئیس المحققین علامہ مولاناسید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی کےساتھ دوبارہ تشریف لےگیےاور2007ءمیں اپنےسارےگھروالوں کےساتھ تشریف لےگیےاورعراق،شام اوربیت المقدس کی زیارتیں کرنےکی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت علامہ قاری صاحب نےاپنےبرادراصغرحضرت علامہ حافظ وقاری سید شوکت علی اشرفی کےساتھ مل کرتاریخی کارنامےانجام دئے ہیں۔ کرجن میں ایک علم کا شہر بسایا ہے اور فروغ اہل سنت کےلیےاپنی زندگی وقف کررکھی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ قاری نورالدین اشرفی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(10) حضرت علامہ حافظ وقاری سیدشوکت علی اشرفی
کرجن، گجرات
حضرت علامہ حافظ وقاری سید شوکت علی اشرفی ابن خلیفۂ شیخ الاسلام حضرت سید صابرعلی اشرفی کی ولادت 1962ء کوایک علمی گھرانےمیںبمقام بروڈہ ہوئی۔ آپ نےابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سےحاصل کرنے کے بعد مقامی مدرسےمیں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ پھراس کے بعد شیخ الاسلام کےمشورےسےآپ کا داخلہ دارالعلوم دیوان شاہ، بھیونڈی میں ہوا اور یہاں سے آپ نےحفظ وقرات میں مہارت حاصل کی۔ فراغت کےبعد آپ جامع اشرف میں داخلہ لیا جہاں سے آپ نے 1983ءمیں فضیلت کی تعلیم مکمل کی۔ جامع اشرف میں آپ نے خلیفۂ سرکار کلاں حضرت علامہ مفتی عبدالجلیل اشرفی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مفتی مطلوب اشرفی، مولانا اسلم، حضرت علامہ مفتی سید ہشام محی الدین جعفری رضوی جونپوری سے پڑھا۔ اس دوران حضرت سرکار کلاں کی خاص عنایتیں رہی اورحضرت کی صحبت سےخوب استفادہ کیا۔ حضرت سرکار کلاں سےآپ کوسند فقہ وحدیث بھی عطا ہوئی اوردیگرتبرکات بھی حاصل ہوئی۔
حضرت علامہ سید شوکت علی اشرفی کو حضرت شیخ الاسلام والمسلمین،رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی سےوہی تعلق ہے جو حضرت صدرالافاضل کو اعلی حضرت اشرفی میاں سےتھا۔ یہ بات کئی اعتبارسےدرست بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اورنہ اسےقبول کرنےمیں کوئی تردد محسوس ہوتا ہے۔ حضرت شوکت باپو کی دینی خدمات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ آپ حضرت شیخ الاسلام کے مریدین وخلفاءمین ایک امتیازی شان کےمالک ہیں۔ گجرات کےخلفاء سلسلہ اشرفیہ اورخانودۂ اشرفیہ میں آپ رئیس الخلفاء کے اعزازی لقب سےمعروف ومشہورہیں اورآپ اس عظیم خطاب کےحق داربھی ہیں۔
آپ اپنے برادر اکبر حضرت علامہ قاری نورالدین اشرفی کے ساتھ مل کر ایک علم کا شہر آباد کیا۔ حضرت شوکت باپو کی قیادت وتحریک پر گجرات میں عظیم الشان سادات کانفرنس منعقد ہوئی جس میں صوبۂ گجرات سے 200 سے زائد سادات مشائخ و پیران طریقت نے شرکت کی، یہ کوئی ڈسمبر1994ء کی بات ہے۔ آپ ہی کی تحریک پر1996ء میں صابری ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا جس کے تحت اسکول، کا لیج، 25 بیڈ کا مدنی جینرل ہاسپٹل، سمنانی ہاسٹل وغیرہ تعمیر کئے گئے۔1998ء میں،گجرات میں سنی مشائخ کانفرنس کےروح رواں رہے۔
ابھی حضرت شوکت باپو ’’اشرفی چینل‘‘ کا آغاز کر چکے ہیں اور گجرات کے کئی علاقوں میں یہ نشر بھی ہو رہا ہے۔ اس چینل کو یہ شرف حاصل ہے کہ ملک ہندوستان میں یہ واحد اسلامی چینل ہے جو بغیر کسی حکومتی امد اد کے چل رہا ہے اور اسے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ سنیوں کا واحد چینل ہے جو یہیں- اسی ملک سے نشر ہو رہا ہے ورنہ دیگر سارے سنی دینی چینل دوسرے ممالک سے رلے/نشر ہو رہے ہیں۔ حضرت شوکت باپوکا یہ ایک اور تاریخی کارنامہ ہے۔
حضرت علامہ سید شوکت علی اشرفی باپوبچپنے ہی میں حضرت شیخ الاسلام والمسلمین،رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی کےدست اقدس پربیعت ہونے کا شرف پالیا تھا اورحضرت سےخلافت واجازت 1987ء میں حاصل ہوئی۔حضرت سید شوکت باپو فروغ اہل سنت کےلیےاپنی زندگی وقف کررکھی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ سید شوکت علی اشرفی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(11)حضرت علامہ عارف اللہ اشرفی فیضی مصباحی
شیخ الادب۔ فیض العلوم ،محمد آباد ، گوہنہ
حضرت علامہ مولانا محمد عارف اللہ بن محمد رفعت اللہ بن عبد القدیر کی ولادت باسعادت موضع برپھر، پوسٹ متھرا بازار، ضلع گونڈہ، موجودہ ضلع بلرام پور، یوپی میں ۱۹اپریل ۱۹۵۹ء میں ہوئی۔ آپ نے مدرسہ ریاض العلوم ، بر پور میں ناظرہ قرآن کریم، خوش نویسی کی مشق اور ابتدائی درجات کی اردو کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔ پھر دار العلوم منظرِ حق ،ٹانڈہ میں داخلہ لیا اور فارسی و عربی کی بنیادی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد مدرسہ اشرفیہ مسعود العلوم ، بہرائچ شریف، دار العلوم ندائے حق، جلال پور، مدرسہ عربیہ فیض العلوم ، محمد آباد گوہنہ اور الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میںتکمیلِ علوم و فنون کیااور ۱۹۸۰ میں دستارِ فضیلت سے سرفراز کے ٔگے ٔ۔
فراغت کے بعد ہی آپ کا تقرر مدرسہ فیض العلوم ،محمد آباد ، گوہنہ میں ہوااور تا حال اسی ادارے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ قارئین کی معلومات میں اضافے کی غرض سے یہ عرض کرنا بہتر ہوگاکہ دیگر کئی مدارس اور جامعات کی طرح مدرسہ عربیہ فیض العلوم کوبھی سلسلۂ اشرفیہ سے وابستہ افراد نے قائم کیا تھا اور حضرت محدث اعظم ہند مخدوم الملت نے اس مدرسہ کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔
حضرت علامہ مولانا عارف اللہ اشرفی فیضی کو حضرت سرکار کلاں مخدوم المشائخ مفتی سید محمد مختار اشرف اشرفی جیلانی سے بیعت کا شرف حاصل ہے اور حضرت سیدی مرشدی شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی قبلہ سے خلافت و اجازت حاصل ہے۔
آپ کئی کتب کے مصنف اور مترجم ہیں ، آپ کی سب سے پہلی کاوش حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کا عربی ترجمہ بنام’’الشیخ احمد رضا خان و شی، من حیاۃ وافکارہ‘‘ ہےجو پاکستان سے شائع ہواہے،اور محدث حجاز امام سید محمد بن علوی المالکی کی کتاب ’’ زبدۃ الاتقان فی علوم القرآن‘‘کا اردو ترجمہ جو مجلسِ برکات ، مبارک پور سے شائع ہواہے۔آپ کے درجنوں مقالات اور علمی مضامین ہند و پاک کے اہم جرائد میں شائع ہوتے ہیں،۲۰۰۵ سے مسلسل آپ مجلسِ شرعی ، مبارک پور کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے سالانہ فقہی سیمناروں کے لے ٔ بھی مقالات تحریر فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مولانا عارف اللہ اشرفی فیضی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(12)حضرت علامہ مولانا مفتی مطیع الرحمن اشرفی نعیمی
مدنی دار الافتاء ۔ احمد آباد، گجرات
حضرت علامہ مولانامفتی مطیع الرحمن اشرفی نعیمی کی ولادت 29 ربیع الثانی 1375 ھ / 14 ڈسمبر 1955ءکوہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنےوطن پناسی ضلع کشن گنج بہارمیں مکمل کی۔دیگراساتذہ کرام کےعلاوہ خاص طورپراستاذالعلماءناصرملت خلیفہ اعلی حضرت اشرفی میاں تلمیذصدرالافاضل حضرت علامہ حافظ وقاری مفتی نصیرالدین اشرفی رحمۃاللہ علیہ سےشرح جامی شرح وقایہ وغیرہ تک تعلیم پائی۔ اس کےبعد۱۳۶۹ھ میں مرکزی درسگاہ منظراسلام بریلی شریف میں داخلہ لیااوریہاں ہدایہ ملاحسن تک تعلیم حاصل کی۔ پھرجامعہ نعیمیہ مرادآبادمیں داخلہ لیااوریہاں معقولات میں میرزاہد رسالہ،صدرا،تفسیرمیں جلالین بیضاوی تفسیرمدارک علم معانی میں مختصرالمعانی،مطول،حدیث میں مشکوۃ،بخاری،مسلم،ترمذی،ابودائود،نسائی،ابن ماجہ تک بحمدہ تعالی پڑھنےکی سعادت نصیب ہوئی۔حضرت مفتی صاحب کی دستاربندی وفراغت۱۸؍شعبان۱۳۹۴ھ بمطابق۱۹۷۴ء کوجامعہ نعیمیہ سےہوئی ۔ جلسہ ٔدستاربندی میں حضورمفتی اعظم ہندحضرت علامہ مصطفےرضاخاں قادری نوری رحمۃاللہ علیہ،سرکارکلاں شیخ المشائخ حضرت علامہ سیدمختاراشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی،شمس العلماءحضرت علامہ مفتی غلام مجتبی اشرفی رحمۃاللہ علیہ اوردیگرعلماءکرام تشریف فرما تھے۔مفتی صاحب کی سند فراغت کو ان اکابرین کےعلاوہ شیخ الاسلام حضرت علامہ سید مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی مدظلہ العالی،مناظراہل سنت حضرت علامہ محمدحسین اشرفی نعیمی سنبھلی،حضرت علامہ ظفرادیبی، حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ اشرفی نعیمی- شیخ الحدیث جامعہ نعیمیہ نےاپنی دستخط سےمزئین کیاجواب تک مفتی صاحب کےپاس بطورتبرک موجود ہے۔
فراغت کےسال ہی مرکزاہل سنت منظراسلام بریلی شریف میں مدرس مقررہوگئے۔ اعلی حضرت مجدداہل سنت امام احمدرضاخاںرحمۃاللہ علیہ کےمزارپرانورکےمتصل تین سال تک تدریسی خدمات انجام دینےکاشرف حاصل ہوا۔اسی دوران نبیرہ اعلی حضرت فرزندان حضرت علامہ ریحان رضاخاں- حضرت مولاناتوصیف رضاخاں،مولاناانجم رضاخاں،تسلیم رضاخاں کودرس دینےکاموقع نصیب ہوا۔پھراستاذگرامی حضرت علامہ مفتی غلام مجتبی اشرفی نعیمی قبلہ کی ایماءپرمدرسہ حنفیہ -امروہا پھرجامع اشرف- کچھوچھہ،دارالعلوم اہل سنت- جبلپور،دارالعلوم امجدیہ - ناگپور،جامعہ عربیہ - ناگپو،دارالعلوم رحمانیہ غازی ملت- بیتولاایم پی میں صدرمدرس وشیخ الحدیث کےمنصب پرفائزہوکردرجہ عالم وفاضل کےطلباءکوبڑےذوق وشوق سےپڑھایا۔
ناگپورمیں قیام کےدوران ناگپوریونیورسٹی سےعربی اورفارسی سےمولوی،عالم فاضل منشی کی ڈگریاں حاصل کی،جوڈبل ایم اےکےمساوی ہیں۔ پھرجنوری۲۰۰۲ء میں دارالعلوم شاہ عالم احمدآبادتشریف لےآئےاورتدریس کےساتھ افتاءکی ذمہ داری سنبھالی۔ اگست۲۰۰۹ء میں حضرت شیخ الاسلام حضرت علامہ سیدمدنی میاں قبلہ کی سرپرستی اورخطیب اہل سنت حضرت علامہ سیدابوبکرشبلی میاں قبلہ کی صدارت اورعلماءاحمدآبادکےاتفاق سےمدنی دارالافتاءکاقیام عمل میںآیاجس میں افتاءکی خدمت انجام دینےکےلیےمفتی صاحب کومقررکیاگیاجہاں سےاب تک سیکڑوں فتاوی جاری ہوچکےہیں- حضرت شیخ الاسلام کی وجہ سےمدنی دارالافتاءکی شہرت انڈیاکےعلاوہ باہرملکوں میں بھی ہوگئی ہے۔
حضرت مفتی صاحب کوعلاقۂ بنگال کےمرشداعظم اشرف الاولیاءحضرت سیدمجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی سےشرف بیعت حاصل ہے اورحضرت شیخ الاسلام حضرت علامہ سیدمدنی میاں قبلہ مدظلہ الاقدس نےاپنےکرم سےسند خلافت سےنوازتےہوئےارشادفرمایاتھا: آپ جس کےحق دارہیں۔ حق والےکوحق اداکررہاہوں ۔اللہ تعالی سعادت دارین سےنوازے۔ پھرآپ نےدلائلال الخیرات جامع الصفات اورحزب البحرپڑھنےکی اجازت مرحمت فرمائےہیں۔
حضرت مفتی صاحب کوشیخ الاسلام حضرت علامہ سیدمدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی کےعلاوہ استاذالعلماءحضرت علامہ نصیرالدین اشرفی نعیمی،شیخ اعظم حضرت علامہ سیداظہاراشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی،حضرت شمس العلماءمفتی غلام مجتبی اشرفی نعیمی،مناظراہل سنت حضرت علامہ عبدالحلیم اشرفی رضوی ناگپوری،استاذ گرامی حضرت علامہ ایوب رضوی،مفتی جامعہ نعیمیہ مرادآباد،حضرت علامہ سیدعارف رضوی شیخ الحدیث منظراسلام بریلی شریف،پیرطریقت حضرت علامہ سیدظل حسن اشرفی جیلانی کچھوچھوی رحمۃاللہ علیہ نےدلائل الخیرات شریف،حزب البحردعائےحیدری،اورادفتحیہ پڑھنےاورجملہ سلسلۂ اشرفیہ کےنقوش کی اجازت ودعاؤں سےنوازے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مولانامفتی مطیع الرحمن اشرفی نعیمی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(13)حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الخبیراشرفی مصباحی
صدرالمدرسین ۔ مدرسہ منظر الاسلام، امبیڈکر نگر، یو پی۔
حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الخبیراشرفی مصباحی بن مطیع الرحمن کی ولادت’’ مہان خاں‘‘علاقہ اسلام پور- ضلع اتردیناج پور بنگال میں 7جمادی الاول 1399ھ/ 4 اپریل 1979ءکوہوئی۔آپ نےابتدائی تعلیم گھرہی میں مولاناعبدالجلیل مظفرپوری سےحاصل کی- پھرقریبی گاؤں کےمدرسہ میں داخلہ ہوااورچند مہینوں کےبعد کشن گنج بہارکےایک گاؤں ’’دھولاباڑی‘‘ میں تقریبا تین سال تعلیم حاصل کی- اس کےبعد۱۹۹۰ءتا۱۹۹۴ءمالیگاؤں،مہاراشٹر میں رہ کرتعلیم حاصل کی۔ پھراعلی تعلیم کےلیےاترپردیش کارخ کیااورجامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ میں داخلہ لیا-جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ،میں فضیلت کی تکمیل کےبعد،قبل دستاربندی الجامیعۃالاشرفیہ،مبارکپورمیں داخلہ لیا اوریہاں سےدوبارہ فضیلت کاکورس مکمل کیا -
اشرفیہ مبارکپورمیں داخلہ کی سب سےبڑی وجہ بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمہ کی ذات تھی جن کا ذکرآپ کےہم درس اوررفیق خاص علاقۂ بنگال کےمرشد اعظم اشرف الاولیاءحضرت سیدمجتبیٰ اشرف علیہ الرحمہ اکثرکیاکرتےتھے- اشرفیہ مبارکپورسےتکمیل فضیلت کےبعد دوسال مسلسل حضرت بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمہ کی خدمت گزاری کاشرف حاصل کیا- اس دوران مشق افتاء،تحقیق فتاوی اوردیگرعلوم سےحضرت نےمفتی صاحب کوخوب مالامال فرمایااور۲۲؍نومبر۱۹۹۸ءمیں حضرت بحرالعلوم نےسرپر’’تحقیق فی الافتاء ‘‘ کی دستارباندھ کرسندعطا کی-
آپ کےمشاہیراساتذہ میں بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمہ،نائب مفتی اعظم ہندمفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ[شرف تلمذبختم بخاری]، خلیفہ ٔ سرکارکلاں حضرت علامہ مفتی عبدالجلیل اشرفی علیہ الرحمہ،محدث کبیرحضرت علامہ ضیاءالمصطفیٰ قادری،صدرالعلماءحضرت علامہ محمداحمد مصباحی،حضرت علامہ عبدالخالق اشرفی-صدرالمدرسین جامع اشرف کچھوچھہ شریف،خلیفۂ سرکارکلاں حضرت علامہ مفتی رضاءالحق اشرفی مصباحی سابق صدرالمدرسین جامع اشرف،خلیفۂ سرکارکلاں حضرت علامہ محمد قاسم اشرفی مصباحی اورخلیفۂ شیخ الاسلام حضرت علامہ ممتازعالم اشرفی مصباحی- پرنسپل شمس العلوم گھوسی- وغیرہ مدظلہ عالی جیسےاکابرعلما شامل ہیں۔
درس وتدریس کی ابتدا تربیت فتاوی نویسی کےزمانےمیں ہی شمس العلوم گھوسی میں معین المدرسین کی حیثیت سےشروع کرچکےتھے-پھرباضابطہ فراغت کےبعد۲؍فروری۱۹۹۹ءمیں دارالعلوم جائس قصبہ جائس ضلع رائےبریلی میں بحیثیت مدرس ومفتی تقرری عمل میں آئی اور۲۰۰۵ءتک یہ سلسلہ جاری رہا- پھرجانشین حضرت اشرف الاولیاء- شیخ طریقت حضرت علامہ سیدجلال الدین اشرف اشرفی جیلانی مدظلہ العالی کی دعوت واصرارپرضلع مالدہ بنگال میں واقع ’’ مخدوم اشرف مشن‘‘میں خدمت انجام دینےکاموقع ملاجہاں بحیثیت صدرالمدرسین وسپروائزرخدمت کرتےہوئےاگست۲۰۱۲ءمیں اس ادارہ سےمستعفی ہوئے- اب فل وقت مفتی صاحب ضلع امبیڈکرنگرکی تحصیل ٹانڈہ میں واقع قصبہ التفات گنج میں دارالعلوم عربیہ اہل سنت منظراسلام میں صدرالمدرسین کےعہدہ پرفائزہیں-
حضرت علامہ مولانامفتی عبدالخبیراشرفی مصباحی کوبیعت کاشرف مخدوم المشائخ سرکارکلاں حضرت علامہ مفتی محمد مختاراشرف الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ سےحاصل ہے- موجودہ سجادہ نشیں سرکارکلاں قائدملت حضرت علامہ سیدمحموداشرف الاشرفی جیلانی مدظلہ العالی اورجانشین محدث اعظم ہند حضرت شیخ الاسلام والمسلمین،رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی مدظلہ العالی سےخلافت واجازت حاصل ہے-
تالیف وتصنیف،ترجمہ نگاری،اورمقالہ نگاری سےکافی دل چسپی ہےاوربہت سی اہم کتب منظرعام پرآچکی ہیں۔اس کا اجمالی خاکہ یہ ہے:
[۱] شان اہل بیت ، ترجمہ علموا اولادکم محبۃ اہل بیت النبیﷺ- مطبوعہ۔ [۲]خاموشی کے محاسن وفوائد، ترجمہ: الدروالیاقوت فی محاسن السکوت-مطبوعہ- [۳] جنتی والدین، ترجمہ التعظیم والمنۃ فی شان ابوی رسول اللہ فی الجنۃ- مطبوعہ -[۴] انیس الغرباء۔ فارسی، ترجمہ بزبان اردو- مطبوعہ-[۵] تذکرئہ امین شریعت ، مطبوعہ - [۶] کھیل کود کے شرعی احکام- غیر مطبوعہ-[۷]نور قطب عالم حیات وخدمات،- زیر ترتیب- اس کے علاوہ بےشمارمضامین مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوئے اور سلسلہ جاری ہے- اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مولانامفتی عبدالخبیراشرفی مصباحی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(14)حضرت علامہ مولانا مفتی خالد ایوب مصباحی شفق ؔشیرانی
مفتی ۔ سنی دارالافتا- جےپور،راجستھان
حضرت علامہ مولانامفتی خالدایوب مصباحی شفق ؔشیرانی بن خلیل احمدبن عمرخاں بن پیاروخاں بن دیندارخاں بن صلوخاں بن پیرخاں۔ آپ کا تعلق پٹھانوں کےایک نہایت ہی قدیم قبیلہ ’’شیرانی‘‘سےہے۔ خالدایوب خان مدنی شیرانی (۱۴۰۹ ھ) تاریخی نام ہے۔
مفتی صاحب کی پیدائش۹؍ربیع الاول۱۴۰۹ ھ مطابق۱۰؍اکتوبر۱۹۸۸ ء بروزسنیچرحضرت عمرکالونی،صوفیہ محلہ،شیرانی آباد، تحصیل ڈیڈوانہ، ضلع ناگورشریف،راجستھان میں ہوئی۔آپ نےابتدائی تعلیم یعنی قرآن پاک،اردواورنقل واملاوالدمحترم الحاج خلیل احمدصاحب سےحاصل کی اوراعلی تعلیم کے لیے۲۵؍جنوری۲۰۰۱ ءمطابق۲۹؍شوال۱۴۲۱ ھ بروزجمعرات جامعہ حنفیہ نجم العلوم،مکرانہ میں داخلہ لیاجہاں درجہ اولی تاخامسہ شعبان۲۰۰۵ ء رہناہوا۔ پھرایک سال یعنی۲۰۰۶ ءمیں جامعہ اسلامیہ روناہی میں سادسہ پڑھی ۔۲۰۰۷ ءسادسہ تافضیلت۲۰۰۹ ءجامعہ اشرفیہ،مبارکپورمیں کسب علم کی اوریہیں سے۲۶؍مئی۲۰۰۹ ءمطابق۱؍جمادی الاخری۱۴۳۰ھبروزمنگل۳۴؍ویں عرس عزیزی کےموقع پرسند ودستارفضیلت سےآپ کونوازا گیا۔
آپ نےشیخ المعقولات مفتی شبیرحسن رضوی،خیرالاذکیاعلامہ محمداحمدمصباحی،محدث جلیل علامہ عبدالشکورمصباحی،مولانااسراراحمداعظمی،نصیرملت مولانا نصیرالدین عزیزی،محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی،مفتی معراج القادری،مولانانفیس احمد مصباحی، مولانا صدرالوری قادری،مفتی نسیم احمد مصباحی، مفتی بدرعالم مصباحی، مولانا عبدالحق رضوی اورمولانا اخترکمال قادری سےاکتساب فیض کیا۔
آپ نےفراغت کےبعد جامعہ حنفیہ نجم العلوم، مکرانہ۔ ۱۰؍شوال۱۴۳۰ ھ بروزبدھ تا۱۴؍شعبان۱۴۳۲ ھ سےاپنی تدریسی سفرکا آغازکیا۔ پھررمضان۱۴۳۲ھ سے رمضان۱۴۳۴ھ تک عالمی تحریک سنی دعوت اسلامی،شاخ: جےپورکےساتھ تحریکی کام میں مشغول رہےجس میں درس وتدریس بھی شامل تھی۔ اس کےبعد دارالعلوم اہل سنت رضویہ،گھاٹ گیٹ،جےپورمیں تقررہوا اور وہاں ایک سال خدمت انجام دی۔۹؍شوال۱۴۳۴ھ سے۱۲؍شعبان المعظم۱۴۳۶ھ تک جامعہ اشرفیہ،مبارکپور،اعظم گڑھ،یوپی میں بحیثیت استاد رہے۔ پھروالدین کےاصرارپرواپس اپنےآبائی وطن کے نزدیک منتقل ہوگئے اور رمضان المبارک۱۴۳۶ھ تادم تحریرعالمی تحریک سنی دعوت اسلامی،شاخ: جےپورکےنگراں کی حیثیت سےخدمت دین میں مصروف ہیں۔
مولانامفتی خالدایوب مصباحی کےبےشمارخدمات ہیں۔ آپ مسلم اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آف انڈیاکے آل راجستھان صدر ۲۰۱۱ءتا۲۰۱۴ء رہے۔ اصلاح معاشرہ کےلیےقادری اکیڈمی،مکرانہ اورمجلس فکرواصلاح،شیرانی آباد کی بنیاد رکھی۔۱۷؍جولائی۲۰۱۰ ءمطابق۴؍شعبان۱۴۳۱ ھ بروزسنیچربموقع ’’چوتھی سہ سالہ سنی تعلیمی کانفرنس ‘‘شیرانی آبادمیںاردوسالنامہ ’’احساس‘‘ کا اجرا کیا۔حضرت مفتی اعظم راجستھان علامہ اشفاق حسین نعیمی علیہ الرحمہ کےعرس چہلم کےموقع پر۱۷؍نومبر۲۰۱۳ ءبروز اتوار رسالہ ’’احساس‘‘ جےپور کا بطور ہندی ماہنامہ آپ نےاجرا کیا۔ پھرعالمی تحریک سنی دعوت اسلامی کی جےپورشاخ کےتحت مفتی شہرجےپورمفتی عبدالستارصاحب رضوی کی سرپرستی میں ’’سنی دارالافتا‘‘کاقیام بھی کیا۔
مولانامفتی خالد ایوب مصباحی پابندی کےساتھ ایک عرصےسےہفتہ واری ’’درس قرآن‘‘ آمیر، جےپور؛ ہفتہ واری ’’درس بخاری‘‘امرت پوری،گھاٹ گیٹ،جےپور؛اور ہفتہ واری ’’درس فقہ‘‘ قریشیان مسجد،چاندپول،جےپورکرتےآرہےہیں۔
مفتی خالدایوب مصباحی کے تحریری خدمات کواس طرح تقسیم کیاجاسکتا ہے: (ا) مستقل تصانیف۔ (ب) ترجمہ،تسہیل،تجدید،تحشیہ۔ (ج) ہندی ترجمہ کاری۔
مستقل تصانیف:۔(۱) حکمت کےسرچشمے (مختلف موضوعات پرچالیس جوامع الکلم کی فکری وادبی شرح)۔
(۲)عیدمیلادالنبیﷺ۔(۳)فلسطین اورمسجداقصی کی حالت زاراورہماری غفلت۔(۴) دلیل المحتاج لمزید انوارصلاۃ التاج۱۴۲۹ھ ۔ (درودتاج کی عربی شرح جس کوحضورخیرالاذکیانےسماعت فرماکراصلاح فرمائی اوریہ تاریخی نام بھی تجویزفرمایا۔ یہ کام دوران طالب علمی کا ہے)۔ (۵)کرنےکےکام (جذبہ کاررکھنےوالےافرادکےلیےچنداہم اورممکنہ تدابیر)۔(۶) تفسیرسورہ فاتحہ (اردو؍ہندی)۔(۷) نغمہ نعت (نعتوں کا مجموعہ)۔ (۶) نسبت کی بات (منقبتوں کا مجموعہ)۔ (۷) پروازتخیل (نظموں کا مجموعہ)۔ (۸) حضرت رابعہ بصریہ ۔(۹) امام احمد رضا اوررد آریہ۔ (۱۰)ایمانی کہانی قرآن کی زبانی۔(۱۱)منتخب احادیث۔(۱۲) بھکاری پن اوراسلام۔ (۱۳) عزیزطلبہ!۔ (۱۴) تین طلاقیں تین یا ایک؟ (۱۵) جن پرلعنت ہے (ملعون کاموں سےمتعلق چہل احادیث )۔(۱۶) آن لائن مفتی،حصہ اول ۔ اول الذکرتینوں کےعلاوہ باقی سب غیرمطبوعہ ہیں۔
ترجمہ،تسہیل،تجدید،تحشیہ:۔علامہ عبدالرحمن جوزی متوفی۵۹۷ھکی (۱) فضائل القدس اور (۲) ’’کتاب الاذکیا‘‘کا نامکمل اردو ترجمہ۔ (۳) ’’افاضات حمید‘‘کی تسہیل۔(۴) پروفیسرمسعوداحمدمجددی علیہ الرحمہ کی ’’محبت کی نشانی‘‘کی تسہیل وتحشیہ۔
ہندی ترجمہ کاری:۔ دسمبر۲۰۱۴ءسےتادم تحریرمستقل ہندی ماہنامہ ’’احساس ‘‘ جےپورکی ادارت۔ درج ذیل کتب ورسائل کی تسہیل اوران کا ہندی ترجمہ: (۱) تمہیدایمان (۲) تدبیرفلاح ونجات واصلاح (۳) مشعلۃالارشادفی حقوق الاولاد ۔از: اعلی حضرت امام احمد رضاخاں علیہ الرحمہ ۔ (۴) فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت ۔ از: محقق مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمدنظام الدین صاحب قبلہ رضوی۔ (۵) سعودی جانےوالوں کےنام ایک پیغام۔از:مولانا سید رکن الدین اصدق (۶) یہودیت وصیہونیت : ایک جائزہ ۔ از: مولاناسید سیف الدین اصدق ۔ (۷) قرآن کی سات نصیحتیں۔ از: مولاناعبدالقدیرقادری،محبوب نگر،آندھرا پردیش۔ (۸) نکات القرآن۔از: مولانا احمد رضا مصباحی، بمبئی۔ (۹) گلزارقدس۔ از: مولاناحبیب اللہ بیگ ازہری استاذ: جامعہ اشرفیہ، مبارکپور۔ (۱۰) احسن الوعا لآداب الدعا ۔ از: علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ ۔ ہنوزجاری ہے۔ (۱۱) شمائل ترمذی ۔از: امام محمدبن عیسی ترمذی متوفی۲۷۹ھ ۔ (۱۲)’’ارشادالحیاریٰ فی تحذیرالمسلمین من مدارس النصاریٰ‘‘از: علامہ شیخ یوسف بن اسمٰعیل نبہانی۔اردوترجمہ بنام: مشنری اسکولوں میں مسلم طلبہ کا انجام۔از: مولانافیض اللہ مصباحی ہزاری باغ۔
علاوہ ازیں فتاوی رضویہ،بہارشریعت،دیگراسلامی کتب ورسائل اورعلماےاہلسنت کےچیدہ چیدہ درجنوں مسائل، تحقیقات اورمضامین کوآسان ہندی لہجےمیں منتقل کرکےماہنامہ احساس کےواسطےسےعوام اہل سنت تک رسائی۔اسی طرح آپ کےمقالات ومضامین کی تعداداردو،ہندی اورعربی زبانوں میں 250 سےمتجاویزہےجس کویہاں بیان کرناطوالت کا باعث ہوگا۔ اورماہ نامہ ’’احساس ‘‘ کے اداریے ، مختلف کتب و رسائل پر تقریظات و تقدیمات، کتابوں پر تبصرے ، کئی سوفتاوی ،طلبہ کے لیے مکالمات، خطبات، سفر نامے، خطوط اور درسی مباحث وغیرہ ان کے علاوہ ہیں۔
حضرت علامہ مولانا مفتی خالدایوب مصباحی دوران تعلیم مکرانہ میں تاج الشریعہ حضرت علامہ اختررضاخاں قادری ازہری دام ظلہ کےہاتھوں شرف بیعت حاصل کیا اورخلافت واجازت شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی دام ظلہ سے حاصل ہوئی۔
آپ کواجازت وسند حدیث علامہ عبدالشکورشیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ، مبارکپور۔ و۔ علامہ محمد احمد مصباحی صدرالمدرسین جامعہ اشرفیہ، مبارکپور سےحاصل ہے؛اجازت وسند فقہ مفتی محمد نظام الدین رضوی صدرشعبہ افتاجامعہ اشرفیہ، مبارکپوراوراجازت وسند قرآن کریم واحادیث نبویہ مفتی محمد نظام الدین رضوی صدرشعبہ افتاجامعہ اشرفیہ،مبارکپورسےحاصل ہے۔
راجستھان کےبہت سےعلا قوں کےعلاوہ یوپی، مہاراشٹر، گجرات اورمدھیہ پردیش میں بھی تقریری دورےہوتےرہےہیں۔ عام طور پر اصلاحی خطبات کی عادت ہے۔ حسب ضرورت ترمیم بھی ہوجاتی ہے۔ اندازنہایت سادہ، فکرانگیز،سنجیدہ، درد مند اور پرسکون ہوتا ہے۔ قرآن پاک سامنےرکھ کربولنےکی عادت ہے۔ ان کےبےحداچھےاورنتیجہ خیزاثرات دیکھنےکوملےہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مولانامفتی خالدایوب مصباحی شفق ؔشیرانی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(15)مولاناقاضی سید شمس الدین برکاتی اشرفی مصباحی
قاضی شہر- ہری ہر ومتولی وسجادہ نشین - درگاہ حضرت سید شاہ عبداللہ قادری مکی، ہری ہر
مولاناقاضی سید شمس الدین برکاتی اشرفی مصباحی ابن خلیفۂ شیخ الاسلام حضرت قاضی سید غوث شاہ قادری اشرفی کا تعلق خاندان غوث اعظم سے ہے۔ غوث اعظم کے شہزادے حضرت سید شاہ شیخ تاج الدین قادری جیلانی کی اولاد میں سے حضرت سید شاہ عبداللہ قادری مکی رحمۃ اللہ علیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور حکومت میں غالبا 1909 ءمیں ہندوستان تشریف لاکرہری ہر کو اپنامسکن بنایا،آپ کےانتقال کےبعدیہیں آپ کوسپردخاک کیاگیا اورہری ہرکےپاس باتی نامی گاؤں میں ایک پہاڑ پرآپ کی آخری آرام گاہ ہے۔ ہری ہرکی قضاوت آپ ہی کےخاندان میں چلی آرہی ہے۔
قاضی سید شمس الدین قبلہ کی ولادت 10 اکٹوبر 1963ءاسی علمی اورادبی گھرانےمیں مقام ہری ہرہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنےوالد گرامی سےحاصل کرنےکےبعد دارالعلوم غوثیہ، ہبلی میں داخلہ لیا اورپھریہاں سےازہرہند،اہل سنت کا مرکزی ادارہ الجامعۃالاشرفیہ کا رخ کیا اوریہاں کےاساتذہ- شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی، محدث جلیل علامہ عبدالشکورمصباحی،مولاناسرداراحمد قادری مصباحی، محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی، شیخ القرآن علامہ عبداللہ خان عزیزی، علامہ مولانا اعجاز احمد مصباحی اعظمی، علامہ مولانا قاری ابوالحسن مصباحی، شیخ المعقولات مولانا نصیرالدین عزیزی اورمحدث کبیر حضرت علامہ ضیاءالمصطفی قادری سےاکتساب فیض کیا۔1985ءمیں عرس عزیزی کےموقع پرآپ کی دستاربندی ہوئی اورسند فضیلت سےنوازےگئے۔ اشرفیہ میں قیام کےدوران آپ نے الہ آباد عربی فارسی بورڈ سےبھی امتحانات دئےاوراسنادات حاصل کئے۔
فراغت کےبعد آپ اپنےوطن واپس لوٹ آئے اور ہبلی کواپنا مرکز دعوت وتبلیغ بنایا، ہبلی میں بہت پہلے ہی سےخانودۂ اشرفیہ اورخانودۂ برکاتیہ کے بزرگوں کی آمد ہوتی رہی۔ حضرت محدث اعظم ہند اوراحسن العلماء وسیدالعلماء کےروحانی دورے ہوتے رہے اور عوام کی اکثریت انہی بزرگوں سےوابستہ تھی۔ حضورشیخ الاسلام نےبھی ہبلی کودکن میں اپنا مرکز دعوت وتبلیغ بنارکھا تھا۔ اس بات کا یہاں ذکرضروری ہےکہ حضور شیخ الاسلام کی ہبلی پہلی بار آمد 1963ءمیں ہوئی تھی، اسی کے اگلے ہی سال 1964ءمیں شیخ الاسلام نےپہلی سنی کانفرنس رکھی جس میں حضورمفتی اعظم ہند شاہ مصطفی رضا خان قادری نوری، حضور سید العلماء آل مصطفی برکاتی مارہروی، برہان ملت مفتی برہان الحق صدیقی قادری رضوی جبلپوری، حکیم الامت مفتی احمد یار خان اشرفی نعیمی بدایونی، شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی اعظمی جیسےاکابرین نےشرکت کی۔ یہ کانفرنس نےدکن کی مذہبی فضاءکو بدل کررکھ دیا، ردوہابیت ودیوبندیت اوراتحاداہل سنت کےلیےمثال قائم کردی۔
قاضی سید شمس الدین قبلہ نےاسی ہبلی میں اپنےبزرگوں کےمشن کو فروغ دینےکےلیےخوب محنت کی۔ آپ پہلےکئی تنظیمات اورتحریکات سےمنسلک تھےلیکن بعد میںبحیثیت مہتمم مدنی میاں عربک کالج کےذریعےکام کرتےرہے۔
حضورشیخ الاسلام نےقاضی صاحب کو 1989ءمیں محدث اعظم کانفرنس کا ناظم اعلی بنا کرآپ کوحوصلہ بخشا اوریہ کانفرنس تاریخی اعتبارسےاپنی کامیابی کی بنا پرہبلی شہر کی سب سے بڑی کانفرنسوں میں شمارہوتی ہے۔اسی طرح آپ 1998ءمیں سنی مشائخ کانفرنس؛ 2000ءمیں غوث اعظم کانفرنس اور 2005ءمیں رحمت عالم کانفرنس کےروح رواں رہے۔ یہ ساری کانفرنسیں حضورشیخ الاسلام کی سرپرستی اورقیادت میں ہوئے۔
آپ کوحضورشیخ الاسلام کےجنوبی ہند کےکئی ایک دوروں میں ساتھ رہنے اورخوب استفادہ کرنےکاشرف ملا،کم وبیش 23 سال سفروحضرمیں شیخ الاسلام کےساتھ رہنےکاموقع نصیب ہوا،کئی اہم اورتاریخی واقعات کےعینی شاہد اورامین ہیں۔
قاضی سید شمس الدین قبلہ غالبا 1980ءمیں احسن العلما حضرت سید مصطفی حیدر حسن برکاتی کےدست مبارک پرشرف بیعت حاصل کیا اور حضرت شیخ الاسلام والمسلمین،رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی کےدست اقدس پرطالب ہوئے۔حضورشیخ الاسلام نےقاضی صاحب اورآپ کےوالد گرامی حضرت قاضی سیدغوث شاہ قادری اشرفی کو 1991ءمیں نعمت خلافت سےنواز ا ہے۔
آپ نےپہلی بار 1999ءمیں حج بیت اللہ اور زیارت روضۂ رسول ﷺسےمشرف ہوئے ،پھراس کےبعد کئی مرتبہ اسکی سعادت حاصل ہوتی رہی۔
آپ ایک زبردست خطیب ہیں اورملک کےمختلف کانفرنسوں میں مدعو کیےجاتےہیں۔ اپنےآبائی وطن ہری ہر شہر اورتعلقہ کےمورثی سرقاضی ہیں اورہری ہر کی جامع مسجد اورتاریخی عید گاہ کے امام وخطیب ہیں۔ حال ہی میں علاقےکی عوام نےآپ کوآپ کےمورث اعلی حضرت سید شاہ عبداللہ قادری مکی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ کےمتولی اورسجادہ نشین کی حیثیت سےمنتخب کیا۔ قاضی سید شمس الدین صاحب اپنے آبائی وطن ہری ہر اور ہبلی میں خدمت دین میں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ قاضی سید شمس الدین برکاتی اشرفی مصباحی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(16) شہزادئہ فقیہ ملتحضرت علامہ مولانا مفتی ازہار احمد امجدی ازہری
خادم الافتا و التدریس-مرکز تربیت افتا، دار العلوم امجدیہ اہل سنت ارشد العلوم اوجھا گنج
حضرت علامہ مولانامفتی ازہاراحمدامجدی ازہری ابن فقیہ ملت الحاج الشاہ حافظ وقاری مفتی جلال الدین احمدامجدی نوراللہ مرقدہ کی ولادت۲؍جمادی الاولی۱۴۰۳ھ مطابق۱۶؍فروری۱۹۸۳ءبروزبدھ کواوجھاگنج ضلع بستی یوپی،انڈیامیں ہوئی۔ آپ نےابتدائی تعلیم اپنےوالدگرامی فقیہ ملت حافظ وقاری مفتی جلا ل الدین احمدامجدی سےحاصل کی،پھردارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف،سدھارتھ نگر،مرکزتربیت افتا،مدرسہ امجدیہ اہل سنت ارشدالعلوم اوجھاگنج،دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی،بستی،جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی،مؤ،جامعہ اشرفیہ مبارکپوراعظم گڑھ میں رہ کرتعلیم مکمل کی اور بتاریخ ۱؍جمادی الآخرۃ ۱۴۲۶ھ مطابق ۸؍ جولائی ۲۰۰۵ء بروزجمعہ فراغت کی سندحاصل کی۔ اس کےبعد ۲۰۰۶ تا۲۰۰۷ءجامعہ اشرفیہ، مبارکپور میں سراج الفقہاحضورمفتی محمد نظام الدین رضوی دام ظلہ کی بارگاہ عالی میں رہ کردوسالہ مشق افتاکی تکمیل کی۔یہاں سےآپ نےجامعہ ازہرشریف،قاہرہ،مصرکارخ کیااورتخصص فی الحدیث یعنی بی اے،ایم اے۲۰۰۸تا۲۰۱۴ءرہ کرمکمل کیا۔
حضرت علامہ مولانامفتی ازہاراحمد امجدی ازہری اپنے والد ماجد حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ والرضوان سےبتاریخ ۲۳؍ربیع النور۱۴۲۲ھ مطابق ۲۰۰۱ء بیعت وخلافت سےشرف یاب ہوئے اور بتاریخ 29 ربیع الثانی 1436ھ / 19 فروری 2015ءحضرت شیخ الاسلام والمسلمین،رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی مد ظلہ العالی سےخلافت واجازت حاصل ہوئی۔
حضرت علامہ مولانا مفتی ازہاراحمد امجدی ازہری ایک زبردست محقق و محدث ہیں، آپ پر حضور صدرالشریعہ اور حضورفقیہ ملت کا خصوصی فیضان ہے۔ کتابوں کی مختصر فہرست یہاں پیش کی جا رہی ہے: (۱) حدیث و علوم حدیث کے مختلف موضوعات پر بے شمار تحقیقی مقالے؛ ایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ (۲) الاربعون فی الام الحنون؍ ماں چالیس احادیث کے آئینہ میں؛(۳) رفع المنارۃ لتخریج احادیث التوسل و الزیارۃ کا مکمل اردو میں ترجمہ؛(۴) کتاب ’النور و الضیاء فی احکام بعض الاسماء ‘کا عربی میں ترجمہ و تخریج، مصنف: امام الفقہاامام اعلی حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان؛ (۵)کتاب ’اسماع الاربعین فی شفاعۃ سید المحبوبین‘ کا عربی میں ترجمہ و تخریج، مصنف: اعلی حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان؛ (۶) امام نووی شافعی رحمہ اللہ کی مایہ ناز کتاب ’ریاض الصالحین‘ کی شرح دلیل القارئین کی پہلی جلد منظر عام پر آچکی ہے، امید ہے کہ یہ شرح تین جلدوں میں مکمل ہوگی۔ (۷) مناظر اہل سنت علامہ حشمت علی علیہ الرحمہ کی کتاب ’راد المھند علی المفند‘ کا عربی میں ترجمہ، آخر الذکر کتاب کی تحقیق و تخریج ابھی باقی ہے، ان شاء اللہ عن قریب اس کی تکمیل ہو جائے گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مولانامفتی ازہاراحمد امجدی ازہری قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(17)حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی
صدرالمدرسین و صدردارالافتاء - ادارئہ شرعیہ اتر پردیش رائے بریلی
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی ابن محمد خرم علی مرحوم ابن محمد فناء اللہ مرحوم کی ولادت یکم جنوری ۱۹۸۱ء کومقام دولالی گرام ،قصبہ ،رام گنج ، اسلام پور ، اتر دینا جپور ،مغربی بنگال میں ہوئی۔ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی کے تعلیمی دورکی تفصیل کچھ اس طرح ہے: ناظرہ قرآن اور اردو کی مکمل تعلیم ۱۹۹۰ء،۱۹۹۱ء میں مدرسہ جمالیہ کمالیہ اڑیا ٹول اتر دینا جپور میں ہوئی۔ ٭فارسی کی ابتدا ئی کتابوں کی تعلیم ۱۹۹۲ء میں مدرسہ اسلامیہ ،بیل پوکھر ضلع کشن گنج بہار میں ہوئی۔٭فارسی کی منتہی کتابیں اور نحو و صرف کی ابتدائی کتابیں ۱۹۹۳ء میں مدرسہ غوثیہ فیض العلوم سلّی گوڑی بنگال میں پڑھیں۔٭ درجہ ثانیہ اور ثالثہ (مولوی اول ) کی تعلیم ۱۹۹۴ء اور ۱۹۹۵ء میں جامعہ مخدومیہ انوارالعلوم عشری، حسن پورہ، سیوان بہار میں پائی۔٭درجہ رابعہ (مولوی دوم ) کی تعلیم ۱۹۹۶ء میں الجامعۃ الاسلامیہ اشرفیہ سکٹھی ، مبارک پور میں پائی ۔٭درجۂ خامسہ تا درجہ فضیلت (عالمیت و فضیلت ) اور تخصص فی لفقہ الحنفی کی تعلیم اور مشق افتاء ۱۹۹۷ء تا ۲۰۰۲ء باغ فردوس جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ میں حاصل کی۔
آپ کے اساتذہ ٔکرام میں محد ث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفی قادری، محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی، خیرالاذکیاء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی، محدث جلیل حضرت علامہ عبدالشکور مصباحی، نصیر ملت حضرت علامہ نصیرالدین عزیزی، حضرت علامہ شمس الھدی خاںرضوی، حضرت مفتی معراج القادر ی مصباحی، حضرت مولانا صدرالوری قادری مصباحی، حضرت مولاناناظم علی مصباحی، حضرت مولانا اعجاز احمد مبارک پوری دامت ظلھم علینا وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی کواجازت حدیث محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفی قادری مد ظلہ العالی سے حاصل ہے؛ اجازت فقہ شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجد ی علیہ الرحمۃ و الرضوان سے حاصل ہے؛ اورتربیت افتاء محقق مسائل جدیدہ ، حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی سے حاصل ہوئی۔
۲۰۰۲ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے تحقیق و افتاء کی فراغت کے بعد سے ۲۰۰۵ء تک مخدوم اشرف مشن پنڈو ہ شریف ضلع مالدہ بنگال میں بحیثیت صدرالمدرسین، شیخ الحدیث اور صدر شعبہ افتا اور س کے بعد۲۰۰۶ء سے تا دم تحریرادارئہ شرعیہ اتر پردیش رائے بریلی میں بحیثیت مدرس و صدر شعبۂ افتا ء ۔
تدریس وافتاء ،مضمون نگاری ،مقالہ نگاری ،تصنیف و تالیف، وعظ وخطابت ،دعوت و تبلیغ ، فقہی و ادبی سمیناروں میں شرکت اور علمی تحریکوں میں حصہ داری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی کے اہم علمی مشغلے ہیں۔ جلسوں اور کانفرنسوں میں بحیثیت خطیب شرکت بھی ہوا کرتی ہے۔ عرس رضوی بریلی شریف ، عرس مخدومی کچھوچھ شریف ، عرس اشرف الاولیاء پنڈوہ شریف، عرس حافظ ملت مبارک پور، عرس اشرف العلماء ممبئی ، عرس استاذالعلماء پناسی بہار ،ان کے علاوہ ۲۰۰۲ء سے اب تک چھوٹے بڑے جلسوں اور کانفرنسوں میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے ۔
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی ایک اچھے محقق ور مصنف بھی ہیں۔ آپ کی بہت سی کتابیں شائع ہو کرخوب داد حاصل کر چکی ہیں۔ یہاں ایک اجمالی فہرست پیش کی جا ری ہے۔ تصا نیف: (۱)اشرف الاولیاء حیات و خدمات؛(۲) استاذ العلماء مشرقی بہار کی ایک عبقری شخصیت؛ (۳)بنگال اور اسلام ایک تاریخی جائزہ؛ (۴)سلام میں والدین کا مقام؛ (۵)تذکرہ مشائخ کچھوچھ؛ (۶) تجلیات رمضان؛ (۷) خصائص فتاوی رضویہ؛ (۸) خطبات کمال ۲؍ جلدیں؛ (۹)تذکرہ علماء و مشائخ بنگال؛(۱۰) مجموعۂ فتاوی( ً ۵۰۰؍ فتاوے کا مجموعہ)۔ دینی ،علمی ،ادبی اور حالات حاضرہ کے عنوان پر ۳۰؍ سے زیادہ مقالےمقالات و مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
مذہبی تحریکات کی بنیاد اور رکنیت: (۱) غریب نواز آرگنائزیشن ،سنگتام سکّم ،سنی حنفی ایسوسیشن ،رنگ پو سکّم(بانی)؛ (۲) آل انڈیا صوفی آرگنائزیشن رائے بریلی( رکن)؛(۳) آل انڈیا علماء مشائخ بورڈ لکھنئو( رکن) ؛(۴) تنظیم ابنا ئے اشرفیہ مبارک پور ( رکن)؛(۵) کلچر ل کلب سلّی گوڑی ( رکن)؛(۶) جامعہ مخدومیہ حسن پور ہ ،عشری، سیوان بہار(ناظم تعلیمات )۔
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی کی خدمات کے اعتراف میں آپ کواشرف العلماء ایوارڈ - اشرف العلماء مشن دارالعلوم محمدیہ، ممبئی کی طرف سے ۲۰۰۸ء میں عطا ہوا۔
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی کوشرف بیعت شیخ المشائخ اشرف الاولیاء سید شاہ مجتبی اشرف اشرفی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل ہے اور جانشین محدث اعظم ہند- حضرت شیخ الاسلام والمسلمین،رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی مدظلہ العالی سےخلافت واجازت حاصل ہے-اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(18)حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مبشررضا ازہر قادری مصباحی
صدرالمدرسین و مفتی دار العلوم شاہ احمد کھٹو، احمد آباد، گجرات
حضرت علامہ مولانامفتی محمد مبشر رضا ازہرقادری مصباحی بن مولانا نذیر احمد رضوی مرید حضورمفتی اعظم ہند کی ولادت آسجہ پوسٹ آسجہ موبیہ وایابائسی ضلع پورنیہ بہارمیں 1398ھ/ اکتوبر 1978ءکوہوئی۔ حضرت علامہ مولانامفتی صاحب نےابتدائی تعلیم دارالعلوم امان الاسلام جنتاہاٹ بائسی پورنیہ میں اعدادیہ دارالعلوم تنظیم المسلمین بائسی پورنیہ میں اولیٰ: دارالعلوم محی الاسلام بجرڈیہ بائسی پورنیہ؛ثانیہ تاخامسہ : جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو؛سادسہ تا فضیلت:الجامعۃالاشرفیہ مبارکپوراعظم گڑھ سےمکمل کیا اور یکم ستمبر۲۰۰۰ءکوفضیلت کی سند سےنوازےگیے۔ پھراس کےبعد الجامعۃالرضویہ مغلپورہ پٹنہ سے۰۰۲ ۲ءمیں تخصص فی الفقہ کرکےسند فراغت حاصل کی۔
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مبشررضا ازہرقادری مصباحی کوسندِحدیث وفقہ- ممتازالفقہاءمحدث کبیرحضرت علامہ ضیاءالمصطفی قادری دامت برکاتہم العالیہ اورسندافتاوقضا- مناظراسلام فقیہ النفس حضرت علامہ مفتی محمد مطیع الرحمٰن رضوی مضطردامت برکاتہم العالیہ اورعمدۃالمحققین فقیہ اہل سنت حضرت علامہ مفتی آل مصطفی اشرفی مصباحی دامت برکاتہم العالیہ جیسےماہرین واصولین سےحاصل ہے۔
مفتی صاحب نےتدریسی خدمات کا آغازجامعہ مدینۃالعلوم پھکولی،گورول، مظفرپور بہار سےکیاجہاں۲۰۰۲ءتا۲۰۰۵ءچارسال بحیثیت مفتی ونائب صدرالمدرسین رہے،پھرآپ مدرسہ عالیہ قادریہ بدایوں شریف یوپی تشریف لےگيےجہاں۲۰۰۶ءسے۲۰۰۷ءدوسال بحیثیت ۔استاذ ومفتی خدمات انجام دی۔ یہاں سےآپ دارالعلوم قادریہ صابریہ برکات رضا کلیرشریف یوپی تشریف لےگيےاورایک سال۲۰۰۸ءبحیثیت ۔مفتی ۔ وصدرالمدرسین رہے۔ اس کےبعدآپ کا تقررشیخ الاسلام کی سرپرستی میں چلنےوالا گجرات کامشہورومروف مرکزی ادارہ۔ دارالعلوم شیخ احمد کھٹو،سرخیزاحمدآباد گجرات میں ہواجہاں آپ۲۰۰۹ءسےتادم تحریربحیثیت مفتی،شیخ الحدیث وصدرالمدرسین ترسیل علو م و فنون میں مصروف ہیں۔
آپ کےدینی مشاغل میں تحقیق، تالیف، تدریس، فتوی نویسی،مرکزی دارالقضاءادارۂ شرعیہ احمدآباد گجرات کےمقدمات کی سماعت تحقیق وتفتیش اورتصفیہ بحیثیت نائب قاضی ٔ شریعت ادارۂ شرعیہ گجرات جیسےاہم امورشامل ہیں۔ آپ کےتصانیف کچھ اہم عنوانات پرمنظرعام پرآکرمقبول ہوچکےہیں،جن کےاسماءحسب ذیل ہیں:میزان ِ عدل کاتحقیقی جائزہ(مطبوعہ )؛ (۲)ایصال ثواب کی تحقیق (مطبوعہ گجراتی)؛(۳)ایصال ثواب کی تحقیق(مطبوعہ اردو)؛(۴) حیلۂ شرعی جواز وتقاضے (چندمباحث مطبوعہ، ماہنامہ کنزالایمان دہلی،سہ ماہی امجدیہ گھوسی،المختارکلیان)؛ (۵) مجموعۂ فتاوی (دورجسٹرغیرمطبوعہ)؛(۶) نظام ِ قضا(زیرترتیب)؛
مفتی صاحب کےعلمی اورفقہی مقالت کی تعداد 200 سےزائد ہیں جومختلف جرائد وماہناموں میں شائع ہوئےہیں اوراسی کودو جلدوں میں جمع کردیا گیا ہے۔(۷)غبارمدینہ ( مجموعہ مقالات جلداول غیرمطبوعہ۳۰۰صفحات) اور(۸) صبححیات( مجموعہ مقالات جلد دوم )۔
حضرت علامہ مولانامفتی محمد مبشر رضا ازہر قادری مصباحی کوحضرت تاج الشریعہ علامہ مولانا مفتی اختر رضا خان قادری برکاتی ازہری قبلہ سےسلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں شرف بیعت حاصل ہےاورجانشین محدث اعظم ہند، حضرت شیخ الاسلام والمسلمین رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی مدظلہ العالی سےسلسلےقادریہ چشتیہ اشرفیہ کی خلافت واجازت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مولانامفتی محمد مبشر رضا ازہرقادری مصباحی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(19)حضرت علامہ مفتی محمد جاوید احمد عنبرؔ مصباحی
بانی و مفتی۔ حنفی دارالافتا والقضا وفضل حق خیر آبادی چیرٹیبل فائونڈیشن- اَنڈمان، ہند
مفتی اَنڈمان حضرت علامہ مفتی محمد جاوید احمدعنبرؔ مصباحی بن سیٹھ عمیر احمد بن سیٹھ صغیر احمد بن محمد نصیر الدین بن محمد کی ولادت ۹؍صفر المظفر۱۴۱۰ھ /۱۱؍ ستمبر ۱۹۸۹ء بروز دو شنبہ موضع کسیّا پٹی، تھانہ باجپٹی ضلع سیتامڑھی بہار ہند کے ایک عزت دار گھرانے میں ہوئی، آپ کے پردادا محمد نصیر الدین ایک زمین دار آدمی تھے لیکن برطانوی اقتدارمیں آپ جائداد سے محروم کردیے گئے۔
آپ کی تعلیم کا سلسلہ گائوں کے مکتب سے شروع ہوا اورآپ کے عم محترم و استاذ مکرم مفتی محمد مرتضیٰ رضوی مصباحیؔ اور مفتی محمد مشرف رضا مصباحی ؔ طال ظلہما کے زیر سرپرستی د ارالعلوم غریب نواز، ناندیڑ، مہاراشٹرااورطیبۃ العلما جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی، مئو، یوپی ہوتے ہوئے الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی میں تکمیل فضیلت و تقابل ادیان پر جا کر ختم ہوا ۔ پھر مولانا آزادنیشنل اُردو یونیورسٹی، حیدرآباد، آندھرا پردیش (موجودہ ریاست تلنگانہ) سے ۲۰۱۲ میں بی اے مکمل کیا۔
استاذ مکرم حضرت مولانا ناظم علی مصباحیؔ استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے حکم پہ فراغت کے بعد کچھ دنوں کے لئے آپ بحیثیت عربک لکچراردار العلوم امام احمد رضا، رتنا گیری، مہاراشٹرمیںرہے۔پھر کنز الایمان ایجوکیشنل اینڈ چیرٹیبل ٹرسٹ گلبرگہ کرناٹک والوں نے آپ کو ٹرسٹ کا ڈائرکٹر مقرر کیا لیکن کچھ مدت بعد مولانا صابر رضا رہبرؔ مصباحی کے مشورہ پہ دار العلوم شاہ ہمدان پانپور، کشمیرکے تحت نکلنے والے ماہنامہ ’’المصباح‘‘کے ایڈیٹر اور دار العلوم کے مدرس کی حیثیت سے آپ وہاں تشریف لے گئے۔ جہاں پہلے وائس پرنسپل پھر پرنسپل اور ماہنامہ المصباح کے ایڈیٹر کی حیثیت سے مسلسل ڈھائی سال قیام فرما رہے۔پھر جزیرئہ اَنڈمان (کالاپانی) سے مفتی شہاب الدین حلیمی مصباحی، مولانا محمد شوکت نعیمی کشمیر، مولانا محمد یوسف مصباحی کیرلا اور جناب محمد خالد شافعی صاحبان ( اللہ ان کے جذبۂ خدمت دین و محبت علما کو باقی رکھے ) کے اصرار پر اَنڈمان تشریف لائے اورمرکز پبلک انگلش میڈیم اسکول، مرکز نگر، وِمبرلی گنج، جزیرۂ اَنڈمان، ہند کے پرنسپل مقرر ہوئے ۔
اَنگریزوں کی دریافت نوآباد خطہ َانڈمان کے مسلمانوں کی بے راہ روی وگمرہی کودیکھ کر آپ بہت پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ کوئی ایسی تنظیم بنے جس کے تحت دین و سنت کا کام باضابطہ کیا جا سکے ۔لہذا اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ۱۳؍ ربیع الاول شریف ۱۴۳۵ھ مطابق ۱۵؍جنوری ۲۰۱۴ء کو علامہ فضل حق خیر آبادی چیرٹیبل فائونڈیشن کی بنیادڈالی جس کی کفالت میں کئی مکاتب خدمت دین و سنت انجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں لوگوں کی شرعی ضرورت کے مد نظر دینی علوم سے نامانوس اس علاقہ میں اولین دار الافتا بنام ـ’’حنفی دارالافتا والقضا‘‘ کی بنیاد کا سہرابھی آپ ہی کے سر جاتا ہے، اسی طرح فروری ۲۰۱۵ء میں سرزمین اَنڈمان میں پہلی بار ۴؍روزہ ’’علامہ فضل حق خیرآبادی کانفرنس‘‘ کا کامیاب اِنعقاد بھی آپ کا تاریخی اِقدام ہے۔جزیرۂ اَنڈمان میں سنیت کی نشاۃ ثانیہ اور اکیسویں صدی کی پہلی حنفی سنی مسجد (قصبہ مایا بندر) کی تعمیر آپ کا وہ تاریخ ساز کارنامہ ہے جو ان شاء اللہ رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا۔ بفضلہ تعالیٰ اولین مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کے زیر سایہ اہل دین وملت کا کام بحسن و خوبی چل رہا ہے۔ مولیٰ تعالیٰ مولانا کے عزم و حوصلہ کو عقابی پرواز عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ ان سے دین و سنت کا کام لے۔ آمین!
مولانا موصوف کی ’’اسلامی قوانین بائبل اور دورجدید کے تناظر میں‘‘(اشاعت ۲۰۱۵ء) تیسری تصنیف ہے جبکہ قبل ازیں آپ کی دو اور کتابیں ـ’’اسلام اور عیسائیت ایک تقابلی مطالعہ‘‘(۲۰۱۱ء) اور ’’بائبل میں نقوش محمدیﷺ‘‘ (۲۰۱۳ء) منظر عام پر آچکی ہیں اور انشاء اللہ اسی کتاب کے ساتھ مولانا کی چوتھی تصنیف ’’استعانت اسلام اور سائنس کی نظر میں‘‘ اور پانچویں تالیف ’’Hijab in Modern Perspective‘‘ منظر عام پرآنے والی ہیں۔
تقابل ادیان تو آپ کا خاص موضوع ہے مگراس کے علاوہ دیگر موضوعات پہ بھی آپ کے اردو، عربی اور انگریزی میں ہزار سے زائد صفحات پرمشتمل مضامین شائع ہوچکے ہیں اور مزید برآں کئی کتابیں زیر تکمیل ہیں۔
اللہ کرے زور قلم اور ہی زیادہ
جزیرئہ اَنڈمان آنے کے بعد مولانا عنبرؔ مصباحی صاحب کی محنت، لگن اور فروغِ اہل سنت کے لئے عزم مصمم اور جہد مسلسل کو دیکھ کر استاذی المکرم خیر الاذکیا حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ کا شخصیت ساز قول یاد آگیا کہ ’’آدمی میں محنت، جستجو اور اپنی خفیہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی لگن ہوتو بہت ساری سر بفلک چوٹیاں سر ہو سکتی ہیں۔‘‘
مفتی اَنڈمان حضرت علامہ مفتی محمد جاوید احمدعنبرؔ مصباحی کی قلمی اور تحقیقی کاوشوں کو دیکھ کرحضرت علامہ رحمت اللہ کیرانوی، صدر الافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین قادری اشرفی مرادآبادی،مبلغ اعظم حضرت علامہ عبد العلیم قادری میرٹھی، سہیل ہند سید قطب الدین مودودی اشرفی برہمچاری وغیرہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ بے شک مفتی عنبرؔ مصباحی پوری جماعت اہل سنت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
مفتی اَنڈمان کوحضرت علامہ مولانا مفتی جمال رضا خان قادری برکاتی قبلہ سےسلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں شرف بیعت حاصل ہےاورجانشین محدث اعظم ہند ، حضرت شیخ الاسلام والمسلمین رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی مدظلہ العالی سےسلسلہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ کی خلافت واجازت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مفتی اَنڈمان حضرت علامہ مفتی محمد جاوید احمدعنبرؔ مصباحی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
(20)حضرت علامہ مفتی عبد المالک صدیقی مصباحی
مدیراعلی- سہ ماہی فیضان مخدوم اشرف و مفتی۔ سنی دارالافتاء،جمشیدپور
حضرت علامہ مفتی عبد المالک مصباحی ابن محمد الیاس ابن عبدالجلیل ابن ناد علی ابن مردن علی ابن بہادرعلی کی ولادت ۹؍محرم الحرام مطابق ۱۲ ؍فروری ۱۹۷۳ء کو اپنے ننیہال بالاساتھ میں ہوئی ۔جو گاؤں بکھری ،پوسٹ باجپٹی ،ضلع سیتامڑھی سے تقریباً۲۵؍کیلو میٹر کے فاصلے پر جانب شمال واقع ہے ۔آپ کاتعلق بہار کی مشہور و معزز برادری شیخ صدیقی سے ہے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب میں ہی حاصل کی بعدہٗ مدرسہ قاسمیہ بالاساتھ ہوتے ہوئے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور تک گئے مگرمرضی مولیٰ وہاںسے ۱۹۸۶ء میں مدرسہ فیض العلوم محمدآباد گوہنہ ضلع مؤ پہنچے جہاں آپ نے اولیٰ اور ثانیہ جماعت کی تعلیم حاصل کی یہاں دوسالوں تک پڑھ کر۱۹۸۸ء میں ملک کی عظیم الشان درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڈھ پہنچے او رثالثہ سے لیکر ۱۹۹۱ء میں عا لمیت اور ۱۷؍نومبر ۱۹۹۳ء کو دستار فضیلت سے نوازے گئے۔اسی درمیان آپ نے عالم و فاضل الٰہ آباد بورڈ ،یوپی ،وسطانیہ فوقانیہ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کی اسناد حاصل کی۔اور ۱۹۹۷ء میں میسور یونیور سیٹی سے ایم ۔اے کی ڈگری اعلیٰ نمبروں سے حاصل کی ۔
فراغت کے فوراً بعد آپ راجستھان کے شہر بیکانیر گئے اور پھر کچھ سال بعد ہبلی کرناٹک چلے گئے جہاں دار العلوم غوثیہ میںشیخ الحدیث اور مفتی کے فرائض انجام دہی پر مامور کئے گئے ۔پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا شوق بھی آپ کو شروع ہی تھااس لئے آپ نے طالب علمی کے زمانے ہی سے مضامین لکھناشروع کردیاتھااور دوران طالب علمی ہی آپ کے مضامین ملک اور بیرون ملک کے مختلف رسائل وجرائد میںشائع ہونے لگے تھے ۔مختلف عناوین (عقائد اور اعمال سے متعلق)پر نصف درجن سے زائد کتابیں شائع ہوکر اہل علم سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔اردو کے علاوہ انگریزی زبان میں درسی اور غیر درسی آٹھ کتابیں کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کے مراحل سے گذر رہی ہیں۔یہ تمام کتابیں سی ۔بی ،ایس ،سی بورڈ کے طرز پر درس نظامی کے نصاب کو مد نظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہیں ۔انشا ء اللہ جلد ہی طباعت کے مراحل سے گذر کر اہل نظر کی نگاہوں کے سامنے آنے والی ہیں ۔ آپ کی بہت سی کتابیں شائع ہو کرخوب داد حاصل کر چکی ہیں۔ یہاں ایک اجمالی فہرست پیش کی جا ری ہے۔تصنیفات:(۱)-جنگ آزادی اور وطن کے جانباز؛(۲)-امتیاز حق و باطل؛(۳)-خطبات اسلام؛(۴)-دلکش تقریریں؛ (۵)-معاشرے کی خرابیاں :اسباب و علاج؛(۶)-رہبر دین؛(۷)- النور ۔انگریزی تعریفات ؛ (۸) النور۔ انگریزی گرامر؛ (۹)النورانگلش ریڈر( نصاب کا سلسلہ)۔ زیر ترتیب و طباعت:(۱)رمضان کے تیس اسباق۔ (۲)خطبات اسلام حصہ دوم۔(۳)خطبات سیرت۔(۴)درس نماز۔(۵)احکام نماز۔
اندرون ملک تو آپ کے تبلیغی دورے ہوتے ہی رہتے تھے قیام بیکانیر کے دوران اسلام سنیت کی خدمت کے فیجی (نزد آسٹریلیا)سے تعلیمی خدمات کا دعوت نامہ آیاتو ان لوگوں کی دعوت پر فیجی تشریف لے گئے جہاں آپ نے ایک سال تبلیغی اور دعوتی کام کا فریضہ انجام دیا مگر حالات کی ناسازگاری اوماحول کی عدم موافقت کی وجہ سے واپس آگئے دوسری مرتبہ افریقہ کے سفر پر گئے مگر وہاں بھی آب و ہوا راس نہ آنے کی وجہ سے واپس آکر ہندوستان ہی میں’’ جامع اشر ف کچھوچھہ شریف ‘‘میںبحیثیت صدر شعبہ علوم عصریہ تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
تدریس وخدمات:
بحیثیت مفتی و شیخ الحدیث، دار العلوم غوثیہ ہبلی، کرناٹک؛ بانی رکن ،مفتی و صدر مدرس دار العلوم سلیمانیہ رحمانیہ بیکانیر، راجستھان؛بانی و مہتمم ،مفتی و صدر مدرس دار العلوم غریب نواز بیکانیر، راجستھان؛ مفتی و صدر مدرس، مدرسہ ونوا لیبومسلم لیگ، فیجی؛ سکریٹری مدینہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی،سیتا مڑھی(بہار)؛ مفتی و صدر مدرس مدرسہ شاہ خالد،گیبرون ،بٹسوانہ(افریقہ)؛ناظم اعلیٰ دارالعلوم رضائے مصطفی،بکھری ،باجپٹی، سیتامڑہی،بہار؛مفتی سنی دارالافتاء،مدینہ مسجد ،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ۔
حضرت علامہ مفتی عبد المالک مصباحی نے ۱۸؍اگست ۱۹۸۸ء کو تاج الشریعہ ،مرجع العلماء حضرت علامہ اختررضا صاحب قبلہ ازھری دامت برکاتہ علینا کے دست مبارک پر شرف بیعت حاصل کیا۔ خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ معید احمد رضافریدی قادری برکاتی،لکھیم پور،یوپی نے۱۰؍مئی ۲۰۰۷ سلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی خلافت عطا کی اورجانشین محدث اعظم ہند، حضرت شیخ الاسلام والمسلمین رئیس المحققین علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کچھوچھوی مدظلہ العالی نے ۱۷؍رجب االمرجب ۱۴۳۰ھ مطابق اا؍جولائی ۲۰۰۹ کوسلسلہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ کی خلافت واجازت عطا کی ہے۔
آپ کے دست حق پرست پرکئی افراد کرناٹک اور فیجی میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔جو الحمد للہ آج بھی اپنے اسلام قائم اور عملی طور پر کاربند ہیں ۔
سہ ماہی فیضان مخدوم اشرف:
آپ کی ادارت میںسہ ماہی فیضان مخدوم اشرف رسالہ شائع ہورہاہے جو اس اعتبار سے بالکل منفرد ہے کہ اس ایک ہی رسالہ میں عوا م کی سہولت اور ترسیل کی وسعت کے پیش نظر تین زبانیں اردو،ہندی اور انگیریزی بیک وقت شائع کی جارہی ہیں۔جس سے ایک ساتھ کافی لوگ فیضیاب ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علامہ مفتی عبد المالک مصباحی قبلہ کا سایہ ہم اہل سنت با لخصوص اہل سلسلہ پر دراز فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
0 Comments: