اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان اس شخص سے بغض رکھتا ہے جو اس کے لئے فطرتاً تکلیف دہ ہو، لہٰذا اس کے نزدیک اس شخص کی اچھی اور بری حالتیں بھی ایک جیسی نہیں ہو سکتیں، یہی وجہ ہے کہ شیطان نفس کو اس سے حسد کرنے پر ابھارتا ہے اب اگر وہ اس کی بات مان لے یہاں تک کہ حسد اس کے قول یا کسی اختیاری فعل سے ظاہر ہوجائے، یا پھر وہ دل میں اس کی نعمت کے زوال کی محبت رکھے تو نفس کا ایسا کرنا گناہ ہے، کیونکہ حسدکے گناہ ہونے کا تعلق ہی دل سے ہے، اور یہ ایک ایسا باطنی گناہ ہے جس کااصل تعلق مخلوق سے ہی ہوتا ہے، لہٰذا اگر کوئی توبہ کرنا چاہے تو اس کے لئے یہ شرط نہیں کہ وہ محسود سے معافی مانگے کیونکہ یہ ایک باطنی معاملہ تھا جس کو اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔
جس وقت تم اپنے ظاہر کو روک لو اور اپنے دل کو اس بات پر مجبور کر دو کہ اس میں فطرتی طور پر دوسروں کی نعمت کے زوال کی جو محبت پختہ ہوچکی ہے وہ اس کو ناپسند کرے، یہاں تک کہ ایسا محسوس ہو گویا کہ تم اپنے نفس کو اس کی فطرتی غذا مہیا کرنے والے تو ہو لیکن اب اس کی ناپسندیدگی کا رخ اس کے فطری میلان کی بجائے عقل کی جانب ہو گیا ہے تو اس وقت ایسا لگے گا کہ تم اپنے فرضِ منصبی سے سبکدوش ہو گئے ہو اور اس سے بڑھ کر غالباًتم کسی اختیار کے تحت بھی داخل نہیں ہوگے۔
باقی رہی طبیعت اور فطرت کی تبدیلی کہ اس کے نزدیک احسان کرنے والے اور تکلیف دینے والے ہر دو افراد برابر ہو جائيں کہ دونوں پر انعام کی وجہ سے اس کا خوش ہونا اور دونوں پر کسی مصیبت کی وجہ سے اس کا دکھ محسوس کرنا ایک طرح کا ہو، تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا متحمل ہونا طبیعت کے لئے اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جبکہ وہ اللہ عزوجل کی محبت میں مستغرق ہو اور اس کی مشغولیت ایسی ہو کہ وہ ساری مخلوق کو ایک ہی نگاہ( یعنی شفقت کی نظر )سے دیکھے،پس جب اس قسم کی حالت کا حاصل ہونا ممکن نہ ہو تو پھر فطرت وطبیعت میں بھی دوام نہیں رہتا بلکہ وہ بھی بجلی کی طرح آئی اور گئی ہو جاتی ہے، اس کے بعد دل دوبارہ اپنے فطری میلان کی جانب مائل ہو جاتا ہے اور شیطان اسے وسوسوں کے ذریعے بھڑکانے لگتا ہے، اور پھر جب کبھی انسان اپنے دل کو ناپسندیدگی کے مقابل لا کھڑا کرے تو اپنے حقوق ادا کرنے کے قابل ہو جاتاہے۔
سوال:کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب تک حسد کا اظہار اعضا سے نہ ہو بندہ گناہ گار نہیں ہوتا اور اپنے اس قول کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ،
(116)۔۔۔۔۔۔حضور نبئ پاک ، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''تین عادتیں ایسی ہیں کہ کوئی بھی مؤمن ان سے بچ نہیں سکتا حالانکہ ان سے بچنے کا ایک راستہ بھی ہے، پس حسد سے چھٹکارے کا راستہ یہ ہے کہ انسان حد سے نہ بڑھے۔''
جواب: یہ قول یا تو ضعیف ہے اور یا پھر انتہائی شاذ، کیونکہ حق بات وہی ہے جو گذشتہ صفحات میں گزر چکی کہ حسد مطلقاً حرام ہے، حدیثِ پاک میں بیان کردہ صورت کی وجہ سے اگر ان کی بات صحیح مان بھی لیں تو پھر بھی حدیثِ پاک کو اس بات پر محمول کریں گے کہ جب حسد کو دشمن کی نعمت کے زوال چاہنے کے فطری میلان کے مقابل رکھا جائے تو دینی اور عقلی اعتبار سے بھی یہ ایک ناپسندیدہ فعل ہی ہے، اور یہی ناپسندیدگی ہی تو انسان کو بغاوت وسرکشی اور ایذا رسانی سے روکتی ہے، نیز ہر حاسد اور اس کے گناہ کی مذمت میں کئی ایک روایات بیان کی جاچکی ہیں، حسد تو حقیقتاً ہوتا ہی دل میں ہے تو پھر کیسے کسی کے لئے یہ جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی برائی بھی چاہے جبکہ اس کا دل اپنے بھائی کی اس مصیبت کو ناپسند بھی کرتا ہو؟
0 Comments: