اختر طارق اشرفی،کشمیر
الغوثیہ رضویہ اسلامی لائبریری لمبر بار ہ مولہ کشمیر
حضور شیخ الاسلام : امامِ علم و فن
سرزمینِ کچھوچھہ شریف برصغیر ہند و پاک میں وہ مردم خیز خطہ ہے جہاں ہر فن کے متبحر و مقتدر علمائےکرام ، مشائخ عظام اور اپنے وقت کے امام علم و فن پیدا ہوے ۔ ان قدرآور ہستیوں میںسے ایک عظیم المرتبت ذات گرامی حضور شیخ الاسلام سید محمد مدنی میان حفظہ اللہ بھی ہیں ۔آپ ایک متبحر عالم دین ، بلند خیال مفکر،جودت رقم مصنف،علومِ عقلیہ ونقلیہ کے ماہر ایک با کما ل ادیب و شاعر ہیں۔حضرت سید محمد مدنی میاںاس عظیم ہستی کا نام گرامی وقار ہے جس نے بچپن سے آج تک اپنی ساری زندگی خدمت دین اور مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت میں گزاری۔کوئی کام نام و نمود یا مفاد دنیوی کے لے ٔ نہیں بلکہ ہمیشہ پرچم اسلام کی سر بلندی اور خدا و رسول صلی ا للہ علیہ وسلم کی رضاوخوشنودی ہی دلی تمنا رہی۔
بلا مبالغہ حضور شیخ الاسلام اس روشن چراغ کا نام ہے جس نے ہمیشہ اندھیروں کوچمکایا،گلشنِ سمناں کے اس معطرپھول کانام ہے کہ جس نے ہمیشہ نفرتوں سے بدبو دار ماحول کو معطر کیا۔اس خطیبِ ذیشان کا نام ہے جس نے مردہ دلوں کواپنی شیریں بیانی سے جلا بخشی۔اس فقیہ کا نام ہے جن کے فتووں پر دار الافتاء ناز کرے۔اس قائد ِقوم وملت کا نام ہے جس نے سادہ لوح مسلمانوں کو دشمنوں کی شاطرچالوں سے واقف کرایا۔اس نورانی صورت کا نام جس کو دیکھ کر کفار بلا جھجک حلقہ بگوش اسلام ہوں۔ اس شیخِ طریقت کا نام ہے جس نے لاکھوں مسلمانوں کا رشتہ سرکارِ ابد قررﷺسے جوڑا۔الغرض سید محمد مدنی میاں اس عبقری الشرق کا نا م ہے جوہر فن کا امام ٹھہرا۔
میرے اس موقف کی تائید حضرت کی تصانیف اور آپ کے علمی صلاحیت سے ہوتی ہے۔علم تفسیر ہو یا علم حدیث ،علم فقہ ہو یا علم کلام ان تمام علوم و فنون پر آپ مہارت تامہ رکھتے ہیں، اس کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔
حضور شیخ الاسلام کے اوصاف ِ جمیلہ میں ایک وصفِ ذیشان یہ بھی ہے کہ آپ عظیم مصنف بھی ہیں۔خانقاہی ذمہ داریوں کو نبھا کر مختلف مدارس و مکاتب کی سربراہی فرماکر، تبلیغِ دین کے لے ٔ مختلف جگہوں کے اسفار فرمانے کے باوجود آپ دین و سنیت کی خدمت لوح و قلم سے بھی فرماتے ہیں ۔آپ کے مبارک علم سے درجنوں کتابیں منصۂ شہود پرجلوہ بار ہو چکی ہیں۔جن میں اکثر علمی حلقوں میں مقبول اور اصحابِ علم ودانش سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
حضور شیخ الاسلام اورعلم تفسیر:
حضور شیخ الاسلام کا علم تفسیر جاننے کے لئے تفسیرِ اشرفی کا مطالعہ ضروری ہے۔آپ نےنہایت سادہ ، متوسط ، با معنیٰ انداز میں قرآن کریم کی تفسیر فرمائی ہے۔ چنا نچہ آپ خود ارشاد فرماتے ہیں:
’’ مقصد صرف قرآن کریم کی تفہیم ہے لہٰذا اسقدر اختصار نہیں کہ بات واضح نہ ہو سکے اور اس درجہ تفصیل نہیں کہ آیات کو سمجھنے کے لیے تعلق سے جسکی ضرورت نہیں‘‘۔
المختصر! میرا یہ تفسیری حاشیہ در اصل معتبر کتبِ تفاسیر کا میرا حاصل مطالعہ ہے جسکے گہرہائے آبدار کو میں نے مخدو م الملت کے اسلوب نگارش کی پیروی کرتے ہوئے ترجمہ معارف القرآن کی لڑیوں میں پرودیا‘‘۔(تفسیر اشرفی،جلد اول)
پروفیسر عبد الحمید اکبر( گلبرگہ یونیورسٹی )اپنی تحقیقات کو پیش کرتے ہوے ٔ رقمطراز ہیں
’’ ان مذکورہ حقائق کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور مدنی میاں قبلہ کے جہاں مختلف علوم و فنون اور تفسیر کی امہات الکتب کا مطالعہ فرمایاوہیں پر اصول فقہ،اصولِ حدیث کے ساتھ اصولِ تفسیرمیںشاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی معروف و متداول تصنیف ’’الفوز الکبیرفی اصول التفسیر‘‘ جیسی کتابیں یقیناً مفسرِ محترم کے زیرِ مطالعہ رہی ہیں‘‘۔(مجلہ باشیبان جنوری 2015،شیخ الاسلام شخص و عکس نمبر)
پروفیسر مجید بیداررقمطراز ہیں:
’’تفسیر اشرفی کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی حفظہ اللہ نے اس تفسیر کے دوران محدث اعظم حضرت علامہ سید محمد اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کے رویے کو استعمال کرتے ہوے اپنے اسلوب کی حقانیت کو نمایاں کیا ہے‘‘۔ (مجلہ باشیبان جنوری 2015،شیخ الاسلام شخص و عکس نمبر)
حضور شیخ الاسلام اورعلمِ حدیث :
حضور شیخ الاسلام کا علم حدیث میں مہارتِ تامہ کا مشاہد ہ کرنا ہے تو آپ کی تصانیف کا مطالعہ کرکے اسکا اندازہ ہر ذی علم کر سکتا ہے۔ہر کتاب میں احادیث و آثار کی تابشیں نجوم و کواکب کی طرح درخشاں و تابندہ ہیں۔جس کا ثبوت ’’الاربعین الاشرفی ‘‘کے مقدمے کے اندر علامہ سید فخر الدین علوی صاحب رقمطراز ہیں :’’عشقِ نبوی ﷺ آپ کو ورثہ میں ملا ہے یہی وجہ ہے کہ فرامین رسالت ﷺ کی تشریح و توجیہ کے لئے تفہیم الحدیث جیسا سرمایہ امت مسلمہ کو عطا فرمایا جس کی سطروں سے عشق رسول ﷺ کے انوار پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔پھر فوائدو مسائل میں بے شمار جزئیات کا استنباط کر کے گم کردہ راہوں کو ایک حسین منزل یعنی ارشا د رسول کی طرف دعوت دیتے ہوئےنظر آتے ہیں ۔جہاں صحراے ٔ حیات میں بےیار و مددگار جادہ پیمانی کر نے والے مسافرشجرِ سایہ دار کے نیچے محسوس کر رہے ہیں ۔آپ بہت ہی حکیمانہ انداز میںامتِ مسلمہ کو رسول اللہ ﷺ اور محبوبان ِ بارگاہ سے وابستگی کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں ۔اور اس دعوت کے لے ٔ مختلف لب و لہجہ میں ذہنِ انسانی سے خطاب فرماہیں۔احادیث کی شرح کرتے وقت فوائد و مسائل کا کوئی گوشہ تشنئہ طلب نہیں رکھا۔ آپ کی تشریحات سے نہ صرف آپ کا عالمانہ وقارظاہر ہوتا ہے بلکہ عارفانہ تشریحات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ آپ عارف باللہ ہیں‘‘۔
معروف محقق عرفان محی الدین قادری ربانی حضور شیخ الاسلام کی شرح حدیث کے متعلق رقمطراز ہیں:
’’حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم القدسیہ نے جن احادیث کی شرح فرمائی اس کی نظیر کم ملتی ہے شرحِ حدیث میں الفاظِ معانی ، معقولات و منقولات کی جھلک عالمانہ وصوفیانہ کلمات ، محققانہ و فاضلانہ اسلوب ، حدیثی فوائد ، عوام الناس کی اصلاح،عقل و نفس کی بحث سیرفرمائی‘‘ ( مجلہ باشیبان شیخ الاسلام شخص و عکس نمبر جنوری2015)
حضور شیخ الاسلام اور علم فقہ:
علم فقہ میں آ پ کی مہارت کا اندازہ آپ کی تصنیف ’’کتابت نسواں ‘‘ اور ’’ویڈیو اور ٹی وی کا شرعی استعمال‘‘ سے ہو تا ہے۔جس میں آپ نے علم فقہ و اصول فقہ کی موتیاں بکھیریں ہیں۔فقہی مسائل میں اور جدید مسائل کے استنباط میں یہ دونوں تصا نیف آپ کی فقہی فن کا بین ثبوت ہے جسے مفتیان کرام بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ رد افکار مودود ی پر،نظریئہ ختم نبوت پر آ پ کی تصانیف آپ کے علم کلام و علم منطق میں مہارت کی دلیل ہے۔
حضو ر شیخ الاسلام اور علم ادب:
حضور شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی حفظہٗ جہاں ایک وسیع النظر محدث، بلیغ البیان خطیب،رمز آشنا مفسر، آبروے ٔ مسند ِافتاء ہیں وہیں ایک سخن شناس نعت گو شاعر بھی ہیں ۔آپ کے کلام میں ہر ہر حرف گلابِ گلشن کی طرح اپنی خوشبوئیں لٹارہے ہیں۔کہں سرور ِکائنات علیہ التحیۃ والثنا ء کی سیرتِ طیبہ کے مختلف گوشے بیان کئےتو کہیں عشقِ رسول ﷺ کے پھولوں سے ویران وادیوں کو آباد کیا ہے۔ ہر کلام میں عشق ِمصطفی اوررنگ ِتصوف نمایاں ہے۔
حضور شیخ لاسلام زمانۂ طالبِ علمی سے ہی شعر و شاوری میں شغف رکھتے تھے۔ اس حقیقت کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے جسکو ڈاکٹر شکیل اعظمی اپنی کتاب ــ ’’شعورِ نظر‘‘ میں یوں رقم کرتے ہیں: ’’ایک اور دلچسپ واقعہ بیان کروںمولوی قمر الزماں ( مفکرِ اسلام علامہ قمر الزماں اعظمی جنرل سکریٹری ورلڈ اسلامک مشن لندن)اشرفیہ میں، مین گیٹ کے سامنے پوربی جانب جہاں دیوار گھڑی آویزاںرہتی تھی، اس کے پاس ایک ستون تھاوہیں پر ایک تخت بچھا رہتا تھا جس پر عموماً مولانا علی احمد صاحب مرحوم بیٹھ کر طلبہ کی نگرانی فرمایا کرتے تھے۔ اسی تخت پر بیٹھ کر گرد و پیش سے بے نیاز ہو کر فکر سخن میں محو تھے۔ میں نے دیکھ کر ان کی کیفیت بھانپ لی تھی،قریب جاکر ستون کے آڑ سے میں نے ان کے لکھے ہوے ٔ اشعار پڑھکر ذہن میں محفوظ کر لئے تھے، میں نے اپنے خاص احباب یعنی مولانا سید مدنی میاں ( شیخ الاسلام پیرِ طریقت حضرت سید محمد مدنی میاں صاحب قبلہ اخترؔ کچھوچھوی) اور مولانا نعمان خان صاحب اثرؔ دیوگامی( سابق پرنسپل الجامعۃ الاسلامیہ رونا ہی فیض آباد)سے اس وقعے کا ذکر کیا آپس میں یہ طے ہوا کہ آج شام کو بالائی چھت پر حسب معمول جب ہم لوگ ہوںگے تو ایک دوسرے سے تازہ اشعار سنانے کی فرمائش کریںگے، آپ مولوی قمرالزماں کے وہی اشعار سنائیںگے جو انہوں نے کہے ہیںپھر دیکھیے کتنا مزہ آتا ہے۔ چنانچہ پروگرام کے مطابق ہم لوگ چھت پر اکٹھا ہوے تو اشعار سنانے کی فرمائش کی گی ٔ پہلے سید مدنی میاں نے اپنے کچھ اشعار سنائے پھر مولوی نعمان صاحب نے اور جب میری باری آئی تو میں نے خصوصیت سے قمرالزماںصاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ان ہی کے کہے ہوے تازہ اشعار سنائے تو اس وقت ان کی کیفیت عجیب و غریب ہوگیٔ‘‘۔
حضرت کی نعتیہ شاعری کمال کی ہے ۔نعت گوئی اگر چہ سنتِ صحابہ اور باعث ِ برکت ہے مگر ساتھ ساتھ بڑی نازک بھی ہے بقول ڈاکٹر شکیل اعظمی ’’ نعت پاک میں فنّی قیود کے ساتھ شرعی نزاکتوں کواور قدروں کا برتنا آسان نہیں اس منزل سے سلامتی کے ساتھ وہی گزر سکتا ہے جو فن پر پوری قدرت رکھنے کے ساتھ شرعی اسرارور موزسے بھی کما حقہ آشنا ہو‘‘۔
حضو ر شیخ الاسلام کی شاعری کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو آ پ عشقِ رسول ﷺ میں غرق نظر آتے ہیں۔ مثلاً اس شعر کو دیکھ لیجیے
جو میری جان سے زیادہ قریب ہیں مجھ سے
انہیں کو ڈھوندڑرہا ہوں مجھے ہوا کیا ہے
اس شعر کو اگر بغور پڑھا جائے تو یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ آپ عشقِ رسول ﷺ میں اسقدر ڈوبے ہیں کہ خود کو بھول گئے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جسے راہِ سلوک میں ’’مقامِ فنا‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور قرآن کریم کی آیت ’’ وَتَبَتِّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً‘‘ کی عملی مثال ہے۔ میری اگر چہ علمی و سماجی حیثیت نہیں ہے مگر اس بات سے شاید ہر ذی علم متفق ہوگا کہ کیا یہی وہ مقام مقام ِفنا ہے جہاں سے تاجِ ولایت کی تاج پوشی ہوتی ہے۔
مختلف علوم و فنون پر حضور شیخ الاسلام کے علمی وصف کو بیا ن کرنے کے لیے،اس پر تبصرہ کرنے کے لیے دفتر درکارہیں۔ کاغذبھی اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کرنے لگتا ہے۔ اس لیے گرامی قدر مولانا محمد مسعود احمد سہروردی اشرفی کی اس بات پرہی اکتفا کرتا ہوںکہ: ’’ وہ کون سی نگاہیں ہو تی ہیں جن سے تقدیریں بدل جاتی ہیں،وہ کونسا حسن ہوتا ہے جو ہمیشہ آنکھوں میں سماجاتا ہے، وہ کونسا اخلاق ہو تا ہے جو دل میں ہمیشہ گھر کرلیتا ہے ،وہ کونسا کردار ہو تا ہے جو انسان کو ہمیشہ کےلیے اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے،وہ کلام کونسا ہوتا ہے جوا نسان سنتے ہی کلام والے پر فریفتہ ہو تا ہے،وہ شان والا کون ہوتا ہے جس کی غلامی شاہی سے افضل ہوتی ہے اور وہ کونسا چہرہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے، ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیےحضور شیخ الاسلام کی دست بوسی و قدم بوسی ضروری ہے‘‘۔
حرفِ آخر و اظہار حقیقت:
حضور شیخ الاسلام کی غیر معمولی شخصیت کے یہ چند مناظر محض تیمناً ہدیہ قارئین و ناظرین کرنے کی جسارت کی ورنہ حق یہ ہے کہ آپ کی ذکاوت و فراست ور فکری گہرائی و گیرائی کا صحیح اندازہ لگانا ، آپ کے تدبروتفکر پر مبنی واقعات کا احاطہ کرنا، آپ کی علمی صلاحیتوں کو کما حقہٗ اجاگر کرنا مجھ جیسے کم فہم و بے بضاعت انسان کی بس کی بات نہیں۔
گماںمیر کہ یہ پایاں رسید کارمغاں
ہزار بادۂ نا خوردہ در رگ تاک است
0 Comments: