شیخ الاسلام ایک ہمہ جہت شخصیت
مفتی ارمان علی القادری صاحب (دارلعلوم اہل سنت، جبل پور)
علم و حکمت کا آفتاب درخشاں ،شرف و کمال کا نیر تاباں ،اخلاص و وفا کا پیکر دلنواز اور تحقیق و تدقیق کے کوہ ہمالہ کا نام شیخ الاسلام والمسلمین ،رئیس المحققین ،سید المفسرین حضرت علامہ مولانا مفتی الحاج الشاہ السید محمد مدنی اشرف الاشرفی الجیلانی کچھوچھوی مد ظلہ العالی و النورانی ہے ۔ ان کا اسم گرامی سن کر ذہن و فکر کے آ ئینے میں ایک ایسی عظیم و جلیل اور عبقری شخصیت کی تصویر منعکس ہوتی ہے ۔
جو اپنے علمی اور تحقیقی کارناموں کی بنیاد پر اپنے زمانے کے علما ء میں اپنی مثال آپ ہیں ، جن کی تحقیقی و تنقیدی تحریرات و مقالات کو پڑھ سن کر بڑے بڑے محققین ِروزگار اور علماء و فضلاء و دانشوران انگشت بدنداں ہیں ،جن کو تفسیرو حدیث ،فقہ و افتاء، منطق و فلسفہ ، فصاحت و بلاغت اور شعر و ادب وغیرہ درجنوں علوم و فنون پر ماہرانہ دسترس حاصل ہے ،جو بے شمار لا ینحل مسائل کا حل پیش کرکے بارہا ارباب علم و دانش سے خراج تحسین و آفریں وصول کر چکا ہے۔جن کی تصنیفات و تالیفات سے علم و فضل ،فکر و فلسفہ اور تدبر و دانائی کے آبشار پھوٹتے ہیں،جو اپنے اسلاف کی نشانی اور اپنے اخلاف کا مقتدا بھی ہے ۔ قدرت نے انہیں جس طرح تحقیق و تدقیق کے لیے فکر و فہمِ مستقیم عطا فرمایا ہے اسی طرح زبان و ادب کے لیے طبع ِصحیح اور ذوقِ سلیم سے بھی نوازا ہے اسی لیے انکی علمی تحقیق ہو یا فنی تدقیق ان میں قارئین کو زبان کے چمکتے غنچے اور بیان کے کھلتے گلاب ملتے ہیں ۔ آپ پوری تفسیر اشرفی پڑھتے چلے جائیے زبان و بیان کے حسن و جما ل میں چنے ہوے الفاظ ،عمدہ تشبیہات و استعارات، شگفتہ بندشیں،شستہ تراکیب،سبک اور حسین جملے فن تفسیر میں چار چاند لگارہے ہیں۔ میر انیس نے کہا ہے، ؎
گلدستۂ معنی کو نئے ڈ ھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں
حضرت شیخ الاسلام اپنے سحر طراز قلم اور علم وآگہی و بصیرت و معرفت کی سیا ہی سے میدان تحقیق و تدقیق میںجہان نو پیدا کرتے نظر آتے ہیں ، نفع و ضرر سے بے نیاز حکمت و دانائی کے چراغ روشن کرتے دکھائی دیتے ہیں ،فکر و فن کے گیسو سنوارنے میں اپنی زندگی تجتے نظر آ تے ہیں جبھی تو ان کے افکار و خیالات کی نکہتیں علمی فضائوں میں بسی ہوی ہیں،ان کی نکتہ رسی کی کہکشائوں سے آسمان علم و ادب تابندہ ہے، انکی دیدہ وری کے فیضان سے فکر و فن کی انجمن آباد ہے۔ الغرض تقریر میں محدث اعظم ہند کی تقریری جھلک ،تفسیر میں امام جلال الدین سیوطی و محلی کی تفسیری چمک ،تحقیق میں محقق علی الاطلاق علامہ شامی کی تحقیقی مہک ، حدیث میں عبد الحق محد ث دہلوی کی حدیثی دمک ،فقہ میں امام اعظم و امام ابو یوسف کی کی فقہی دھمک،شعر و شاعری میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی نغمہ سرائی کی چہک ،تصوف میں امام غزالی کی استغراق و محویت اور منطق و فلسفہ میں امام رازی کی بصارت و بصیرت نظر آ تی ہے اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ٓآپ کو صرف نسبی سیادت ہی نہیں بلکہ اپنے زمانے میں تقریری ، تحریری ، تفسیری،تحقیقی،فقہی او ر منطقی و فلسفی ہر طرح کی سیا دت حاصل ہے ۔یہ کوئی افسانہ نگاری نہیں بلکہ حقیقت بیا نی ہے اور اس پر آپ کی تصنیفات و تالیفات با لخصوص’’ سید التفاسیر المعروف تفسیر اشرفی‘‘ شاہد عدل ہے۔ ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدا ئے بخشندہ
اگر کسی بندئہ خدا کو میرے اس مضمون کی صداقت تک رسائی مطلوب و مقصود ہو تو انہیں چاہیے کہ شیخ الاسلام کے قلم اعجاز رقم کی خو بصورت یادگا ر تفسیر اشرفی،الاربعین الاشرفی،محبت رسول روح ایمان، (حدیث محبت) تعلیم دین و تصدیق جبرئیل امین، فریضئہ دعوت و تبلیغ ،انما الاعمال با لنیات ، دین کامل، نظر یئہ ختم نبوت اور تحذیر الناس ،اسلام کا نظریئہ عبادت اور مودودی صاحب ،اسلام کا تصور الٰہ اور مودودی صاحب، دین اور اقا مت دین، مقالات شیخ الاسلام ،تجلیات سخن (حمد و نعت و منقبت کا مجموعہ)وغیرہ کا منصفانہ ذہن و فکر سے مطالعہ کرے ان شاء اللہ وہ شخص حضرت کے فضل و کمال ، علم و عرفان ،شعور و ادراک ، درک و کمال، عظمت و اہمیت ،تدبر و بصیر ت، خیا لات و رجحانا ت ، معاملہ فہمی و مسقبل بینی اور رہنمائی ومسیحا نفسی کا معترف ہوے بغیر نہیں رہ سکتا نیز وہ یہ بھی محسوس کرے گا کہ حضرت اپنوں کے ساتھ رفق و نرمی ، ملاطنت و مہربانی اور تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آ تے ہیں تو اعدائے دین کے ساتھ شد و مد ،رد و طرد اور شدت و غلظت کے ساتھ ،کیونکہ محبت خدا و رسول بے عداوت دشمنان آں صورت نہ بندد ۔و تولا بے تبرا نیست ممکن دریں جا
رب کعبہ کی بارگاہ بے نیاز میں نیاز مند بندہ دعاء گو ہے کہ حضرت کی حیات ظاہری کے ساتھ ان اکا سایئہ علم و فن ہم پر ضو فگن رکھے اور ہمیں ان کی ذات و بات سے استفادہ و استفاضہ کی توفیق انیق عطا فرمائے ۔
0 Comments: