پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ عزوجل کی اپنے اوپرقدرت میں غور کرے کہ اللہ عزوجل اس پر غضب فرمائے گا کیونکہ انسان قیامت میں عفوودرگزرکا زیادہ محتاج ہوگا، اسی لئے حدیثِ قدسی میں آیا ہے :''اے ابن آدم! جب تجھے غصہ آئے تو مجھے یاد کر لیا کر میں تجھے اپنے غضب کے دوران یاد رکھوں گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ تجھے ہلاک نہ کروں گا۔''
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بندہ خود کو سامنے والے کے انتقام لینے سے ڈرائے کہ اگر کوئی شخص اس سے انتقام لینے پر مسلط ہو جائے،اس کی عزت دَری کرے، اس کے عیوب کو ظاہر کرے اور اس کی مصیبت پر خوشی کے اِظہار وغیرہ جیسے دشمنانہ افعال کرے (تو اس پر کیا گزرے گی)یہ وہ دنیوی مصیبتیں ہیں جس سے آخرت پرکامل بھروسہ نہ کرنے والے کو بھی چاہے کہ ان سے غفلت نہ برتے ۔
تيسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان غصہ کی حالت کی بری صورت میں غور کرے اور اپنے نزدیک غصہ کی قباحت اور غضب ناک شخص کی کاٹنے والے کتے سے مشابہت کا تصور وخیال کرے اور بردبار شخص کی اَنبیاء و اولیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ورحمہم اللہ تعالیٰ سے مشابہت میں غور کرے اور پھر ان دونوں مشابہتوں کے فرق میں غور وفکر کرے۔
چوتھا طریقہ یہ ہے کہ انسان غصہ کو ابھارنے والے شیطانی وسوسہ پر کان ہی نہ دھرے کیونکہ اگر وہ اسے چھوڑ دے تو وہ اسے لوگوں کے سامنے عاجز ظاہر کر دے گا اور یہ سوچے کہ اس کا غصہ اور انتقام اللہ عزوجل کے عذاب اور اس کے انتقام سے کمتر ہے کیونکہ غضب ناک شخص کسی چیز کو اپنی چاہت کے مطابق دیکھنا چاہتاہے اللہ عزوجل کے اِرادے پر نظر نہیں رکھتا۔ اور جواس آفت میں مبتلا ہوجائے تو وہ اللہ عزوجل کے غضب اور اس کے عذاب سے بے خوف نہیں ہوسکتا جو کہ بندے کے غصہ اور انتقام سے بہت بڑا اور سخت ہے۔
پانچواں طریقہ یہ ہے کہ وہ یہ عمل کرے کہ شیطا ن مردود سے اللہ عزوجل کی پناہ چاہے اور اپنی ناک پکڑ کر یہ دعا مانگے: اَللّٰھُمَّ رَبِّ النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ اِغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَاَذْھِبْ غَیْظَ قَلْبِیْ وَاَجِرْنِیْ مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ۔ (یعنی یاالٰہی عزوجل! اے حضرت سیدنا محمدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے رب عزوجل! میرا گناہ بخش دے اور میرے دل کے غیظ کو دور فرما اور مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں کی آماجگاہ سے نجات عطا فرما) کیونکہ یہ دعا حدیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہے، پھر اسے چاہے کہ بیٹھ جائے پھر بھی غصہ ختم نہ ہو تو لیٹ جائے تاکہ اسے جس زمین سے پیدا کیا گیا ہے اس کے قریب ہو جائے حتی کہ وہ اپنی اصل کے حقیر ہونے اور اپنے نفس کی ذلت کوپہچان لے اور غصہ سے پیدا ہونے والی حرکت اور حرارت سے پیدا ہونے والا غضب سکون پالے چنانچہ، (102)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''بے شک غصہ دل میں دھکنے والا ایک انگارہ ہے، کیا تم غصہ کرنے والے کی رگیں پھولتے اور آنکھیں سرخ ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا تھا تو لیٹ جائے اگر اس سے بھی غصہ زائل نہ ہو تو ٹھنڈے پانی سے وضو یا غسل کرے کیونکہ آگ کو پانی ہی بجھاتا ہے۔''
(اتحاف السادۃ المتقین، کتاب ذم الغضب والحقد والحسد، باب بیان علاج الغضب بعد ھیجانہ، ج ۹، ص ۴۲۵)
(103)۔۔۔۔۔۔ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہے کہ پانی سے وضو کرے کیونکہ غصہ آگ سے ہے۔''
(المرجع السابق، ص ۴۲۶)
(104)۔۔۔۔۔۔ صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی ہی بجھاتا ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہے کہ وضو کر لے۔''
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب مایقال عند الغصب، الحدیث:۴۷۸۴،ص۱۵۷۵)
(105)۔۔۔۔۔۔ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جب تمہیں غصہ آئے تو خاموش ہو جایا کرو۔''
(اتحاف السادۃ المتقین، کتاب ذم الغضب والحقد والحسد، باب بیان علاج الغضب بعد ھیجانہ، ج ۹، ص ۴۲۶)
(106)۔۔۔۔۔۔ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''سن لو کہ غصہ آدمی کے دل میں دھکنے والا انگارہ ہے کیا تم اس کی آنکھوں کی سرخی اور رگوں کے پھولنے کونہیں دیکھتے لہٰذا جسے غصہ آئے اسے چاہے کہ اپنا گال زمین سے لگا دے یعنی لیٹ جائے۔''
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی،باب الغصب جمرۃ فی قلب ابن آدم،ج۲،ص۲۸۴)
سیدناامام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''شاید یہ سجدوں کی طرف اور معزز ترین اَعضا کو ذلیل ترین جگہ یعنی مٹی پر لگانے کی طرف اشارہ ہے، تا کہ انسان کانفس ذلت کا احساس پائے اور اس کی عزتِ نفس اور غرور وتکبر جوکہ غصہ کے اسباب ہیں، دور ہوجائیں۔''
(107)۔۔۔۔۔۔امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ غصہ کے وقت ناک میں پانی چڑھایا اور ارشاد فرمایا: ''غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور یہ عمل غصہ کو دور کردیتا ہے۔''
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب مایقال عند الغصب، الحدیث:۴۷۸۴،ص۱۵۷۵،بدون''یذہب الغضب'')
(108)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کو اس کی والدہ کے بارے میں عار دلائی، کہتے ہيں کہ وہ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، توسرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ان پر عتاب فرمایا، پھر ان سے ارشاد فرمایا: ''اے ابو ذر! نظر اٹھا کر آسمان اور اس کے خالق عزوجل کی عظمت کی طرف دیکھو، پھر یہ یقین کر لو کہ تم کسی سرخ یاسیاہ سے افضل نہیں، مگریہ کہ تم علم میں اس سے افضل ہو جاؤ۔'' پھر ارشاد فرمایا :''جب تمہیں غصہ آیا کرے تو اگر تم کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ اور اگر بیٹھے ہو تو ٹیک لگا لو اور اگر ٹیک لگا کر بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ۔''
(اتحاف السادۃ المتقین،کتاب ذم الغضب والحقدوالحسد،باب بیان علاج الغضب بعدھیجانہ،ج ۹،ص۴۲۸)
0 Comments: