بلا شبہ حسد دل کے بڑے امراض میں سے ہے اور چونکہ دل کی باطنی بیماریوں کا علاج علم ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے لہٰذا حسد کے مرض کے لئے نفع بخش علم یہ ہے کہ تم یہ بات جان لو کہ حسد تمہارے دین اور دنیا دونوں کے لئے نقصان دہ ہے جبکہ محسود کے دین ودنیا کے لئے ہرگز مضر نہیں، کیونکہ حسد سے کبھی کوئی نعمت زائل نہیں ہوئی، ورنہ تو اللہ عزوجل کی کسی پر کوئی نعمت باقی ہی نہ رہتی یہاں تک کہ کسی کے پاس ایمان کی دولت بھی باقی نہ رہتی، کیونکہ کفار کی تو ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کسی بھی طرح اہلِ ایمان سے ایمان کی دولت چِھن جائے، البتہ محسود کو دینی اعتبار سے تمہارے حسد کی وجہ سے فائدہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ وہ تمہاری جانب سے مظلوم ہوتا ہے خصوصاً جب تم غیبت اور اس کی بے عزتی یاکسی اور ذریعے سے اس کو تکلیف پہنچا کر اپنے حسد کو ظاہر کرتے ہو تو ایسی صورت میں تم خود اپنی جانب سے اس کی خدمت میں اپنی نیکیوں کو بطور تحفہ وہدیہ پیش کر رہے ہوتے ہو حتی کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل سے اس حالت میں ملاقات کروگے کہ تم اس شخص کی طرح مفلس ہو گے جو اس وقت بھی ان نعمتوں سے اسی طرح محروم ہو گا کہ جس طرح دنیا میں محروم تھا، اورتم جس شخص سے حسد کرتے رہے وہ تمہارے دکھ درد وغیرہ سے بے پرواہ اور محفوظ ہو گا، لہٰذا جب تمہاری بصیرت کا پردہ اور دل کا زنگ چھٹ چکا ہے اور تم نے اس بارے میں غورو فکر بھی کر لیا ہے نیزتم خود اپنی جان کے دشمن بھی نہیں اور نہ ہی اپنے دشمن کے دوست ہو توپھرایک عظیم خطرے میں مبتلا ہو جانے کے ڈرسے اس موذی حسد سے منہ پھیر لو، اور وہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں تم اللہ عزوجل کے فیصلے پر ناراض ہوکر اس کی تقسیم اور عدل کو ناپسند کرو جو کہ گناہ ہے یعنی ایسا گناہ گویا اللہ عزوجل کی توحید پر جرأت کرنا ہے اوردین کی بربادی کے لئے یہی جرأت کافی ہے۔
ایسا کیونکر نہ ہوجبکہ تم نے اپنے اس عمل سے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام، اولیاء کرام اور باعمل علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اس گروہ سے جدائی اختیار کرلی جو اللہ عزوجل کے بندوں کو خیر پہنچانا پسند کرتے ہیں اور ابلیس وشیاطین کے اس گروہ میں شرکت کر لی ہے جو مؤمنین کے لئے مصیبتوں اور نعمتوں کے زوال کو پسند کرتے ہيں؟ دل کی یہ گندگی تمہاری نیکیوں کو اس طرح کھا جائے گی جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ حسد تمہارے دنیوی ضرر یعنی رنج وغم میں بھی اضافہ کرتاہے وہ ایسے کہ جب تم محسود کو دیکھتے ہو کہ اس کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اورتمہاری نعمتوں میں کمی ہو رہی ہے تو تم غمگین ہو جاتے ہو،پس یہ تمہارے حسد ہی کی آفت ہے کہ تم ہمیشہ اِنتہائی غمگین، رنجیدہ خاطر، تنگ دل اور شکستہ رہتے ہو،پس اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ تم آخرت میں دوبارہ جی اٹھنے اور حساب وکتاب کو نہیں مانتے تب بھی حسد کو چھوڑ دینا ہی مناسب ہے تاکہ تم اُخروی عذاب سے پہلے ان دُنیوی سزاؤں سے بچ سکو۔اس ساری گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم خود ہی اپنے دشمن اور اپنے دشمن کے دوست ہو کیونکہ تم ایک ایسی چیز کے عادی ہو جو دنیا وآخرت میں تمہارے لئے تونقصان دہ ہے جبکہ تمہارے دشمن کے لئے نفع مند ہے اوریوں تم دنيا وآخرت میں خالق عزوجل اور مخلوق دونوں کے نزدیک قابلِ مذمت اور بد بخت ہو جاؤ گے۔
0 Comments: