#تحریر: مفتی محمد نظام الدین صاحب
صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ یوپی ، انڈیا
#تفویضِ_طلاق_کیا_ہے؟‘‘
۔۔۔۔۔۔شوہر کے ممکنہ ظلم یا اس پر افتاد کی صورت میں مصیبت سے رہائی کی ایک صورت ’’ تفویضِ طلاق‘‘ بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورت یا اس کا وکیلِ نکاح جب نکاح کا ایجاب کرے تو اس میں یہ شرط لگا دے کہ شوہر کی طرف سے پیش آنے والی مصیبت کی صورت میں اسے اپنے آپ کو طلاق بائن دینے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر مرد عورت کی اس شرط کو نکاح میں قبول و منظور کر لیتا ہے تو اس کی طرف سے کوئی ظلم و زیادتی ثابت ہونے یا اس کے لا پتہ ہونے پر بیوی کے مصیبت سے دوچار ہونے کی صورت میں اسے یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو طلاق دے کر آزاد کر لے۔فقہِ اسلامی کی صدیوں پرانی کتابوں -جيسے فتاوی قاضی خاں، ہدایہ، فتح القدیر ، نہایہ، تبیینُ الحقائق ، بحر الرائق، در مختار وغیرہ - میں اور اردو زبان کی معروف و مستند کتابوں - جیسے فتاوی رضویہ اور بہار شریعت وغیرہ - میں بھی اس کے بارے میں واضح تصریحات موجود ہیں۔ بلکہ اس کی بعض صورتوں کا ذکر تو صحیح بخاری و صحیح مسلم کی حدیثوں میں بھی ہے اور اس طرح اس کا تاریخی رشتہ عہدِ رسالت سے جُڑا ہوا ہے، ’’تفویض طلاق‘‘ کا معنی ہے ’’ طلاق کا اختیار سونپ دینا‘‘ چوں کہ ہونے والا شوہر عورت یا اس کے وکیلِ نکاح کے ذریعہ پیش کی گئی شرط پر اسے طلاق کا اختیارسونپ دیتا ہے اس لیے اسے بھی طلاق دینے کا حق مل جاتا ہے۔
اصل مالک طلاق کا، شوہر ہی ہے اور یہ بات سماج کے ہر صاحبِ فہم پر روشن ہے کہ کسی چیز کا مالک اپنے اختیار خاص سے دوسرے کو بھی اختیار سونپ کر اسے مالک بنا سکتا ہے، بلکہ بناتا بھی ہے۔
مرجعِ فتویٰ مفتی کے ذریعہ نکاح فسخ کرکے عورت کو شوہر سے آزاد کرنے کی چند صورتیں یہ ہیں:
(۱) شوہر غربت و افلاس کے باعث نفقہ کے انتظام سے عاجز ہو۔
اور تحقیق سے یہ ثابت ہو جائے کہ عورت مسلسل تنگیِ نفقہ کے آزار میں مبتلا ہے اور شوہر کی حالت جوں کی توں بنی ہوئی ہے یعنی محتاج ہے اور بیوی کے حق میں حاجتِ دائمہ متحقق ہے تو پہلے شوہر کو حکم ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر آزاد کر دے تا کہ اس کی وجہ سے وہ پوری زندگی مصیبت کے بھنور میں نہ پھنسی رہے۔
لیکن اگر شوہر کسی طرح بھی طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو حرج عظیم و ضرر شدید کے ازالہ کے لیے اجازت ہے کہ اب قاضی یہ نکاح فسخ کر دے ۔
(۲) شوہر مفقود الخبر ہے یعنی ایسا لا پتہ ہے کہ اس کی موت و حیات کا بھی سراغ نہیں ملتا، ساتھ ہی وہ نقد و جنس بھی مفقود ہے جس سے عورت کا کام چل سکے۔
(۳) شوہر غائب ہے اور یہ معلوم نہیں کہ کہاں ہے؟ کب آئے گا؟ ہاں! یہ معلوم ہے کہ وہ زندہ ہے خواہ کہیں بھی ہو ۔ اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ غَیْبتِ مُنقطعہ‘‘ کہتے ہیں۔
(۴) شوہر غائب ہے مگر ”غَیْبتِ مُنقطعہ“ نہیں یعنی معلوم ہے کہ فلاں جگہ ہے مگر آتا نہیں، اور نہ ہی کسی طرح اس سے نفقہ حاصل ہو پاتا ہے۔
(۵) شوہر موجود ہے مگر اس نے بیوی کو لٹکا رکھا ہے، نہ طلاق دے کر اسے آزاد کرتا ہے، نہ ہی اس کے حقوق( نان و نفقہ وغیرہ) ادا کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ان صورتوں میں عورت جہاں نان و نفقہ سے محروم ہے وہیں حقوق زوجیت سے بھی محروم ہے جس کے باعث اس زمانہ میں عورتوں کے مبتلاے گناہ ہونے کا عظیم خطرہ در پیش ہے۔ یہ خود ایک سخت ضرر اور حرج ہے۔
ان تمام صورتوں میں بھی آخر کار فسخ نکاح کی اجازت ہے۔
(۶) خیار بلوغ: میاں ، بیوی کم عمر ہوں اور باپ ، دادا کے علاوہ کسی اور نے ان کا نکاح کر دیا تو انہیں یہ اختیار ہے کہ بالغ ہو کر اپنے نفس کو اختیار کریں، پھر مفتی کے یہاں عرض حال کرکے نکاح فسخ کرا لیں۔
(۷) شوہر مقطوعُ الذَکَر ہے یعنی اس کا آلۂ تناسُل کٹا ہوا ہے۔
(۸) یا عِنِّین ہے یعنی آلۂ تناسُل تو ہے مگر نامرد ہے۔
یہ دونوں صورتیں ثابت ہونے پر بھی عورت کو شریعت فسخِ نکاح کا حق عطا کرتی ہے۔
(۹) جس مرد کے خُصیے نکال لیے گئے ہوں۔
(۱۰) یا شوہر خُنثیٰ (ہجڑا) ہے اور مرد کی طرح پیشاب کرتا ہے ــــ یہ دونوں بھی عِنّین کے حکم میں ہیں۔
مزید تفصیل کے لیے کتاب ’’ مجلس شرعی کے فیصلے‘‘ (مطبوعہ مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور) کا مطالعہ مفید ہوگا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ فسخ نکاح کا حق کس قاضی و مفتی کو حاصل ہے۔
جو عورت شوہر کی وجہ سے مبتلاے آفات ہو جائے اس کے لیے اسلامی شریعت نے آسانی کے جو راستے کھلے رکھے ہیں یہ ان کا ایک خاکہ ہے۔ اربابِ قانون و انصاف کے لیے دار الافتا جامعہ اشرفیہ [قصبہ مبارک پور ، ضلع اعظم گڑھ، اترپردیش، ہند ] کے دروازےکھلے ہوئے ہیں وہ یہاں سے مسلم پرسنل لا کے تعلق سےشرعی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
محمد نظام الدین رضوی
صدر المدرسین و صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ
مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ، (یوپی) ہند
25؍ ذو القعدہ 1438ھ
29؍ اگست 2016ء، دو شنبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments: