قُربانی کی کھال مَدارِس میں دینا کیسا؟
مُؤلف : ایک روز مولوی سعید احمد ابنِ مولوی فتح محمد صاحب تائب لکھنوی اعلیٰ حضرت مدظلہ، سے آکر دست بوس ہوئے اورقربانی کی کھال کے بارے میں دریافت کیا کہ مدارس میں دی جاسکتی ہیں یانہیں ؟
ارشاد : ہوا بلاشبہ ان کا صَرف (یعنی خرچ)مدرسہ میں جائز ہے ۔
مولوی صاحب نے صاحبِ ہدایہ کا قول نقل کیا کہ ان کے نزدیک قربانی کی کھال بیچنے سے اس کی قیمت کا صدقہ واجب ہو جاتا ہے اورصدقاتِ واجبہ کا مَصْرَف'' مَصرفِ زکوٰۃ''ہے اور مصرفِ زکوٰۃ میں تملیکِ فقراء (یعنی فقیروں کو مالک بنانا) شرط ہے۔
اس پر ارشاد فرمایا کہ یہ اس صورت میں ہے کہ تَمَوُّل(یعنی حصول ِمال) کے لئے بیچے کہ وہ بوجہِ تَقَرُّب (یعنی ثواب کی وجہ سے ) صالحِ تَمَوُّل (یعنی حصول ِمال کا ذریعہ بننے کے لائق )نہ رہی، بخلاف اس صورت کے کہ فی سبیلِ اللہ مصارفِ خیرمیں صَرف کے لئے بیچے کہ یہ بھی قُربت(یعنی ثواب) ہے اور یہاں قربت ہی مقصود ہے۔ علاوہ بریں(یعنی اس کے علاوہ ) مدارس میں دینا بیچ کر ہی نہیں ضرورہے اکثر کھالیں مدارس میں بھیج دیتے ہیں اور کھال توغنی کو بھی دے سکتا ہے ، پھر مدرسہ دینیہ نے کیا قصور کیا ہے؟
(الملفوظ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
0 Comments: