مخدوم جمالیؔ اشرفی حیدرآباد
تجلیات سخن میں تجلیات اخترؔ
یہ تو آپ حضرات نے سنا ہی ہوگا کہ چراغ سورج کے سامنے نہیں جلا کرتے ۔لیکن میں آج سورج کے آگے ایک دیا روشن کرنے کی جسارت کرنے لگا ہوں۔ یہ جسارت سورج کے جاہ و جلال سے مقابلہ نہیں بلکہ اس کے جود و نوال کا مظاہرہ ہے ۔وہ سورج جو شاہ سمنانی کے فیض نورانی کا نمائندہ ہے، وہ سورج جو ہم شبیہ غوث اعظم کے نور مجسم کا ہالہ ہے، وہ سورج جو ملک العلماء کی تجلیات ِ عارفانہ کی مکمل شیرازہ بندی ہے ،وہ سورج جو محدث اعظم ہند کی قامتِ زیبا کا نسبی تراشہ ہے، وہ سورج جو اپنے پیر و مرشد کی خانقاہ کے اشرفی اجالوں کا نقیب ہے ،وہ سورج جس کے عا لمانہ جاہ و جلال ،فضل و کمال ،جود ونوال ،حسن و جمال نے بے مثال تربیت خانے بسا رکھے ہیں کہ اپنے وقت کے بڑے بڑے عالمان ِ ذی وقار ،مفتیانِ کبار ،میدان علم و ادب کے درخشندہ شہ سوار ، اکتساب نور کے لیے نیاز مندانہ حاضر درگاہ جلالت ہوتے ہیں ۔اور اس سورج کو دنیا ئے عشق و محبت ’’اختر کچھوچھوی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
یہ میرا اور قلم کا مشترکہ ادبی امتحان ہے کہ غلام اپنے آقا کے لیے کیا سوچتا ہے ؟ قلم کی محدوود سیا ہی لا محدود علمی ،ادبی ، تہذیبی ،ثقافتی ،فنی، سائنسی، تاریخی وغیرہ علوم کے ایوان علم و فضل کے تاجدار بے بدل کی تعریف و توصیف میں گلزار قرطاس پر کتنے گل بوٹے اگا سکتی ہے اور اس امتحان ادب میں کامیابی و ناکا می کا فیصلہ یا تو قارئین کرینگے یا اس مضمون کے صاحب الرائے قارئین۔۔۔
اربابِ ذی وقار! نعت گوئی اگر چہ کہ ادب کی معروف صنف ’’ صنف شاعری‘‘ کا ایک جزو معلوم ہوتی ہے لیکن جب ہم اس کے ما خذات پر نظر ڈالتے ہیں تو منجملہ اصناف سخن کا وجود بشمول شاعری کالعدم نظر آتا ہے۔لیکن نعت کی باقیات الصالحا ت کو ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا بلکہ نعت گوئی تمام اصناف سخن کی بنیاد بن کر منظر وجود پر ظہور پذیر ہوتی ہے اور اپنے تقدس ذاتی کا خدائے قدیم کے کلام قدیم کے ذریعے
کبھی ’’ ورفعنا لک ذکرک ‘‘ کہہ کر۔۔۔ کبھی ’’ انا اعطینک الکوثر ‘‘ کہہ کر۔۔۔
کبھی’’ تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض ‘‘ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’قد نرٰ ی تقلب وجہک فی السمآ ء فلنو لینک قبلۃ ترضٰھا ‘‘کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’ لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ‘‘ کہہ کر۔۔۔
کبھی’’ قد جآء کم من اللہ نورو کتب مبین‘‘کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’النبی اولی با لمئومنین من انفسہم ‘‘کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’ لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمئومنین رئوف رحیم‘‘کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’وما ارسلنٰک الارحمۃ للعاللمین‘‘ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’سبحان الذی اسرٰی بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الا قصیٰ ‘‘الخ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’عسٰی ان یبعثک ربک مقام محمودا ‘‘ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’ما کان محمدابا احد من رجا لکم و لکن رسول اللہ و خاتم ا لنبیین‘‘ کہہ کر ۔
کبھی ’’و تعزروہ و توقرو ہ ‘‘ کہہ کر ۔۔۔
کبھی’ ’ و لو انھم اذظلمو ا انفسہم جائوک ‘‘ الخ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’ و الشمس و ضحٰھا ‘‘ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’ والضحٰی۔و اللیل اذا سجٰی ۔ ما ودعک ربک و ما قلٰی ۔و للآ خرۃ خیر لک من الاولٰی‘‘ الخ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’الم نشرح لک صدرک ‘‘ کہہ کر ۔۔۔کبھی ’’ الذی انقض ظھرک ‘‘کہہ کر۔۔۔ ۔۔۔
کبھی ’’یٰسٓ ‘‘ کہہ کر ۔۔۔ کبھی ’’طٰہٰ ‘‘ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’یا ٓ ایھا المزمل ‘‘ کہہ کر۔۔۔کبھی ’’ یآ ایھا ا لمدثر ‘‘کہہ کر۔۔۔کبھی ’’لا اقسم بھٰذ البلد‘‘کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’و العصر ‘‘ کہہ کر۔۔۔کبھی ’’یآ ایھا النبی انا ارسلنک شاھدا و مبشرا و نذیرا‘‘ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’ انعم اللہ علیھم من النبیین ‘‘ کہہ کر۔۔۔
کبھی ’’تبت ید ا ابی لھب و تب ‘‘ کے ذریعے نبی کے دشمنوں کی سرکوبی کر کے۔۔۔
کبھی ’’عتل بعد ذٰلک زعیم ‘‘ کے ذریعے نطفئہ بے تحقیق کو بیان کر کے ،
نعرہائے نو ر پیکر لگاتی ہے۔
صاحبان علم !نعت گوئی سے متعلق مختلف افکار نے مختلف تجربے کیے ہیں ۔کسی نے نعت گوئی کو ’’برہنہ خنجر کی نوک پر برہنہ پا رقص کرنے کا عمل‘‘ قرار دیا ہےاور کسی نے’’ایمان کا پل صراط‘‘، کسی نے ’’انوار الہیہ تک پہونچنے کا سراغ‘‘بتا یاہے تو کسی نے ’’خلد بریں کی شاہراہ ِمختصر‘‘۔
دنیائے فارسی کے عظیم صوفی شاعر عرفیؔ نے نعت پر خامہ فرسائی کی نیت سے قلم اٹھایا تو اس کے ضمیر نے دل ِحسّاس پر کچوکے لگا ئے اور اندرکا قلندر بامحمد ہوشیار کا نعرہ بلند کرتے ہوے رقم طراز ہوا ۔ ؎
عرفی ؔ مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا ست
آہستہ برہ بر دمِ تیغ است قدم را
تصوف نگری کے شہزادے اما م العاشقین حضرت صوفی عبدالرحمن جامی ؔ نے زندگی صرف کردی اپنے محبوب کے جلوئوں کی مدح سرائی میں،جب عمر کے آخری موڑ پر پہنچے توگویا خیال نے دستک دی کہ جامیؔ! ایسی ہزار زندگیاں بھی مل جائے تو نعت کا حق ادا کر نہیں پائوگے ۔جواب میں حضرت جامیؔنے قلم کو جنبش دی اور لکھا ؎
یاصاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعدازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر
پھر جب اسی خیا ل سے مجد د دنیائے غزل مرزا غالبؔ نے قلم کو جنبش دی تو غالب ؔکی تمام صلاحیتوں نے غالب ؔ کے سامنے آئینئہ حقیقت رکھ کر غالب کے لہجے میں غالب کو مخاطب کیا کہ
غالبؔ ثنائے خواجہ بیزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دانِ محمد است
ایک ہزار کتابوں کے پڑھنے والے نہیں، لکھنے والے ،ساری دنیائے علم و فضل جس کے تبحر علمی کی معترف ہے ،سارے حضرت جسے اعلی حضرت کہتے ہیں۔ جب انہیں اس امر سے آگہی ہوی کہ بے شمار کتابیں تصنیف کرنے کے بعد بھی میدان نعت میں کوئی بشر کامل شہسوار نہیں کہلاتا تو قلم کو والہانہ جنبش دیتے ہوے صیغئہ ضمیر متکلم کے پردے سے آ واز لگائی ؎
اے رضاؔ خود صاحب قرآں ہے مداحِ حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول کی
مختصر یہ کہ بڑے بڑوں نے اس میدان میں زور آزمائی کی لیکن آخری نتیجہ ’’بعد از خدا بزرگ توئی‘‘ کے علاوہ کچھ بر آمد نہیں ہوا۔
سیدنا امام بوصیری نے اپنے ’’قصیدئہ بردہ ‘‘ کے ذریعے اور حضرت شیخ سعدی شیرازی نے اپنی رباعی کے ذریعے دنیائے نعت میں ’’عطا‘‘ کا ایک ایسا باب وضع کیا ہے کہ غزل اپنے لفظوں کے لشکر سمیت اس ’’باب عطا‘‘ کی نوکری انجام دی رہی ہے ۔یہ باب عطا تو کھلا سب کے لیے ہے لیکن اس تک رسائی یا تو عرفی ؔ کی ہوی ہے یا جامیؔ کی ، اس دروازے کی دہلیز بوسی کا شرف یا تو اعلی حضرت اشرفیؔ میاں کچھوچھوی کے قلم کو ہوا ہے یا اعلی حضرت امام احمد رضاؔ بریلوی کی نوک ِخامہ کو ، اس باب عطا کے سائے کو محدث اعظم ہند سیدؔکچھوچھوی کی فکر نے چھوا ہوگا یا اب تجلیات سخن کے تجلیوں سے فیضیاب ہونے کے بعد دل گواہی دے رہا ہے کہ اس باب عطا کے منظر حضرت سید مدنی اخترؔکچھوچھوی کے شعور لوح و قلم کو منور رکھے ہوے ہیں۔جہاں تک خدمت نعت کی بات ہے تومیرا شعور اتنی شہادت تو ضرور دیتا ہے کہ دنیائے قرطاس و قلم میں کوئی ایسا پاکیزہ قلم نعت لکھنے سے محروم نہیں رہا ہے کہ جس کے متعلق محرومئی نعمت کا خیال ہو۔ ہاں ایسے دل ضرور ہوے ہیں جنہوں نے ’’قرطاس وجود ‘‘پہ نعت رقم کرنے کے بجائے ’’قرطاس شہود ‘‘ یعنی دل کے کاغذ پر اپنے قلم کی پاکیزہ دنیا بسائی ۔ بقول حافظ شیرازی: ؎
بہر سو جلوئے دلدار دیدم
بہر چیز ے جمالِ یار دیدم
جب اس کیفیت کا رنگ کسی پر چڑھتا ہے تو اس کے لیے ہر نظارئہ ظاہر منظر ِباطن بن جاتا ہے اور اس کی زبان اس کے دل کی بولی بولتی ہے اور اس کا دل اس کی زبان بن کر بولتا ہے۔
شیخ الاسلام سید مدنی میاں اخترؔ کچھوچھوی کی شاعری میںہم نے کچھ ایسے ہی مناظر پائے ہیں ۔حضرت اخترؔکچھوچھوی کی یہی کیفیت جبب نغمہ بار ہوتی ہے تو قرطاس حریر پر لفظوں کا منظوم خمیر کچھ اس طرح جلوہ پذیر ہو تا ہے ؎
اختر ؔ منقش آسماں ، یہ شمس یہ نجم و قمر
بس عکسِ حسنِ یار ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں
شاعری ’’بازیچئہ اطفال ‘‘ہے ان کے لیے جن کو الفاظ سے کھیلنے کا شوق ِ جنوں خیز ہے ، لیکن ’’عشق جنوں پیشہ ‘‘شاعری کو محض الفاظ کی ’’رقص گاہ‘‘ یا خیالوں کا اکھاڑہ نہیں بلکہ محبوب کے پاکیزہ تصورات کا ’’مہمان خانہ‘‘ اور غم جاناں کے اترنے کی جگہ تصور کرتا ہے اور اگر وہ محبوب ’’محبوب حقیقی‘‘ ہو تو اس مہمان خانے کا مرتبہ عرش و کرسی کا ہم پلہ ہوجا تا ہے۔اور غم جاناں کا تعلق شہر بطحہ کی اڑتی ہوی فلک مآب دھول سے ہو تا ہے تو وہ غم جانا ں دونوں عالم کی مصیبتوں اور پریشانیوں سے رہائی کی سند عطا کرتا ہے ۔اور اس سند کو حاصل کرنے کے بعد عاشق کے تیور کیا ہوتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
تخت شاہی نہ سیم و گہر چاہیے
یا نبی آپ کا سنگ در چاہیے
ماہ و خورشید کی کوئی حاجت نہیں
زلف کی شام رخ کی سحر چاہیے
کیا کروں گا میں رضواں تری خلد کو
آمنہ کے د لارے کا گھر چاہیے
اور چشم عشق کے سنگھار کے لیے محبوب کے تلوئوں کی خاک مانگی جارہی ہے ۔
چشم دل کے لیے کحل درکار ہے
خاک پائے شہِ بحر وبر چاہیے
شاعری عوامی مقبولیت کے لیے جہاں بہت سارے تقاضے رکھتی ہے وہیں’’ کیفیت ِدل‘‘ اور ’’کشفِ مضمون‘‘ کی چاشنی بھی مانگتی ہے اور حضرت اخترؔکچھوچھوی نے نہ صرف شاعری کے اس تقاضے کو پورا کیا بلکہ کیفیت ِدل کی جگہ’’ کیفیت روح‘‘ کو اپنی شاعری میں گھول دیا اور کشف مضمون سے ہٹ کر ’’کشف ِ قرآن و حدیث‘‘اپنی شاعری کو ہم آہنگ کرکے سامعین و قارئین کواپنا گرویدہ و شیفتہ بنا لیا ہے ۔ذیل میں اس قبیل کے کچھ اشعار ’’مشتے نمونے از خروارے ‘‘کے طور پر ملاحظہ فرمائیں ۔
خدائے بر تر و بالا ہمیں پتہ کیا ہے
ترے حبیب مکرم کا مرتبہ کیا ہے
جبینِ حضرت جبریل پر کفِ پا ہے
ہے ابتدا کا یہ عالم تو انتہا کیاہے
بشر کی بھیس میں لا کا لبشر کی شان رہی
یہ معجز ہ جو نہیں تو پھر معجزہ کیا ہے
یہ واقعہ ہے لباسِ بشر بھی دھوکا ہے
یہ معجزہ ہے لباس بشر میں رہتے ہیں
وہ اور ہی تھا جو قوسین پر نظر آیا
ملک تو اپنی حد بال و پر میں رہتے ہیں
تو نے اعجاز ِ کمال بندگی دیکھا نہیں
بھیس میں بندہ کے خود مولیٰ نظر آنے لگا
نور و بشرٰی مل گئے اور بن گیا نوری بشر
رہ کے پردے میں وہ بے پردہ نظر آنے لگا
جواب سل میں طلب کی رفاقت ِجنت
کمال ِہوش ربیعہ ترے سوال میں ہے
خدا بھی جس کو رئوف رحیم کہتا ہے
مرا نبی ہے وہی !حشر کس خیال میں ہے
یہ راز آیئہ تطہیر سے کھلا اخترؔ
ردا کے نیچے جو ہے ظل ِذوالجلال میں ہے
ایسے بہت سارے اشعار تجلیا ت سخن میں کبھی سلسلہ وار اور کبھی کچھ اشعار کے وقفے کے بعد ملتے ہیں جن میں ’کشف ِقرآن ‘‘ و ’’کشف ِ حدیث‘‘کے علاوہ ’’کشفِ خاندانی ‘‘کے اجالے بھی مسند آرا ئے بزم ِفکر ہیں۔
حضرت اخترؔکچھوچھوی کی شاعری استادانہ مزاج رکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔کیونکہ حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے صرف شاعر بن کر شاعری نہیں کی بلکہ ان کا قلم کبھی رومی ورازی کی بولتا ہے تو کبھی سعدی و غزالی کی ،کبھی اعلی حضرت فاضل بریلوی کی رنگت بتا تا ہے تو کبھی اعلی حضرت اشرفی میاں کی کی شباہت ، کبھی
اقبال کا ہم فکر ہو جاتا ہے تو کبھی محدث اعظم کا ہم مزاج۔
حضرت اخترؔ کچھوچھوی کی شاعری کی اصلاح کے حوالے سے ایک عبارت ذیل میں پیش کی جاتی ہے ۔
’’حضرت شفیق جونپوری کی خدمت میں شیخ الاسلام نے اپنا کلام بغرض اصلاح پیش کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ایسے ٹھوس او جامع اشعار کی اصلاح نہیں ہوا کرتی‘‘(بحوالہ خطبات برطانیہ)
حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے جہاں شعری اوزان کا مکمل پاس و لحاض رکھا ہے وہیں الفاظ کا حکیمانہ استعما ل اور تراکیب کی پر تکلف بندشیں اور مضامین کی شفاف تہذیب کا بھی درجہ بدرجہ اہتمام کیا ہے ۔حضرت اخترؔ کچھوچھوی کا قلم اور فکر دونوں سریلے ہیں۔یہ سریلا پن شاید کہ ساقیِ کوثر کے میرِ میخانہ بننے کے بعد چاند و سورج کے خم سے نکلی ہوی ہے ،’’مئے عشقِ مصطفی ‘‘ کو پیمانئہ نجم سے پینے کے بعد حاصل ہو ا ہو۔حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے تجلیات ِ سخن میںکچھ ایسی سریلی بحروں کا بھی استعمال کیا ہے اور اس میں اپنی شاعرانہ چابک دستی اس ناز وادا سے دکھائی ہے کہ قلم کے ’’اندازِحرم‘‘کا طواف کرنے کو جی چاہتا ہے۔
ان مترنم بحروں میں لکھے گئے نعتوں کے کچھ اشعار آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کیے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
وہ مری جان بھی ،جان کی جان بھی ،میرا ایمان بھی روحِ ایمان بھی
مہبطِ وحی آیا ت قرآن بھی اور قرآن بھی روح ِقرآن بھی
ناز سے ایک دن آپ نے یہ کہا ، یہ بتا طائر ِ سدرۃ المنتہی
ہے ترے سامنے عالمِ کن فکاں تو نے پائی کسی میں میری شان بھی
بولے یہ حضرت جبرئیل امیں ،اے نگاہِ مشیت کے زہرہ جبیں
ہو ترا مثل کوئی بھی اور کہیں ،رب نے رکھا نہیں ایسا امکان بھی
ان کی رحمت پہ اختر ؔدل و جاں فدا، جن کو کہتا ہے سارا جہان مصطفی
گو میری زندگی ان سے غافل رہی ، وہ نہ غافل رہے مجھ سے اک آن بھی
اور آگے بحر کی نغمگی کے ساتھ الفاظ کی شستگی اور افکار کی شائستگی ،جذبات کی وارفتگی ملاحظہ فرمائیں۔
تمہاری آمد لیے ہوے ہے نویدِ صبح بہار ساقی
گلوں کے لب پر ہے مسکراہٹ غریق ِ شادی ہیں خار ساقی
ہے شانِ محبوبیت نمایاں تری ادائوں سے مثلِ خاور
ٖترا تبسم فروغ ہستی تو نازش گل عذار ساقی
لرز اٹھے تار عنکبوتی کے مثل ایوان باطلوں کے
تری صدا ہے قسم خدا کی صدائے پروردگار ساقی
تمہارے تلو ئوں پہ جب نچھاور ہے حسن اخترؔ جمال خاور
تم اور تشبیہ آفتابی ہو کیسے پھر خوشگوار ساقی
مزید آگے بحر کی خاص ہیئت میں مضمون کی ترنم انگیزیاں ملاحظہ فرمائیں۔
ذکر جہاں میں پڑ کر کیوں ضائع لمحات کریں
آئو پڑھیں و الشمس کی سورت روئے نبی کی بات کریں
اہل عشق گذر جاتے ہیں دار و نار کی منزل سے
اہل خرد کے بس میں نہیں ہے اہل عشق کی مات کریں
یہ لذات کی دنیا کب تک اسکی اسیری ٹھیک نہیں
آئو سمجھ سے کام لیں اختر ؔخود کو طالبِ ذات کریں
اسی قبیل کی ایک اور بحر کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
صبا بصد شانِ دلربائی ثنائے رب گنگنا رہی ہے
کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مدینے سے آرہی ہے
مجھے مبارک یہ ناتوانی سہارا دینے وہ اٹھ کے آئے
خرد ہے حیراں کہ اک توانا کو توانی اٹھا رہی ہے
مندرجہ ذیل شعر میں ’سیاہی ‘ کی مختلف الجہت تکرار نے شعر کے حسن کو دوبالا کردیاہے۔
سیاہ زلفیں سیاہ کملی سیاہ بختوں کو ہو مبارک
سیاہ بختی کو رحم والی سیاہی کیسی چھپا رہی ہے
اور مقطع میں حسب ِذوق مسلسل اپنے تخلص کے بامعنی استعمال سے اپنی قادر الکلامی کا مظاہرہ اور بزم ِ فکر کی جگمگاہٹ کا راز افشاں کرتے ہوے رقم طراز ہیں۔
نگاہِ ادراک میں دیارِنبی کے جلوے سما گئے ہیں
نہ پوچھو اخترؔہماری بزم ِخیال کیوں جگمگا رہی ہے
حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے شاعری بحیثیت فن بھلے ہی نہ سیکھی ہو لیکن ان کی شاعری میں فنکارانہ نقش و نگار اپنت حسن و جمال کے ساتھ زیبد ئہ سخن ہیں۔اصول فن شاعری میں بانیانِ فن سخن نے کچھ دستور وضع کیے ہیں جنہیں ’’صنعات فن‘‘ کہا جاتا ہے ۔ آئیے اب ہم صنعات فن کے آئینے میں حضرت اخترؔکچھوچھوی کی نعتیہ شاعری کے خد و خال دیکھتے ہیں۔
صنعتِ استعارہ:
ایسی صنعت کو کہتے ہیں جس مین شاعر اپنے کلام کا حقیقی معنی ترک کرکے اس کو مجازی معنی میں استعمال کرے۔حضرت اخترؔکچھوچھوی کے قلم نے اس صنعت کو اپنی فکر کی جولان گاہ بنا کر اس صنعت میں کتاب بھر شعر لکھے ہیں ۔ نمونے کے طور پر پانچ اشعار پیش کیے جاتے ہیں ، خط کشیدہ الفاظ ’صنعت استعارہ ‘سے متعلق ہیں ۔
ساقی کوثر مرا جب میر میخانہ بنا
چاند و سورج خم بنے ہر نجم پیمانہ بنا
صد شکر اے وفور مسرت کے آنسو ئوں
دامانِ عشق غیرت ہفت آسما ں ہوا
ہے شان محبوبیت نمایاں تری ادائوں سے مثل خاور
ترا تبسم فروغ ہستی تو نازش گل عذار ساقی
سبق دیتی ہے اے اختر ؔ یہی شان اویسانہ
شہید نرگس ِ رعنائے فرقت ہو تو کیا کہنا
اور اس مقطع میں دیکھیں تخلص خود ایک استعارہ بن کر ظاہر ہورہا ہے
پتہ دیتی ہے اس خورشید کا میری درخشانی
میں اختر ؔہوں نہیں یہ روشنی ہے روشنی میری
صنعتِ تشبیہ:
ایک شئے کو دوسرے کے مثل قرار دینا یا اس کی صفت میں شریک ٹھہرانا ۔
اس صنعت میں حضرت اخترؔکچھوچھوی کے قلم کے خرام سخن کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں خط کشیدہ الفاظ مذکورہ صنعت کی تعریف میں آتے ہیں ۔
میں نے سمجھا عرش اعظم ہی اتر کر آگیا
جب تمہار ا گنبد خضری نظر آنے لگا
اس روئے والضحی کی صفاکچھ نہ پوچھیے
آئینۂ جمال خدا کچھ نہ پوچھیے
رات پہ ان کی زلف کے سائے دن عارض کے صدقے لائے
کیوں نہ پھر ان کے دیوانے یاد انہیں دن رات کریں
علاوہ ازیں دیگر صناعت فن کی مثلاً ’’صنعت تجاہل عارفانہ ‘‘ ، ’’صنعت حسن تعلیل ‘‘، ’’صنعت تلمیح ‘‘ ، ’’ صنعت تضاد ‘‘، ’’صنعت اقتباس‘‘ ، ’’ صنعت مرا ۃ النظیر ‘‘ ، ’’صنعت لف و نشر‘‘، ’’صنعت تشبیب ‘‘، صنعت حسن طلب‘‘ ، ’’صنعت ترجیع بند ‘‘، ’’صنعت سیاق الاعداد ‘‘، ’’صنعت تجنیس کامل ‘‘ حضرت اخترؔکچھوچھوی کے یہاں بے تکلف استعمال ہوے ہیں ۔ صنعتوں کے بیان سے میرا مقصود شاید آپ کے شعور پر واضح ہوگیا ہوگا ۔ لیکن میں اس کے اظہار کو ’’قدر دانی کانعرہ ‘‘ سمجھتا ہوں ۔مذ کورہ صنعتوں کے تذکرے سے یہ ثاببت ہوتا ہے کہ حضرت اخترؔکچھوچھوی کی نعتیہ شاعری ’پی ایچ ڈی ‘ کے مقالے کا عنوان بن گئی ہے۔
حضرت اخترؔکچھوچھوی اسم بامسمّی ہی نہیں تخلص با مسمّی بھی ہیں ،آپ کو اپنے اپنے تخلص کے معنی خیز استعمال پر خاص ملکہ حاصل ہے ،شاید یہ طبیعت کی عارفانہ شوخی بھی ہو ۔ بہر کیف اس مزاج میں رنگے ہوے کچھ مقطعے ملاحظہ فرما ئیں ۔
پتہ دیتی ہے اس خورشید کا میری درخشانی
میں اخترؔ ہوں نہیں یہ روشنی ہے روشنی میری
تمہارے تلوئوں پہ جب نچھا ور ہے حسن اخترؔ جمال خاور
تو اور تشبیہ آفتابی ہو کیسے پھر خو ش گوار ساقی
نگاہ ادراک میں دیار نبی کے جلوے سماگئے ہیں
نہ پوچھو اختر ؔ ہماری بزم خیال کیوں جگمگا رہی ہے
بھلا کیا تاب لائے گی نگاہ حضرت موسی
رخ انور سے وہ اختر ؔاگر پردہ ہٹائینگے
حضرت اخترؔکچھوچھوی کی شاعری میں ایک صوفی باصفا ، عارف کامل ، پیر ہدی ، اپنے وقت کا رومی و غزالی الفاظ کی دستار باندھے ہوے ہے جو اپنے سامعین کو کبھی تصوف کا درس دیتا ہے تو کبھی معرفت کا سبق پڑھا تا ہے ، کبھی گم شدگانِ حق کو راہ ہدایت سے جوڑ دیتا ہے تو کبھی عقل و خرد کی گتھیاں سلجھاتاہے تو کبھی احیائے عشق و وفا کے دبستان کی نگرانی کرتا ہے۔
حضرت اخترؔکچھوچھوی کا قلم اپنی تمام تر عالمانہ و عارفانہ، محدثانہ ومفتیانہ اور قلندرانہ جاہ و حشمت کے ساتھ ساتھ جدید شاعری کے ذوق کو اور اس کے تقاضے کو بھی پورا کرتا ہے۔
حضور تاج الصالحین حضرت سید شاہ جمیل الدین اشرفی (سابق سجادہ بارگاہ اشرفی چمن حیدرآباد)کی جدید نعتیہ شاعری کے مطالعے سے میری فکر نے ترقی کی سیڑھیاں چڑھنا سیکھا ہے۔اپنے ذوق جدید کے اصرار شدید کو پور اکرتے ہوے حضرت اخترؔ کی تجلیات سے سخن کی کچھ نئی شعاعیں آپ کے ظرف کے حوالے کئے جاتے ہیں۔
سبق دیتی ہے اے اخترؔ یہی شان اویسانہ
شہید نرگس رعنائے فرقت ہو تو کیا کہنا
حضرت اخترؔکچھوچھوی کی یہ ترکیب ’شان اویسانہ ‘ پڑھ کر جی تو یہی چاہتا ہے کہ کہ ایک قلم کی مکمل سیاہی اس ترکیب لے لیے داد لکھی جائے ، ساتھ ہی آپ کے سخن کا رنگ جمیلی حضرت جمیل الدین اشرفی اس بے مثال شعر کے بے مثال مضمون کی بے مثال ترتیب و ترکیب کو یاد دلاتا ہے جو ہندوستان کے منجملہ’ عاشقانِ دیوانہ باش ‘کی نمائندگی کرتا ہے، فرما تے ہیں :
دیوانگی کو جلوئہ ظاہر کا کیا شعور
ویسے اویسی پن میں زیارت معاف ہے
آمدم بر سر مطلب حضرت اخترؔکچھوچھوی کی شاعری کا نیا پن ملاحظہ فرمائیں۔
فراق محمد میں آنسو بہاکر
مجھے آگیا دائمی مسکرانا
ذرا چھیڑ دیں نغمئہ نعت احمد
مری زندگی کے ستاروں سے کہدو
یہ کون آیا یہ کون آیا مرا فریاد رس بن کر
دھواں فریاد بن کر اٹھ رہا ہے دل گلخن سے
وہ کچھ اس طرح آئے سامنے یکبارگی اخترؔ
نکل بھاگی مرے پیروں کے نیچے سے زمیں سن سے
نظر کا چار ہونا تھا نگاہ ناز سے اخترؔ
رگوں میں برق سی دوڑی طبیعت ہوگئی جھن سے
دل میں بسے ہیں شاہ مدینہ معرفت اللہ کا زینہ
گود میں منظر گنبد خضری رکھ کر دل کیوں نہ اترائے
ایسے بہت سے اشعار تجلیات سخن میں موجود ہیں ، طوالت کے خوف سے بس انہیں اشعار پر اکتفا کیا جاتاہے۔
حضرت اخترؔکچھوچھوی نے سخت جان قافیہ وردیف میں بھی اپنے قلم کی نزاکت اور فکر کی طراوت بانداز صباحت دکھائی ہے۔ملاحظہ فرمائیں ’احتیاط ‘ کی ردیف میں حضرت اخترؔ کا قلم کتنا برق رفتا ر ہے ۔
اس دیار قدس میں لازم ہے اے دل احتیاط
بے ادب ہیں کر نہیں پاتے جو غافل احتیاط
جی میں آتا ہے لپٹ جائوں مزار پاک سے
کیا کروں ہے مرے ارمانوں کی قاتل احتیاط
ان کے دامن تک پہونچ جائیں نہ چھینٹیں خون کی
ہے تڑپنے میں بھی لازم مرغ بسمل احتیاط
نام پر توحید کے انکار تعظیم رسول !
کیا غضب ہے کفر کو کہتے ہیں جاہل احتیاط
اس ادب نا آشنا ماحول میں اخترؔکہیں
رہ نہ جائے ہو کے مثل حرف باطل احتیاط
ہر زمین زادے کو ستاروں کی جستجو اور آسمانی بلندیوں کا حصولی اشتیاق ہو تا ہے ،حضرت اخترؔکچھوچھوی کے ہاں یہ جستجو اور اشتیاق کچھ عارفانہ اور متصوفانہ رنگ میں جلوہ گر ہے ، ملاحظہ فرمائیں۔
ہوں جلوہ فگن یاد محمد کے ستارے
میںوہ فلک دیدئہ تر ڈھونڈ رہا ہوں
اور حضرت اخترؔ کی وہ تمنا بھی ملاحظہ ہو جو دل اختر کو مدنی اجالوں کا دار الحکومت بناناچاہتی ہے ۔
وہی دل ہاں وہی یعنی اسیر کا گل مشکیں
مرے آقا ترا دارالحکومت ہو تو کیا کہنا
حضرت اخترؔکچھوچھوی کے تصورات کی فضا بھی بڑی گل صفت اور گلاب مزاج واقع ہوی ہے ، ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں ؎
غالبًا ان کے زلفوں کو چھو آئی ہے
کر رہی ہے صبا عطر افشانیاں
اور حضرت اخترؔکچھوچھوی جب ملت ابراہیمی کی زبوں حالی کا افسانہ زائر حرم رسول کو اپناایلچی بنا کر پیش کرتے ہیں تو احساسات مرثیہ خواں نظر آتے ہیںاور الفاظ کی بے چارگی کی سیاہی پہن لیتے ہیں اور خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے جذبات سے ہم آہنگ ہوکر’’ اے خاصئہ خاصان ِ رسل وقت دعاء ہے‘‘ کا جدید نغمہ الانپتے ہیںاور اشکوں کی روشنی سے پلکوں کا قلم قرطاس ِدل پر فریاد رقم کرتا ہے
مدینے جانے والے درد مندوں کی صدا سن لے
غریبوں کی حکایت بے کسوں کی التجا سن لے
پکڑ کر روضئہ اقدس کی جا لی چوم کر کہنا
دل فرقت زدہ کی اے حبیب کبریا سن لے
عناد ل ما ئل شور و فغاں ہیں گل ہیں پژمردہ
خدا را جور دوراں اے زمانے کے شہا سن لے
تمہارے ہجر میں پر درد میری ز ندگانی ہے
براہیمی چمن کے عندلیب خوشنو ا سن لے
اور اپنے سنہرے ماضی کے ماتھے پر لگے داغ کا نغمئہ افسوس اس طرح سنانے کو کہتے ہیں
وہ مسلم مارتا تھا ٹھوکریں جو تخت شاہی پر
وہ مارا مارا پھرتا ہے مثال بے نو ا سن لے
المختصر حضرت اخترؔکچھوچھوی کا مجموعہ نہ صرف تجلیات سخن ہے بلکہ’’ تجلیات اختر‘‘ بھی۔۔۔۔اور تجلیات اختر کا چاند تارے ،زمیں سب طواف کرتے ہیں اور حضرت اخترؔ بھی کچھ شان بے نیازی اور خاصی ادائے دلربانہ کے ساتھ اختری تیورمیں خامہ فرسا ہیں۔
جو بات سچ ہے عیاں اس کو صاف صاف کرے
مرے مقام کی ر فعت کا اعتراف کرے
دل و نظر میں خدا کا حبیب رہتاہے
کہو زمانے سے آکر مرا طواف کرے
آخر مضموں اس بات کا ذکر ضروری سممجھتا ہوں کی یہ میرے قلم کا پہلا تجرباتی مقالہ ہے جس کو میں نے ’’شیخ الاسلام سیمینار بلگام ‘‘ کے لئے باصرار محب قدر منزلت حافظ پیر نواز اشرفی خلیفہ حضور شیخ الاسلام و جانشین مولانا صوفی اقبال اشرفی علیہ الرحمہ پونہ لکھا تھا ، جو اس وقت میری اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے شائع نہ ہوسکا ۔ اس مرتبہ مدنی فائونڈیشن ہبلی کی جانب سے حضور شیخ الاسلام کی حیات و خدمات پر جاری ہونے والے ضخیم مجلے کے لیے روانہ کر رہاہوں ۔ قارئین سے التجا ہے کہ مضمون کی خوبیوں کو بزرگوں کے کرم سے منسوب کریں اور خامیوں کو میری نا اہلی کا نتیجہ سمجھیں۔
0 Comments: