فیضان جامعہ نظامیہ اور عصری تقاضے
از : مولانا نوید افروزنویدؔ، مولوی کامل جامعہ نظامیہ ، استاذانڈین ایمبیسی اسکول(جدہ سعودی عرب)
فیضان نظامیہ یہ ایک بحربے کراں عنوان ہے اس کی کوئی حد ہے نہ کنارہ ، اسکی گہرائی اور عمق کے بارے میں کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ ہاں اسکی ابتداء او رآغاز پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ اسکی شروعات کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بات بہت مشکل سے ممکن ہے کہ روزاوّل سے لیکر تاحال اسکے احوال بیان کئے جائیں ۔ اگر کوئی باہمت و باحوصلہ ہاتھ میں قلم لیکر بیٹھ جائے تو اسکے لئے ایک کتاب نہیںبلکہ ایک دفتر چاہیے ۔ میںیہاں مختصراً عرض کرنا چاہتاہوں کہ جامعہ نظامیہ ازہر ہند کے نام سے مشہور ترین پر وقاروباشوکت بارگاہ نبویﷺ کی مقبول دینی درسگاہ، ملت اسلامیہ کا قابلِ فخر اثاثہ ، مہتم بالشان عظیم اسلامی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد استاذ السلاطین معارف حقائق آگاہ عارف باللہ شیخ الاسلام حضرت العلامہ مولانا شاہ حافظ محمد انواراللہ فاروقی خان بہادر فضیلت جنگ علیہ الرحمہ نے ۱۹؍ذوالحجہ ۱۲۹۲ھ کو توکل وتورع کی اساس پررکھا۔ ابتداء ًاسکی شکل ایک مدرسہ کی تھی لیکن بانی جامعہ کی بے انتہاء محنتوں وکاوشوں کی وجہ یہ مدرسہ ایک قلیل مدت میں عالمی شہرت کا حامل ہو گیا۔ اور دنیا کے گوشہ گوشہ سے تشنگانِ علم کے قافلے چلے آنے لگے ۔ جامعہ نظامیہ کے متعلق آصفجاہ سابع کے فرمان مبارک سے بھی اسکی تصدیق ہوتی ہے فرماتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست حیدرآباد کے علاوہ دور دراز بیرون ممالک کے طلباء نے یہاں آکر اپنے علم کی پیاس بجھائی ہے، اس میںقابل ذکر ، بخارا ، افغانستان، انڈونیشیا، بلوچستان، ترکستان، چین، یمن،شام، عرب ممالک کے اکثر شہروں سے تشنگانِ علم دین آتے رہے ہیں‘‘۔
جامعہ نظامیہ کو ’’ازہرِ ہند‘‘ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ بیرون ممالک کے طلباء کی کثیر تعداد زیر تعلیم تھی جو جامعہ ازہر مصر کا سا ایک منظر پیش کرتی تھی ۔ جامعہ نظامیہ کے طلباء میں تقریری صلاحیت پیدا کرنے کے لئے زمانہ قدیم سے ہر چہارشنبہ کو ایک جلسہ کسی استاذ یا شیخ کی نگرانی میں ہوا کرتاہے۔ ایک دفعہ حضرت العلامہ مولانا عبداللہ قریشی الأزہری (نائب شیخ الجامعہ نظامیہ وخطیب مکہ مسجد)اس جلسہ کی صدارت فرمارہے تھے، آپ نے اپنی صدارتی تقریر میںجامعہ کے سابقہ طلباء کے بارے میں کہا کہ ’’فلاں کے بہترین مقرر ہونے میں کوئی شک نہیں، فلاں کے بہترین قاری ہونے میں کوئی شک نہیں، فلاں کے بہترین عالم ہونے میں کوئی شک نہیںاو رکہا کہ یہا ںایسے ایسے طلباء بھی زیر تعلیم رہ چکے جنکی پرہیزگاری تقوی عبادت وریاضت کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے تھے کہ فلاں فلاں کے ولی ہونے میں کوئی شک نہیں‘‘ ۔ مولانا کا یہ جملہ میر ے دل میں ایسا گھرکر گیا کہ میں نے جامعہ کی ہر چیزپر غور کرنا شروع کردیا۔ حوض پر نظر پڑتی تو خیال آتا کیسے کیسے لوگ اس پر وضو کیے ہونگے سامنے میدان پرنظرپڑتی توخیال آتاکیسے کیسے لوگ اس میدان میں کھیلے ہونگے۔
اس بحرِ علم ودانش گاہ اسلام سے ۱۳۵سالہ عرصہ میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد تشنگان علم سیراب ہوئے ہیں۔
جن میں حفاظ بھی تھے، علماء بھی تھے، فقہاء بھی تھے، خطباء بھی تھے۔ادباء بھی تھے، قراء بھی تھے شعراء بھی تھے، مفسرین بھی تھے۔ مصنفین بھی تھے، موذنین بھی تھے، مدرسین بھی تھے، محدثین بھی تھے، مؤلفین بھی تھے۔ مقررین بھی تھے واعظین بھی تھے۔ مفکرین بھی تھے، مدبرین بھی تھے۔ مفتیان کرام بھی تھے۔ مشائخین عظام بھی تھے اور قائدین ذی احتشام بھی تھے۔ مفتیان کرام بھی تھے ۔بات توجہ طلب ہے کہ وہ سب تھے۔ اب اقطاع عالم میں پھیلے ہوئے وہ سب ہیں۔
وہ اگلے لوگ تھے اب تازہ قافلے ہونگے
مجھے یقین ہے تا حشر سلسلے ہونگے
میں قارئین کرام کی خدمت میں ایک فرزند جامعہ علامہ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں جو دنیا کی مختلف اہم بڑی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور کئی کتابوں کے مؤلف ومصنف تھے جنکے دست حق پر ست پر ہزار وں افراد نے اسلام قبول کیا یہ سب فیضان نظامیہ ہی توہے اگر ان کی خدمات کا احاطہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے ، جب ایک فرزند کا یہ عالم ہے تو ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد فرزندانِ جامعہ کے فیضان کا کیاعالم ہوگا۔ بہر حال مجھے پھر اس بات کا اعادہ کرنا پڑے گاکہ فیضانِ نظامیہ ایک سمندر ہے۔ اسکے مکمل فیضان کا ذکر ایک امر محال ہے۔
آج سے (۱۳۶) سال قبل جو حیدرآبادتھا اب وہ نہیں رہا ہر شئے کو ترقی ملی، آبادیوں میں اضافہ ہوا نئے نئے محلے قائم ہوے پہلے سے کہیں زیادہ مسلم آج حیدرآباد میں رونق شہر بنے ہوئے ہیں، لیکن جس تیزی سے مسلم بستیاں آباد ہوئیں اس تیزی سے جامعہ کو ترقی نہ ہوسکی ، اضلاع اور دیہات کے مسلم حضرات کو شکایت ہے کہ جامعہ کے فارغین حیدرآباد شہر چھوڑ نا نہیں چاہتے ۔ سونچنے کی بات ہے کہ نئے نئے محلے آباد ہونے کی وجہ نئی نئی مساجد بھی تعمیر ہو رہی ہیں ، طلباء جامعہ سے فارغ بھی نہ ہونے پارہے بلکہ طالب علمی کے زمانے ہی سے کسی نہ کسی بڑی مسجد میں بحیثیت امام وخطیب مقرر ہو جاتے ہیں، نوبت بہ ایں جارسید اب تو شہریوں میں یہ شکایت عام ہورہی ہے اسکے تدارک کے لئے خلیجی ممالک میں مقیم طلبائے قدیم وابنائے وطن یعنی مسلم فرزندان ہندودکن سے میں خواہش کرتا ہوں کہ وہ اس جانب توجہ کریں او رمالی اعتبار سے ارباب جامعہ کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ پہلے سے کہیں زیادہ کثیر تعدادمیں طلباء یہاں سے فارغ ہو ں ، طلباء کو داخلہ سے قبل انکی رہائش طعام وقیام کا انتظام کرنا ہوگا ، درسگاہوں کو بھی کشادہ کرناہو گایا نئی تعمیر کرناپڑے گا ان تمام امور کی تکمیل کیلئے مالیہ کی سخت ضرورت ہے ۔ ہمارے شہر کے دامن میں جو (۱۳۵)سالہ دینی درسگاہ ہے ہم نے اس کے لئے آج تک کیا کیا؟ اگر کچھ کیاہے اور کرتے چلے آرہے ہیں تو یہ بڑی سعادتمندی کی بات ہے چونکہ اس درسگاہ کو بارگاہ نبوی ﷺ میں قبولیت کا شرف حاصل ہے۔ اگر اس درسگاہ کیلئے آپ نے کچھ نہیں کیا ہے تو آج ہی سنجیدگی سے غور کریں اور اپنے سرما یہ میں سے کچھ حصہ اسکے لئے بھی مختص کریں ۔ آخر میں دعا گو ہو ں اللہ تعالیٰ ہم تمام کو علم نافع کیساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔
٭٭٭
0 Comments: