ڈاکٹر سراج احمدقادری(یو۔پی)
شیخ الاسلام حضرت اختر ؔ کچھو چھوی کی نعتیہ شاعری کے تابندہ نقوش
شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں اخترؔ کچھو چھوی مدّ ظلہٗ النورانی مشہور عالم دین اور عظیم نعت گو شاعر حضور محدث اعظم ہند حضرت علامہ ابو المحامد سیّد محمدسیّدؔ اشرفی جیلانی کچھوچھوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ولد صالح ہیں ۔ آپکی ولادت با سعادت یکم رجب المرجب ۱۳۵۷ہ مطابق ۲۸ ؍اگست ۱۹۳۸ ء کو چھو چھہ مقدسہ( ضلع امبیڈکر نگر ۔اتر پردیش ) میں ہوی ٔ
ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والدین کریمین سے حاصل کی ۔اور دینی علوم کی اعلیٰ تعلیم تکمیل حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز مرادآبادی کے زیر سایہ الجا معۃ الاشرفیہ ، مبارک پور ، اعظم گڈھ سے کی ۔ حضور حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے گر چہ میںمحروم رہا مگر میں نے ان کے جو اوصاف پڑھے یا اپنے اساتذہ سے سنے ہیں وہ مجھے آج تک محو حیرت کے ٔ ہوے ٔ ہیں ۔ آج بھی جب میں اپنے قوتِ حا فظہ پر زور دیتا ہوں تو میرے ذہن میں محفوظ انکی یادوں کے نقوش منوّر ہوجاتے ہیں اور دل انکی بارگاہ عظیم میں خود بخود سجدہ ریز ہو جاتا ہے بقول طاہرؔ لاہوری ؎
ا ُن سے مری ہستی کہ سیہ رات ہے روشن
جو دیپ مرے دل میں عقیدت کے جلے ہیں
حسرت یہ ہوتی ہے کہ کاش انکی زیارت سے مشرف ہوا ہوتا ۔ آج تک کویٔ ایسا شخص مجھے نہیںملا کہ جس نے یہ کہا ہو کہ حافظ ملت میں یہ عیب تھا، جتنے لوگ بھی ملے ان کے مدّاح ہی ملے۔
میں اس مقام پہ عرض کرنا چا ہتاہوں کہ اگر حضرت علامہ سید محمد مدنی اخترؔکچھو چھوی مدّ ظلہٗ النورانی کو حضور محدث اعظم ہند جیسے مشفق و سر خیل والد ملے تو حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ جیسے نابغہ ٔ روزگاراستاذ بھی ۔ان دونوں حضرات کی تعلیم و تربیت نے یقیناً حضرت علامہ سیّد محمد مدنی میاں قبلہ مدّظلہٗ النورانی کو دین و دنیا کا اختر کامل بنا دیا ہے۔
فرمایا گیا ہے ’’ اَلولَدُ سِرٌ آبیہِ ‘‘ المقاصدُ الحسنۃ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتھرۃ علی الالسنۃ ۔ تالیف العلامۃ الشیخ محمد عبد الرحمن السخاوی ( متوفی سنۃ ۹۰۴ہ )
بیٹا اپنے باپ کی سچی تصویر ہوا کرتا ہے ۔ باپ کے نقوش زندگی بیٹے کے کردار و عمل کا آئینہ ہوا کرتے ہیں ۔ استاذ کو پدرِ معنوی کا
مقام حاصل ہے ۔ قول مذکور کی روشنی میں اگر کویٔ شخص حضور محدث اعظم ہند اورحضورحافظ ملت علیھما الرّحمہ کے علم و عمل اور ضَو ریز کردار کو دیکھنا چاہتا ہے تووہ حضرت علامہ سیّد محمد مدنی میاں صاحب قبلہ مدّ ظلہٗ النورانی میں دیکھ سکتا ہے ۔ میرے موقف کی تائید ڈاکٹر سیّد طارق سعید کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں ۔
’’ یہاں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ حضرت اختر ؔ کی ذات گرامی پر والد محترم محدث کچھو چھوی کی نوازشات کا کوی ٔ شمار نہیں ‘‘ (گلدستہ ۔ ڈاکٹر طارق سعید ، طبع دوم میٔ ۱۹۹۵ ء فیض آباد ص ۱۴ )
ماہ فروری ۲۱۰۶ ء میں مدنی فاوندیشن ، ہبلی ( کرناٹک ) کی جانب سے حضرت مولانا نعیم الدین اشرفی ، سیکریٹری مدنی فاونڈیشن، ہبلی کا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں انہوں نے مورخہ ۱۰؍ اپریل ۲۱۰۶ء کو حضرت علامہ سیّد محمد مدنی میاں اخترؔ کھوچھوی قبلہ پر سیمینار کے منعقد کے ٔ جانے کا ذکر کرتے ہوے ٔ مقالات و مضامین طلب کیے تھے ۔ میں نے محترم حضرت مولانا نعیم الدین اشرفی صاحب کو بذریعہ ای۔ میل اطلاع دی کہ آپکا گرامی نامہ موصول ہوا ۔ حضرت علامہ مدنی میاں صاحب قبلہ کی شخصیت پر لکھنے کے لۓ میرے پاس لٹریچر دستیاب نہیں ہیں اگر لٹریچر دستیاب ہو جائیں تو حکم کی تعمیل ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے بذریعہ موبائیل فون رابطہ قائم کیا اور لٹریچر فراہم کرنے کو وعدہ فرمایا ۔ ۲۲؍فروری ۲۱۰۶ ء کو مجھے انکی جانب سے بذریعہ اسپیڈ پوسٹ تین کتابوں ٭نظریۂ ختم نبوت اور تحزیر الناس ٭علمی مجلہ حضرت شیخ الاسلام حیات و خدمات ٭ گلدستہ کا ایک پیکٹ موصول ہوا ۔ حضرت مولانا نعیم الدین اشرفی صاحب سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ حضرت ایک بلند پایہ شاعر بھی ہیں ۔ جس سے مجھے بے پناہ مسرت ہویٔ ۔ اپنی افتاد طبع کے پیش نظر میں نے مولانا محترم سے انکی شاعری پر لکھنے کا وعدہ کر لیا ۔ مولانا نعیم الدین اشرفی کے فراہم کردہ لٹریچر ’’ علمی مجلہ حضرت شیخ الاسلام حیات و خدما ت‘‘ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ آپکا مجموعہ ٔ کلام ’’ تجلیات سخن ‘‘ جو ۲۵۴ صفحات پر مشتمل ہے طبع ہوکر منظرعام پر آ چکا ہے ۔ جو دو جز پر مشتمل ہے ۔ جزء اوّل باران رحمت ( جو حمد و نعت اور منقبت ) اور جزء دوم ’’ پارہ ٔ دل ‘‘ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے ۔
چونکہ حضرت اخترؔ کھو چھوی مدّ ظلہ کا مذکورہ مجموعہ ٔ کلام مجھے دستیاب نہیں ہو سکا اس لیے ا س پر کسی طرح کا اظہار خیال نہیں کر سکتا ۔
ہاں حضرت مولانا نعیم الدین اشرفی صاحب کا ارسال کردہ حضرت علامہ اختر ؔ کھو چھوی مدّ ظلہٗ کا شعری مجموعہ ’’ گل دستہ ‘‘ اس وقت میرے پیش نظرہے جسے ڈاکٹر سید طارق سعید ، صدر شعبہ اردو ساکیت، پی۔جی کالج ، ایودھیا ،فیض آباد نے مدوّن کیا ہے ۔ڈاکٹر سید طارق سعید صاحب ’’ گل دستہ ‘‘ کے دیباچہ ٔ دوم میں تحریرفرماتے ہیں ۔
’’ آخر میں ایک ضروری بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مجموعہ ٔ کلام کی ترتیب نہ تو حروف تہجی کے اعتبار سے ہے اور نہ سن ِ تخلیق کے اعتبار سے بلکہ کتابت ، طباعت اور مدون کی ذاتی پسند ہی ہر جگہ دخیل رہی ہے ۔ آپکی بیش قیمت راے ٔ کا انتظار رہے گا تاکہ اگلا ایڈیشن خوب سے خوب تر ہو سکے ۔ ‘‘ گل دستہ ۔ ڈاکٹر طارق سعید ، طبع دوم میٔ ۱۹۹۵ ء فیض آباد ص ۴۲
میں محترم ڈاکٹر سید طارق سعید صاحب کی خدمت عا لی جاہ میںنہایت ادب کے ساتھ عرض گزار ہوں کہ میرے خیال میں جب بھی کسی شاعر یا تخلیق نگار کی کاوش پر قلم و قرطاس اٹھا یا جاے ٔ تو اس کو ادبی نقطۂ نگاہ سے پر کھا جاے ٔ نہ کہ اپنی ذاتی راے ٔ سے ۔ جس سے کہ تخلیق نگار کی تخلیق کے عہداور شعور و فکر کا تعین ہوسکے ۔اس لیے کہ نگارشات تخلیق نگار کی ذہنی و فکری پختگی کی آئینہ دار ہوا کرتی ہیں اور اسی سے اس کے تخلیقی شعور کا اندازہ ہوتا ہے نیز اس کی ادبی قدروں کا صحیح تعین بھی۔
جب ہم حضرت علامہ اختر ؔ کچھو چھوی مدّ ظلہٗ کی سخن طرازی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کے یہاں شاعری کی جملہ اصناف میں طبع آزمایٔ کا خاطر خواہ سرمایہ نظر آتا ہے ۔ اگر انہوں نے اپنی فکر و فن کا موضوع نعت و منقبت کو بنایا ہے تو غزل و نظم کی آبیاری بھی بڑے سلیقے سے کی ہے ۔انکا نعتیہ کلام پڑھکر جہاں ان کے فکر و فن اور عشق رسول ﷺ کا ندازہ ہوتا ہے وہیں انکی غزلوں کو پڑھکر انکی لطیف طبعیت کا بھی احساس ہوتا ہے ۔ مگر اس وقت میرا مطمح نظر انکی نعتیہ شاعری ہے ۔
عصر حاضرمیں نعتیہ شاعری پر فکر و فن کے حوالے سے بڑا کا م ہو رہا ہے خصوصاً پاکستان میںنعتیہ ادب پر تحقیق وتنقید کام فروغ و ارتقاء کی راہ پر گامزن ہے ۔ اس کے ارتقاء وفروغ میں مجلہ ’’ نعت رنگ ‘‘ کراچی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جو لائق صد ستائش ہے۔ورنہ اس سے قبل شعرأ صرف تیمُّناً و تبرکاًہی نعتیں کہہ اورسُن رہے تھے اور ادیب و نقاد اس کو مذہبی شاعری کا درجہ دیکر صرفِ نظر کے ٔ ہوے ٔ تھے ۔
حمد ونعت پر شائع ہونے والے جرائد و رسایل نے ادیبوں اور تنقید نگاروں کی فکر کو خود بخود اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے ۔ میں پر امید ہوں کہ اگر نعت پر فکر و فن اور نقد ونظر کا کام اسی طرح ارتقایٔ فروغ حاصل کرتا رہا تو عنقریب اس کو صنفِ ادب کا درجہ مل جاے ٔ گا اس لیے کہ ادب کہ یہ واحد صنف سخن ہے جس کا تعلق براہ راست اللہ جلّ جلالہٗ اور اس کے پیارے رسول احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ سے ہے ۔ یہ وہ عظیم بارگاہیں،ہیں جہاں اک سرِ مو بھی فرو گذاشت کی گنجائش نہیں جس میں صرف اور صرف صداقت ہی صداقت کابیان ہوتاہے ۔
حضرت اختر ؔ کچھو چھوی مدّ ظلہٗ کے فکر و فن پر آغاز سے پیش تر نعت پاک کے حوالے سے ان کے موقف کوجان لینا ضروری ہے۔ کہ نعت پاک کے حوالے سے انکا نقطۂ نظر کیا ہے ۔چنانچہ آپ بارگاہ آقا و مولیٰ ﷺ میں سلام کی نذر پیش کرتے ہوے ٔ ایک سلام کے مقطع میں فرماتے ہیں
آمدہ نعت محمد ﷺ در کتاب کبریا
ہر گز آساں نیست نعتش اخترؔ خوار و ذلیل
ایک نعت پاک میں تحریر فرما تے ہیں کہ نعت پاک رقم کرنے کا صر ف اور صرف اسی کو حق ہے جس کے قلم میں احتیاط کی روشنایٔ ہو ۔ حضرت کے اس شعر سے انکے قلم و فکر کی پاکیزگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ؎
صرف اُسی کو ہے ثناے ٔ مصطفی لکھنے کا حق
جس قلم کی روشنایٔ میں ہو شامل احتیاط
اختر ؔ نہیں ہے وقت جنوں ہوش کو سنبھال
سوئے ادب ہے بولنا بزمِ ِخیال میں
آج کل ایک مخصوص فکر و آہنگ رکھنے والے حضرات کا نظریہ ہے کہ نعت صرف ستائش مصطفی ﷺ کا نام ہے ۔لیکن جب ہم نعت گویٔ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں مدح مصطفی ﷺ کے ساتھے معاندین کی تضحیک و تذلیل کا موضوع بھی نعت میں ملتا ہے ۔ نعت گویٔ کی یہ روش اس کی تاریخ میں بہت ہی اہمیت کی حامل ہے ۔ چنانچہ حضرت اختر ؔ کچھو چھوی مدّ ظلہٗ اپنی ایک نعتِ پاک میںاسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوے ٔ فرماتے ہیں ؎
جس میں پاسِ شریعت نہ خوف خدا ،وہ رہا کیا رہا، وہ گیا کیا گیا
ایک تصویر تھی جو مٹا دی گیٔ ،یہ غلط ہے مسلمان مارا گیا
بد نصیبو ! شہنشاہ کونین سے صاحب قربت قاب قوسین سے
تم نے کی دشمنی ،ہم نے کی دوستی، کیا تمھیں مل گیا، کیا ہمارا گیا
اے مری قوم کے زاہدو عالمو نخوتِ زُہد و دانش بُری چیز ہے
کیا مجھے یہ بتانا پڑیگا تمھیں ،کس سبب سے عزازیل مارا گیا
ان کے کوچے میں مر کر یہ ظاہر ہوا کچھ نہیں فرش سے عرش کا فاصلہ
گود میں لے لیا، رفعتِ عرش نے ،قبر میں جس گھڑی میں اتارا گیا
حضرت اخترؔ کھوچھوی نے مختلف اسلوب میں نعتیں رقم کی ہیں کہیں تغزل کا رنگ غالب ہے تو کہیں تفوّق علمی کی جلوہ باریاں کار فرما ہیں۔ تفوّق علمی سے صرف اہل علم ہی مستفیض ہو سکتے ہیں لیکن زیادہ تر نعتیں انہوں نےسادہ اسلوب میں کہی ہیں جس سے کہ ہر کہ و مہ لطف اندوز ہو سکتے ہے ملاحظہ ہو ؎
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
وجود فلک نہ قمر ،شمس ، تارے
سمندر کی طغیانیاں نہ کنارے
نہ دریا کے بہتے ہوے ٔ صاف دھارے
نہ آتش کی سوزش نہ اڑتے شرارے
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
عنادل کی نغمہ سرایٔ نہ ہوتی
ہنسی گُل کے ہوُنٹوں پہ آیٔ نہ ہوتی
کبھی سطوت قیصرایٔ نہ ہوتی
خدا ہوتا لیکن خدایٔ نہ ہوتی
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
یہ راتوں کے منظر یہ تاروں کے ساے
خراماں خراماں قمر اُس میں آے ٔ
مرے قلب محزوں کو آکر لبھاے
لٹاتا ہوا دولتِ نور جاۓ
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
نہ بطنِ صدف میں درخشندہ ہوتی
نہ سبزی قباؤں میں ملبوس ہوتی
فلک پہ حسیں کہکشاں بھی نہ ہوتی
زمیں کی یہ پُر کیف سوتا نہ سوتی
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
فن شاعری میں طویل اور چھوٹی بحروں میں طبع آزمایٔ کرنا شعراے ٔ کرام کا طریقہ رہا ہے ۔ حضرت علامہ اختر ؔ کچھوچھوی نے بھی جملہ اصناف شاعری میں اپنی طبعیت کے جوہر دکھاے ٔ ہیں ۔ چھوٹی بحر میں طبع آزمایٔ بنسبت بحرِ طویل کے مشکل تصور کی جاتی ہے ۔ غزل کے رنگ میں بالکل چھوٹی بحر میں حضرت اخترؔ کچھوچھوی کی دو نعت پاک ملاحظہ فرمائیں ؎
نگاہ ہے سرمگیں تمھاری
مہِ مُنوّر جبیں تمھاری
شبیہ کویٔ نہیں تمھاری
کہ نازش گُل عذار ہو تم
اگر تمھارا ہو اک اشارہ
فلک سے میں نوچ لاؤں تارا
قمر بھی سینہ کرے دوپارا
قرارِ لیل و نہار ہو تم
چمن کی رنگینیاں تمھیں سے
گُلوں میں رعنائیاں تمھیں سے
مرے چمن کی بہار ہو تم
ہمیں ہے بس آپ کا سہارا
نہیں تو کویٔ نہیں ہمارا
تویٔ سفینہ تویٔ کنارہ
ہمارا دار و مدار ہو تم
کہیں جو ہنس دو جہان ہنس دے
جہاں کیا ربِّ ِ جہان ہنس دے
زمین ہنس دے زمان ہنس دے
زمانے بھر کا قرار ہو تم
یہ مانا کویٔ خلیل نکلا
کویٔ کلیمِ جلیل نکلا
کویٔ مسیحِ جمیل نکلا
حبیب ِپرور دگار ہو تم
جو تم کو دیکھے خدا کو دیکھے
جو تم کو سمجھے خدا کو سمجھے
جو تم کو چاہے خدا کو چاہے
کہ مرآۃ حسنِ یار ہو تم
زمیں پہ ہے تیز گام کوی ٔ
فلک پہ ہے محو خرام کویٔ
خدا سے ہے ہم کلام کویٔ
وہ نازش گُل عذار تم ہو
ہے کس کا آج عرش پر بلاوا
براق کس کے لۓٖ ہے آیا
ہے کس کا پا اور رخ فرشتہ
وہ مرآۃ حسنِ یار ہو تم
تجھے خدا کے سوا نہ جانا
کسی نے ، ہو خواہ وہ فرشتہ
ہو چاہے بو بکر سا دل آرا
وہ دل کا میرے قرار ہو تم
ہم غریبوں کا آسرا تم ہو
بزم کونین کی ضیاء تم ہو
ہو گیا نازش دو عالم وہ
کسی بھی فن کار کی تخلیق میں اس کے فن کے رموز پنہا ہوا کرتے ہیں، اسکی زندگی کے ذریں نقوش اس کے فن میں ضیا بار ہوا کرتے ہیں ۔ فنکار کا فن شخصیت کی صاف ستھری تصویر ہوا کرتاہے ۔ میں تو ذات کی حقیقی تصویر فن کار کی تخلیق کو ہی تصور کرتا ہوں جس سے کہ ُاس کا فن وابستہ ہے ۔ اُپر میں نے حضرت علامہ اختر ؔ کچھوچھوی مدّ ظلہٗ کے کچھ اشعا ر اور دو نعتیں انکی فکر و فن کو سمجھنے کے لیے تحریر کی ہیں اب انکے مجموعۂ کلام سے چند منتخب اشعار اپنے موقف کےمزید وضا حت کے لیے پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے انکی نعت گویٔ کے دیگر پہلو بھی روشن ہوسکیں ملاحظہ ہو ؎
زباں ہے مری خوگر نعت احمد
یہی ہے ہمارے لبوں کا ترانہ
نظر مائل بہ گریہ تھی وفور شادمانی سے
عجب تھا ماجرا پیش نظر جب تیرا در آیا
جب آے ٔ جلوہ گاہ رب میں موسیٰ ہو گے ٔ بیخود
تبسم تھا لبوں پر جب وہاں خیر البشر آیا
کلام اللہ تو کہتا ہے انکو نورِ یزدانی
مگر کہتے ہیں اہلِ شر انہیں مجھ سا بشر آیا
تری نغمہ سرایٔ پُر اثرثابت ہویٔ اختر
زبان اہلِ محفل بول اٹھی نغمہ گر آیا
اس کو دنیا و عقبیٰ سے کیا واسطہ
جو مرے کملی والے تمھارا نہیں
گُل میں انکی مہک چاند میں روشنی
کملی والے نے کس کو سنوارا نہیں
حقیقی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے مدفن سے
نقاب اُلٹے ہوے ٔ آتا ہے کویٔ روے ٔ روشن سے
مدینے میں مرا دل، اور دل میں کملی ولا ہے
مرا دل کم نہیں رضواں تری جنت کے گُلشن سے
یہ کون آیا یہ کون آیا مرا فریاد رس بن کر
دھواں فریاد بن کر اٹھ رہا ہے دل کے گُلخن سے
خدا اس کا ،زمانے کی ہر اک شے ٔ با خدا اسکی
نچھاور ہو گیا جو مصطفیٰ پر اپنے تن دھن سے
مقدر سے اگر دو گز زمیں طیبہ میں مل جاتی
گُلستاں چھوڑ دیتا اور باز آتا نشیمن سے
کس نے سرکایا نقابِ رخ ِ روشن سے اختر
ہر طرف ایک قیامت سی ہے بر پا دیکھو
حضرت علامہ اخترؔ کچھو چھوی مدّ ظلہٗ النورانی کے حضور اپنی عقیدت کا خراج پیش کرتے ہوے ٔ ڈاکٹر عبد المجید اکبر ، صدر شعبہ ٔ اردو فارسی ، گُل برگہ یونیورسٹی، گُلبرگہ رقم طراز ہیں ۔
’’ حضرت شیخ الاسلام کی علمی و ادبی شخصیت کی تنظیم و ترتیب میں علمِ تفسیر ، علم ِ حدیث، علم ِ فقہ اور ان کے اُصُول کے علاوہ علمِ ادب و فلسفہ ، منطق و مناظرہ،ردّ و ابطال اور شعر و سخن وغیرہ یہ سب بتمام و کمال شامل ہیں ،۔ آپ طالبِ علمی کے دور سے ہی شعر و سخن کا پاکیزہ ذوق رکھتے ہیں ۔ چنانچہ آپ کا شعری سرمایہ ’’ تجلیاتِ سُخن ‘‘ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آپ نے فارسی میں مولانا رومؔ، حافظؔ شیرازی، شیخ سعدی ؔ ، اور علامہ جامی ؔ وغیرہ کا مطالعہ فرمایا تھا ۔ اور اردو میں غالباً خواجہ میر دردؔ ، میر تقی میر ؔ ، مومن ؔ غالب ؔ ،اقبال اور رضاؔ بریلوی کے علاوہ خانوادۂ اشرفیہ کے شعرأ کرام کا کلام بھی بالاستیاب پڑھا ہے ۔ حمد ، نعت و منقبت ، سلام ، سہرا ، غزل اور قصیدے لکھے ہیں ۔ زبان اور لفظیات نہایت شستہ لکھنوی اور دہلوی اُسلوب کا حسین امتزاج آپ کے کلام کی شناخت ہے ۔ تقدیسی موضوعات ، صنائع لفظی اور صنائع معنوی کا بہترین اظہار آپ کے کلام کی زینت ہیں ۔ جو مختلف مترنم بحور و اوزان میں لکھے گے ٔ ہیں ۔ اِن خصوصیات کی بنا پر آپ کی شاعری کسی بھی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے تحت تحقیق کا موضوع بن سکتی ہے ۔ ‘‘
(علمی مجلہ حضرت شیخ الاسلام حیات و خدمات ۔ مرتبین مولانا سید نثار احمد چھگن اشرفی ، مولانا نعیم الدین اشرفی مدنی فاونڈیشن ، ھبلی ۔ کر نا ٹک ،ص ۷۱ )
میں ڈاکٹر صاحب کی راے ٔ سے بالکل متفق ہوںیقینا پیر طریقت ،شیخ الاسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی اخترؔمدّ ظلہٗ النورانی کچھو چھوی کی شاعری اس لائق ہے کہ اس پر یونیورسٹی سطح پر تحقیقی کام انجام پا سکے مگر اسی کے ساتھ میں نہایت ادب کے ساتھ یہ بھی عرض گزار ہوں کہ انکا مجمو عہ ٔ کلام اوّلاً ماہ و سال و ذہنی ارتقا ءکے ساتھ ادبی پیرایہ میں مرتب ہو کر منظر عام پر آنا چاہے ٔ ٔجس سے کہ اربابِ علم و فضل اس جانب متوجہ ہوکر نقد و نظر کی روشنی میں انکے کلام کی ادبی قدر کا تعین کر سکیں ۔ دنیا میں جتنی بھی عظیم شخصیتں گزری ہیں اہل علم و ادب نے ہی انکی تخلیقات کو نقد و نظر کی کسوٹی پرکھ کر ان کے مقام و مرتبے کا تعین کیا ہے
0 Comments: