عجب یعنی خودپسندی کا علاج بھی نہایت ضروری ہے اور کلیہ یہ ہے کہ مرض کا علاج ہمیشہ اس کی ضد سے ہوتاہے جبکہ خودپسندی کی ضد جہل محض ہے، جیسا کہ اس کی بیان کردہ تعریف سے ظاہر ہے اور اس کی شفایہ ہے کہ ایسی بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ جس کا کوئی انکارنہ کر سکے اور وہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے تیرے لئے علم وعمل وغیرہ مقدر کردیئے ہیں اور وہی تجھے توفیق کی نعمتیں عطا فرماتا، اور تجھے نسب ومال اور جاہ وحشمت والا بناتا ہے، لہٰذا جو چیز نہ اللہ عزوجل کے لئے ہو نہ ہی اللہ عزوجل کی طرف سے ہو اس پر انسان کیسے عجب کر سکتا ہے جبکہ اس کا محل ہونا اسے کوئی فائد ہ نہیں دے سکتا کیوں کہ محل کے ایجاد اور تحصیل میں کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ اس کے سبب ہونے پر نظر کرنا تفکر کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ جب وہ غور و فکر کریگا کہ اسباب میں کوئی تاثیر نہیں ہوتی بلکہ تاثیر تو اسباب پیدا کرنے والے اوران کے ذریعے بندوں پر انعام فرمانے والے مؤثر حقیقی اللہ عزوجل کے لئے ہے، لہٰذا بندے کو چاہے کہ وہ صرف ایسی خوبی پر خودپسندی میں مبتلا ہو جو اس نے نہ کسی کو پہلے عطا فرمائی اور نہ ہی اس شخص کے علاوہ کسی اور کو عطا فرمائے گا،
اگر کوئی یہ کہے :''اگر اللہ عزوجل میرے اندر با طنی صفت محمودہ کو نہ جانتا تو مجھے دوسروں پرہر گز ترجیح نہ دیتا۔'' اس کا جواب یہ ہے :''وہ اوصاف حمیدہ بھی اللہ عزوجل کے پیدا کرنے اور نعمت فرمانے سے ہیں۔''
جو اپنے خاتمہ اور عاقبت کو جان لے وہ اس قسم کی کسی بھی شے پر خودپسندی میں کیونکر مبتلا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ اس کو جس بھی اچھی صفت کا حامل تسلیم کر لیا جائے وہ شیطان سے زیادہ عبادت گزار، اپنے زمانے میں بلعم بن باعوراء سے بڑا عالم اور ابوطالب سے زیادہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا مقرب نہیں ہو سکتا، نہ ہی وہ جنت اورمکہ مکرمہ سے زیادہ مرتبہ والا بن سکتاہے، جب کہ تم ان لوگوں کے برے خاتمہ کا حال جان چکے ہو اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ جنت میں حضرت سیدنا آدم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اورمکہ مکرمہ میں کفار کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تھا، تو نسب، علم، محل وغیرہ پرخود پسندی میں مبتلا ہونے سے ڈرو، یہ سب باتیں تو اس صورت میں تھیں جب تم حق پر عجب کرتے،لہٰذا باطل پرعجب میں مبتلا ہونے کی برائی کیا ہو گی؟ اوراکثر خود پسندی باطل ہی کی بنا پر ہوتی ہے، چنانچہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۫ۖ
ترجمۂ کنز الایمان:تو کیا وہ جس کی نگا ہ میں اس کابرُا کام آراستہ کیا گیا کہ اس نے اسے بھلاسمجھا ہدایت والے کی طرح ہوجائے گا اس لئے اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور راہ دیتاہے جسے چاہے۔(پ22، فاطر:8)
دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس بات کی پہلے ہی خبر دے چکے ہیں کہ یہ عمل اس اُمت کے آخری لوگوں میں غالب ہو گا کیونکہ تمام بدعتی اور گمراہ لوگ اپنی فاسد آراء پر خودپسندی میں مبتلاہونے کی وجہ سے اصرار کریں گے اسی وجہ سے پچھلی اُمتیں ہلاکت میں مبتلاہو گئیں کیونکہ وہ ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ہر ایک اپنی رائے کوپسند کرنے لگا۔ چنانچہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے کہ،
کُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمْ فَرِحُوۡنَ ﴿32﴾
ترجمۂ کنز الایمان:ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اسی پر خوش ہے۔(پ 21،الروم:32)
(2) فَذَرْہُمْ فِیۡ غَمْرَتِہِمْ حَتّٰی حِیۡنٍ ﴿54﴾اَیَحْسَبُوۡنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمۡ بِہٖ مِنۡ مَّالٍ وَّ بَنِیۡنَ ﴿ۙ55﴾نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیۡرٰتِ ؕ بَلۡ لَّا یَشْعُرُوۡنَ ﴿56﴾
ترجمۂ کنز الایمان:تو تم ان کو چھوڑ دو ان کے نشہ میں ایک وقت تک کیا یہ خیال کررہے ہیں کہ وہ جو ہم ان کی مدد کر رہے ہیں مال اور بیٹوں سے یہ جلد جلد ان کو بھلائیاں دیتے ہیں بلکہ انہیں خبر نہیں۔(پ18، المؤمنون:54۔56)
یعنی بعض اوقات یہ بدی اور استد راج ہوجاتا ہے۔
وَالَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمۡ مِّنْ حَیۡثُ لَایَعْلَمُوۡنَ ﴿182﴾ۚوَ اُمْلِیۡ لَہُمْ ؕاِنَّ کَیۡدِیۡ مَتِیۡنٌ ﴿183﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں جلد ہم انہیں آہستہ آہستہ عذاب کی طرف لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر نہ ہو گی اور میں انہیں ڈھیل دوں گابے شک میری خفیہ تدبیر بہت پکی ہے۔(پ 9 ،الاعراف:182،183)
0 Comments: